سنیل گپتا گھر سے کام نہیں کر سکتے۔ اور ان کا ’آفس‘، یعنی گیٹ وے آف انڈیا، لاک ڈاؤن کے سبب گزشتہ ۱۵ مہینے کی طویل مدت سے لوگوں کے لیے بند ہے۔

’’یہ ہمارے لیے دفتر ہے۔ اب ہم کہاں جائیں؟‘‘ وہ جنوبی ممبئی کی اس تاریخی عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

لاک ڈاؤن سے پہلے، سنیل صبح ۹ بجے سے رات کے ۹ بجے تک اس مقبول سیاحتی مقام پر اپنے کیمرے کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والوں کا انتظار کیا کرتے تھے۔ لوگ جیسے ہی گیٹ وے کی طرف جانے والے چیک پوائنٹ کو پار کرتے تھے، وہ اور وہاں انتظار کر رہے دیگر فوٹوگرافرز فوری طور پر کلک اور پرنٹ کیے گئے البم دکھا کر ان کا خیر مقدم کرتے، اور ان سے کہتے: ’ایک منٹ میں فُل فیملی فوٹو‘ یا ’ایک فوٹو پلیز۔ صرف ۳۰ روپے میں‘۔

ممبئی میں اس سال وسط اپریل میں، کووڈ۔۱۹ کے معاملوں میں تیزی سے اضافہ ہونے کے بعد وہاں نئی پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ اس کی وجہ سے ان فوٹوگرافروں کا کام دوبارہ بہت کم ہو گیا۔ ’’میں یہاں صبح سویرے آیا تو دیکھا کہ یہاں ’نو انٹری‘ (داخلہ ممنوع) کا بورڈ لگا ہوا ہے،‘‘ ۳۹ سالہ سنیل نے اپریل میں مجھے بتایا تھا۔ ’’ہم آمدنی حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی جدوجہد کر رہے تھے اور اب ہم گھاٹے [کی کمائی] میں جا رہے ہیں۔ اب میں مزید نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

Sunil Gupta: 'We were already struggling and now we are going into negative [income]. I don’t have the capacity to bear any further losses'
PHOTO • Aakanksha
Sunil Gupta: 'We were already struggling and now we are going into negative [income]. I don’t have the capacity to bear any further losses'
PHOTO • Aakanksha

سنیل گپتا: ’ہم آمدنی حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی جدوجہد کر رہے تھے اور اب ہم گھاٹے [کی کمائی] میں جا رہے ہیں۔ اب میں مزید نقصان برداشت نہیں کر سکتا‘

پہلے جب کام دستیاب ہوا کرتا تھا تو، اپنے ’آفس‘ کے لیے سنیل اور گیٹ وے کے دوسرے فوٹوگرافر (سبھی مرد) عام طور پر ’فارمل‘ ڈریس پہنتے تھے – اچھی طرح آئرن کی ہوئی شرٹ، کالی پینٹ اور کالے جوتے۔ ان میں سے ہر ایک کے گلے میں کیمرا اور پیٹھ پر ایک بیگ ٹنگا ہوتا تھا۔ کچھ فوٹوگرافر سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے اپنی شرٹ میں الگ الگ رنگ کے چشمے لٹکا لیتے تھے، کیوں کہ سیاح ان چشموں کے ساتھ تصویریں کھنچوانا پسند کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں میں اس تاریخی مقام پر آنے والے سیاحوں کی ہنستی ہوئی تصویروں سے بھرے البم بھی ہوتے تھے۔

’’اب آپ ہمیں [فوٹوگرافروں کو] زیادہ دیکھیں گی اور لوگوں کو کم،‘‘ سنیل کہتے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ میں پہلا لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے، وہ اور یہاں کام کرنے والے دیگر کا اندازہ ہے کہ گیٹ وے پر تقریباً ۳۰۰ فوٹوگرافر کام کرتے تھے۔ اس کے بعد، ان کی تعداد گھٹ کر ۱۰۰ سے بھی کم رہ گئی ہے، ان میں سے کئی نے دوسرا کام تلاش کرنا شروع کر دیا ہے یا اپنے آبائی ضلع اور گاؤوں کی طرف لوٹنے لگے ہیں۔

پچھلے سال، سنیل نے اگست میں دوبارہ کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’’ہم رات دن کھڑے رہتے تھے، یہاں تک کہ بارش میں بھی کسی ایک گاہک کے آنے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ دیوالی کے دوران [نومبر میں] میری جیب میں اپنے بچوں کے لیے بھی مٹھائی کے پیکٹ خریدنے کے پیسے نہیں تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ پھر وہ ’خوش قسمت‘ نکلے، اور تہوار کے دن انہوں نے ۱۳۰ روپے کمائے۔ اس دوران انفرادی عطیہ دہندگان سے کبھی کبھی مالی مدد ملنے لگی اور کچھ تنظیموں نے فوٹوگرافروں کو راشن تقسیم کیے۔

سنیل نے تصویریں کھینچنے کا کام ۲۰۰۸ میں شروع کیا تھا، لیکن ان کی کمائی ہمیشہ کم ہوتی چلی گئی: پہلے وہ ایک دن میں ۴۰۰ روپے سے ۱۰۰۰ روپے تک کما لیتے تھے (یا، بڑے تہواروں کے دوران تقریباً ۱۰ تصویریں کھنچوانے والوں سے ۱۵۰۰ روپے بھی کما لیتے تھے)، لیکن جب سے اِن بلٹ کیمرے کے ساتھ اسمارٹ فون آنے لگے، ان کی کمائی گھٹ کر ۲۰۰ سے ۶۰۰ روپے یومیہ رہ گئی۔

اور پچھلے سال لاک ڈاؤن کے بعد سے، یہ کمائی مزید گھٹ کر ۶۰ روپے سے ۱۰۰ روپے یومیہ رہ گئی ہے۔

It's become harder and harder to convince potential customers, though some agree to be clicked and want to pose – and the photographer earns Rs. 30 per print
PHOTO • Aakanksha
It's become harder and harder to convince potential customers, though some agree to be clicked and want to pose – and the photographer earns Rs. 30 per print
PHOTO • Aakanksha

متوقع گاہکوں کو تصویر کھنچوانے کے لیے راضی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، حالانکہ کچھ لوگ پوز دینے اور تصویر کھنچوانے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں – اور فوٹوگرافروں کی فی پرنٹ ۳۰ روپے کمائی ہوتی ہے

’’کوئی بونی [دن کی پہلی فروخت اور کمائی] نہ ہونا اب ہماری روز کی قسمت ہو گئی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے ہمارا دھندا کافی کم ہو گیا ہے۔ لیکن ایسا [بغیر آمدنی والے دن] اکثر نہیں ہوتا تھا جیسا کہ اب ہے،‘‘ سنیل کہتے ہیں، جو اپنے خاتون خانہ اور کبھی کبھی ٹیلرنگ ٹیچر کے طور پر کام کرنے والی بیوی، سندھو اور بچوں کے ساتھ جنوبی ممبئی کے کف پریڈ علاقے میں رہتے ہیں۔

سنیل ۱۹۹۱ میں اتر پردیش کے فرسرا خورد گاؤں سے اپنے ماما کے ساتھ اس شہر میں آئے تھے۔ فیملی کا تعلق کَنڈو برادری (او بی سی) سے ہے۔ ان کے والد مئو ضلع میں، اپنے گاؤں میں ہلدی، گرم مسالا اور دیگر مسالے فروخت کرتے تھے۔ ’’اپنے ماما کے ساتھ میں نے گیٹ وے پر بھیل پوری فروخت کرنے کا ایک ٹھیلہ لگانا شروع کیا۔ اس کے علاوہ ہم کبھی کبھی دوسرا سامان بھی فروخت کرتے تھے – جیسے پاپکارن، آئس کریم، لیموں پانی۔ ہم نے یہاں کچھ فوٹوگرافروں کو کام کرتے ہوئے دیکھا اور میری دلچسپی بھی اس لائن میں بڑھنے لگی،‘‘ سنیل بتاتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اپنی بچت، دوستوں اور گھر والوں سے قرض لیے گئے پیسے سے ۲۰۰۸ میں قریب کے بورا بازار سے ایک سیکنڈ ہینڈ ایس ایل آر کیمرا اور پرنٹر خریدا۔ (سال ۲۰۱۹ کے آخر میں، انہوں نے زیادہ مہنگا کیمرا Nikon D7200 خریدا، جس کے لیے انہوں نے دوبارہ قرض لیے؛ وہ اب بھی اس قرض کے پیسے لوٹا رہے ہیں)۔

سنیل نے پہلا کیمرا خریدتے وقت اس بڑھتے ہوئے کاروبار پر بھروسہ کیا تھا کیوں کہ تصویریں پورٹیبل پرنٹرز کے ذریعے گاہکوں کو فوراً دی جا سکتی تھیں۔ لیکن اس کے بعد اسمارٹ فون آسانی سے دستیاب ہونے لگے – اور ان کے ذریعے فوٹو کھنچوانے کی مانگ تیزی سے گھٹنے لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ایک دہائی میں کوئی نیا آدمی اس پیشہ میں شامل نہیں ہوا ہے۔ یہ فوٹوگرافروں کا آخری بیچ ہے۔

'Now no one looks at us, it’s as if we don’t exist', says Gangaram Choudhary. Left: Sheltering from the harsh sun, along with a fellow photographer, under a monument plaque during a long work day some months ago – while visitors at the Gateway click photos on their smartphones
PHOTO • Aakanksha
'Now no one looks at us, it’s as if we don’t exist', says Gangaram Choudhary. Left: Sheltering from the harsh sun, along with a fellow photographer, under a monument plaque during a long work day some months ago – while visitors at the Gateway click photos on their smartphones
PHOTO • Aakanksha

’اب کوئی بھی ہماری طرف نہیں دیکھتا، گویا ہمارا کوئی وجود ہی نہ ہو‘، گنگا رام چودھری کہتے ہیں۔ بائیں: وہ چند مہینے قبل کام کے لمبے دن کے دوران تپتی دھوپ سے بچنے کے لیے، ایک ساتھی فوٹوگرافر کے ہمراہ عمارت کی ایک تختی کے نیچے بیٹھے ہوئے ہیں – جب کہ گیٹ وے پر آنے والے لوگ اپنے اسمارٹ فون سے تصویریں کھینچنے میں مصروف ہیں

اسمارٹ فون کا مقابلہ کرنے کے لیے اب، کچھ فوٹوگرافر پورٹیبل پرنٹر کے علاوہ یو ایس بی ڈیوائس بھی ساتھ لیکر چلتے ہیں تاکہ وہ اپنے کیمرے سے تصویروں کو فوراً گاہک کے فون میں منتقل کر سکیں – اور اس سروس کے لیے وہ ان سے ۱۵ روپے لیتے ہیں۔ کچھ گاہک دونوں کا انتخاب کرتے ہیں – یعنی سافٹ کاپی کے ساتھ ساتھ فوری ہارڈ کاپی بھی (فی پرنٹ ۳۰ روپے میں)۔

سنیل کے کام شروع کرنے سے پہلے، گیٹ وے کے فوٹوگرافروں کی نسل پولارائڈ کیمرے استعمال کرتی تھی، لیکن ان کا کہنا ہے انہیں پرنٹ کرنا اور ان کا رکھ رکھاؤ مہنگا پڑتا تھا۔ پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمرے کا استعمال کرنے کے بعد، وہ گاہکوں کو یہ تصویریں ڈاک کے ذریعے بھیج سکتے تھے۔

کئی دہائیوں قبل کچھ دنوں کے لیے پولارائڈ کا استعمال کرنے والے گیٹ وے کے فوٹوگرافروں میں سے ایک گنگا رام چودھری بھی تھے۔ ’’ایک زمانہ تھا جب لوگ ہمارے پاس آتے اور ہم سے اپنی تصویر کھنچنے کے لیے کہتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ ’’اب کوئی بھی ہماری طرف نہیں دیکھتا، گویا ہمارا کوئی وجود ہی نہ ہو۔‘‘

گنگا رام نوعمر تھے، جب انہوں نے گیٹ وے پر کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ بہار کے مدھوبنی ضلع کے ڈُمری گاؤں سے ممبئی آئے تھے۔ ان کا تعلق ’کیوَٹ‘ برادری (دیگر پس ماندہ طبقہ – او بی سی) سے ہے۔ پہلے وہ کولکاتا گئے، جہاں ان کے والد رکشہ چلاتے تھے۔ وہاں انہوں نے ۵۰ روپے ماہانہ پر ایک باورچی کی نوکری کی۔ ایک سال بعد ان کے مالک نے اپنے رشتہ دار کے یہاں کام کرنے کے لیے انہیں ممبئی بھیج دیا۔

Tools of the trade: The photographers lug around 6-7 kilos – camera, printer, albums, packets of paper; some hang colourful sunglasses on their shirts to attract tourists who like to get their photos clicked wearing stylish shades
PHOTO • Aakanksha
Tools of the trade: The photographers lug around 6-7 kilos – camera, printer, albums, packets of paper; some hang colourful sunglasses on their shirts to attract tourists who like to get their photos clicked wearing stylish shades
PHOTO • Aakanksha

ایک فوٹوگرافر کے پاس ۶-۷ کلو کا سامان ہوتا ہے: کیمرا، پرنٹر، البم، کاغذ کے پیکٹ۔ کچھ اپنے ساتھ رنگین چشمے رکھتے ہیں، تاکہ جنہیں اسٹائلش شیڈ میں تصویریں کھنچوانی ہوں، وہ ان کے پاس آئیں

گنگا رام، جن کی عمر اب ۵۰ سال سے کچھ زیادہ ہے، اپنے ایک دور کے رشتہ دار سے ملے، جو گیٹ وے پر فوٹوگرافر تھے۔ ’’میں نے سوچا، کیوں نہ میں بھی اس کام میں ہاتھ آزما کے دیکھوں؟‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اُس وقت (۸۰ کی دہائی میں) گیٹ وے پر صرف ۱۰ سے ۱۵ فوٹوگرافر کام کرتے تھے۔ کچھ پرانے فوٹوگرافر اپنا پولارائڈ یا پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمرا کمیشن کے ساتھ نئے لوگوں کو اُدھار پر دیتے تھے۔ گنگا رام کو کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے پاس فوٹو البم رکھیں اور گاہک ڈھونڈ کر لائیں۔ کچھ عرصے بعد، انہیں کیمرا دے دیا گیا۔ تب ہر تصویر پر ۲۰ روپے ملتے تھے، جس میں سے ۲-۳ روپے انہیں دیے جاتے تھے۔ وہ اور دیگر کچھ لوگ رات میں کولابا میں ہی فٹ پاتھ پر سوتے تھے اور دن بھر تصویر کھنچوانے والے گاہکوں کو تلاش کرتے تھے۔

گنگا رام ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’اُس عمر میں آپ پیسوں کے لیے ادھر ادھر گھومنا پسند کرتے ہیں۔ شروعات میں میرے ذریعے کھینچی گئی تصویریں کچھ ٹیڑھی ہو جاتی تھیں، لیکن دھیرے دھیرے آپ کام سیکھ جاتے ہیں۔‘‘

ہر ریل کافی مہنگی ہوتی تھی۔ ایک ریل میں ۳۶ تصویریں آتی تھیں، جس کی قیمت ۳۵-۴۰ روپے ہوتی تھی۔ ’’ہم ایسے ہی کئی تصویریں نہیں کھینچ سکتے تھے۔ ہر تصویر کے ساتھ بہت احتیاط برتنی پڑتی تھی، آج کی طرح آپ کئی (ڈجیٹل) تصویریں نہیں لے سکتے تھے،‘‘ گنگا رام بتاتے ہیں۔ فلیش لائٹ کے بغیر وہ شام ہونے کے بعد تصویریں نہیں کھینچ سکتے تھے۔

۱۹۸۰ کی دہائی میں قریب کی کسی دکان یا فوٹو اسٹوڈیو میں ایک تصویر کو پرنٹ کرانے میں پورا ایک دن لگتا تھا۔ ہر ریل کو ڈیولپ کرانے میں ۱۵ روپے لگتے تھے، یعنی ہر ۴ بائی ۵ انچ کی رنگین تصویر کو پرنٹ کرانے میں ڈیڑھ روپے۔

To try and compete with smartphones, some photographers carry a USB devise to transfer the photos from their camera to the customer’s phone
PHOTO • Aakanksha
To try and compete with smartphones, some photographers carry a USB devise to transfer the photos from their camera to the customer’s phone
PHOTO • Aakanksha

اب فوٹوگرافر اسمارٹ فون کے مقابلے اپنے ساتھ یو ایس بی ڈیوائس رکھنے لگے ہیں، تاکہ وہ اپنے کیمرے سے لی گئی تصویریں گاہک کے فون میں فوراً منتقل کر سکیں

’’اب ہم اپنے ساتھ یہ سارا سامان صرف اس لیے لیکر چلتے ہیں، تاکہ کسی طرح اپنا گزارہ کر سکیں،‘‘ گنگا رام کہتے ہیں۔ ایک فوٹوگرافر کے پاس ۶-۷ کلو کا سامان ہوتا ہے: کیمرا، پرنٹر، البم، کاغذ (۱۱۹ روپے کا ایک پیکٹ ہوتا ہے، جس میں ۵۰ بنڈل پیپر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ روشنائی کی قیمت الگ سے ادا کرنی ہوتی ہے)۔ ’’ہم سارا دن لوگوں کو تصویریں کھنچوانے کے لیے راضی کرتے ہیں، میرے کندھے میں درد ہونے لگتا ہے،‘‘ گنگا رام بتاتے ہیں۔ وہ اپنی بیوی (خاتون خانہ) اور تین بچوں کے ساتھ نریمن پوائنٹ کی ایک جھگی جھونپڑی کالونی میں رہتے ہیں۔

اپنے ابتدائی کچھ سالوں میں، ممبئی گھومنے آئے لوگ اپنے ساتھ فوٹوگرافروں کی تصویریں کھنچواتے تھے۔ گاہکوں کو یہ تصویر ڈاک یا کوریئر کے ذریعے بھیجی جاتی تھی۔ اگر کھینچی گئی تصویریں صاف نہیں ہوتی تھیں، تو فوٹوگرافر معافی مانگتے ہوئے اس کی قیمت واپس کر دیتے تھے۔

گنگا رام کہتے ہیں، ’’یہ سب باہمی اعتماد پر چلتا تھا، اور وہ ایک اچھا وقت تھا۔ تمام ریاستوں سے لوگ آتے تھے اور وہ ان تصویروں کو کافی اہمیت دیتے تھے۔ ان کے لیے یہ سب ایک ایسا یادگار لحمہ ہوتا تھا جسے وہ گھر لوٹ کر اپنے عزیزوں کو دکھانا چاہتے تھے۔ وہ ہم پر اور ہماری مہارت پر بھروسہ کرتے تھے۔ ہماری خاصیت یہ تھی کہ ہم ایسی تصویریں کھینچتے تھے کہ جیسے آپ گیٹ وے یا تاج ہوٹل کو ہاتھوں سے پکڑ رہے ہیں۔‘‘

حالانکہ، کام کے اُن سب سے بہتر دنوں میں بھی کچھ مسائل لگاتار رہتے تھے۔ کبھی کبھی انہیں کسی ناراض گاہک کی شکایت پر کولابا پولیس اسٹیشن جانا پڑتا تھا یا کچھ لوگ غصے میں گیٹ وے پر دوبارہ آتے تھے کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے اور انہیں تصویریں نہیں ملی ہیں۔ ’’آہستہ آہستہ ہم ثبوت کے طور پر اپنے پاس ایک رجسٹر رکھنے لگے، جس میں نزدیکی پوسٹ آفس کی مہر لگی ہوتی تھی،‘‘ گنگا رام بتاتے ہیں۔

اور کبھی کبھی لوگوں کے پاس پرنٹ کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ تب فوٹوگرافر کو یہ خطرہ مول لینا پڑتا تھا کہ گاہک ڈاک سے پیسے بھیج دیں گے۔

'Our speciality was clicking photos in such a way that in the image it looks like you are touching [the top of] Gateway or the Taj Hotel'
PHOTO • Aakanksha
'Our speciality was clicking photos in such a way that in the image it looks like you are touching [the top of] Gateway or the Taj Hotel'
PHOTO • Sunil Gupta

’ہماری خاصیت یہ تھی کہ ہم ایسی تصویریں کھینچتے تھے کہ جیسے آپ گیٹ وے یا تاج ہوٹل کو ہاتھوں سے پکڑ رہے ہیں‘

گنگا رام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۲۶ نومبر، ۲۰۰۸ کو ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد، کچھ وقت کے لیے ان کا کام بند ہو گیا تھا، لیکن آہستہ آہستہ پھر سے مانگ بڑھنے لگی۔ ’’لوگ ہمارے پاس صرف اس لیے آتے تھے، تاکہ وہ اپنی تصویریں تاج ہوٹل (گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے) اور اوبرائے ہوٹل کے ساتھ کھنچوا سکیں (ان دونوں مقامات پر حملے ہوئے تھے)۔ ان عمارتوں کے پاس اب اپنی ایک کہانی تھی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

برسوں سے لوگوں کو ان کہانیوں کے ساتھ درج کرنے والے ایک بیج ناتھ چودھری بھی ہیں، جو گیٹ وے سے ایک کلومیٹر دور، نریمن پوائنٹ پر اوبرائے (ٹرائیڈنٹ) ہوٹل کے باہر فٹ پاتھ پر کام کرتے ہیں۔ ۵۷ سالہ بیج ناتھ گزشتہ چار دہائیوں سے فوٹوگرافی کا کام کر رہے ہیں، جب کہ ان کے کئی ساتھی فوٹوگرافر دوسرے کام کرنے لگے۔

وہ بہار کے مدھوبنی ضلع کے ڈُمری گاؤں سے اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ ۱۵ سال کی عمر میں ممبئی آئے تھے۔ ان کے رشتہ دار کولابا کے فٹ پاتھ پر دوربین فروخت کیا کرتے تھے، جب کہ ان کے والدین جو زرعی مزدور تھے، گاؤں میں ہی رہ گئے۔

بیج ناتھ، جو گنگا رام کے دور کے رشتہ دار ہیں، نے بھی پولارائڈ کیمرے کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا، بعد میں انہوں نے پوائنٹ اینڈ شوٹ کیمرا لے لیا۔ وہ اور نریمن پوائنٹ کے دیگر فوٹوگرافر اُن دنوں رات کے وقت اپنے کیمرے تاج ہوٹل کے پاس ایک دکاندار کے یہاں چھوڑ دیتے تھے اور قریب کے ہی کسی فٹ پاتھ پر سو جاتے تھے۔

Baijnath Choudhary, who works at Narmian Point and Marine Drive, says: 'Today I see anyone and everyone doing photography. But I have sharpened my skills over years standing here every single day clicking photos'
PHOTO • Aakanksha
Baijnath Choudhary, who works at Narmian Point and Marine Drive, says: 'Today I see anyone and everyone doing photography. But I have sharpened my skills over years standing here every single day clicking photos'
PHOTO • Aakanksha

بیج ناتھ چودھری، جو نریمن پوائنٹ اور مرین ڈرائیو پر کام کرتے ہیں، بتاتے ہیں، ’آج کل ہر کوئی فوٹوگرافی کر رہا ہے۔ لیکن میں نے یہ کام برسوں سے یہاں دن بھر کھڑے ہوکر فوٹو کھینچتے ہوئے سیکھا ہے‘

ابتدائی کچھ برسوں میں تقریباً ۶-۸ گاہکوں کے ہر روز مل جانے پر، روزانہ ۱۰۰ سے ۲۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ کمائی بڑھ کر ۳۰۰ سے ۹۰۰ روپے ہو گئی، لیکن اسمارٹ فون آنے کے بعد گھٹ کر دن بھر میں ۱۰۰ سے ۳۰۰ روپے تک محدود ہو گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے، ان کی دن بھر کی کمائی صرف ۱۰۰ روپے یا ۳۰ روپے تک رہ گئی ہے۔ کبھی کبھی دن بھر میں کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔

سال ۲۰۰۹ تک وہ شمالی ممبئی کے سانتا کروز کے پب میں ایک فوٹوگرافر کے طور پر کام کرتے تھے، جہاں انہیں ہر تصویر کے لیے ۵۰ روپے ملتے تھے۔ ’’صبح سے رات کے ۹-۱۰ بجے تک میں یہاں (نریمن پوائنٹ) کام کرتا تھا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں کلب چلا جاتا تھا،‘‘ بیج ناتھ بتاتے ہیں۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے، ۳۱ سالہ وجے بھی گیٹ وے پر بطور فوٹوگرافر کام کرتے ہیں۔

بیج ناتھ اور دیگر فوٹوگرافر کہتے ہیں کہ انہیں کام کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ۲۰۱۴ کے بعد سے ہمیں ممبئی پورٹ ٹرسٹ اور مہاراشٹر سیاحتی ترقیاتی کارپوریشن جیسے اداروں سے شناختی کارڈ لینے پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں ایک ڈریس کوڈ اور کچھ ضابطوں پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ اس میں، تاریخی عمارتوں کے ارد گرد کسی انجانے سامان یا بیگ کو لیکر ہوشیار رہنا اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کو روکنا اور ان کی رپورٹ درج کرانا شامل ہے۔ (رپورٹر ان معلومات کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکی ہیں۔)

اس سے پہلے، کبھی کبھی میونسپل کارپوریشن یا پولیس ان پر جرمانہ لگا دیتی تھی اور انہیں کام کرنے سے روک دیتی تھی۔ بیج ناتھ اور گنگا رام بتاتے ہیں کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام فوٹوگرافروں نے مل کر ۱۹۹۰ کی دہائی میں ایک ویلفیئر ایسوسی ایشن بنایا تھا۔ ’’ہم اپنے کام کی پہچان چاہتے تھے اور اپنے حقوق کے لیے ہم نے لڑائی لڑی،‘‘ بیج ناتھ بتاتے ہیں۔ سال ۲۰۰۱ میں تقریباً ۶۰-۷۰ فوٹوگرافروں نے آزاد میدان میں اپنے مطالبات کے ساتھ احتجاجی مظاہرہ کیا تھا، جس میں بغیر کسی رکاوٹ کے کام کرنے کی اجازت، زیادہ وقت تک کام کرنے اور دیگر حقوق دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بیج ناتھ بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۰۰ میں کچھ لوگوں نے گیٹ وے آف انڈیا فوٹوگرافرز یونین بنایا اور اپنے مطالبات کے ساتھ وہ علاقہ کے ایم ایل اے سے ملنے گئے۔ ان سب کی وجہ سے انہیں کچھ راحت ملی اور انہیں اب میونسپل کارپوریشن اور پولیس کی مداخلت کے بغیر کام کرنے کی چھوٹ ملی ہے۔

A few photographers have started working again from mid-June – they are still not allowed inside the monument complex, and stand outside soliciting customers
PHOTO • Aakanksha
A few photographers have started working again from mid-June – they are still not allowed inside the monument complex, and stand outside soliciting customers
PHOTO • Aakanksha

کچھ فوٹوگرافر وسط جون سے دوبارہ کام کرنے لگے ہیں، انہیں ابھی تک احاطہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی ہے اور وہ اس کے باہر کھڑے ہوکر ہی گاہک تلاش کرتے ہیں

بیج ناتھ اپنے کام کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہیں، جب ان کے کام کو اہمیت دی جاتی تھی۔ ’’آج کل ہر کوئی فوٹوگرافی کر رہا ہے۔ لیکن، میں نے یہ کام برسوں سے یہاں دن بھر کھڑے ہوکر تصویریں کھینچتے ہوئے سیکھا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم صرف ایک بار میں جو تصویر کھینچتے ہیں اس کے لیے نوجوان کئی بار تصویریں لیتے ہیں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک تصویر ٹھیک ہو۔ اور اس کے بعد وہ اسے (ایڈٹنگ کے ذریعے) خوبصورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ دریں اثنا، کچھ لوگوں کو گزرتا ہوا دیکھ کر، فٹ پاتھ سے اٹھ کر ان کے پاس جاتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کو تصویروں کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ ان میں سے ایک اپنی جیب سے فون نکال کر سیلفی کھینچنے لگتا ہے۔

وسط جون سے، سنیل اور دیگر فوٹوگرافر اپنے کام کے لیے دوبارہ ’آفس‘ یعنی گیٹ وے آف انڈیا آنے لگے ہیں، لیکن ابھی بھی انہیں احاطہ کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے وہ گیٹ وے اور تاج ہوٹل کے باہر کھڑے ہوکر گاہکوں کا انتظار کرتے ہیں۔ سنیل کہتے ہیں، ’’بارش کے وقت آپ کو ہمیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں اپنے کیمرے، پرنٹر، پیپر شیٹ کو بچانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ، ہم اپنے ساتھ ایک چھاتا رکھتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ توازن بناتے ہوئے، ہم ایک صحیح تصویر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

حالانکہ، ان کی آمدنی کا توازن مسلسل بگڑتا جا رہا ہے: اسمارٹ فون سے سیلفی لینے کے رواج اور لاک ڈاؤن کے بعد سے، بہت کم لوگ ان کی ’ایک منٹ میں فل فیملی فوٹو‘ کی پکار کو سنتے ہیں۔

اپنے بیگ میں سنیل ایک رسید بُک رکھتے ہیں، جس میں ان کے بچوں کی فیس کی ادائیگی کی تفصیل درج ہے (ان کے تینوں بچے کولابا کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے ہیں)۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اسکول سے (بچوں کی فیس کے لیے) کچھ مہلت دینے کے لیے کہہ رہا ہوں۔‘‘ سنیل نے اپنے لیے ایک چھوٹا سا اسمارٹ فون خریدا ہے، تاکہ ان کے بچے آن لائن پڑھائی کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہماری زندگی تو ختم ہو گئی، لیکن کم از کم انہیں میری طرح دھوپ میں اس طرح مشقت نہیں کرنی چاہیے۔ انہیں ایک اے سی والے آفس میں کام کرنا چاہیے۔ ہر روز میں کسی کی یادوں کو سنبھالنے کا کام کرتا ہوں، تاکہ اس کے بدلے میں اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha
aakanksha@ruralindiaonline.org

Aakanksha (she uses only her first name) is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Aakanksha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez