تمام میڈیا میں دراڑوں پر بحث ہو رہی تھی۔ ہر دن چمولی ضلع میں پہاڑ کے اوپر آباد اس شہر کے ڈوبنے کے بارے میں نئے اعداد و شمار کے ساتھ اسٹوری پڑھی جا رہی تھی۔ دراڑوں کی تصویریں نکالنے اور قصبہ میں ہو رہے احتجاجی مظاہروں کو دیکھنے کے لیے میڈیا والے لگاتار گاؤوں کا دورہ کر رہے تھے۔ پچھلے ہفتے جب وہ لوگوں سے اپنے گھروں سے جانے کو کہہ رہے تھے، اس نے اپنے چھوٹے سے گھر کو چھوڑ کر جانے سے انکار کر دیا تھا۔ جب تک وہ اسے نکالتے نہیں، وہ جانے والی نہیں تھی۔ وہ بالکل بھی ڈری ہوئی نہیں تھی۔

اسے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ دراڑیں اس اشارہ کی طرح تھیں جو لالچ کی شکل میں سرنگ کے راستے گاؤں تک پہنچ گئی تھی۔ نئے پروجیکٹ اور سڑکیں، جو پہاڑوں پر قبضہ جماتی رہیں، صرف وہی ان پر حملے نہیں کر رہی تھیں۔ کچھ اور بھی تھا، جو کہیں زیادہ گہرائی سے، اس دنیا کے ساتھ غلط تھا۔ دراڑیں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ پہاڑ کی کسی بیل سے جھولتے ایک نئے خواب کا پیچھا کرتے، انہیں خود کو قدرت سے اور زمین پر رہنے والے دیوتاؤں سے کاٹ لیا تھا۔ حالانکہ، وہ بیل بہت جادوئی تھی۔ اس افسانہ کی تلاش میں بھٹکنے کا ٹھیکرا کس کے سر پھوٹتا؟

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، انگریزی میں یہ نظم سنیں

PHOTO • Labani Jangi

دراڑیں

یہ ایک دن میں نہیں ہوا تھا۔
بہت سی، باریک دراڑیں
چھپی ہوئی تھیں،
اس کے بالوں کے سب سے شروعاتی سفید پیچ و خم کی طرح،
یا اس کی آنکھوں کے نیچے کھنچنے والی لکیروں کی طرح۔
گاؤں اور پہاڑ، جنگل، ندیوں
کے درمیان کی چھوٹی دراڑیں
جانے کب سے تھیں
دور سے اوجھل۔
جب دھیرے دھیرے اور لگاتار،
دراڑیں تھوڑی بڑی ہونے لگیں، اس نے سوچا،
وہ اب بھی انہیں ٹھیک کر سکتی ہے -
ایک چھوٹی سی دیوار یہاں لگا کر
وہاں کچھ کرکے نرم پلاسٹر،
ٹھیک اسی طرح جیسے بچے پیدا کر لیے جاتے ہیں
کسی رشتے کو بچانے کی خاطر۔

لیکن پھر لمبی چوڑی دراڑوں نے دستک دی،
آئینے جیسی دیواروں سے
اس کے منہ پر نظریں گڑائے،
بے شرم، ساکت، ناقابل معافی
نرسنگھ جیسی نظروں سے۔

وہ ان کی جسامت، ان کی سمتوں کو جانتی تھی -
آڑی، سیدھی، قدم بڑھاتی،
ان خاص جگہوں پر جہاں وہ پڑی تھیں -
اینٹوں کے بیچ کے مسالوں،
پلاسٹر بورڈ، اور چنائی پر،
بنیاد کی دیواروں میں، اور جلد ہی
صرف جوشی مٹھ تک محدود نہیں تھیں۔
اس نے انہیں وبائی مرض کی طرح پھیلتے دیکھا،
پہاڑوں کے پار، ملک میں سڑکوں پر،
اس کے پیروں کے نیچے کی زمین کے اندر،
پٹائی سے زخم کھائے اس کے جسم، اس کی روح کے اوپر۔

اب بہت دیر ہو چکی تھی
اور، کہیں جانا ممکن نہ تھا
دیوتا اٹھ کر چلے گئے تھے۔

دعاؤں کا وقت نہیں تھا
بہت دیر ہو چکی تھی جو پرانی باتیں سنی جاتیں
کچھ بھی بچانے کو بہت دیر ہو چکی تھی۔
ان دراڑوں میں دھوپ بھرنا بیکار تھا۔
گرم آنچ پر پگھلے شالی گرام کی طرح،
پھوٹتا جا رہا اندھیرا
کسی انجان غصے، گہری نفرت جیسا
سب کچھ نگل رہا تھا۔

وادی میں، اس کے گھر کے پیچھے
کس نے چھینٹ دیے تھے منحوس پھلیوں کے بیج؟
اس نے یاد کرنے کی کوشش کی۔
یا کیڑے لگ گئے تھے اس کی بیلوں میں
اور اس کی جڑیں پھیل گئی تھیں آسمان میں؟
اس زہریلی بیل کے اوپر کس کا محل کھڑا ہو سکتا تھا؟
اگر وہ اس شیطان سے ملتی، تو کیا اسے پہچان پاتی؟
کیا اس کی بانہوں میں طاقت بچی ہوتی
کلہاڑی چلانے کی؟
نجات کی تلاش میں کوئی کہاں جائے؟
تھک ہار کر، اس نے ایک بار اور سونے کی کوشش کی،
اس کی پوری کھلی آنکھیں
چڑھتی اترتی رہیں
کسی مدہوشی کے عالم میں،
اور، پھلیوں کی جادوئی بیلیں
پرانی دیواروں پر اگتی جا رہی تھیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez