۴۵ سالہ وجے بائی گانگرڈے نے بتایا، ’’ہم نے یہاں آنے کے لیے سیٹھ (زمینداروں) سے ایک ہزار روپے اُدھار لیے۔ اس کے بدلے، ہم ان کے کھیتوں میں ۵-۴ دن کے لیے کام کریں گے۔‘‘ وہ ۲۳ جنوری کی دوپہر کو نیلے اور نارنجی رنگ میں پینٹ کیے ہوئے ٹیمپو میں ناسک پہنچیں۔ وہ ممبئی جا رہے مارچ میں شامل ہونے کے لیے، شہر کے گولف کلب میدان میں سب سے پہلے پہنچنے والے لوگوں میں سے ایک تھیں۔

وجے بائی کی ۴۱ سالہ بہن تارا بائی جادھو بھی ان کے ساتھ ناسک ضلع کے دنڈوری تعلقہ کے موہاڈی گاؤں سے سفر کر رہی تھیں۔ وہ دونوں وہاں ۲۵۰-۲۰۰ روپے کی دہاڑی پر مزدوری کرتی ہیں۔

دونوں بہنیں ناسک سے ۱۸۰ کلومیٹر دور ممبئی کے آزاد میدان میں نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے چل رہے مارچ میں حصہ لینے آئی ہیں۔ یہاں خاص طور سے مہاراشٹر کے ناندیڑ، نندربار، ناسک، اور پالگھر ضلعوں سے تقریباً ۱۵۰۰۰ کسان جمع ہوئے ہیں۔ تارا بائی نے کہا، ’’ہم اپنی روزی روٹی کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔‘‘

دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کی حمایت میں سنیکت شیتکری کامگار مورچہ نے ۲۶-۲۵ جنوری کو جنوبی ممبئی میں گورنر کی رہائش گاہ راج بھون پر دھرنے اور مارچ کا انعقاد کیا ہے۔ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کی قیادت میں مہاراشٹر کے ۲۱ ضلعوں سے کسان ان احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے کے لیے ممبئی میں اکٹھا ہوئے ہیں۔

PHOTO • Shraddha Agarwal

سب سے اوپر بائیں: ناسک میں وجے بائی گانگرڈے (بائیں) اور تارا بائی جادھو۔ سب سے اوپر دائیں: مکند کونگل (ٹوپی پہنے ہوئے) اور جانی بائی دھنگرے (پیچھے کی طرف نیلی ساڑی میں) اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ نیچے: ناسک اور آس پاس کے ضلعوں کے گاؤوں کے تقریباً ۱۵۰۰۰ کسان ممبئی جانے کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں

گزشتہ دو مہینوں سے بنیادی طور پر پنجاب اور ہریانہ کے لاکھوں کسان دہلی کی الگ الگ سرحدوں پر واقع پانچ جگہوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جسے مرکزی حکومت نے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں جاری کیا، پھر انہیں ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا اور اسی مہینہ کی ۲۰ تاریخ کی قانون کے طور پر پاس کر دیا تھا۔

یہ قوانین ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

وجے بائی اور تارا بائی، جن کا تعلق کولی ملہار آدیواسی برادری سے ہے، نے ممبئی آنے اور یہاں سے لوٹنے کی خاطر کرایے کے ٹیمپو کے لیے ہزار ہزار روپے ادا کیے ہیں۔ انہیں قرض لینا پڑا، کیوں کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ تارا بائی نے بتایا، ’’ہمارے پاس کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کوئی کام نہیں تھا۔ ریاستی حکومت نے ہر فیملی کے لیے ۲۰ کلو گیہوں مفت میں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن صرف ۱۰ کلو ہی بانٹا گیا۔‘‘

Left: Many had packed a simple meal from home for dinner. Right: At night, the protestors lit up the slogan 'Save Farmers, Save Nation'
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Many had packed a simple meal from home for dinner. Right: At night, the protestors lit up the slogan 'Save Farmers, Save Nation'
PHOTO • Shraddha Agarwal

بائیں: کئی لوگ رات کے کھانے کے لیے چٹنی روٹی ساتھ لے کر آئے تھے۔ دائیں: مظاہرین نے رات میں ’کسان بچاؤ، دیش بچاؤ‘ کا نعرہ لگایا

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ وجے بائی اور تارا بائی احتجاجی مظاہرے میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’ہم ۲۰۱۸ اور ۲۰۱۹ کے دونوں مظاہروں میں آئے تھے۔‘‘ مارچ ۲۰۱۸ میں ناسک سے ممبئی تک ہوا کسانوں کا لانگ مارچ ، اور فروری ۲۰۱۹ میں کسان مورچہ، جس میں کسانوں نے حق اراضی، زرعی پیداوار کی مناسب قیمت، قرض معافی، اور خشکی سے راحت کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ یہ بھی زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا ناسک سے نکلا پہلا جتھہ نہیں ہے۔ ۲۱ دسمبر، ۲۰۲۰ کو تقریباً ۲۰۰۰ کسان ناسک میں جمع ہوئے، جن میں سے ۱۰۰۰ کسان دہلی کی سرحد پر شمالی ہند کے کسانوں کے ساتھ مظاہرے میں شامل ہوئے۔

وجے بائی کہتی ہیں، ’’ہم آدیواسیوں کے پاس اپنی آواز پہنچانے کا واحد طریقہ مورچہ نکالنا ہی ہے۔ اس بار بھی ہم اپنی آواز بلند کریں گے۔‘‘ وہ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے رہنماؤں کی تقریر سننے کے لیے، گولف کلب میدان کے وسط میں تارا بائی کے ساتھ چل رہی ہیں۔

سبھی گاڑیوں کو اکٹھا کرنے کے بعد، یہ گروپ ناسک سے شام کو تقریباً چھ بجے روانہ ہوا۔ مظاہرین رات میں ناسک ضلع کے ایگت پوری تعلقہ میں واقع گھاٹن دیوی مندر میں رکے۔ ان میں سے کئی لوگ کھانے کے لیے ساتھ میں گھر سے باجرے کی روٹی اور ادرک کی چٹنی لے کر آئے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد انہوں نے مندر کے احاطہ میں میدان پر پڑے ترپال پر موٹا کمبل بچھایا اور سو گئے۔

یہاں سے آزاد میدان اب ۱۳۵ کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔

The protesting farmers walked down the Kasara ghat raising slogans against the new farm laws
PHOTO • Shraddha Agarwal
PHOTO • Shraddha Agarwal

کسانوں نے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کسارا گھاٹ پر مارچ نکالا

اگلے دن، ایگت پوری کے پاس کسارا گھاٹ تک پیدل چلنے اور ممبئی- ناسک ہائی وے پہنچنے کا منصوبہ تھا۔ صبح ۸ بجے نکلنے کی تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ، کسانوں کا ایک گروپ زرعی علاقے میں اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ ناسک ضلع کے تریمبکیشور تعلقہ کے گاؤں ناندرکی پاڑہ کے ۴۸ سالہ مکند کونگلی نے کہا، ’’حالانکہ، میرے بیٹے اور بیٹی دونوں نے اپنی ڈگری پوری کر لی ہے، پھر بھی وہ کھیتوں میں ۱۵۰-۱۰۰ روپے کی دہاڑی پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ مکند کے بیٹے کے پاس بی کام کی ڈگری ہے، اور ان کی بیٹی نے بی ایڈ کیا ہے، لیکن اب دونوں زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وارلی آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے مکند کہتے ہیں، ’’صرف غیر آدیواسیوں کو ہی نوکری ملتی ہے۔‘‘

ناندرکی پاڑہ کی وارلی آدیواسی برادری کی ۴۷ سالہ جانی بائی دھنگرے نے کہا، ’’میرے بیٹے نے کالج میں بہت محنت سے پڑھائی کی تھی اور اب وہ ہر دن کھیتوں میں کام کرتا ہے۔ میری بیٹی نے پندرہویں (کلاس ۱۵، یعنی بی ایڈ کی ڈگری) کی پڑھائی پوری کر لی ہے۔‘‘ بچی ہوئی بھاکری کو پیک کرتے ہوئے اور ٹیمپو میں بیگ رکھتے وقت وہ مزید کہتی ہیں، ’’اس نے تریمبکیشور میں نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے کوئی کام نہیں مل پایا۔ وہ مجھے چھوڑ کر ممبئی نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ شہر بہت دور ہے اور وہ گھر کے بنے ہوئے کھانے کو یاد کرے گی۔‘‘

گھاٹ سے چل کر کسان اور زرعی مزدور اپنے جھنڈوں کے ساتھ، نئے زرعی قوانین کے خلاف نعرہ لگاتے ہوئے ۱۲ کلومیٹر تک ہائی وے کی طرف پیدل چلے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ تینوں زرعی قوانین کے ساتھ ساتھ نئے لیبر کوڈ کو منسوخ کیا جائے۔ اے آئی کے ایس کے صدر اشوک دھولے کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو یقینی بنانے اور پورے ملک میں سرکاری خرید کی سہولیات کے لیے نیا قانون بنایا جائے۔ جتھہ کے ساتھ سفر کر رہے دھولے کا کہنا ہے، ’’یہ مارچ مرکزی حکومت کی نیو لبرل اور کارپوریٹ نواز پالیسیوں کے خلاف پورے ملک میں اور دہلی میں لاکھوں کسانوں کی تاریخی جدوجہد میں اہم تعاون فراہم کر رہے ہیں۔‘‘

Arriving at night at Azad Maidan in Mumbai, the tired farmers celebrated with the tarpa, a musical instrument (left)
PHOTO • Shraddha Agarwal
Arriving at night at Azad Maidan in Mumbai, the tired farmers celebrated with the tarpa, a musical instrument (left)
PHOTO • Shraddha Agarwal

تھکان سے چور کسان رات کو آزاد میدان پہنچے اور تارپا کی دُھن پر تھرکتے رہے

ہائی وے پر پہنچنے کے بعد، کسان گاڑیوں میں بیٹھے اور تھانے کی طرف بڑھ چلے۔ راستے میں، کئی تنظیموں نے کسانوں کے جتھہ میں پانی کی بوتلیں، کھانے کا سامان، اور بسکٹ بانٹا۔ وہ سبھی تھانے کے ایک گرودوارے میں دوپہر کے کھانے کے لیے رکے۔

۲۴ جنوری کو جب جتہ جنوبی ممبئی میں واقع آزاد میدان پہنچا، تو شام کے سات بج رہے تھے۔ وہ تھک کر چور ہو چکے تھے، لیکن ان کا جنون برقرار تھا؛ اس بات کا ثبوت تب ملا جب پالگھر ضلع کے کچھ کسان روایتی آدیواسی آلہ موسیقی تارپا کی دُھن پر ناچتے اور گاتے میدان میں داخل ہوئے۔

وجے بائی نے زرعی مزدوروں کے اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھنے کے بعد کہا، ’’مجھے بھوک لگی ہے۔ میرے پورے بدن میں درد ہو رہا ہے، لیکن کچھ کھانے اور آرام کرنے کے بعد میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ یہ ہمارے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم نے پہلے بھی مارچ کیا ہے اور آگے بھی کریں گے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

Shraddha Agarwal is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Shraddha Agarwal
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez