دو چھوٹے کمروں میں ایک ’انقلاب‘ جاری ہے۔ ایک بڑے سے دروازہ والی پراپرٹی سے منسلک ان دونوں کمروں میں مِل (کارخانہ) کو کنٹرول والی اسمبلی یونٹ لگی ہوئی ہے، جسے کُڈمبا شری کی نو (۹) خواتین چلاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کمرہ کو تین اور دوسرے کمرہ کو چھ عورتیں سنبھال رہی ہیں۔ وہ اپنے مصروف ورک اسٹیشن پر بھاری بھرکم اوزاروں، جوڑنے والے پرزوں اور پیمانہ بندی کے چارٹوں کے ساتھ بیٹھی ہیں۔ یہ فینکس ایکٹیوٹی گروپ ہے، جو کنٹرول اور ٹرِپ والوز کو جوڑنے کا کام کرتا ہے۔

ہم تین خواتین والے کمرہ کے دروازہ کے باہر اپنے جوتے اتارتے ہیں۔ اس انتہائی چھوٹے کمرے میں بہت سارا کام چل رہا ہے۔ ایک طرف جہاں یونٹ کی صدر گریجا ششندرن ہم سے باتیں کر رہی ہیں، وہیں مِنی ایک کنٹرول والو کو نٹ اور بولٹ سے پیٹ کر الگ کر رہی ہیں۔ ورکشاپ کی دوسری میز پر، اجیدا ایک تیار پیس (ٹکڑے) کو آخری شکل دے رہی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میز پر پلاسٹک کی ۵۰ سے زیادہ سرخ ٹرے رکھی ہوئی ہیں، جن میں ہر قسم کے پرزے ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ کی ٹریننگ اور روزانہ کی مشق اس کمرہ کی تمام سرگرمیوں کی کہانی بیان کر رہی ہے۔ یہاں کی عورتیں کسی ماہر کی طرح کام کرتی ہیں اور ویسے ہی باتیں بھی کرتی ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ان کے ذریعے تیار کردہ یہ مال کیسے اور کہاں استعمال کیے جائیں گے، کیوں کہ ٹریننگ کے دوران انہیں اس کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا۔ گریجا ہمیں ایک کتابچہ پکڑاتی ہیں، جس میں ایک بڑی مشین کے ساتھ لگائے گئے ایک والو کی تصویر ہے۔ عورتیں مذاقیہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’انہوں نے ہمیں اس کے بارے میں شاید اس لیے نہیں بتایا، کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ ہم کہیں اپنا یونٹ نہ کھول لیں۔‘‘

اس کام میں تفصیل، ذہانت اور درستگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تین رکنی یونٹ صبح ۹ بجے سے شام کے ۵ بجے تک روزانہ اوسطاً ۱۰ کنٹرول والو تیار کر لیتی ہے۔ انہیں ایک پیس کے ۱۵۰ روپے ملتے ہیں۔ ان کے لیے ایک مہینہ میں ایسے ۵۰ والو تیار کرنا ضروری ہے – جو کہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

PHOTO • Asawari Sodhi
PHOTO • Asawari Sodhi
PHOTO • Asawari Sodhi

فینکس ایکٹیوٹی گروپ، کڈمبا شری کی ایک نایاب شے ہے۔ یہ عام معنوں میں بھی ایک ندرت ہے۔ کڈمباشری میں دیگر چھوٹے کاروباروں یا معاش کے مواقع کے برعکس، فینکس اپنا کام نہ تو علاقے کے دوسرے لوگوں سے کراتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی خدمت مہیا کرتا ہے۔ اپنی ساڑی کے اوپر بطور یونیفارم بھورے رنگ کا واسکٹ (صدری) پہنے یہاں کی عورتیں ان والووں کو جوڑنے اور انہیں حتمی شکل دینے کا کام خود ہی کرتی ہیں۔ وہ کیلیبریشن چارٹ کی مدد سے کام کو آپس میں بانٹتی ہیں اور باری باری سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتی ہیں۔

وہ اپنے کام کی اہمیت کو سمجھتی ہیں: زیادہ تر کمپنیاں اسمبلی (پرزوں کو آپس میں جوڑنے) کے کام کی پیچیدگیوں کو دیکھتے ہوئے زیادہ عمر کے لوگوں پر بھروسہ نہیں کرتیں۔ دوسرے، یہ حیرانی کی بات ہے کہ اس گروپ میں شامل کسی بھی عورت کے پاس کالج کی ڈگری نہیں ہے، جب کہ بازار میں ایسے کام کے لیے مخصوص اور ماہر افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔ گریجا بتاتی ہیں کہ ان کی کمپنی کے منیجنگ ڈائرکٹر جب ایک بار یہاں آئے تھے، تو وہ ان ہائی اسکول گریجویٹس خواتین کو ’بی ٹیک ڈپلومہ ہولڈرز‘ کا کام کرتے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ یہ کام کافی دنوں سے اور نہایت خوش اسلوبی سے کر رہی ہیں۔ بات چیت کے دوران انہوں نے کیلیبریشن چارٹ میں درج معیار سے متعلق یقین دہانی، خرابیوں اور خامیوں جیسی کارروائیوں کے بارے میں بتایا۔ گزشتہ آٹھ مہینوں میں انہوں نے جتنے والو تیار کیے اور مارکیٹ میں بھیجے، ان میں سے صرف آٹھ ہی واپس لوٹ کر آئے۔ یہ ہے ان کا کوالٹی کنٹرول۔

گریجا کا ماننا ہے کہ کمپنی کا حسن اخلاق ہی فینکس ایکٹیوٹی گروپ کی خصوصیات کو ظاہر نہیں کرتا، بلکہ ’’بہتر کارکردگی‘‘ بھی ان کی کامیابی کا ضامن ہے۔ بعض تحقیق سے انہیں پتہ چلا کہ فینکس کی ان عورتوں کو اس کام کے لیے اتنے پیسے نہیں ملتے، جتنے کہ پولی ٹیکنک گریجویٹس کو یہی کام کرنے کے عوض ملتے ہیں۔ یہی چیز فینکس ایکٹیوٹی گروپ کو دوسرے سے الگ بناتی ہے۔ مناسب قیمت، ریگولر سپلائی اور مسلسل کام ایک ساتھ چلتے ہیں، بھلے ہی یہ تھوڑی پریشانی سے کیوں نہ ہو، اور مول تول کی گنجائش بھی بہت کم رہتی ہے۔ لیکن، انہیں ’با اختیار‘ بنانے کا وعدہ ضرور کیا جاتا ہے، جو ان کے لیے ترقی کے بے پناہ مواقع پیدا کرتا ہے۔

PHOTO • Asawari Sodhi
PHOTO • Asawari Sodhi

تصویر کھینچنے کے لیے ہم سامنے کے دالان والے شیڈ میں جمع ہو جاتے ہیں، ہمارے دونوں طرف گروپ کا بینر اور بڑی سی گرین مشینری ہے، جو اس وقت کافی شور مچاتی ہے جب جیا لکشمی اس میں والو لگاتی ہیں۔ وہ آپس میں ہنسی مذاق کر رہی ہیں اور میں ان کی صف سے باہر نکل آتی ہوں، اس انتظار میں کہ وہ کیمرہ کی طرف دیکھیں۔

اس کے علاوہ، فوری مسائل بھی کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں کافی حرکت کرنی پڑتی ہے، جو کہ اس کام کا تقاضا ہے، یہ مسئلہ اس کام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور انہیں اسی حساب سے کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ انڈسٹریل اسیمبلنگ یونٹ کے طور پر ان کی ضروریات دوسرے چھوٹے کاروباروں کی بنسبت کچھ انوکھی ہیں۔ میرے اس دورہ کے دوران، فینکس کو کسی دوسری جگہ کی تلاش تھی، جہاں سے وہ تیار مال کو زیادہ تیزی سے باہر بھیج سکیں۔ مالکان بھی نفع بخش تجارت کو مزید فروغ دینے کے لیے نئے گھر کی تلاش میں تھے۔ یہاں انہیں ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے، اور ۲۵۰۰ روپے کا بجلی بل اور ۳۰۰۰ روپے کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رقم اس پوری یونٹ کی ماہانہ آمدنی کا تقریباً ۱۰ فیصد ہے۔ دیگر تشویشیں، پیشہ سے متعلق خطرات بھی ہیں، جس کا اندازہ جیا لکشمی اور شیجا سجیون کے ذریعے والو کو جوڑتے ہوئے دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ بغیر جڑی ہوئی صورت میں اس کا وزن ۶۰ کلو ہوتا ہے، جب کہ پوری طرح بن کر تیار ہو جانے پر یہ اور وزنی ہو جاتا ہے۔ یہ جیا لکشمی کے لیے تکلیف دہ ہے، کیوں کہ کام کرتے وقت اس کے بوجھ سے ان کا پورا جسم جھک جاتا ہے، جس سے زخمی ہونے کا قوی امکان رہتا ہے، جب کہ یہاں پر کوئی انشورنس کوریج بھی نہیں ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez