اتر پردیش کے چترکوٹ ضلع کے مانک پور ریلوے جنکشن پر ہر صبح الگ الگ گاؤوں کے لوگ آتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر آدیواسی اور دلت برادری کے ہوتے ہیں۔ وہ شیئر کی جانے والی جیپوں اور آٹو رکشہ یا سائیکل سے، تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر کے دائرہ میں پھیلے گاؤوں سے آتے ہیں۔ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی سرحد پر پاٹھا کے جنگلوں سے، ایندھن کی لکڑی کے سینکڑوں بنڈل لے آتے ہیں؛ جن میں سے ہر بنڈل کا وزن ۲۰ سے ۵۰ کلو کے درمیان ہوتا ہے۔
انہیں آس پاس کے علاقوں کے بازاروں میں فروخت کرنا ان کنبوں کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ حالانکہ، درختوں کے تحفظ سے متعلق قوانین درختوں کی کٹائی پر روک لگاتے ہیں؛ ایندھن کی لکڑی بیچنے والی مقامی برادریوں کے پاس بہت کم یا کوئی زرخیز زمین نہیں ہے۔ اس کے علاوہ، معاش کے لیے ان کے پاس واحد متبادل رہ جاتا ہے، آس پاس کے شہروں میں تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرنا۔
عام طور پر تیندو اور پلاش کے درختوں کی لکڑیوں کے بنڈل لیکر، یہ مسافر ٹرینوں کے ذریعے مانِک پور سے کَروی (مانِک پور سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور) سے یا شنکر گڑھ (تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور) سے، الہ آباد کی طرف ٹرین کے راستے میں موجود الگ الگ علاقوں میں بیچنے جاتے ہیں۔
دن کے آخر میں وہ ۱۵۰-۳۰۰ روپے تک کماتے ہیں، جو ایندھن کی لکڑی کی کوالٹی، موجودہ موسم، اور مانگ کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔

لکڑی کاٹی جا رہی ہے، جسے بعد میں مانِک پور ریلوے جنکشن اور دوسرے اسٹیشنوں پر لے جایا جائے گا، اور پھر ٹرین کے راستے سے الگ الگ شہروں و علاقے کے بازاروں میں لے جایا جائے گا

ایندھن کی لکڑیوں کی اپنی روزانہ کی کھیپ لیکر، ڈَیم کے آبی دروازہ کو پار کرتی عورتیں

پاس کے جنگل سے لکڑیاں اکٹھا کرکے، منداکنی ندی کی ایک معاون ندی کو پار کرتے ہوئے

ایندھن کی لکڑیوں کے بھاری بنڈلوں کے ساتھ ندیوں، سڑکوں، اور ریلوے کو پار کرتے ہوئے

شنکر گڑھ اسٹیشن پر ٹرین میں ایندھن کی لکڑیوں کو لادنے کا انتظار

ٹرین چترکوٹ دھام (کَروی) شہر پہنچنے والی ہے، جہاں کچھ لوگ لکڑیاں فروخت کرنے کے لیے اتریں گے

ٹرین کے جسرا رکنے پر، ایک ایک کرکے بڑے بڑے بنڈلوں کو اتارا جا رہا ہے

روزمرہ کی زندگی کی جدوجہد سے نمٹنے کے بعد تھکے ہارے واپسی۔ ایندھن کی لکڑی فروخت کرکے مشکل سے ۱۰۰-۳۰۰ روپے روزانہ ملتے ہیں، جو کوالٹی، موسم، اور مانگ کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں
اس اسٹوری میں کسی کا نام استعمال نہیں کیا گیا ہے، کیوں کہ لکڑیاں فروخت کرنے والے لوگ اپنا نام نہیں بتانا چاہتے تھے۔
مترجم: محمد قمر تبریز