شوبھا ساہنی کو لگا کہ انہیں اپنے بیٹے کی موت کی اصلی وجہ معلوم ہے۔ لیکن کئی مہینوں بعد بھی وہ پورے یقین سے یہ نہیں کہہ سکتیں کہ موت کی اصلی وجہ وہی تھی۔

فروری ماہ کی ایک خاموش دوپہر کو، برہماسری گاؤں میں اپنے ایک کمرے کی دہلیز پر بیٹھی ۳۰ سالہ شوبھا یاد کرتی ہیں کہ کیسے ان کا چھ سال کا بیٹا بیمار پڑا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’اسے بخار تھا، پھر اس نے پیٹ میں درد کی شکایت کی۔‘‘

جولائی ۲۰۲۱ کے آخری دن چل رہے تھے، اور کچھ دنوں پہلے ہی اتر پردیش کے گورکھپور ضلع میں واقع ان کے گاؤں میں بھاری بارش کی وجہ سے سیلاب آیا ہوا تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی سیلاب نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ پانی نکلنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

جب بھی بارش ہوتی ہے، برہماسری میں پانی بھر جاتا ہے اور گاؤں میں چاروں طرف کوڑا کچرا پھینکنے اور کھلے میں رفع حاجت کرنے کی وجہ سے اُس پانی میں انسانی فضلے اور گوبر بھی مل جاتے ہیں، جس سے آلودگی پھیل جاتی ہے۔ شوبھا نے بتایا، ’’پانی میں مرے ہوئے کیڑے مکوڑے، اور مچھر ہوتے ہیں۔ پھر یہ گندا پانی ہمارے گھروں میں گھُس جاتا ہے جہاں ہم کھانا پکاتے ہیں۔ ہمارے بچے بھی اسی پانی میں کھیلتے ہیں، چاہے ہم ان کو کتنا بھی منع کریں۔ مانسون کے موسم میں یہاں کے لوگ کافی بیمار پڑتے ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال ان کے بیٹے کی موت ہو گئی۔ شوبھا نے بتایا، ’’سب سے پہلے ہم نے دو پرائیویٹ اسپتالوں میں اس کا علاج کرانے کی کوشش کی – پہلا اسپتال بڑہل گنج اور دوسرا سیکری گنج میں تھا – لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘

پھر، جب بخار کو تقریباً ایک ہفتے ہو گئے تو شوبھا، آیوش کو بیلگھاٹ کے کمیونٹی ہیلتھ سینٹر (سی ایچ سی) لے کر گئیں، جو کہ وہاں سے صرف ۷ کلومیٹر دور ہے۔ وہاں سے انہیں سب سے قریبی شہر، گورکھپو کے بابا راگھو داس میڈیکل کالج (بی آر ڈی میڈیکل کالج) بھیج دیا گیا، جو کہ برہماسری سے ۵۰ کلومیٹر دور ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

شوبھا، گوکھپور ضلع کے برہماسری گاؤں میں اپنے گھر کے باہر لگا پانی کا ہینڈ پمپ چلا رہی ہیں

بی آر ڈی میڈیکل کالج ریاستی سرکار کے ذریعے چلایا جانے والا میڈیکل کالج اور اسپتال ہے، اور اس علاقے کا واحد تیسرے درجے کا طبی نگہداشت والا مرکز ہے۔ یہاں پر مشرقی اتر پردیش، پڑوسی ریاست بہار اور یہاں تک کہ نیپال سے آئے مریضوں کا بھی علاج ہوتا ہے، اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ۵ کروڑ کی آبادی کو اپنی خدمات مہیا کراتا ہے۔ اسپتال میں اکثر و بیشتر بہت زیادہ بھیڑ ہوتی ہے، اور صحت سے متعلق کارکنان کو ڈیوٹی کے اوقات سے زیادہ دیر تک کام کرنا پڑتا ہے۔

گورکھپور کے اسپتال میں آنے کے بعد آیوش کو دورہ پڑنے لگا (جسے مقامی زبان میں مِرگی کہتے ہیں)۔ شوبھا نے اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتایا، ’’ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ اسے انسیفلائٹس ہے۔‘‘ تقریباً پانچ دنوں کے بعد، یعنی ۴ اگست ۲۰۲۱ کو اس کی موت ہو گئی۔ ’’اس کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میرا بیٹا ایک اچھا بچہ تھا،‘‘ یہ کہتے ہی وہ زار و قطار رونے لگیں۔

گورکھپور ضلع میں انسیفلائٹس ۱۹۷۸ سے ہی قہر برپا کیے ہوئے ہے، جب جاپانی انسیفلائٹس (جے ای) کی یہ بیماری پہلی بار بڑے پیمانے پر پھیلی تھی۔ ان چار دہائیوں کے دوران، ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم (اے ای ایس) کی بیماری بار بار پھیلنے کی وجہ سے اس علاقے میں ہزاروں لوگوں کی جان جا چکی ہے۔

عام طور پر دماغی سوجن یا دماغی بخار کے نام سے مشہور بیماری، اے ای ایس کو ہندوستان میں صحت عامہ کے لیے ایک سنگین مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ ویسے تو مچھر سے پھیلنے والے جاپانی انسیفلائٹس وائرس (جے ای وی) کو اے ای ایس کی بڑی وجہ کہا جاتا ہے، لیکن اس بیماری کی ایٹیولوجی (امراض کے اسباب کا مطالعہ کرنے والا علم) میں وائرس کی متعدد انواع کے علاوہ بیکٹیریا، فنگی اور بغیر انفیکشن والے عناصر بھی شامل ہیں۔

سب سے پہلے تیز بخار، پھر دماغی حالت میں تبدیلی (ذہنی الجھن، بدحواسی، ڈائلیریم یا کوما)، اور دورے پڑنا اس بیماری کی خاص پہچان ہے۔ ویسے تو اے ای ایس سال میں کسی بھی وقت کسی بھی عمر کے آدمی کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر ۱۵ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہوتا ہے اور یہ شدید بیماری، معذوری اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ بیماری سب سے زیادہ مانسون اور مانسون کے بعد والے مہینوں میں پھیلتی ہے۔

اور حفظان صحت، صفائی اور پینے کے صاف پانی کی کمی والے علاقوں میں یہ بیماری بڑی تیزی سے پھیلتی ہے۔

برہماسری میں ان تمام چیزوں کی کمی ہے، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اس کی چپیٹ میں آ جاتا ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

سیلاب سے جمع ہونے والا ملبہ اور کیچڑ برہماسری کو انفیکشن کا شکار بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے یہاں انسیفلائٹس تیزی سے پھیلتا ہے

آیوش کی موت کیا واقعی انسیفلائٹس کی وجہ سے ہوئی تھی، یہ جاننے کے لیے ہم نے شوبھا سے بی آر ڈی میڈیکل کالج کے ذریعے دیا گیا سرٹیفکیٹ مانگا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’وہ تو میرے برادر نسبتی (بہنوئی) کے پاس ہے۔ ان کا نمبر لے لیجئے اور اُن سے وہاٹس نمبر پر بھیجنے کے لیے بولئے۔‘‘

ہم نے ایسا ہی کیا، کچھ منٹوں کے بعد فون پر وہ کاغذ موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ اسے شدید میننجائٹس (دماغی بخار) تھا اور حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس کی موت ہوئی ہے۔ اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے شوبھا نے کہا، ’’لیکن ڈاکٹر نے تو ہمیں بتایا تھا کہ آیوش کا انسیفلائٹس کا علاج ہو رہا تھا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ اور بتائیں اور موت کے سرٹیفکیٹ پر کچھ اور لکھ دیں؟‘‘

*****

بابا راگھو داس میڈیکل کالج اگست ۲۰۱۷ میں اُس وقت اخبار کی سرخیوں میں آیا تھا، جب اسپتال میں پائپ سے ہونی والی آکسیجن کی سپلائی (۱۰ اگست کو) بند ہو جانے کے بعد، دو دنوں کے اندر ہی وہاں پر ۳۰ بچوں کی موت ہو گئی تھی۔ تب، ریاستی حکومت نے اس بات سے صاف انکار کر دیا تھا کہ اس دردناک حادثہ کی وجہ آکسیجن کی کمی ہے۔ اس نے قدرتی اسباب، بشمول انسیفلائٹس کو موت کی وجہ بتایا تھا اور کہا تھا کہ ۷ سے ۹ اگست کے درمیان بھی اتنے ہی بچوں کی موت ہوئی ہے۔

اس اسپتال میں اتنی بڑی تعداد میں ہونے والی موت کوئی خلاف ضابطہ بات نہیں ہے۔

بی آر ڈی میڈیکل کالج میں سال ۲۰۱۲ سے اگست ۲۰۱۷ کے اس حادثہ تک، ۳۰۰۰ سے زیادہ بچوں کی موت ہو چکی تھی۔ یہ بچے اس حادثہ سے پہلے، تین دہائیوں کے دوران مرنے والے اُن ۵۰ ہزار بچوں میں شامل تھے ، جن میں سے زیادہ تر کی موت جے ای یا اے ای ایس کی وجہ سے ہوئی تھی۔ سال ۲۰۱۷ میں ہونے والی موت نے ایک بار پھر اُس مدعے کو گرما دیا، جس سے گورکھپور، اور اس کا مصروف ترین اسپتال (جو اپنے علاقے کے تقریباً سبھی اے ای ایس معاملوں کو سنبھالتا ہے) بچتا آ رہا تھا۔

یہ معاملہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے دردِ سر بن گیا، کیوں کہ گورکھپور انہیں کا علاقہ ہے۔ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے، وہ ۱۹۹۸ سے لگاتار پانچ بار پارلیمنٹ میں گورکھپور کی نمائندگی کرتے چلے آ رہے تھے۔

ریاست کے محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے عہدیداروں کے مطابق، وزیر اعلیٰ نے ۲۰۱۷ کے اس واقعہ کے بعد انسیفلائٹس کو کنٹرول کرنے میں ذاتی دلچسپی دکھائی ہے۔ گورکھپور کے چیف میڈیکل آفیسر (سی ایم او)، ڈاکٹر آشوتوش دوبے نے بتایا، ’’ہم نے مچھروں کی افزائش روکنے کے لیے، جن علاقوں میں بیماری پھیلنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے وہاں پر پوری سرگرمی سے [حشرہ کش کا] چھڑکاؤ کیا ہے۔ اپریل میں ہم نے [جے ای کو روکنے کے لیے] ٹیکہ کاری مہم چلائی ہے۔ پہلے یہ کام جون یا جولائی میں ہوتا تھا، جو کہ تاخیر سے اٹھایا گیا قدم ہوتا تھا کیوں کہ بیماری کے معاملے عموماً مانسون کے دنوں میں سب سے زیادہ بڑھتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

گورکھپور ضلع میں انفیکشن کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کی بنیادی وجہ انسانی فضلے، گوبر اور کوڑے سے زیر زمین پانی کا آلودہ ہونا ہے

گزشتہ کچھ سالوں میں، وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ان کی حکومت نے ریاست کے اندر اے ای ایس پر قابو پا لیا ہے۔ ڈائرکٹریٹ آف نیشنل ویکٹر بورن ڈیزیز کنٹرول پروگرام کے ذریعے شائع کیا گیا ڈیٹا ان دعووں کی حمایت کرتا ہے۔

اتر پردیش میں اے ای ایس اور جے ای کے رپورٹ شدہ معاملوں کی تعداد لگاتار گھٹ رہی ہے۔ سال ۲۰۱۷ میں، اتر پردیش میں اے ای ایس کے ۴۷۴۲ معاملے درج کیے گئے تھے، جن میں سے ۶۹۳ معاملے جے ای کے تھے۔ مرنے والوں کی کل تعداد ۶۵۴ تھی، جس میں سے ۹۳ لوگ جی ای کی وجہ سے مرے تھے۔

سال ۲۰۲۰ میں ریاست کے اندر اے ای ایس کے ۱۶۴۶ معاملے درج کیے گئے، جن میں سے ۸۳ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ سال ۲۰۲۱ میں حالت کچھ بہتر ہوئی، جب درج کیے گئے کل ۱۶۵۷ معاملوں میں سے صرف ۵۸ لوگوں کی موت ہوئی، اور جے ای کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد صرف چار تھی۔

سال ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۱ کے درمیان اے ای ایس اور جے ای سے ہونے والی اموات کی تعداد میں بالترتیب ۹۱ اور ۹۵ فیصد کی کمی آئی۔

حالیہ اسمبلی انتخابات میں ان کی جیت کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ آدتیہ ناتھ نے ۲ اپریل، ۲۰۲۲ کو ایک بیان دیا کہ ان کی حکومت نے ریاست سے ’’ انسیفلائٹس ‘‘ کا خاتمہ کر دیا ہے۔

لیکن، اگر آیوش کے معاملے کو دیکھیں تو، موت کے سرٹیفکیٹ میں درج موت کی وجہوں میں تضادات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صحیح تعداد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

بیلگھاٹ بلاک، جہاں برہماسری واقع ہے، کے سی ایچ سی کے آفیسر انچارج ڈاکٹر سریندر کمار کا کہنا تھا کہ آیوش کی موت انسیفلائٹس سے نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے کہا، ’’آپ جس معاملے کی بات کر رہے ہیں میں اس سے واقف ہوں۔ یہ اے ای ایس سے ہونے والی موت نہیں تھی۔ اگر میرے علاقے سے اے ای ایس کا کوئی مریض میڈیکل کالج میں داخل ہوا ہوتا، تو وہاں کے لوگ مجھے اس کی اطلاع ضرور دیتے۔‘‘

پاری نے جب فروری میں بابا راگھو داس میڈیکل کالج کے پرنسپل، ڈاکٹر گنیش کمار سے ملاقات کی تھی، تو انہوں نے بیلگھاٹ سی ایچ سی کے انچارج کے بالکل برعکس بات کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ’’تکنیکی طور پر، میننجائٹس بھی اے ای ایس کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ اسپتال میں داخل ہونے کے بعد ہی مریض کو اے ای ایس نمبر دیا جاتا ہے۔‘‘

ہم نے انہیں آیوش کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ دکھایا، جس میں لکھا ہے کہ اسے میننجائٹس تھا۔ اپنے میڈیکل کالج کے اسپتال کے ذریعے جاری کیے گئے کاغذ کو دیکھ کر الجھن کے شکار، گنیش کمار نے کہا، ’’یہاں پر کوئی اے ای ایس نمبر نہیں ہے۔ جب کہ یہ نمبر ِضرور ہونا چاہیے تھا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

شوبھا کہتی ہیں، ’ہمارے بچے گندے پانی میں کھیلتے ہیں، چاہے ہم انہیں اس سے روکنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں‘

ڈاکٹر کفیل خان کا کہنا ہے کہ اے ای ایس مریض کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں ہے۔ وہ اسے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اے ای ایس ایک عارضی تشخیص ہے۔ اگر مریض کو ۱۵ دنوں سے کم [کی مدت میں] بخار ہے اور اس کی اندر کوئی تبدیلی [جیسے کہ دورے پڑنا] نظر آتی ہے، تو آپ انہیں اے ای ایس نمبر دے سکتے ہیں۔ آپ کو کوئی ٹیسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگست ۲۰۱۷ کے حادثہ تک ہم اسی طرح کام کیا کرتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر کفیل خان ۱۰ اگست، ۲۰۱۷ کو بی آر میڈیکل کالج اسپتال میں ڈیوٹی پر تھے، جس دن وہاں پر ۲۳ بچوں کی موت ہوئی تھی۔ اس حادثہ کے بعد، ڈیوٹی میں لاپرواہی کا الزام لگاتے ہوئے یو پی حکومت نے انہیں معطل کر دیا تھا۔ اس کے بعد، انہیں طبی غفلت اور دیگر الزامات کی بنیاد پر گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا، جہاں سات مہینے گزارنے کے بعد اپریل ۲۰۱۸ میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

ان کا ماننا ہے کہ ۲۰۱۷ کے واقعہ کے بعد انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجھے میری نوکری دینے سے منع کیا جا رہا ہے کیوں کہ اسپتال ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔‘‘ یوپی حکومت نے نومبر ۲۰۲۱ میں، بی آر ڈی میں امراض اطفال کے لکچرر کے طور پر ان کی خدمات ختم کر دیں۔ انہوں نے حکومت کے اس فیصلہ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

ڈاکٹر خان نے بتایا کہ اپنی مرضی کے مطابق نمبرات دکھانے کے لیے اے ای ایس کے معاملوں کو شدید بخار والی بیماری (اے ایف آئی) کے طور پر درج کیا جا رہا ہے۔ ’’لیکن اے ایف آئی میں دماغ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ صرف تیز بخار ہوتا ہے۔‘‘

ضلع کے سی ایم او آشوتوش دوبے، تعداد کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’اے ایف آئی کے کچھ معاملے اے ای ایس ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے، سب سے معاملوں کی جانچ کی جاتی ہے، اور پھر اسی کے حساب سے ان کی زمرہ بندی ہوتی ہے۔ لیکن اے ایف آئی کے تمام معاملے اے ای ایس نہیں ہوتے۔‘‘

شدید بخار والی بیماری ایکیوٹ انسیفلائٹس سنڈروم میں تبدیل ہو سکتی ہے، اور دونوں ہی بیماریوں میں کچھ نہ کچھ ایٹیولوجی ہے، جس میں اسکرب ٹائیفس نام کے بیکٹیریا کا انفیکشن بھی شامل ہے۔ بہت بعد میں جا کر اس انفیکشن کو گورکھپور کے علاقے میں اے ای ایس کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا – سال ۲۰۱۵ اور ۲۰۱۶ میں کیے گئے مطالعوں سے پتہ چلا کہ اسکرب ٹائیفس ہی اے ای ایس کے ۶۰ فیصد سے زیادہ معاملوں کے لیے ذمہ دار ہے۔

بی آر ڈی میڈیکل کالج نے سال ۲۰۱۹ میں جا کر شدید بخار والی بیماری کو ایک الگ بیماری کے زمرے میں درج کرنا شروع کیا۔ لیکن دوبے اور گنیش کمار میں سے کوئی بھی تعداد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے سامنے نہیں آئے۔

PHOTO • Parth M.N.

شوبھا کو بتایا گیا تھا کہ ان کے بیٹے آیوش کا انسیفلائٹس کا علاج کیا جا رہا ہے، لیکن اس کی موت کے سرٹیفکیٹ پر دوسری بیماریوں کا ذکر ہے

سب سے پہلے تیز بخار، پھر دماغی حالت میں تبدیلی (ذہنی الجھن، بدحواسی، ڈائلیریم یا کوما)، اور دورے پڑنا اے ای ایس کی خاص پہچان ہے۔ ویسے تو یہ بیماری سال میں کسی بھی وقت کسی بھی عمر کے آدمی کو متاثر کر سکتی ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر ۱۵ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہوتا ہے

تاہم، پاری نے اُس سال میڈیکل کالج میں جتنے مریضوں کا علاج کیا گیا تھا ان کی فہرست حاصل کر لی۔ اے ای ایس اور جے ای کی طرح ہی، مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد برسات کے موسم کے آس پاس تھی۔ (ڈینگو، چکن گونیا اور ملیریا جیسی بیماریاں ان انفیکشن میں شامل تھیں جو اے ایف آئی کا سبب بنیں۔) بی آر ڈی میڈیکل کالج میں سال ۲۰۱۹ میں درج کیے گئے اے ایف آئی کے کل ۱۷۱۱ معاملوں میں سے ۲۴۰ معاملے اگست ۲۰۱۹ میں درج کیے گئے تھے، جب کہ ۶۸۳ اور ۴۷۶ معاملے بالترتیب ستمبر اور اکتوبر میں۔ لیکن سال کے پہلے چھ مہینوں میں ایسا ایک بھی مریض اسپتال میں داخل نہیں ہوا تھا۔

اس میں سے کچھ ڈیٹا سب سے پہلے صحافی منوج سنگھ نے ۲۰۱۹ کے آخر میں، اپنی ویب سائٹ ، گورکھپور نیوز لائن پر شائع کیا تھا۔ بی آر ڈی میڈیکل کالج میں انسیفلائٹس کے معاملوں کے بارے میں طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے، منوج سنگھ نے بتایا، ’’اگر اسپتال کچھ چھپا نہیں رہا ہے، تو وہ پہلے کی طرح نمبر جاری کیوں نہیں کر رہے ہیں؟‘‘ انہوں نے سال ۲۰۱۹ کی فہرست میں جے ای کے معاملوں کو اے ایف آئی کے مریضوں میں شامل کرنے کی طرف بھی اشارہ کیا – جن کی تعداد ۱۷۱۱ میں سے ۲۸۸ تھی۔

لیکن، اُس سال پورے یوپی میں جے ای کے صرف ۲۳۵ معاملے ہی درج کیے گئے تھے۔

منوج سنگھ نے بتایا، ’’یہ ممکن ہے کہ [بی آر ڈی میں داخل ہونے والے] ۲۸۸ میں سے کچھ مریضوں کا تعلق یوپی سے نہ رہا ہو، کیوں کہ اس میڈیکل کالج میں مغربی بہار اور نیپال سے بھی مریض آتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر معاملے اسی ریاست [یوپی] سے تھے۔ اسی لیے یہ تعداد شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے۔‘‘

بی آر ڈی میڈیکل کالج کے پرنسپل، گینش کمار نے کہا، ’’بہار اور نیپال سے آنے والے معاملوں کی صحیح تعداد کے بارے میں بتانا تو مشکل ہے،‘‘ لیکن وہ عام طور سے ’’۱۰ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے۔‘‘

یہ اے ای ایس کے معاملوں کی غلط رپورٹنگ اور کم کرکے دکھائی گئی تعداد سے متعلق تشویشوں میں اضافہ کرتا ہے۔

*****

PHOTO • Parth M.N.

شوبھا اپنے سب سے چھوٹے بیٹے، کُنال کے ساتھ۔ انہیں ڈر ہے کہ مانسون کے دنوں میں ان کے بیٹوں کو انسیفلائٹس کا خطرہ رہے گا

اے ای ایس کے معاملہ کا بطور اے ایف آئی علاج کرنے کا بہت برا اثر ہو سکتا ہے۔ کفیل خان نے بتایا، ’’اے ای ایس اور اے ایف آئی کے علاج کے درمیان بنیادی فرق ’منیٹول‘ نامی دوا کا ہے، جو دماغ کی سوجن کو روکتا ہے۔ اس دوا کا استعمال ہوتے ہی، معاملے کو اے ای ایس کے طور پر درج کرنا پڑتا ہے۔ اگر اے ای ایس کے مریض کا علاج اے ایف آئی معاملے کے طور پر ہو رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ منیٹول کا استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ اور اگر آپ اسے استعمال نہیں کر رہے ہیں، تو [اے ای ایس والے] بچے اگر زندہ بچ بھی گئے تو زندگی بھر کے لیے معذور ہو جائیں گے۔‘‘

معاملے کا جب تک اے ای ایس نمبر نہیں مل جاتا، تب تک انسیفلائٹس والے مریض کی فیملی سرکاری معاوضہ کے لیے اپلائی نہیں کر سکتی۔ موت کی حالت میں، وہ فیملی ریاست سے ۵۰ ہزار روپے کے معاوضہ کی حقدار ہے، اور زندہ بچ جانے والے مریض کو ایک لاکھ روپے ملتے ہیں، کیوں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو انسیفلائٹس کی وجہ سے لمبے عرصے تک خراب صحت کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اے ای ایس بنیادی طور پر غریبوں اور پس ماندہ لوگوں کو اپنا شکار بناتی ہے، جنہیں معاوضے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

شوبھا بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔

آیوش کو بی آر ڈی میڈیکل کالج لے جانے سے پہلے، انہوں نے دو پرائیویٹ اسپتالوں میں اس کے علاج پر کل ایک لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ یوپی میں دیگر پس ماندہ طبقہ کے طور پر درج، نشاد کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی شوبھا نے بتایا، ’’ہم نے اپنے رشتہ داروں سے قرض لیے تھے۔‘‘ ان کے شوہر، روی اعظم گڑھ ضلع کے مبارکپور شہر میں کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں، جو کہ ان کے گاؤں سے تقریباً ۷۵ کلومیٹر دور ہے۔ وہ ہر مہینے تقریباً ۴ ہزار روپے کماتے ہیں۔

اگر آیوش کو اے ای ایس نمبر مل گیا ہوتا، تو شوبھا کم از کم اپنے بہنوئی کا قرض لوٹا سکتی تھیں۔ ’’میرے بہنوئی نے اپنی پڑھائی کے لیے ۵۰ ہزار روپے جمع کر رکھے تھے۔ ہمیں اس پیسے کو بھی استعمال کرنا پڑا۔‘‘

فیملی کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے، جس پر وہ اپنے کھانے کے لیے گندم اُگاتے ہیں۔ برہماسری میں اپنے گھر کے باہر لگے پانی کے ہینڈ پمپ کو چلاتے ہوئے شوبھا نے بتایا، ’’ہم سال میں صرف ایک ہی فصل اُگاتے ہیں کیوں کہ مانسون کے دوران ہمارے کھیتوں میں پانی بھر جاتا ہے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

بیلگھاٹ گرام پنچایت میں اپنے گھر کے باہر کرم بیر بیلدار۔ پچھلے سال انسیفلائٹس جیسی علامتوں کی وجہ سے ان کی پانچ سالہ بھتیجی ریا کی موت ہو گئی تھی۔ ’ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر بھلے ہی انسیفلائٹس کے بارے میں کچھ بھی نہ درج ہو، لیکن بچے ہر سال مر رہے ہیں‘

گاؤں سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور، بیلگھاٹ گرام پنچایت میں، ۲۶ سالہ کرم بیر بیلدار یاد کرتے ہیں کہ وہ اپنی بھتیجی کا علاج کرنے کے لیے بی آر ڈی کالج اسپتال کے ڈاکٹروں سے بار بار فریاد کرتے رہے۔ لیکن کسی نے ان کی اس فریاد کا جواب نہیں دیا – اس کی موت کے بعد بھی نہیں۔

ان کی پانچ سالہ بھتیجی، ریا کو اگست ۲۰۲۱ میں بخار ہو گیا تھا، جس کے بعد اسے دورے پڑنے لگے۔ کرم بیر نے بتایا، ’’اس کی علامتیں اے ای ایس سے ملتی جلتی تھیں۔ برسات کا موسم تھا اور ہمارے گھر کے چاروں طرف آلودہ پانی جمع ہو گیا تھا۔ ہم اسے فوراً سی ایچ سی لے گئے، جہاں سے ہمیں بی آر ڈی بھیج دیا گیا۔‘‘

ریا کو اسپتال کے بدنام زمانہ امراض اطفال کے وارڈ میں داخل کر لیا گیا۔ بیلدار نے بتایا، ’’ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے، لیکن ہمیں اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم جب بھی ان سے سوال کرتے تھے، وہ ہمیں وارڈ کے باہر بھگا دیتے تھے۔ ایک اسٹاف ممبر نے تو یہاں تک کہا کہ کیا میں اس کا علاج کرنے جا رہا ہوں۔‘‘

اسپتال میں داخل ہونے کے ایک دن بعد ہی ریا کی موت ہو گئی۔ ان کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں ’سیپٹک شاک کرش فیلور‘ (خون کا دباؤ اور جسم کے اعضاء کو ملنے والی آکسیجن کا بند ہو جانا) کو موت کی وجہ بتایا گیا۔ بیلدار نے کہا، ’’مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ چھپانے کی وجہ کیا ہے؟ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر بھلے ہی انسیفلائٹس کے بارے میں کچھ بھی نہ درج ہو، لیکن بچے ہر سال مر رہے ہیں۔‘‘

اور اسی لیے شوبھا ڈری ہوئی ہیں۔

آیوش تو چلا گیا، لیکن انہیں اب اپنے چھوٹے بیٹوں، راجیو اور کُنال کی فکر ہے، جو بالترتیب ۵ اور ۳ سال کے ہیں۔ حالات جوں کے توں بنے ہوئے ہیں۔ اس سال بھی بارش کے موسم میں ان کا گاؤں پانی میں ڈوب سکتا ہے – تب پانی آلودہ ہو جائے گا، اور انہیں ہینڈ پمپ سے نکالا گیا گندا پانی استعمال کرنا ہوگا۔ جن حالات کی وجہ سے آیوش کی جان چلی گئی، انہیں سے اب اس کے چھوٹے بھائیوں کو خطرہ ہے۔ اور شوبھا اس کے نتائج کے بارے میں دوسروں سے کہیں زیادہ جانتی ہیں۔

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کی جانب سے آزاد صحافت کی گرانٹ کے ذریعے صحت عامہ اور شہری آزادی پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی ادارتی کنٹرول کا استعمال نہیں کیا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Reporter : Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez