اپنے جادو کا سب سے عمدہ کھیل دکھانے سے قبل گلاب اور شہزاد زور سے چلّاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہُرک بوم بوم کھیلہ!‘‘ جادو کا ’’منتر‘‘ پڑھنے کا یہ ان کا اپنا بنگالی طریقہ ہے۔ اس آواز پر تقریباً ۸۰ سے ۹۰ تماشائی ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں، جن میں مرد، خواتین اور کلکاریاں کرتے بچے بھی شامل ہیں۔ پھر بڑے بھائی گلاب  تماشائیوں میں سے منٹو ہلدر سے مدد کی گزارش کرتے ہیں۔ منٹو ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ اور جادوکا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔

گلاب دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی شہزاد کو غائب کر دیں گے۔ غائب ہونے والے بھائی فوراً ایک بڑے سے جال پر بیٹھ جاتے ہیں، اور منٹو ان کے سر پر جال کے کھلے ہوئے دونوں سروں کو باندھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد گلاب دو طرف سے کھلے ایک باکس کو شہزاد کے اوپر رکھ کر چادروں سے باکس کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ آگے کے کھیل کے لیے تماشائی ہمہ تن منتظر ہیں۔

اس کے بعد گلاب ایک جانور کی ہڈی ہوا میں چاروں طرف لہرا کر ایک ’منتر‘ پڑھتے ہیں۔ پھر لڑکے کو غائب کرنے کے لیے کسی الہامی طاقت سے اپیل کرتے ہیں: ’’ارگھٹ کھوپڑی مرگھٹ مسان، بچہ کے لے جا تیلیا مسان۔‘‘ پھر وہ منٹو سے باکس کے ہر کونے کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنے کو کہتے ہیں۔ منٹو کسی فرض شناس شخص کی طرح حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ درحقیقت ڈبہ ’خالی‘ ہے۔ شہزاد کا کہیں پتہ نہیں ہے۔

گلاب پوچھتے ہیں، ’’میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں۔ کیا یہ لڑکا تکلیف میں ہے؟ میں ہر کسی سے جاننا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ آیا وہ یہاں ہے یا نہیں؟‘‘ تماشائیوں میں موجود لوگ ان کی تائید کرتے ہیں کہ نظروں سے اوجھل شہزاد یقیناً تکلیف میں ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ’کیا وہ یہاں ہے یا غائب ہو چکا ہے؟‘

گلاب پوچھتے ہیں، ’میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں: کیا یہ لڑکا تکلیف میں ہے؟‘ تماشائیوں میں موجود لوگ ان کی تائید کرتے ہیں کہ نظروں سے اوجھل شہزاد یقیناً تکلیف میں ہے

ہاتھ کی صفائی جادو کے کھیل کا ایک حصہ ہے۔ اس کھیل کو سفری جادوگر ۳۴ سالہ گلاب شیخ اور ۱۶ سالہ شہزاد تماشائیوں کی تلاش میں ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کا چکر لگاتے ہوئے کھلے میدانوں میں یا سڑکوں پر دکھاتے ہیں۔ جب میں نے انہیں اکتوبر کے آخر میں دیکھا تھا تو وہ مغربی بنگال کے ندیا ضلع کے تیہٹا گاؤں میں موجود تھے، جہاں وہ ہگلی ضلع کے پانڈوا قصبے سے آئے تھے۔ گلاب کہتے ہیں، ’’ہمارے آباء و اجداد نے یہ [کام] کیا تھا، اب ہم بھی کر رہے ہیں۔‘‘ گلاب تقریباً ۲۰ سال سے جادو کے کرتب دکھا رہے ہیں، جب کہ شہزاد چار سال پہلے ان کے ساتھ جڑے تھے۔

جب میں نے پہلی دفعہ دور سے ڈُگڈوگی کی آواز سنی، تو یہ گمان گزرا کہ کوئی مداری ڈگڈگی بجا کر اور اپنے تربیت یافتہ بندر کے ذریعہ کوئی کرتب دکھا رہا ہے۔ ایک لڑکے کو کھلے میدان میں جال میں بندھا دیکھ کر مجھے تھوڑی حیرت ہوئی۔ میں نے دونوں بھائیوں کو یقین دلایا کہ میں ان کا کوئی بھی راز فاش نہیں کروں گا۔ مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے مجھے تیہٹا کے دتہ پاڑہ علاقے میں اگلے کھیل کے لیے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔

گلاب پوری پیشکش کے دوران تماشائیوں سے بات کرتے ہیں، انہیں اپنے لطیفوں اور فقرے بازیوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ مذہبی اور دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔ غائب کرنے کے عمل کے درمیان اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’جسے خدا نے اولاد نہیں دیا ہے صرف وہی شخص کہے گا کہ یہ لڑکا مصیبت میں نہیں ہے۔ اسے تپتی دھوپ میں جھلسایا گیا ہے۔ وہ آدھے گھنٹے کے لیے زمین کے اندر چلا گیا تھا۔ اتنے بڑے لڑکے کو اتنے چھوٹے سے جال میں ۷ سے ۸ منٹ تک [باندھ کر] رکھا گیا تھا۔ اگر آپ اس طرح کسی اور لڑکے کو باندھیں گے تو اس کا دم گھٹ جائے گا یا اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ لیکن اس لڑکے نے بھوک کی وجہ سے خود کو یوں باندھنے دیا ہے۔‘‘

گلاب پوری پیشکش کے دوران اپنی مشکلات سے متعلق باتیں کرتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے وقفے کے بعد بانسری بھی بجاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سنجیدہ ہوکر وہ تماشائیوں سے پوچھتے ہیں، ’’میں یہ کام کیوں کر رہا ہوں؟‘‘ اور خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہیں، ’’بھوک مٹانے کے لیے۔‘‘

شہزاد کھیل کے زیادہ تر حصے کے دوران (بظاہر) باکس کے اندر سے غائب رہتے ہیں۔

Gulab Shaikh performing street magic
PHOTO • Soumyabrata Roy

غائب ہونے کے عمل کے دوران گلاب شیخ تیہٹا گاؤں میں جمع تماشائیوں سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان بھائیوں کا آخری کھیل سائیکل کے ٹائر کو ایک چھوٹے ’سانپ‘ میں ’تبدیل‘ کرنے پر مشتمل ہے، جسے وہ حقیقی انداز میں انجام دیتے ہیں

ان بھائیوں کا آخری کھیل سائیکل کے ٹائر کو ایک چھوٹے ’سانپ‘ میں ’تبدیل‘ کرنا ہے۔ وہ اس عمل کو حقیقی انداز میں انجام دیتے ہیں۔ گلاب بانسری پر ایک بنگالی گیت بجا کر اپنا کھیل ختم کرتےہیں۔

اب تماشائیوں سے پیسے وصول کرنے کا وقت ہے۔ پیسہ وصول کرتے ہوئے گلاب کہتے ہیں، ’’میں نے بھوک کے بارے میں بات کی ہے، لیکن براہ کرم کسی کو یہاں سے جانے نہ دیں... اگر آپ اس کھیل [کے مطلب] کو سمجھ گئے ہیں، تو یہ کھیل ۵۰۰ روپے کا ہے، اور اگر نہیں سمجھے ہیں تو اس کی قیمت پانچ پیسے بھی نہیں ہے۔ میں نے اور میرے بھائی نے اس کھیل کو دکھانے کے لیے پورے ایک گھنٹے تک تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ہم نے بہت سے لوگوں کو جادو کے کرتب دکھانے کے لیے اکٹھا کیا اور بانسری کی دھن بھی سنائی ہے۔ میں نے آپ سب کو خوش کیا یا اداس کیا؟ میں آپ سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘

سبھی تماشائیوں نے جادوگروں کو پیسے نہیں دیے ہیں۔ اپنا کھیل ختم کرنے کے بعد، گلاب اور شہزاد مجھے بتاتے ہیں کہ وہ عام طور پر روزانہ ۳ سے ۴ چار جگہ اپنا کھیل دکھاتے ہیں اور کسی کسی دن ۵۰۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔ وہ امید کرتے ہیں کہ ہر تماشائی انہیں ۲۰ روپے دے گا، اور اگر کوئی اس سے زیادہ پیسے دیتا ہے، تو وہ عام طور پر اضافی رقم واپس کر دیتے ہیں۔ یہ ان کے لیے ایک رسم ہے۔ وہ صرف اپنی ضرورت کے مطابق کم سے کم پیسے کمانا چاہتے ہیں۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ ایک پلیٹ چاول کی قیمت ۲۰ روپے ہے۔

کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور نقل و حرکت اور ہجوم پر پابندیوں نے ان کے ذریعہ معاش کو ضرور متاثر کیا ہوگا؟ گلاب جواب دیتے ہیں، ’’پہلے چار ماہ تک ہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکے۔ اس عرصے میں لیے گئے قرضوں کا بوجھ میں ابھی تک اٹھا رہا ہوں۔‘‘

لیکن اگر گلاب اور شہزاد کو اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا ہے اور اپنے کنبے کی کفالت کرنی ہے، تو انہیں اپنا کھیل جاری رکھنا ہی ہوگا۔ اس دن کھیل ختم کرنے کے بعد اپنا سامان سمیٹنے سے قبل انہوں نے تماشائیوں سے ایک اور گزارش کی تھی، ’’آپ سب مل کر میری مدد کریں گے، لیکن پیسوں سے نہیں۔ خدا نے آپ کو دو ہاتھ دیے ہیں تالی بجانے کے لیے!‘‘ تماشائی تالیاں بجاتے ہیں اور جادوگر جھک کر آداب بجا لاتے ہیں۔

مترجم: شفیق عالم

Soumyabrata Roy

Soumyabrata Roy is a freelance photojournalist based in Tehatta, West Bengal. He has a Diploma in Photography (2019) from the Ramakrishna Mission Vidyamandira, Belur Math (University of Calcutta).

Other stories by Soumyabrata Roy
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam