لکشیما دیوی کو تاریخ تو یاد نہیں ہے، لیکن انہیں وہ سرد سیاہ رات پوری طرح یاد ہے۔ ’’گیہوں کی فصل ٹخنے تک پہنچ چکی تھی،‘‘ اور اچانک ان کے حمل کی تھیلی پھوٹی اور دردِ زہ شروع ہو گیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’دسمبر یا جنوری [۲۰۱۸/۱۹] کا مہینہ رہا ہوگا۔‘‘

ان کی فیملی نے انہیں بڑا گاؤں بلاک کے ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) لے جانے کے لیے ٹیمپو بُک کیا تھا۔ اتر پردیش کے وارانسی ضلع میں واقع ان کے گاؤں اشوری سے پی ایچ سی تقریباً چھ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ ۳۰ سالہ لکشیما یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جب ہم پی ایچ سی پہنچے، تب میں شدید درد میں مبتلا تھی۔‘‘ ان کے تین بچے – رینو، راجو اور ریشم، جو اب ۵ سے ۱۱ سال کی عمر کے ہیں – گھر پر تھے۔ ’’اسپتال کے اسٹاف نے مجھے داخل کرنے سے منع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں حاملہ نہیں ہوں، اور میرے پیٹ پر جو گانٹھ ہے وہ ایک بیماری کی وجہ سے ہے۔‘‘

لکشیما کی ساس ہیرامنی نے اسٹاف سے اسے بھرتی کرنے کے لیے کہا، لیکن پی ایچ سی اسٹاف نے منع کر دیا۔ آخر میں، ہیرامنی نے ان سے کہا کہ وہ لکشیما کو وہیں بچے کو جنم دینے میں مدد کریں گی۔ لکشیما کہتی ہیں، ’’میرے شوہر مجھے دوسری جگہ داخل کرانے کے لیے آٹو تلاش کر رہے تھے۔ لیکن تب تک میں کہیں جانے کی حالت میں نہیں رہ گئی تھی۔ میں پی ایچ سی کے ٹھیک باہر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔‘‘

ہیرامنی، جن کی عمر ۶۰ سال کے قریب ہے، لکشیما کے پاس بیٹھ گئیں، اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں گہری سانس لینے کے لیے کہا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد، آدھی رات کے وقت ان کے بچے کی پیدائش ہوئی۔ لکشیما یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ گھنی اندھیری رات تھی اور کڑاکے کی ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

Lakshima with her infant son Amar, and daughters Resham (in red) and Renu. She remembers the pain of losing a child three years ago, when the staff of a primary health centre refused to admit her
PHOTO • Parth M.N.

لکشیما اپنے نوزائیدہ بچے امر، اور بیٹیوں ریشم (سرخ رنگ میں) اور رینو کے ساتھ۔ ان کے ذہن پر تین سال پہلے اپنے بچے کو کھونے کے زخم آج بھی تازہ ہیں، جب ایک ابتدائی طبی مرکز کے ملازمین نے انہیں داخل کرنے سے منع کر دیا تھا

بچے کی جان چلی گئی تھی۔ جو بھی ہوا تھا، لکشیما اب اسے پھر سے یاد نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس کے بعد پی ایچ سی اسٹاف نے مجھے داخل کر لیا، اور اگلے دن چھٹی دے دی۔‘‘ یاد کرتے ہوئے کہ اس رات وہ کتنی کمزور اور تھکی ہوئی تھیں، وہ کہتی ہیں، ’’اگر انہوں نے ضرورت کے وقت توجہ دی ہوتی، تو میرا بچہ زندہ ہوتا۔‘‘

لکشیما موسہر برادری سے ہیں۔ اتر پردیش میں سب سے زیادہ حاشیہ پر دھکیلے گئے اور سب سے غریب دلت برادریوں میں سے ایک، موسہروں کو بڑے پیمانے پر سماجی بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہم جیسے لوگ اسپتالوں میں جاتے ہیں، تو ہمارے ساتھ کبھی اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا ہے۔‘‘

اس رات انہیں جس طرح کا علاج ملا یا علاج کی جو کمی انہوں نے جھیلی، وہ ان کے لیے نئی بات نہیں تھی، اور نہ ہی وہ اکیلی تھیں جن کے ساتھ ایسا ہوا ہو۔

اَشوَری سے دو کلومیٹر دور واقع دلّی پور کی ایک موسہر بستی میں ۳۶ سالہ نرملا بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کس طرح کا بھید بھاؤ کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہم اسپتال جاتے ہیں، تو وہ ہمیں داخل کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ وہاں کے ملازمین بلا وجہ پیسے مانگتے ہیں۔ وہ ہمیں اسپتال کے اندر آنے سے روکنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم اندر جاتے ہیں، تو ہمیں فرش پر بیٹھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ دوسروں کو وہ کرسیاں دیتے ہیں اور ان سے عزت سے بات کرتے ہیں۔‘‘

وارانسی واقع پیپلز وجیلنس کمیٹی آن ہیومن رائٹس سے جڑے، ۴۲ سالہ سماجی کارکن منگلا راج بھر کہتے ہیں، اسی لیے موسہر خواتین اسپتال نہیں جانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں انہیں اسپتال جانے کے لیے راضی کرنا ہوگا۔ ان میں سے زیادہ اپنے بچوں کو گھر پر ہی جنم دینا پسند کرتی ہیں۔‘‘

Mangla Rajbhar, an activist in Baragaon block, has been trying to convince Musahar women to seek medical help in hospitals
PHOTO • Parth M.N.

بڑا گاؤں بلاک کے سماجی کارکن منگلا راج بھر، موسہر خواتین کو اسپتالوں میں طبی امداد حاصل کرنے کے لیے منانے کی کوشش کر رہے ہیں

این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق، یوپی میں درج فہرست ذات کی تقریباً ۸۱ فیصد عورتیں اسپتال میں ہی اپنے بچوں کو جنم دینا پسند کرتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار پوری ریاست کے اعداد و شمار سے ۲ اعشاریہ ۴ فیصد کم ہے۔ یہ شاید نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات کا ایک سبب ہے، جو درج فہرست ذاتوں میں سب سے زیادہ ہے

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔۵ کے مطابق، یوپی میں درج فہرست ذات کی تقریباً ۸۱ فیصد عورتیں اسپتال میں ہی اپنے بچوں کو جنم دینا پسند کرتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار پوری ریاست کے اعداد و شمار سے ۲ اعشاریہ ۴ فیصد کم ہے۔ یہ شاید نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات (پیدائش کے بعد ۲۸ دنوں کے اندر ہونے والی اموات) کا ایک سبب ہے، جو پوری ریاست (۳۵ اعشاریہ ۷ فیصد) کے مقابلے درج فہرست ذاتوں میں زیادہ (۴۱ اعشاریہ ۶ فیصد) ہے۔

جنوری ۲۰۲۲ میں راج بھر کے ذریعے کیے گئے ایک سروے میں، بڑا گاؤں بلاک کی سات موسہر بستیوں میں، حال ہی میں پیدا ہوئے ۶۴ بچوں میں سے ۳۵ کی پیدائش گھر پر ہی ہوئی ہے۔

سال ۲۰۲۰ میں جب انہوں نے اپنے بیٹے کرن کو جنم دیا، تو انہوں نے اسپتال کی بجائے گھر پر جنم دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نہیں بھولی کہ پچھلی بار کیا ہوا تھا۔ وہاں [پی ایچ سی] واپس جانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اس لیے، میں نے ایک آشا کارکن کو ۵۰۰ روپے دیے اور گھر بلایا۔ وہ گھر پر آئیں اور بچے کی ڈیلیوری کروائی۔ وہ بھی دلت برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔‘‘

ان کی طرح، ریاست کے تمام لوگوں کو اسپتال میں یا طبی ملازمین کے ذریعے بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نومبر ۲۰۲۱ میں، آکس فیم انڈیا کے ذریعے مریضوں کے حقوق سے متعلق کیے گئے سروے میں سامنے آیا کہ سروے کا جواب دینے والے اتر پردیش کے ۴۷۲ لوگوں میں سے ۵۲ اعشاریہ ۴۴ فیصد لوگوں نے خراب اقتصادی حالت کے سبب ہوئے بھید بھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ تقریباً ۱۴ اعشاریہ ۳۴ فیصد نے اپنے مذہب کے سبب اور ۱۸ اعشاریہ ۶۸ فیصد نے ذات کی بنیاد پر تفریق کا سامنا کیا۔

بدگمانی کے دور رس نتائج ہوتے ہیں؛ خاص کر اُس ریاست میں طبی خدمات یقینی بنانے میں جہاں ۲۰ اعشاریہ ۷ فیصد لوگ درج فہرست ذات کے ہیں اور ۱۹ اعشاریہ ۳ فیصد مسلمان (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب یوپی میں کووڈ۔۱۹ پھیل رہا تھا، تو کئی لوگوں نے کورونا وائرس کی جانچ نہیں کرائی۔ سال ۲۰۲۱ میں وبائی مرض کی دوسری لہر کو یاد کرتے ہوئے نرملا کہتی ہیں، ’’پچھلے سال گاؤں میں ہم میں سے کئی لوگ بیمار پڑ گئے تھے، لیکن ہم گھر پر ہی رہے۔ جب پہلے ہی وائرس کا ڈر کھائے جا رہا ہو، اوپر سے بے عزتی کون برداشت کرنا چاہے گا۔‘‘

Salimun at home in Amdhha Charanpur village. She says she has faced humiliating experiences while visiting health facilities
PHOTO • Parth M.N.

امدہا چرن پور گاؤں میں اپنے گھر پر سلیمن۔ وہ کہتی ہیں کہ اسپتال جانے پر انہیں بے عزتی اور بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے

لیکن چندولی ضلع کے امدہا چرن پور گاؤں کی ۵۵ سالہ سلیمن، مارچ ۲۰۲۱ میں بیمار پڑنے پر گھر پر نہیں رہ سکیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے ٹائیفائڈ ہو گیا تھا۔ لیکن جب میں [پیتھولوجی] لیب گئی، تو وہاں موجود ملازم سوئی گھسا کر خون نکالتے وقت خود کو مجھ سے جتنا دور ہو سکے اتنا دور رہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھوں کو دور سے کھینچ رہا تھا۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں نے تمہارے جیسے بہتوں کو پہلے بھی دیکھا ہے۔‘‘

سلیمن لیب اسسٹنٹ کے برتاؤ سے واقف تھیں۔ وہ مارچ ۲۰۲۰ میں پیش آئے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ تبلیغی جماعت کے واقعہ کے سبب ہوا، کیوں کہ میں ایک مسلم ہوں۔‘‘ اس وقت، اس مذہبی گروپ کے ممبران، اجتماع کے لیے دہلی کے نظام الدین مرکز میں اکٹھا ہوئے تھے۔ بعد میں، ان میں سے ۱۰۰ سے زیادہ کو کووڈ۔۱۹ پازیٹو پایا گیا اور پوری عمارت کو ہاٹ اسپاٹ قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد نفرت پھیلانے کی ایک مہم چلائی گئی، جس میں وائرس پھیلانے کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس کی وجہ سے یوپی اور ملک بھر میں مسلمانوں کو بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا۔

۴۳ سالہ سماجی کارکن، نیتو سنگھ کہتی ہیں کہ اس قسم کے جانبدارانہ برتاؤ کو روکنے کے لیے، وہ اپنی زیر نگرانی آنے والے طبی مراکز کا دورہ کرتی ہیں۔ وہ آگے بتاتی ہیں، ’’تاکہ ملازمین کو پتہ چلے کہ میں آس پاس ہوں اور وہ مریضوں کے ساتھ ان کے طبقہ، ذات یا مذہب کی پرواہ کیے بغیر اچھا برتاؤ کریں، ورنہ مریضوں کے ساتھ بھید بھاؤ ہونے لگتا ہے۔‘‘ نیتو ایک این جی او ’سہیوگ‘ سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ نوگڑھ بلاک میں عورتوں کی صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی ہیں، اور وہیں امدہا چرن پور گاؤں میں رہتی ہیں۔

سلیمن نے ایسے کئی اور تجربات کے بارے میں بتایا۔ ان کی ۲۲ سالہ بہو، شمس النساء کو فروری ۲۰۲۱ میں بچے کی پیدائش کے دوران پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سلیمن کہتی ہیں، ’’خون کا بہنا رک نہیں رہا تھا۔ وہ کمزور ہو گئی تھی۔ اس لیے، پی ایچ سی کی اسٹاف نرس نے ہمیں نوگڑھ قصبہ کے عوامی طبی مرکز (کمیونٹی ہیلتھ سینٹر، سی ایچ سی) جانے کے لیے کہا۔‘‘

نوگڑھ سی ایچ سی میں، شمس النساء کی جانچ کر رہی ایک معاون نرس نے ان کے ایک ٹانکے کو کھول دیا۔ شمس النساء کہتی ہیں، ’’میں درد سے چیخنے لگی۔ اس نے مجھے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا، لیکن میری ساس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے روک دیا۔‘‘

سی ایچ سی اسٹاف نے ان کا علاج کرنے سے انکار کر دیا اور فیملی کو دوسرا اسپتال تلاش کرنے کے لیے کہا۔ سلیمن کہتی ہیں، ’’ہم نوگڑھ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں گئے، جہاں ہمیں وارانسی جانے کے لیے کہا گیا۔ میں اس کے لیے فکرمند ہو رہی تھی۔ اس کا خون بہتا رہا اور ہم ڈیلیوری کے بعد پورے دن اس کا علاج نہیں کرا سکے۔‘‘

Neetu Singh, an activist in Naugarh block, says that discrimination is rampant in hospitals
PHOTO • Parth M.N.

نوگڑھ بلاک کی سماجی کارکن نیتو سنگھ کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں بھید بھاؤ ہوتا ہے

فیملی نے ایک دن میں دال اور سبزی، دونوں کو ایک ساتھ پکانا بند کر دیا ہے۔ سلیمن کہتی ہیں، ’چاول اور روٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ ایک دن میں ہم اس میں سے کوئی ایک چیز پکاتے ہیں۔ یہاں سب کا یہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو صرف گزارہ کرنے کے لیے بھی پیسے قرض لینے پڑے ہیں‘

آخرکار، نوگڑھ کے ایک دوسرے پرائیویٹ اسپتال میں انہیں اگلے دن داخل کرایا گیا۔ سلیمن کہتی ہیں، ’’وہاں کا کچھ اسٹاف مسلم برادری سے بھی تعلق رکھتا تھا۔ انہوں نے ہمیں بھروسہ دلایا اور ڈاکٹروں نے اگلے کچھ دنوں تک اس کا علاج کیا۔‘‘

ایک ہفتہ بعد شمس النساء کو اسپتال سے چھٹی ملی۔ ان کے علاج پر تقریباً ۳۵ ہزار روپے خرچ ہوئے۔ سلیمن کہتی ہیں، ’’ہم نے ۱۶ ہزار روپے میں اپنی کچھ بکریاں فروخت کر دیں۔ اگر ہم نے انہیں بیچنے میں جلد بازی نہیں کی ہوتی، تو ہمیں ان بکریوں کے کم از کم ۳۰ ہزار روپے ملتے۔ میرے بیٹے فاروق کے پاس بچت کے کچھ پیسے تھے، جس سے بقیہ خرچ پورا کیا گیا۔‘‘

شمس النساء کے شوہر، ۲۵ سالہ فاروق، پنجاب میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہی کام ان کے تینوں چھوٹے بھائی بھی کرتے ہیں۔ وہ بڑی مشکل سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر پاتے ہیں اور کچھ پیسے گھر بھیجتے ہیں۔ شمس النساء بتاتی ہیں، ’’وہ [فاروق] غفران [بچہ] کے ساتھ زیادہ وقت بھی نہیں گزار سکے۔ لیکن ہم کیا کریں؟ یہاں کوئی کام نہیں ہے۔‘‘

سلیمن کہتی ہیں، ’’میرے بیٹوں کو پیسے کمانے کے لیے مہاجرت کرنی پڑی۔‘‘ نوگڑھ میں، جہاں ٹماٹر اور مرچ کی کھیتی کی جاتی ہے، فاروق اور ان کے بھائیوں جیسے بے زمین مزدوروں کو ایک دن کے کام کے لیے صرف ۱۰۰ روپے ملتے ہیں۔ سلیمن آگے کہتی ہیں، ’’اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں ہفتہ میں دو بار، آدھا کلو ٹماٹر یا مرچ بھی دے دیتے ہیں۔‘‘ حالانکہ، پنجاب میں فاروق کو ایک دن کے ۴۰۰ روپے ملتے ہیں، لیکن وہاں ایک ہفتہ میں صرف ۴-۳ دن ہی کام ملتا ہے۔‘‘ ہم کووڈ۔۱۹ وبائی مرض آنے کے بعد بہت مشکل سے گزارہ کر پا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کھانے تک کی کمی تھی۔‘‘

فیملی نے ایک دن میں دال اور سبزی، دونوں کو ایک ساتھ پکانا بند کر دیا ہے۔ سلیمن کہتی ہیں، ’’چاول اور روٹی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ ایک دن میں ہم اس میں سے کوئی ایک چیز پکاتے ہیں۔ یہاں سب کا یہی حال ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو صرف گزارہ کرنے کے لیے بھی پیسے قرض لینے پڑے ہیں۔‘‘

Salimun with Gufran, her grandson
PHOTO • Parth M.N.
Shamsunisa cooking in the house. She says her husband, Farooq, could not spend much time with the baby
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: سلیمن اپنے پوتے غفران کے ساتھ۔ دائیں: شمس النساء گھر میں کھانا بنا رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر فاروق، بچے کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکے

یوپی کے نو ضلعوں کے تمام گاؤوں میں، وبائی مرض کے ابتدائی تین مہینوں (اپریل سے جون ۲۰۲۰) میں لوگوں کے قرض میں ۸۳ فیصد کا اضافہ ہوا۔ زمینی سطح کی تنظیموں کے ایک گروپ، ’کلیکٹ‘ کے ذریعے کیے گئے ایک سروے کے ذریعے یہ ڈیٹا جمع کیا گیا تھا۔ یہ پایا گیا کہ جولائی سے ستمبر اور اکتوبر سے دسمبر ۲۰۲۰ میں، قرض لینے والے لوگوں میں بالترتیب ۸۷ اور ۸۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

ایسے خراب حالات کے سبب، لکشیما کو دسمبر ۲۰۲۱ کے آخری ہفتہ میں، اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے صرف ۱۵ دنوں بعد ہی اینٹ بھٹے پر کام کرنے جانا پڑا۔ اپنے نوزائیدہ بچے کو گود میں جھلاتی ہوئی وہ کہتی ہیں، ’’مجھے امید ہے کہ ہمارا مالک ہماری حالت کو دیکھ کر ہمیں کھانے کے لیے کچھ زیادہ پیسے دے گا۔‘‘ وہ اور ان کے ۳۲ سالہ شوہر، سنجے کو ایک دن کے کام کے لیے ۳۵۰ روپے ملتے ہیں۔ وہ دونوں گاؤں سے تقریباً چھ کلومیٹر دور واقع دیوچند پور میں اینٹ بھٹے پر کام کرنے جاتے ہیں۔

اس بار کے حمل کے دوران، منگلا راج بھر نے لکشیما کو بچے کو گھر پر نہ جنم دینے کی صلاح دی تھی۔ راج بھر کہتے ہیں، ’’اسے منانا آسان نہیں تھا۔ میں اس کے لیے اسے قصوروار نہیں ٹھہراتا۔ لیکن آخرکار وہ مان گئی۔‘‘

اس بار لکشیما اور ہیرا منی پوری طرح سے تیار تھیں۔ لکشیما کو داخل کرنے سے منع کرنے والے ملازم کو انہوں نے راج بھر کو فون کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ملازم نے پھر ہار مان لی۔ لکشیما نے اسی پی ایچ سی میں اپنے بچے کو جنم دیا، جہاں سے کچھ ہی دوری پر انہوں نے تین سال پہلے اپنے بچے کو کھو دیا تھا۔ اور آخر میں، چند میٹروں کی اس دوری نے ہی تبدیلی کا راستہ کھولا۔

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ملے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے ذریعے، صحت عامہ اور شہری آزادی کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے متن پر اداریہ سے متعلق کوئی کنٹرول نہیں رکھا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez