اصل سوال قدروں کا ہے۔ اور یہ قدریں ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ ہم خود کو قدرت سے الگ کرکے نہیں دیکھ پاتے۔ آدیواسی جب لڑتے ہیں، تو وہ سرکار یا کسی کمپنی کے خلاف نہیں لڑتے۔ ان کے پاس اپنی ’بھومی سینا‘ ہے، اور وہ لالچ اور خود غرضی میں لتھڑے قدروں کی مخالفت میں لڑتے ہیں۔

ان تمام چیزوں کی شروعات تہذیبوں کے ارتقا کے ساتھ ہوئی – جب ہم نے انفرادیت پسندی کو اپنا سر اٹھاتے ہوئے دیکھا، اور ہم انسانوں کو قدرت سے الگ وجود رکھنے والی اکائی کے طور پر دیکھنے لگے۔ یہیں سے تصادم کی شروعات ہوئی۔ جب ہم خود کو ندی سے دور کر لیتے ہیں، تو اس کے پانی میں سیویج، کیمیاوی اور صنعتی کچرا خالی کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ ہم ندی کو ذریعہ سمجھ کر اس پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ جیسے ہی ہم خود کو قدرت سے الگ اور برتر سمجھنے لگتے ہیں، اس کی لوٹ اور اس کا بیجا استعمال آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، کسی آدیواسی برادری کے لیے اس کی قدریں صرف کاغذ پر تحریر کردہ ضابطے نہیں ہوتے۔ یہ قدریں ہمارے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ ہیں۔

جتیندر وساوا کی آواز میں، دیہولی بھیلی میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، انگریزی میں یہ نظم سنیں

زمین کا جنین ہوں میں

زمین کی جڑ-بیج-جنین ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی کا احساس ہوں میں
بھیل، مُنڈا، بوڈو، گونڈ، سنتھالی ہوں میں
انسانوں کا بابائے آدم ہوں میں
تم مجھے جیو، جی بھر کر جیو
میں یہاں کی بہشت ہوں
زمین کی جڑ-بیج-جنین ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی کا احساس ہوں میں

سہیادری، ستپوڑہ، وندھیا، اراولی ہوں میں
ہمالیہ کی چوٹی، جنوبی سمندر کی وادی
شمال مشرق کا سر سبز رنگ ہوں میں
تم جہاں جہاں پیڑ کاٹوگے
پہاڑوں کو بیچوگے
تم مجھے فروخت ہوتے ہوئے پاؤگے
ندیوں کے مرنے سے مرتا ہوں میں
تم مجھے سانسوں میں پی سکتے ہو
تمہاری زندگی کا عرق ہوں میں
زمین کی جڑ-بیج-جنین ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی کا احساس ہوں میں

ہو آخر تم بھی میری ہی نسل
تم بھی میرا ہی خون ہو
لالچ-حوس-اقتدار کا اندھیرا
دیکھنے نہ دیتا تمہیں جگ سارا
تم زمین کو زمین کہتے
ہم زمین کو ماں
ندیوں کو تم کہتے ندیاں
وہ ہے ہماری بہنا
پہاڑ تم کو پہاڑ نظر آتے
وہ کہتا ہم کو اپنا بھائی
دادا ہمارا سورج دادا، ماما چندا ماما
کہتا یہ رشتہ مجھ کو لکیر کھینچ
میرے تمہارے بیچ
پھر بھی میں نہ مانتا میرا عقیدہ
پگھلوگے تم اپنے آپ ہی
گرمی سنبھالتا برف ہوں میں
زمین کی جڑ-بیج-جنینں ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی کا احساس ہوں میں

یہ نظم بنیادی طور پر دیہولی بھیلی اور ہندی زبان میں لکھی گئی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Jitendra Vasava

Jitendra Vasava is a poet from Mahupada village in Narmada district of Gujarat, who writes in Dehwali Bhili language. He is the founder president of Adivasi Sahitya Academy (2014), and an editor of Lakhara, a poetry magazine dedicated to tribal voices. He has also published four books on Adivasi oral literature. His doctoral research focused on the cultural and mythological aspects of oral folk tales of the Bhils of Narmada district. The poems by him published on PARI are from his upcoming and first collection of poetry.

Other stories by Jitendra Vasava
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez