رکھمنی شنگٹے گنّے کی کٹائی کرنے والی ایک دبلی پتلی خاتون ہیں، جن کی عمر ۴۰ کی دہائی کے وسط میں ہے۔ وہ گنے کے ڈنٹھلوں سے بنی تنگ دیوار والی جھونپٹری کو اپنا گھر کہتی ہیں۔ وہ اپنے گھر میں دوہری ہوکر داخل ہوتی ہیں۔ نومبر میں اپنے گاؤں سے نکلنے کے بعد یہی ان کی چار رکنی فیملی کا مسکن ہے۔ وسطی مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع میں مُولا شوگر کوآپریٹو کے باہر گنّے کی کٹائی کرنے والوں کی اس کالونی میں دیگر ہزاروں گھروں کی طرح، ان کی جھونپڑی میں بھی کپڑے رکھنے کے لیے ایک ٹوٹا پھوٹا ٹن کا باکس ہے اور گھسے پٹے برتنوں کا ایک ڈھیر ہے۔

پانچ سو کلومیٹر سے بھی زیادہ دور، جنوبی گجرات کے باردولی کوآپریٹو، جو ریاست کے سب سے بڑے اور ابتدائی شوگر کوآپریٹو میں سے ایک ہے، کے باہر ایک ہزار سے زیادہ گنا کٹائی کرنے والوں کی خستہ حال فوج، فیکٹریوں کو گنے کی مسلسل سپلائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ مزدوروں کی یہ فوج چند ہفتوں میں ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

کویٹا کے لغوی معنی ’درانتی‘ کے ہوتے ہیں، لیکن یہاں فیکٹری والے گنا کٹائی کرنے والوں کو کویٹا کہتے ہیں۔ یہ کویٹا مہاراشٹر کے نندربار اور ناسک سے لے کر پونے اور جلگاؤں ضلعوں کے دیہی علاقوں کےغریب لوگ ہوتے ہیں۔

ہر سال جب مانسون واپسی کے سفر پر ہوتا ہے، تو وسطی مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ خطے کے دیہی علاقوں کے غریبوں میں سے تقریباً پانچ لاکھ لوگ سخت حالات میں کام کی تلاش میں سفر پر نکلتے ہیں۔ اس سفر کا اختتام ہندوستان کے سب سے بڑے چینی پیدا کرنے والے علاقے میں ہوتا ہے۔

گنے کے کھیتوں کا یہ عظیم پھیلاؤ جنوبی گجرات کے ہیروں کی صنعت کے شہر سورت سے شروع ہوکر مغربی مہاراشٹر کے خوشحال علاقے سے ہوتا ہوا شمالی کرناٹک کے بیلگام تک چلا جاتا ہے۔ فصل کی کٹائی کا موسم عام طور پر نومبر سے اپریل تک رہتا ہے، لیکن اس سال جیسے اچھے موسموں میں مئی تک جاری رہتا ہے۔ گنا کٹائی کرنے والوں نے اس سال ۸۱ لاکھ ٹن کی کٹائی کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

مزدوروں کی سالانہ مہاجرت چار دہائیوں سے بھی کچھ زیادہ پرانی ہے۔ اس کے راستے طے شدہ ہیں۔ تین ریاستوں کے وسیع خطے میں پھیلے ۲۰۰ سے زیادہ شوگر کوآپریٹو فیکٹریوں کے آجروں اور ان کے بے زمین یا بے روزگار کسانوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لیکن گنے کا منافع بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مہاراشٹر اسٹیٹ شوگر کوآپریٹو فیکٹریز فیڈریشن (ایم ایس ایس سی ایف ایف) کے منیجنگ ڈائریکٹر پرکاش نائک نوَرے کے اندازے کے مطابق اس سال کا منافع ۱۵۰۰۰ کروڑ روپے رہا۔ منافع تو بڑھ رہا ہے لیکن مہاجر مزدوروں کی حالت خستہ کی خستہ ہے۔

مہاراشٹر کی دو تہائی چینی فیکٹریاں ریاست کے چند سرکردہ اور امیر ترین سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہیں، جن میں کانگریس پارٹی کے وزیر اعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ اور حزب اختلاف کے لیڈر، بھارتیہ جنتا پارٹی کے گوپی ناتھ منڈے شامل ہیں۔ کویٹا کا تعلق عموماً مہاراشٹر کی تاریخی طور پر پسماندہ ذاتوں اور قبائلوں سے ہوتا ہے۔  جو تھوڑی بہت ذیلی زمین ان کے پاس ہے وہاں سینچائی کی سہولت بہت کم ہے، جس کی وجہ سے وہ بارش پر مبنی زرعی موسم کے اختتام پر اپنا گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کی منزل پانی سے بھرپور گنے کی فصل کا سرسبز و شاداب علاقہ ہوتا ہے، جہاں باندھوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔

ریکارڈ فصلوں کے موسم اور مسابقتی اقتصادی ترقی کے دور میں مہاراشٹر کی ان ۱۷۲ فیکٹریوں کو کچا مال سپلائی کرنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں کا ایک بڑا فائدہ ہے۔ ’’اتر پردیش جیسی دوسری ریاستوں کے برعکس یہاں کاشت کار گنے کو نہیں کاٹتے ہیں، بلکہ گنا کاٹنے والے مزدور کاٹتے ہیں، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گنا فیکٹری تک پہنچ جائے اور ۲۴ گھنٹوں کے اندر اندر ان کا رس نکال لیا جائے،‘‘ نائکنوارے کہتے ہیں۔ ’’اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مہاراشٹر میں گنے سے چینی حاصل کرنے کی شرح ملک کے دوسرے علاقوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں ۱۰ فیصد کے قومی اوسط کے برعکس ۵ء۱۱ فیصد چینی حاصل ہوتی ہے۔‘‘

PHOTO • Chitrangada Choudhury

حاشیہ پرزندگی

ہر موسم سرما میں جیسے ہی ہجرت شروع ہوتی ہے، فیکٹریوں کے دروازوں کے باہر مہاجر کیمپوں جیسی بڑی بڑی کالونیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ان کالونیوں کے باشندے پانی یا بجلی کی سہولت کے بغیر ہی کام چلاتے ہیں۔ ان حالات میں خواتین اور لڑکیوں کو اضافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں پورے خاندان کے لیے کسی اجتماعی ذریعہ سے پانی حاصل کرنا پڑتا ہے، اور کھلے میں غسل کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

رات کی تاریکی میں صبح ۲  سے ۳ بجے کے درمیان کٹائی کرنے والا میاں بیوی کا جوڑا، اکثر اپنے بڑے بچوں کے ساتھ گنے کے کھیتوں کی طرف روانہ ہوتا ہے اور دوپہر کے آخر تک گنے سے لدی بیل گاڑیوں کی لمبی قطاروں میں شامل ہو کر فیکٹری کے دروزے واپس آتا ہے۔ یہ بیل گاڑیاں گنے کی بلاتعطل سپلائی کر کے فیکٹریوں کو ۲۴/۷ تک چلاتی ہیں۔

دن کے وقت کالونی میں صرف بوڑھے اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔ جلتے ہوئے گوبر کے اُپلوں سے دھواں اٹھتا ہے۔ وہاں چھوٹی عمر کی لڑکیاں، جن میں سے کچھ کی عمر ۱۰ سال سے بھی کم ہے، کھانا پکاتی ہیں۔ گھریلو کام، بشمول صفائی، کھانا پکانا اور مویشیوں کی دیکھ بھال، لڑکیوں کو سونپ دی جاتی ہے۔ آئی سی ڈی ایس (انٹیگریٹڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز) سفر پر رہنے والے دیہی ہندوستانیوں کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتی ہے۔ لہٰذا، ان کالونیوں میں بھی بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

چونکہ یہ کنبے ہجرت کرتے ہیں، اس لیے عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت خوراک جیسے دیگر فلاحی حقوق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ انہیں دوسرے ذرائع سے خوراک حاصل کرنی پڑتی ہے۔ باردولی میں گنے کے رس کے تلچھٹ کی بیمار کرنے والی میٹھی بدبو میں خواتین موٹے اور کم معیار کا جوار پکاتی ہیں جو فیکٹری انہیں مزدوری کے ایک حصہ کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ کچھ کالونیوں میں اناج کی دکانیں ہیں، مثلاً نیواسا فیکٹری کے باہر۔

مہاجر مزدوروں کو صحت عامہ کی کسی سہولت تک رسائی نہیں ہے۔ فیکٹریوں میں زخمیوں یا بخار کے علاج کے لیے ڈاکٹر ہوتے ہیں، لیکن انہیں مزدوروں کی صحت سے زیادہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ وہ زیادہ کام کے لیے صحت مند رہیں۔ یہ کام جسمانی طور پر تھکا دینے والا ہوتا ہے، اور مزدوروں نے بدن درد اور بیماریوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔

اسکول ایک میٹھا خواب ہے

بِیڈ میں دھول سے بھرا خالی گودام فیکٹری کے زیر انتظام چلنے والا ایک ساکھر شالہ (شوگر اسکول) ہے۔ یہ گوپی ناتھ منڈے کے ذریعہ چلائے جانے والے ویجناتھ شوگر کوآپریٹو میں واقع ہے۔ اس میں نہ پانی ہے نہ بیت الخلاء اور نہ میزیں ہیں نہ بینچ ہیں۔ آپ کو یہاں گنا کاٹنے والے مزدوروں کی وسیع کالونی سے کوئی بچہ نہیں ملے گا۔ صرف رجسٹر ہے، جس میں ۲۰۰ سے زیادہ ناموں کا اندراج ہے اور جس میں مکمل حاضری بنی ہوئی ہے۔ جب بی جے پی لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلی منڈے سے ان کی فیکٹری میں خالی اسکول کے بارے میں پوچھا گیا، توانہوں نے کہا: ’’ سَکھر شالائیں شاید نہیں چل رہی ہیں، لیکن کم از کم وہ قائم کر دی گئی ہیں۔ کیا یہ پہلے سے بہت زیادہ بہتری نہیں ہے؟‘‘

باہر کالونی میں بچے بغیر کسی روک ٹوک کے گھوم رہے ہیں۔ شیتل منڈے، جنہیں اسکول میں ہونا چاہیے تھا، ان بچوں میں شامل ہیں۔ وہ دن بھر کے استعمال کے لیے پانی جمع کر رہی ہیں۔ وہ پہلے اسکول جاتی تھیں، لیکن سالانہ ہجرت نے آہستہ آہستہ ان کا اسکول چھڑا دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے چھ ماہ تک اسکول چھوڑا اور پھر فیل ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔‘‘ شیتل گنے کاٹتی ہیں اور ان کے ذمہ کھانا پکانے، صفائی کرنے اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام بھی ہے۔ کالونی کے بہت سے بچوں کی طرح، وہ گنے کے ڈنٹھل کی اوپری حصے کا بنڈل بنا کر فروخت کرتی ہیں۔ یہ کنبے کی آمدنی کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ بنڈل چارے کے طور پر گاؤں والوں کو بیچا جاتا ہے (۲۰ ڈنٹھلوں کے ۱۰۰ بنڈلوں کے لیے ۳۰ روپے ملتے ہیں)۔

مجبوری میں ہجرت کے تعلیم پر پڑنے والے اثرات کو دیکھنے کے لیے شیتل کی کہانی کو ۷ء۱ لاکھ سے ضرب دیں۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریاست کے سرو شکشا ابھیان (ایس ایس اے) کے ذریعہ رواں تعلیمی سال کے لئے گاؤں کے اسکول کے اساتذہ کے ذریعہ کیے گئے سروے میں سامنے آئے ہیں۔ مثال کے طور پر اُپّل کھیڑا میں، نومبر ۲۰۰۶ تک، ۱۰۰ سے زیادہ کنبے سورت کے گنے کے کھیتوں کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک استاد کے ایس راٹھوڑ کہتے ہیں، ’’کلاس روم میں ۶۰-۷۰ فیصد طلباء غیر حاضر ہیں۔‘‘

سرکاری حکام کا دعویٰ ہے کہ وہ چھ ماہ کی سالانہ ہجرت کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایس ایس اے کے ڈائریکٹر نریندر کاوڑے نے کہا، ’’اس سال کھولے گئے گاؤں کے ہاسٹلوں میں آدھے بچوں (یا تقریباً ۷۰۰۰۰) کو روک لیا گیا ہے اور وہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت نہیں کر سکے ہیں۔ ’’باقی سبھی شوگر فیکٹریوں کے ذریعہ چلائے جانے والے سکھر شالوں کے ذریعہ کور کیے جا رہے ہیں۔‘‘

محکمہ تعلیم مہاجر بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری ملوں کو دیتا ہے، اور انہیں سالانہ گرانٹ فراہم کرتا ہے۔ ایس ایس اے کے ڈائریکٹوریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، ۶۴۳ اسکول (ہر شوگر فیکٹری میں چار سے زیادہ) اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ نقل مکانی کرنے والے بچوں کو تعلیم ملتی رہے۔ زمینی سطح پر بہت سی فیکٹریوں میں کوئی اسکول نہیں ہے۔ منڈے کی ویجاناتھ فیکٹری جیسے اسکول نہیں چلتے ہیں۔

ایس ایس اے یا ’سب کے لیے تعلیم‘، مرکزی حکومت کا چھ سالہ فلیگ شپ پروگرام ہے۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ۲۰۰۷ تک تمام بچے اسکولی تعلیم کے پانچ سال مکمل کر لیں۔ لیکن اس کی آدھی مدت گزر جانے کے بعد بھی سفر میں رہنے والے بچوں کے کمزور ترین گروپوں میں سے ایک کے لیے اس کو یقینی نہیں بنایا جا سکا ہے۔ گاؤں کے رہائشی ہاسٹلوں اور فیکٹری کے سکھر شالوں کے باوجود ہزاروں بچے اسکول جانے سے محروم رہتے ہیں۔

لاتور میں کرائے گئے ایک ریاستی سروے میں کہا گیا تھا کہ صرف ۵۵۰ بچے نقل مکانی کر رہے ہیں۔ لیکن لاتور میں ہی واقع ولاس راؤ دیشمکھ کی منجارا کوآپریٹو شوگر فیکٹری میں (جو ضلع کی ۱۰ فیکٹریوں میں سے ایک ہے) دسمبر ۲۰۰۶ میں مقامی اسکول ٹیچر پرشوتم گلڈا نے بھی ایک سروے کیا تھا۔ اس سروے میں اسکول جانے والی عمر کے ۲۰۰ سے زیادہ بچوں کو فیکٹری سے باہر رہتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ گلڈا کہتے ہیں، ’’یہ یقینی بنانا خاص طور پر مشکل ہے کہ والدین لڑکیوں کو اسکول بھیجیں، کیونکہ جب والدین کھیتوں میں کام کرتے ہیں تو انہیں گھر کا کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘

PHOTO • Chitrangada Choudhury

کام کی شرائط انتہائی استحصالی ہیں، جو تمام موجودہ لیبر قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور محنت کشوں کو غربت کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال دیتی ہیں

مجبوری سے منافع خوری

انتہائی مشکل حالات میں رہنے کے علاوہ، کام کی شرائط انتہائی استحصالی ہیں، جو تمام موجودہ لیبر قانون سازی کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور محنت کشوں کو غربت کے کبھی نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال دیتی ہیں۔

فیکٹریاں کٹائی کرنے والے مزدوروں کو جوڑے میں دلالوں یا مُکادموں کے ایک غیر واضح لیکن مؤثر نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کرتی ہیں، جو موسمی پریشانیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مانسون میں چند ہزار روپے کنبے کے گزارے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ رقم کٹائی کے موسم میں مزدوری کے ذریعے واپس کرنی پڑتی ہے۔ پورا کنبہ، خواہ بالغ ہوں یا بچے، پھر کام میں لگ جاتے ہیں۔

رات کی تاریکی میں، کھیتوں میں دن بھر کی کٹائی کے بعد، رکھمنی ہمیں مڑی توڑی پرچیوں (چٹوں) کا ایک انبار دکھاتی ہیں۔ ان میں ان کے کنبے کے پچھلے چند ہفتوں میں کاٹے گئے گنے کا حساب ہے۔ باضابطہ تعلیم کے بغیر، دیگر خواتین کی طرح وہ نہ تو اعداد و شمار پڑھ سکتی ہیں اور نہ ہی اپنے کنبے کو براہ راست کوئی اجرت دلا سکتی ہیں۔ یہ پرچیاں مکادموں کے کمیشن طے کرنے میں فیکٹریوں کی مدد کرتی ہیں۔ ان کا کمیشن ۱۰ سے ۳۰  فیصد تک ہوتا ہے۔

سال ۱۹۹۹ سے ایم ایس ایس سی ایف ایف کے مینیجنگ ڈائریکٹر رہے نائک نورے کو مہاجر مزدوری کی شرائط میں بہت کم خامی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی فیڈریشن کی ۱۷۲ شوگر فیکٹریوں کو تھریشنگ سیزن میں گنے کی بلاتعطل سپلائی کو یقینی بناتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں: ’’۹ لاکھ گنا کاٹنے والے، مزدوروں کی صحیح تعریف میں فٹ نہیں بیٹھے کیونکہ وہ نہ تو میرے (فیکٹری کے) براہ راست ملازم ہیں اور نہ ہی مکادم کے۔ اس لیے وہ باضابطہ طور پر مزدور نہیں ہیں۔

ممبئی یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات نیرج ہاٹیکر نے اس عدم توازن کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’’مراٹھواڑہ کے مہاجر مزدوروں کا کوآپریٹو نظام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ سیاست دانوں کی سربراہی میں فیکٹریاں ان کا کوئی خرچ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعتیں گنے کی بہتر قیمت کے لیے احتجاج کریں گی، لیکن گنا کاٹنے والوں کے لیے بنیادی حقوق کی بات کبھی نہیں کریں گی… وہ حاشیہ پر ہی رہتے ہیں۔‘‘

ڈچ ماہر بشریات جان بریمن نے ۱۹۷۶ میں سورت میں گنا مزدوروں کی حالت کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے تین دہائیوں میں بہت کم تبدیلی دیکھی ہے۔ بریمن کہتے ہیں، ’’ہندوستان کی نئی معیشت میں زیادہ تر مزدوروں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہوتا ہے اور مہاجر مزدوروں کے ساتھ اس سے بھی برا سلوک ہوتا ہے۔ لیبر مارکیٹ کے نچلے حصے میں سپلائی ڈیمانڈ سے بہت زیادہ ہے اور یہ گنے کی کٹائی کرنے والے موسمی مہاجر مزدوروں کو سودے بازی کا موقع نہیں دیتا۔ اس مزدوری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر غیر رسمی ہے۔‘‘

گنا کاٹنے والے مزدوروں کی حالت ہندوستان کے ناقص انتظام والے غیر رسمی شعبے کے بدترین رجحانات کی مثال ہے۔ یہ شعبہ ۳۰۰ ملین سے زیادہ، یا ہندوستان کی ۹۰ فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔ یو پی اے حکومت کے ایجنڈے میں گنا کاٹنے والے غیر منظم مزدوروں کو زیادہ ترجیح دی گئی تھی۔ اس حکومت نے غیر منظم شعبے میں نیشنل کمیشن فار انٹرپرائزز کو نگراں اور مشیر بنایا تھا۔

کمیشن کے ذریعہ تیار کردہ غیر منظم مزدوروں کے سماجی تحفظ کے بل کا مسودہ مئی ۲۰۰۵ سے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دفتر میں پڑا ہے۔ اب کمیشن نے غیر منظم زرعی شعبے کے مزدوروں (کام کی شرائط اور روزی روٹی کو فروغ دینے کا) بل کے عنوان سے ایک اور مجوزہ قانون سازی کا مسودہ پیش کیا ہے۔ اس پر ریاستی حکومتوں اور سول سوسائٹی کی ایجنسیوں کے تاثرات مانگے گئے ہیں۔

نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی (نریگ) پروگرام کا مقصد دیہی کنبوں کو ہر سال مانسون کے بعد ۱۰۰ دن کے کام کی گارنٹی دے کر مجبوری میں ہجرت کو روکنا تھا۔ قانون کہتا ہے کہ ایسے دیہی کاموں میں سے کم از کم نصف کاموں کو خواتین کو دیا جانا چاہیے۔ لیکن کئی گاؤوں میں جہاں سے گنے کاٹنے والے ہجرت کرتے ہیں، یہ پروگرام موجود نہیں ہے۔ اپل کھیڑا گاؤں کے مکان خالی پڑے ہیں۔ وجہ واضح ہے۔ نریگ پروگرام پر سرپنچ کی نگرانی میں عمل ہوتا ہے۔ دیوی داس پوار، شمالی اورنگ آباد کے گاؤں ونجریاس کے سرپنچ ہیں۔ وہ مکادم کا بھی کام کرتے ہیں۔ وہ اور ان سے پہلے ان کے والد چار دہائیوں سے گاؤں والوں کو سورت کی شوگر فیکٹریوں میں بھیج رہے ہیں۔

اس سال فصل اچھی ہوئی ہے، اس لیے منافع زیادہ ہوا ہے۔ مکادم، سیاستداں سبھی اچھی فصل کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تھکے ہارے مزدور زمین کے بنجر ٹکڑوں سے روزی کمانے کے لیے معمولی کمائی کے ساتھ اپنے گاؤں لوٹ آئے ہیں۔ چینی کی تلچھٹ کی بدبو اب بھی تیز ہے۔

اس رپورٹ کا ایک ورژن سب سے پہلے ہندوستان ٹائمز میں اپریل ۲۰۰۷ میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: شفیق عالم

Chitrangada Choudhury
suarukh@gmail.com

Chitrangada Choudhury is an independent journalist, and a member of the core group of the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam