سورج کی روشنی جب پہاڑ پر قدم رکھتی ہے، یہ عورتیں اس کی آہٹ سے بھی پہلے نیند سے باہر آ جاتی ہیں۔ یہ دن بھر کام کرتی رہتی ہیں، کوئی نہ کوئی کام؛ اپنے گھروں میں، کھیتوں میں، اپنے بچوں اور شوہروں کے لیے، ان کا منہ دیکھتے، ان کے سایے میں پلتے مویشیوں کے لیے۔ وہ یہ سارا کام ہمالیہ کی چوٹیوں پر موجود رہتے ہوئے کرتی ہیں، پہاڑی پر اوپر دور تک چلتے ہوئے جاتی ہیں، انہی پتھریلی راہوں سے واپس لوٹتی ہیں، اور اپنی پیٹھ پر پیداوار اور چارے کا بھاری بوجھ لیے واپس لوٹتی ہیں۔ یہ ہماچل پردیش کی پہاڑی عورتیں ہیں۔ آئیے، ہم آپ کو ان سے ملوانے لے چلتے ہیں۔

دیوالی سے ٹھیک دو دن پہلے سبھدرا ٹھاکر (نیچے کی تصویر میں دائیں طرف) اپنے گھر کی رنگائی پتائی کا کام کر رہی ہیں۔ گھر کی دیواریں نیلی ہیں، اور وہ ہاتھوں میں ربڑ کے دستانے پہنے ہوئے سفید رنگ کو نیلی دیواروں پر لگاتی ہیں۔ کچن کاؤنٹر بالکل ترتیب سے لگا ہوا ہے۔ کھانے بنانے کا کام کر لیا گیا ہے۔ تقریباً ساڑھے ۱۱ بجے کچھ پلوں کے آرام کی تلاش میں وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں؛ ان کے پوتے پوتیاں، جو ان کے پاس آئے ہوئے ہیں، دھوپ میں کھیل رہے ہیں۔ بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کی خوشی ان کے چہرے پر خوشبو کی طرح پھیلتی ہے، اور جیسے وہ مگن ہو جاتی ہیں یہ دیکھنے بھر سے۔ گرمی کے دنوں میں، ان کا پورا دن اپنے کھیتوں میں گزرتا ہے۔ لیکن، اب ٹھنڈ کی آہٹ آنے لگی ہے۔ ٹھنڈ ان کے لیے تھوڑا آرام لے کر آتی ہے۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan
PHOTO • Aparna Karthikeyan

پیتانگلی گاؤں میں واقع اپنے گھر سے مشوبرا (ہماچل پردیش) میں پہاڑ کی ڈھلان پر واقع اپنے کھیتوں تک جانے کے لیے، سبھدرا اور ان کی بہو ارمل بیحد پتلی اور پتھریلی راہ سے ہوکر گزرتی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کی دوری طے کرنے کے بعد یہ راستہ پہاڑ کے کنارے سے مل جاتا ہے، وادی کے ارد گرد سے گزرنے لگتا ہے، جنگلوں کے درمیان سے نکلتا ہوا لگاتار چڑھائی کی طرف جاتا نظر آتا ہے۔

عورتیں علی الصبح ہی کھیتوں کے لیے نکل جاتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ ہلکا پھلکا کچھ کھانے کے لیے اور ایک مضبوط ٹوکری لے کر جاتی ہیں، تاکہ دن بھر کے حاصل کو ان میں رکھ کر شام کو لوٹتے ہوئے گھر لایا جا سکے۔ ایک لمبے اور تھکا دینے والے دن کے بعد وہ دسیوں کلو سامان ٹوکری میں رکھ کر پیٹھ پر یا سر پر اٹھائے گھر کی طرف لوٹتی ہیں۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan
PHOTO • Aparna Karthikeyan

تقریباً سبھی پہاڑی کنبے مویشی پالتے ہیں۔ پہلے وہ پہاڑی نسل کے مویشی ہی پالتے تھے، جو کہ عام تھا ان دنوں میں۔ یہ پالتو رکن سائز میں چھوٹے اور چست درست ہوا کرتے تھے اور پہاڑ پر رہتے ہوئے یہاں کے حساب سے ڈھل چکے تھے۔ لیکن، پھر غیر ملکی نسل کے مویشیوں کی طرف رجحان بڑھنے لگا اور اب کم و بیش یہی ہر کہیں ملتے ہیں۔ جرسی گایوں کو چارہ زیادہ کھلانا پڑتا ہے، لیکن وہ دودھ بھی پہاڑی گائے کے مقابلے کہیں زیادہ دیتی ہیں۔ گایوں کے رہنے کی جگہ کی صفائی، دودھ نکالنا، اور چارہ اکٹھا کرنا؛ یہ کام بھی یہاں عورتوں کے حصے میں ہوتا ہے۔

ہماچل پردیش کی پہاڑیاں اتنی خوبصورت ہیں کہ یہ خوبصورتی انسان کے اندر خلل پیدا کرتی ہے۔ ان پہاڑیوں پر چڑھائی کرنا بھی اتنا ہی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ لیکن یہاں کی مقامی عورتوں کو چلتے ہوئے دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں اس چڑھائی میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی ہے۔ چمکتے رنگوں کی شلوار قمیض پہنے اور بالوں میں اسکارف باندھے چڑھائی کی سہولت کے لیے تھوڑا جھک کر چلتے ہوئے یہ پہاڑیوں کو قدموں سے چل کر لانگھتی رہتی ہیں، بے انتہا شجاعت سے کام کرتی ہیں۔ گھاس کی کٹائی کرنا، ان کا گٹھر بنانا اور ٹھنڈ کے لیے چارہ جمع کرنا وغیرہ کام وہ بڑی محنت سے کرتی ہیں۔ پھر گھاس آنگن کی دھوپ میں سکھائی جاتی ہے، کھلی جگہ میں تقریباً ۱۰ فٹ اونچا ڈھیر بنا کر اکٹھا کی جاتی ہے۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan
PHOTO • Aparna Karthikeyan
PHOTO • Aparna Karthikeyan
PHOTO • Aparna Karthikeyan

کھیتوں سے پیداوار حاصل ہوتی ہے، اس کے سہارے بھی یہاں کے کنبوں کا پیٹ بھرتا ہے۔ باجرا، راجما اور مکئی دھوپ میں سکھائے جاتے ہیں۔ ان سے آٹا بھی بنایا جاتا ہے۔ ٹھنڈ کے مہینوں میں کھیتوں میں بند گوبھی اور پھول گوبھی کی پیداوار کھیتوں کو جیسے اور سرسبز کر دیتی ہے۔ سیب کا سیزن بھی تب ختم ہو جاتا ہے، ناشپاتی کا آخری پھل بھی زمین پر گرتا ہے اور دھیرے دھیرے برباد ہو جاتا ہے۔

موسم بہار میں سبھدرا کے شوہر پہاڑی بیلوں کی مدد سے پہاڑی کے کناروں پر واقع سیڑھی دار کھیتوں کی جتائی کرتے ہیں۔ (ان کے بیٹے کو اسپانڈی لائٹس ہے، جو اب سیاحوں کو کیب کی سہولت مہیا کراتے ہوئے اپنی روزی روٹی کماتا ہے۔)

دو فصلوں کے موسم کے پورا ہونے کے بعد، سبھدرا کی طرح زمین کی ملکیت رکھنے والے کنبوں کی ضرورت بھر آمدنی ہو جاتی ہے۔ اسی دوران وہ ٹھنڈ کے مہینوں میں کھانے پینے کا بھی انتظام کر لیتے ہیں۔ یہ سب اس سے پہلے ہی کر لیا جاتا ہے، جب برف پڑنے لگتی ہے اور زمین پر ہفتوں کے لیے اپنی موجودگی درج کیے رہتی ہے۔ پہاڑوں پر برف کسی بن بلائے مہمان کی طرح آتی ہے، جس کا جانا میزبان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ اس لیے، عورتیں جب بھی ممکن ہوتا ہے وہ سب اکٹھا کرتی رہتی ہیں، جس کی ضرورت انہیں پڑ سکتی ہے، مثلاً چولہے کے لیے لکڑی۔ چیڑ کے پھل جنگل کی راہوں سے جمع کیے جاتے ہیں، اور جسم کو گرمی ملتی رہے اس لیے انہیں جلایا جاتا ہے۔

ٹھنڈ کے مہینے میں زیادہ تر کام وہی ہوتے ہیں جو گھروں کے اندر کیے جا سکتے ہیں۔ عورتیں بُنائی کا کام کرتی ہیں، ساتھ ہی صاف صفائی اور بچوں کی دیکھ بھال کا کام بھی۔ آرام کی چڑیا ایسے وقت میں ہی ان کے پاس بیٹھتی ہے، تھوڑی دیر کے لیے۔ عام دنوں میں جو ٹوکری اپنی پیٹھ پر خود سے زیادہ سنبھال کر اٹھائے وہ پہاڑ کے راستوں پر قدم رکھتی ہیں، وہ ٹوکری ٹھنڈ کے مہینے میں زیادہ تر زمین کی گود میں ہی پڑی رہتی ہے۔

PHOTO • Aparna Karthikeyan

مترجم: محمد قمر تبریز

Aparna Karthikeyan
aparna.m.karthikeyan@gmail.com

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez