جیٹھا بھائی رباری کہتے ہیں، ’’میرے دادا کے پاس ۳۰۰ اونٹ تھے۔ اب میرے پاس صرف ۴۰ بچے ہیں۔ باقی مر گئے…انہیں سمندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘ جیٹھا بھائی، کھمبالیا تعلقہ کے بیہہ گاؤں میں سمندر میں تیرنے والے ان اونٹوں کو پالتے ہیں۔ یہ نایاب کھرائی نسل کے اونٹ ہیں، جنہوں نے خود کو ساحلی ایکو سسٹم میں زندہ رہنے کے لائق بنا لیا ہے۔ خلیج کچھّ میں واقع آبی جنگلات میں چارے کی تلاش میں یہ اونٹ یہاں گھنٹوں تیرتے رہتے ہیں۔

خلیج کے جنوبی ساحل پر، ۱۷ویں صدی سے ہی فقیرانی جاٹ اور بھوپا ربای برادری کے چرواہے کھرائی اونٹوں کو پالتے رہے ہیں۔ اسی جنوبی ساحل پر اب میرین نیشنل پارک اور سینکچری واقع ہیں۔ لیکن، ۱۹۹۵ میں جب سمندری پارک کے اندر اونٹوں کو چرانے کے لیے لے جانے پر پابندی لگائی گئی، تب سے اونٹوں اور ان کے چرواہوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔

جیٹھا بھائی کہتے ہیں کہ ان اونٹوں کو چیر (آبی پیڑ پودوں) کی ضرورت پڑتی ہے۔ آبی درختوں کی پتیاں ان کے لیے ایک ضروری غذا ہیں۔ جیٹھا بھائی سوال کرتے ہیں، ’’اگر انہیں پتے نہیں کھانے دیے گئے، تو کیا وہ مر نہیں جائیں گے؟‘‘ حالانکہ، اگر یہ جانور سمندر میں چلے جاتے ہیں، تو جیٹھا بھائی کے مطابق، ’’سمندری پارک کے اہلکار ہم پر جرمانہ لگاتے ہیں اور ہمارے اونٹوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں قید میں بند کر دیتے ہیں۔‘‘

اس ویڈیو میں ہم اونٹوں کو آبی پیڑ پودوں کی پتیوں کی تلاش میں تیرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ چرواہے ان اونٹوں کو زندہ رکھنے میں آنے والی دشواریوں کے بارے میں بتا رہے ہیں۔

فلم دیکھیں: سمندر میں تیرنے والے اونٹ

فلم ساز: اورجا

کور فوٹو: رتائن مکھرجی

یہ بھی پڑھیں: جام نگر: ’تیرنے والے اونٹوں‘ کی زندگی خطرے میں

مترجم: محمد قمر تبریز

Urja
urja@ruralindiaonline.org

Urja is a Video Editor and a documentary filmmaker at the People’s Archive of Rural India

Other stories by Urja
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez