آسمان کی طرف عقیدت کے ساتھ اشارہ کرتے ہوئے شمپا نے کہا، ’’ماں بون بی بی کی پکار کو کوئی بھی ان سنا نہیں کر سکتا ہے۔ ماں بون بی بی کی جے!‘‘ وہ اپنے شوہر رگھو گُچھئی اور تین سال کے بیٹے کے ساتھ ماں بون بی بی کے مندر کی طرف تیزی سے جا رہی تھیں۔ ماں بون بی بی کا ایک سو پچاس سال پرانا مندر گاؤں کے جنوبی کونے میں موجود ہے۔ یہ جنوری کی ایک دوپہر کا وقت تھا، اور مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ ضلع میں واقع رام رودر پور کا ہر باشندہ، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، مندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گاؤں کی بزرگ پھول ماشی (خالہ) نے کہا، ’’ماں بون بی بی جنگل کی رانی ہیں۔ آج یہاں جنگل نہیں بچا، لیکن ان کا آشیرواد اب بھی بنا ہوا ہے۔ بون بی بی طاقت کی علامت ہیں اور یہ میلہ اس گاؤں کی قدیم روایت کا حصہ رہا ہے۔‘‘

بون بی بی تہوار سال میں ایک بار، جنوری یا فروری میں منایا جاتا ہے، اور رام رودرپور کا میلہ سب سے بڑے اور پرانے میلے میں سے ایک ہے۔ رگھو مجھے میلہ میں لگا اپنا اسٹال دکھانے لے گئے، جو انہوں نے اپنے بھائی شیبو کے ساتھ مل کر لگایا تھا۔ ان کا اسٹال رنگین چوڑیوں اور مختلف قسم کے مصنوعی زیورات سے بھرا ہوا ہے، جسے انہوں نے کولکاتا کے ایک تاجر سے خریدا تھا۔ دونوں بھائی بون بی بی کا آشیرواد پانے کے اتنے خواہش مند نہیں تھے، لیکن انہوں نے سوچ سمجھ کر اپنی دکان مندر کے پاس ایسی جگہ پر لگائی تھی جہاں عورتوں کی سب سے زیادہ بھیڑ جمع ہوتی ہے۔ اسی گاؤں کی سکینہ منڈل نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا، ’’دیدی، آپ مندر ہو آئیں؟‘‘ اور اپنی بیٹی شبینہ کو وہاں لے جانے کے لیے میرے ساتھ بھیج دیا۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

رام رودر پور میں بون بی بی کے میلہ میں لگی بھیڑ؛ منتظمین کے مطابق میلہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد سال در سال بڑھتی جا رہی ہے

ایسا مانا جاتا ہے کہ عقیدت مند چاہے کسی بھی مذہب کے ہوں، بون بی بی کا آشیرواد سبھی کو ملتا ہے اور وہ سبھی کی مرادیں پوری کرتی ہیں۔ ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کی عورتیں، بون بی بی کے تہوار پر پورے دن برت (روزہ) رکھتی ہیں اور صرف شام ڈھلنے پر ہی کھانا کھاتی ہیں۔ ماں بون بی بی کا آشیرواد پانے کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ، ان کے نذرانہ پیش کرنے کے جوش میں دیکھا جا سکتا ہے۔ آرتی اور ببھاش نسکر روایتی مٹھائیوں کی تھالی چڑھا کر، بون بی بی سے ایک اولاد کی تمنا کرتے ہیں؛ شمپا اپنی فیملی کی اچھی صحت کے لیے پرارتھنا کرتی ہیں؛ سنجے بہتر فصل کے لیے پوجا کرتے ہیں؛ اور محفوظہ اور الطاف منّا اپنی نوزائیدہ بیٹی کو بون بی بی کا آشیرواد دلانے کے لیے لائے ہیں۔

شبینہ اور میں آخرکار تھان (مندر) میں داخل ہوتے ہیں۔ وہاں ۱۵ سال کا دیبول انتہائی جوش سے ہم سے کہتا ہے، ’’دیدی، پوجا کر لیجئے، بہت ہی مقدس گھڑی ہے۔‘‘

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya
PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

بائیں: سندربن کے رام رودر پور میں بون بی بی کے میلہ کی طرف بڑھتے ہوئے گاؤں اور قصبہ کے لوگ، دسمبر یا جنوری کے مہینے میں سالانہ فصل کٹنے کے بعد خالی پڑے کھیتوں سے گزر رہے ہیں۔ دائیں: بون بی بی کا مندر، جس کے آس پاس رام رودر پور کا میلہ لگتا ہے؛ سال ۲۰۱۳ میں میلہ میں آنے والے لوگوں کے چندہ سے مندر کی مرمت اور آرائشی کام ہوا تھا

جلد ہی ثقافتی پروگرام شروع ہو گئے۔ مقامی، اور کولکاتا سے آئے فنکار الگ الگ کونوں میں لگائے گئے خیموں میں تیار ہونا شروع ہو گئے۔ مقامی فنکار تورجا گان (بنگال کے تاریخی کرداروں اور روزمرہ کی زندگی پر مبنی لوک گیت) یا کیرتن گان اور جاترا (تاریخی یا اساطیری مناظر کی پیشکش) کا شو کرنے جا رہے تھے۔ باہری فنکار ’’آرکیسٹرا نائٹ‘‘ – بالی ووڈ یا ٹالی ووڈ کے گانے – جاترا اور رقص پر مبنی پروگرام پیش کرنے والے تھے۔

اس میلہ میں شامل ہر شخص جوش، توانائی، اور اطمینان کے جذبے سے سرشار لگ رہا تھا؛ مائیں زیورات کی طرف لپک رہی تھیں، باپ اپنے بچوں کی مانگیں پوری کرنے میں لگے ہوئے تھے، یہاں وہاں دو چار عاشق و معشوق دکھائی دے رہے تھے، دوستوں کے درمیان بات چیت اور ہنسی مذاق چل رہا تھا – سب کچھ بون بی بی کے بلاوے پر ہو رہا تھا۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

رام رودر پور کے کیننگ کے فنکار، میلہ میں اساطیری کرداروں پر مبنی تورجا گان (لوک گیت) گاتے ہوئے

مجھے پھول ماشی نظر آئیں، جو بڑی خوشی سے رس گلے کھانے میں مشغول تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میلہ ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا؟ انہوں نے جواب دیا، ’’اگلے سال پھر سے ہوگا۔ یہ میلہ سبھی کی زندگی کا ساتھی ہے۔‘‘

سندربن کے اوپری علاقوں میں، جہاں سے جنگل صاف ہو گئے ہیں، بون بی بی کی پوجا کی یہ خوش گوار اور عظیم شکل، نچلے جنگلی علاقوں میں کی جانے والی پوجا کی اصلی شکل سے بالکل مختلف ہے، جہاں یہ اب بھی انتہائی سادگی اور جوش سے منایا جاتا ہے۔ ان نچلے جزیروں میں، جہاں ہر بار جنگل میں جانے کا مطلب ہے موت کا خطرہ مول لینا، بون بی بی کا کردار آسان لیکن اہم ہے: انسانوں کو چیتے اور سانپ کے خطرے سے بچانا۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

باسنتی کے مولاکھالی میں واقع بون بی بی کا مندر: بون بی بی کے کھلے مندر زیادہ تر عام راستوں پر ہوتے ہیں۔ ان میں اگر دروازہ ہوتا بھی ہے تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاکہ آشیرواد پانے کے خواہش مند لوگ اندر آ سکیں

بنیادی طور پر بون بی بی ’’انتہائی طاقتور‘‘ شکل میں ان ماہی گیروں، شہد جمع کرنے والوں، لکڑی چننے والوں وغیرہ کو چیتے کے حملے سے بچانے کے لیے نمودار ہوئیں جو جنگل میں جاتے تھے۔ انیسویں صدی کے کتابچہ ’بون بی بی جوہر نامہ‘ میں ان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ یہ کتاب شاید کسی مسلمان نے لکھی ہے – اور بنگالی میں ہے، بائیں سے دائیں جانب لکھی گئی ہے، لیکن عربی زبان کی طرح صفحات پیچھے سے آگے کی طرف ہیں۔

اس کہاوت کے مطابق، بون بی بی کا دشمن تھا جنگل میں رہنے والا برہمن سادھو دوکھن رائے، جس نے غصہ میں آ کر انسانوں کو کھانے کا من بنایا۔ اس لیے اس نے چیتے کی شکل اختیار کر لی۔ لالچ میں اس نے انسانوں کے ساتھ جنگل کے سبھی وسائل کو شیئر کرنا بند کر دیا اور انسانوں کے مارنے کو ٹیکس قرار دے دیا۔ ایک طرح سے دوکھن رائے لالچی زمیندار یا مالک کا ہی کردار ہے۔ آخرکار اس نے خود کو آبی جنگل کا واحد مالک ہونے کا اعلان کر دیا اور وہ انسانوں کا گوشت کھانے والا راکشس بن گیا۔ جنگل کے سبھی چیتے اور بد روحیں اس کی رعایا بن گئیں اور انسانوں کو ڈرانے دھمکانے لگیں۔ اس کی وجہ سے جانوروں اور انسانوں کے درمیان کا پرانا بھروسہ مند رشتہ ٹوٹ گیا۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

کُلتلی کے نوگین آباد میں جنگلی مرغ پر سوار ماں بون بی بی (بائیں)، اور پاتھر پرتیما کے فاریسٹ آفس میں شیر پر سوار، ساتھ میں دکھے اور شاہ جونگولی

لوگوں کی تکلیفیں دیکھ کر، دوکھن رائے کی حکومت ختم کرنے کے لیے اللہ نے جنگل میں رہنے والی ایک چھوٹی لڑکی بون بی بی کا انتخاب کیا۔ جب بون بی بی بہت چھوٹی تھیں، تب ان کی ماں نے انہیں چھوڑ دیا تھا اور ایک ہرن نے ان کی پرورش کی۔ جب بون بی بی نے اللہ کی پکار سنی، تب انہوں نے اپنے جڑواں بھائی شاہ جونگولی (’بون‘ اور ’جونگول‘ دونوں کا ہی مطلب جنگل ہے) کو اپنے پاس بلایا۔ پھر بھائی بہن فاطمہ کا آشیرواد لینے کے لیے مدینہ چل پڑے۔ وہاں سے مکہ گئے، جہاں کی مقدس مٹی سندربن لائے۔

اللہ کی دخل اندازی سے ناراض ہو کر دوکھن رائے نے بھائی بہن کو نکال بھگانے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس کی ماں نارائنی نے زور دیا کہ عورت سے لڑائی عورت کو ہی کرنی چاہیے، اور اس لیے اس نے خود ہی بون بی بی سے لڑنے کا ارادہ کیا۔ جب اسے لگا کہ وہ شکست کھا رہی ہے، تو اس نے بون بی بی کو سائی (دوست) کہہ کر مخاطب کیا۔ بون بی بی کو اطمینان ہو گیا اور اس طرح جگھڑا ختم ہو گیا۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

کلتلی کے بونی کیمپ میں چیتوں کے پاؤں کے نشان (بائیں)۔ خلیج بنگال کے پاس ۵۰ فٹ اونچے مچان والے اس کیمپ کے آس پاس اکثر چیتے دکھائی دیتے ہیں۔ سندر بن کی تمام چھوٹی ندیوں میں سے ایک (دائیں)

سال ۲۰۱۴ کے رام رودر پور کے میلہ میں ’دُکھے کی کہانی‘ (دُکھو سے دُکھے، یعنی دکھ تکلیف) کا شو ہو رہا تھا۔ یہ کہانی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دیوی نے چیتا، دوکھن رائے، اور انسانوں (دُکھے کے ذریعے پیش کیا گیا) کے درمیان کیا معاہدہ ہوا۔ پھول ماشی نے کہا، ’’دُکھے کی کہانی ہماری کہانی کی طرح ہے۔‘‘ ان کے شوہر کو شیر نے مار ڈالا تھا۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’دُکھے ہمارے بیٹے کی طرح ہے اور اس کی خستہ حالی ہماری خستہ حالی ہے، کیوں کہ ہم جنگل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ جنگل لالچی لوگوں کو آنے نہیں دیتا۔ لالچ ممنوع ہے اور دُکھے کی کہانی اسی کی علامت ہے۔‘‘

دُکھے بہت ہی غریب لڑکا تھا، جو کہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے چچا نے اسے کیدوکھالی میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ کیدوکھالی واحد ایسا جزیرہ ہے جو کہ ابھی بھی دوکھن رائے کے قبضے میں مانا جاتا ہے۔ چیر کے چارے کی طرح دُکھے کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا تھا، لیکن بون بی بی نے اسے بچا لیا اور اس کو اس کی ماں کے پاس واپس بھیج دیا۔ صلاح لینے کے لیے دوکھن رائے دوڑ کر اپنے اکلوتے دوست اور حامی، غازی کے پاس پہنچا۔ اسی کی صلاح پر اس نے بون بی بی سے معافی مانگ لی۔ بون بی بی نے دوکھن رائے کو معاف کر دیا اور اپنا بیٹا مان لیا – اس شرط پر کہ آئندہ وہ اور جنگل کے سبھی جانور، انسانوں سمیت، ایک دوسرے کو بھائی بہن مانیں گے اور سندربن جنگل کے تمام وسائل کو آپس میں شیئر کریں گے۔ انسانوں نے اپنی طرف سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے بھائی بہن، یعنی کہ جنگل کے تمام جانداروں سے صرف اتنا ہی لیں گے جتنا ان کا معاش چلانے کے لیے کافی ہوگا، اس سے زیادہ نہیں۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

کُلتلی کے نوگین آباد میں بون بی بی کا ایک چھوٹا مندر، جہاں اپریل کے مہینہ میں جنگل کے بیچوں بیچ، اس علاقہ کے سب سے بڑے میلوں میں سے ایک بون بی بی میلہ لگتا ہے

سندربن میں بون بی بی کی جس سادگی اور عقیدت کے ساتھ پوجا ہوتی ہے، اس سے لوگوں کا یہ بھروسہ نظر آتا ہے کہ بون بی بی انسانوں کی حفاظت کریں گی، لیکن تبھی جب وہ جنگل سے اپنی ضرورت کے لیے کم از کم چیزیں لیں۔ ان سے کوئی بھی فریاد کر سکتا ہے، چاہے ہندو ہو یا مسلمان، بس ’بون بی بی جوہرنامہ‘ کے ابتدائی اور آخری حصے پڑھ کر۔ درمیانی حصے دوست و احباب پڑھ سکتے ہیں۔ اس کتابچہ کو کچھ ہی گھنٹوں میں پڑھا جا سکتا ہے، جتنا وقت جنگلی راستے سے جنگل کے اندرونی علاقوں میں پہنچنے میں لگتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، جنگل کا کوئی بھی ملازم، باؤلی کے ساتھ یا اس کی ہدایت سنے بغیر جنگل میں داخل نہیں ہوتا ہے۔ باؤلی یا چیتے (ٹائیگر) کو قابو میں کرنے والے یہ مانتے ہیں کہ انہیں بون بی بی نے دوسروں کو چیتے سے بچانے کی خاص طاقت دی ہے۔ باؤلی کے پاس جو منتر ہوتے ہیں وہ عربی میں ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ صوفی سنتوں سے ملے ہیں۔ اور یہ بھی کہ ان سنتوں کا آبی جنگل کی اصلاح زمین، چیتے کے کنٹرول، اور اس علاقے میں ۱۶ویں صدی میں اسلام کی تبلیغ میں تعاون تھا (حالانکہ ہندو بھی باؤلی ہو سکتے ہیں، لیکن آج تک جن سے میری ملاقات ہوئی وہ سبھی مسلمان تھے)۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

ماں بون بی بی پر مبنی ’دُکھیر گلپو‘ نامی جاترا دُکھے کی کہانی بتاتی ہے۔ بون بی بی چیتا، دوکھن رائے پر سوار ہیں، اور بون بی بی کے بائیں طرف شاہ جونگولی، ان کا جڑواں بھائی ہے۔ دُکھے ہاتھ جوڑے بیٹھا ہے اور دوسری طرف، سفید کپڑوں میں اس کی ماں ہے

سندربن میں اسلام کو جادوئی طریقے کی طرح دیکھا جاتا ہے، جس سے بد روحوں اور راکشسوں پر قابو کیا جا سکتا ہے۔ باؤلی لوگوں سے متحمل مزاج اور پرامن ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔ ان کا جنگل کے ملازمین کے جذبات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ پھر بھی اکثر، محکمہ جنگلات کے افسر ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس بات کو دہراتے ہیں کہ یہ لوگ مقامی باشندوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے پاس ایسی کوئی خاص طاقت نہیں ہے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جنگلوں میں رہنے والے لوگوں کو سندربن سے باہر رہنے والے ہم جیسے لوگ – جو شیر سے ڈرتے ہیں – پر تشدد اور مختلف گروہوں میں تقسیم مانتے ہیں۔ اس کے برعکس، ان کے مطابق جنگل لوگوں کو جوڑتا ہے اور سب کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ اسی لیے، بون بی بی کے زیادہ تر مندر، خاص کر جو جزیروں کے بلاک میں ہیں، عوامی راستوں اور ندیوں کے کنارے ہیں اور ان میں دروازے نہیں ہیں۔ یہاں تک سب کی رسائی ہے۔ لوگ چیتوں کے علاقے میں داخل ہونے سے پہلے، بون بی بی کا آشیرواد حاصل کرنے، جنگل کے اندر شاخوں اور ٹہنیوں کے، پھولوں سے آراستہ، عارضی مندر بھی بناتے ہیں۔

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

خلیج میں بون بی بی کی پوجا (بائیں)، اور سندربن کے جوائے نگر میں ان کا مخالف چیتا یا زمیندار دوکھن رائے (دائیں)۔ عام طور پر بون بی بی چیتے پر سوار دکھائی جاتی ہیں، لیکن کبھی کبھی جنگلی مرغ، ہرن، مگرمچھ یا مچھلی جیسے دیگر جانوروں پر بھی سوار نظر آتی ہیں

پھول ماسی کا چھوٹا بیٹا جتیندر، جو مقامی بازار میں مچھلی بیچتا ہے، کہتا ہے کہ جنگل ہی مندر ہے اور مقدس ہے، اور اس میں اندر جاتے وقت ذہن و دل صاف اور پرسکون ہونا چاہیے۔ وہاں پر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ بون بی بی کی مرضی سے ہوتا ہے اور ان کی پیٹھ پیچھے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے، ’’تقریباً ۱۲-۱۰ سال پہلے لکڑی کاٹنے والوں کا ایک گروپ سانپ کے کاٹنے سے مر گیا تھا۔ مقامی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ لوگ جنگل کو آلودہ کر رہے تھے اور علاقے کے اخلاق و آداب پر عمل نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے بون بی بی نے انہیں سزا دی۔‘‘

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

گوسابا کے پکھیرالیہ میں ماہی گیر برادری: مچھلی پکڑنا سندربن میں رہنے والوں کا بنیادی پیشہ ہے

مختلف ذاتوں (مختلف قسم کی ذات، نسل، مذہب) کے ذریعے بون بی بی کی کہانیوں کی بار بار پیشکش، مقامی سطح پر بون بی بی کے برابری کے پیغام کو پھیلاتی ہے۔ شمس الدین علی، جو کہ رام رودر پور کے رہائشی ہیں اور بون بی بی اوپیرا نامی جاترا گروپ کے اداکار ہیں، سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’اگر ہم ذات پات، مذہب، اور دیگر طبقوں کی سیاست میں لگ جائیں گے تو ماں بون بی بی کا ہاتھ ہم سبھی کے اوپر سے ہٹ جائے گا۔ وہ سب کی ماں ہیں اور وہ جب سب کو بھائیچارے کے ساتھ رہتے دیکھتی ہیں، تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، خاص کر تب، جب ہم ان کی کہانیاں اسٹیج پر پیش کرتے ہیں۔ مذہب نہیں، آدمی کی اہمیت ہے۔‘‘

پوریش برہا، ایک بزرگ جو کہ اس علاقے کی ایک اور جاترا کمپنی میں کام کرتے تھے، نے بتایا کہ ایسے تمام تنظیمیں بند ہو گئیں، کیوں کہ وہ ایک ہی ذات کے لوگوں سے بھرنے لگی تھیں۔ ان کے مطابق، ’’ان تنظیموں میں مختلف برادریوں کی نمائندگی نہیں رہی۔ بون بی بی اتحاد کا مطالبہ کرتی ہیں اور بھائیچارہ ان کی پوجا و عقیدت کے لیے اہم ہے۔‘‘

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ پر جانے کے لیے مقامی لوگ کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں؛ کشتیوں کی آمد و رفت مد و جزر پر منحصر ہے اور مانسون کے دوران یہ پوری طرح بند ہو جاتی ہیں۔ روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں بھی میدانی علاقوں سے جزیروں تک انہی کشتیوں سے بھیجی جاتی ہیں

جنگل میں رہنے والوں کا یہ عام طور پر ماننا ہے کہ لالچ کے بڑھنے سے اور بڑی تعداد میں لوگوں کے جنگل میں داخل ہونے سے جنگل کا امن و سکون برباد ہو گیا ہے۔ کچھ بھی برا ہونے پر جھینگا بیج اکٹھا کرنے والوں پر اکثر الزام لگتا ہے، کیوں کہ وہ جنگل کے نئے ملازمین ہیں۔ لیکن کسم منڈل، جو جھینگا بیج اکٹھا کرتی ہیں، اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس کی بجائے شہد اکٹھا کرنے والوں پر لالچی ہونے کا الزام لگایا جانا چاہیے۔ وہ آگاہ کرتی ہیں، ’’جلد ہی بون بی بی بدلہ لیں گی، کیوں کہ بون بی بی اور دوکھن رائے کے درمیان کا صدیوں پرانا معاہدہ اب ختم ہو رہا ہے۔ جنگل میں کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔‘‘

PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya
PHOTO • Shatarupa Bhattacharyya

بائیں: جنگل میں چیتے کے علاقے میں داخل ہونے سے پہلے جنگل کے باشندے، بون بی بی کا آشیرواد حاصل کرنے کے لیے عارضی مندر بناتے ہیں۔ دائیں: بسنتی کے بالی میں شہد اکٹھا کرنے والوں کے ذریعے بون بی بی کے لیے بنایا گیا جنگل کا مندر

لیکن جنگل کے سبھی ملازمین اس بات سے متفق ہیں کہ ان کے آپسی جھگڑے کے ساتھ ہی، ِشور و غل مچانے والے سیاحوں کے لگاتار آنے جانے سے شیر بے چینی اور عدم تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے، چیتوں کے حملے میں اضافہ ہوا ہے۔ گوسابا جزیرہ کے ایک مہاہی گیر کنچن نے بتایا کہ کیسے چیتا ان کے ساتھی کو، جو کہ زمین پر بیٹھ کر اپنا جال صاف کر رہا تھا، اچانک نہ جانے کہاں سے آ کر اٹھا لے گیا۔ کنچن نے کہا، ’’جب چیتا کسی کو اپنا شکار بنانے کی ٹھان لیتا ہے، تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہمیں چیتا کو وہ کرنے دینا ہے۔‘‘ اسی طرح انہوں نے اپنے والد کو بھی کھو دیا تھا۔

غم زدہ دل سے شمس الدین نے کہا، ’’کم از کم ۱۲ لوگوں کو چیتا اٹھا لے گیا، خدا جانے اور کتنوں کو لے جائے گا۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا، تو بون بی بی بھی کسی کو نہیں بچا پائیں گی۔‘‘ ایک پل رک کر انہوں نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ ’’اصل میںیہ دوکھن رائے کا غصہ ہے۔ ہم انسانوں کی وجہ سے چیتے غصے میں ہیں۔ اب بس بون بی بی ہی ان کے غصہ کو ٹھنڈا کر سکتی ہیں۔‘‘

یہ بھی دیکھیں: کشتیاں، مچھلی، چیتے اور سیاحت

مترجم: محمد قمر تبریز

Shatarupa Bhattacharyya

Shatarupa Bhattacharyya is doing a Ph.D. in Development Studies from the National Institute of Advanced Studies, Bengaluru; she has an M.Phil. in History from the University of Hyderabad

Other stories by Shatarupa Bhattacharyya
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez