uploads/Articles/P. Sainath/Solar panels and solidarity/7wsai52_ps-solar_panels_and_solidarity.jpg

ایڈمالاکوڈی کی تمام عورتوں کا تعلق موتھاوَن قبیلے سے ہے۔ ان میں سے تقریباً سبھی، کیرلہ کی غریبی مخالف اور جنسی انصاف کی انوکھی تحریک ’کوڈُمباشری‘ کی اراکین ہیں۔ تصویر: مادھوری، ہفتہ وار ’ماتھروبھومی‘


ایڈمالاکوڈی کی ۶۰ عورتیں جب پہاڑ، جنگل اور ہاتھیوں والے علاقے سے ۱۸ کلومیٹر پیدل چلتے ہوئے اپنے سروں پر سولر پینلس (سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والی پلیٹیں) اٹھاکر لائیں، تو انھوں نے ایک طرح سے تاریخ رقم کی۔ کیرلہ کی دور افتادہ پنچایت یا گاؤں کی منتخبہ کونسل میں بجلی نہیں ہے۔ دیگر علاقوں سے کٹے ہوئے اس گاؤں میں آباد ۲۴۰ گھرانوں کے پاس بجلی کا واحد ذریعہ سولر پینلس اور بیٹریاں ہیں۔ اس بجلی سے آپ ٹیلی ویژن بھی چلا سکتے ہیں۔

ان کے بار بار پریشان کرنے پر جب گاؤں کی پنچایت نے تمام گھروں میں سولر پینل لگانے کی تجویز پر عمل کیا، تو ان عورتوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ انھوں نے ۹ کلوگرام وزن کے ہر ایک پینل کو اپنے سروں پر اٹھایا اور پیٹی موڈی سے یہاں تک اوبڑ کھابڑ، پہاڑی، اتار چڑھاؤ والے دشوار راستوں سے ہوتے ہوئے انھیں یہاں تک لے کر آئیں۔ پیدل چل کر۔ کیرلہ کے ایڈوکی ضلع کی پہلی آدیواسی پنچایت، ایڈمالاکوڈی تک پہنچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ انھوں نے ’’ چومٹّو کوٹّم‘‘ (بوجھ ڈھونے والی عورتوں کا گروپ) کی تشکیل کی تھی، جس سے بوجھ ڈھونے والے مرد کافی ناراض ہوئے، جن کا اس کام پر اکیلا قبضہ تھا۔


01-p1020190_ps_solar_panels_and_solidarity.jpg

۳۰ کوڈومبا شری ممبران پر مشتمل گروپ کی عورتوں نے ہم سے ’سوسائٹی کوڈی‘ کے طور پر بات کی


سبھی عورتیں آدیواسی ہیں (ہندوستان کی ’پہلی باشندہ‘، جس میں سینکڑوں قبیلے شامل ہیں)۔ سبھی موتھاوَن قبیلہ کی ارکان ہیں۔ اور تقریباً سبھی، کیرلہ کی غریبی مخالف اور جنسی انصاف کی انوکھی تحریک، کوڈومباشری کی سرگرم ممبران ہیں، اس تحریک سے اب تک تقریباً چالیس لاکھ عورتیں جڑ چکی ہیں۔

’’اس میں ہمیں ۹ گھنٹے لگ گئے،‘‘ رمانی ارجنن مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، وہ پنچایت کی کوڈومباشری اکائیوں کی چیئرپرسن ہیں۔ (یہ عورتیں اکثر اپنی تحریک کو ’’سی ڈی ایس‘‘ ۔۔۔ کمیونٹی ڈیولپمنٹ سوسائٹی، کے نام سے پکارتی ہیں)۔ ’’ان میں جو زیادہ طاقتور تھیں، انھوں نے اپنے سروں پر دو پینلس اٹھائے۔ دوسری عورتوں نے ایک بار میں صرف ایک پینل۔ آپ نے راستہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ یہ آسان نہیں تھا۔ لیکن ہم نے اس کام کو انجام دیا۔‘‘

’’ہر پینل کے ہمیں ۸۵ روپے ملے،‘‘ رمانی بتاتی ہیں۔ ’’اور اس کے علاوہ الگ سے ۱۸۰ روپے بھی ملے، کیوں کہ یہ کام پنچایت کے لیے کیا گیا تھا، جہاں سے قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم یا این آر ای جی ایس (نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم) کے تحت ایک دن کی ۱۸۰ روپے مزدوری دی جاتی ہے۔‘‘ لہٰذا، جو عورت دو پینلس لے کر آئی، اسے ۳۵۰ روپے ملے۔ اس قسم کی گوریلا مزدوری کے بدلے یہ بہت زیادہ پیسہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی، یہ رقم اس سے کہیں زیادہ تھی جو اس دورافتادہ علاقہ میں عام دنوں میں کام کرنے کے بدلے ملتی ہے۔ رمانی کہتی ہیں کہ وہ اس قسم کے مزید کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ شریف ہیں، نرم گو ہیں، پھر بھی ایک طاقتور لیڈر ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/Solar panels and solidarity/rescaled/1024/02-p1020205_ps_solar_panels_and_solidarity.jpg

ایڈمالاکوڈی کی سی ڈی ایس خواتین چھوٹے کھیتوں پر ’گروپ فارمنگ‘یا مشترکہ کھیتی کا کام کرتی ہیں


لیکن کوڈومباشری یا ایڈمالاکوڈی کی ’سی ڈی ایس‘ جماعتیں اس سے بھی زیادہ چنوتی بھرے کام کرتی ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے کھیتوں پر ’گروپ فارمنگ‘ یا مشترکہ کھیتی کا کام کرتی ہیں۔ وہ کھانے کے اناج پر توجہ مرکوز کرتی ہیں اور، اس میں بھی، آرگینک کھیتی پر زیادہ دھیان دیتی ہیں۔ وہ فصل بدل بدل کر بھی کھیتی کرتی ہیں۔ ’’نہیں، ہم کیمیاوی کھادوں کا استعمال نہیں کرتے۔‘‘ اور ’’ہم نے کوئی درخت بھی نہیں کاٹے ہیں۔‘‘

یہ بہت ہی مشکل کام ہے۔ لیکن وہ کامیاب کسان ہیں۔ واحد پریشانی یہ ہے کہ یہ علاقہ جنگل والا ہے، جہاں کے ہاتھی، جنگلی سور اور دیگر جانور اکثر ان کی اچھی فصلوں کو برباد کر دیتے ہیں۔ کاشت کاری کہیں پر بھی خطروں سے بھرا کام ہے، لیکن یہاں پر مزید خطرہ جان کا بھی ہے۔ چونکہ یہ جنگل کی زمین ہے، اس لیے ان کے پاس اس کا کوئی پٹّہ (مالکانہ اختیار) نہیں ہے، نہ ہی انھیں کبھی ملے گا۔ پھر بھی، مینڈھ یا دو کھیتوں کے درمیان امتیاز کرنے والی لائن کسی کو دکھائی نہیں دیتی، لیکن آدیواسی اسے اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ’’ایڈمالاکوڈی میں کل ۴۰ سی ڈی ایس گروپس ہیں،‘‘ رمانی بتاتی ہیں۔ ’’ان میں سے ۳۴ گروپ کاشت کاری میں مصروف ہیں۔ ہر گروپ میں پانچ ممبران یا کنبے شامل ہیں۔‘‘ ان کے آس پاس کوڈومباشری کی تقریباً ۳۰ دیگر ممبران بیٹھی ہوئی ہیں، اپنے اپنے تبصروں اور گفتگو میں مصروف۔ ان میں شانتی شیوم ہیں، کاماکشی دیوندرن، کوشلیا لوگانن، ملیگا موتھوپنڈی، وغیرہ ہیں۔ الگ الگ سوچ کی عورتیں بول رہی ہیں۔



(بائیں) رمانی ارجُنن، ایڈمالاکوڈی پنچایت میں ’سی ڈی ایس‘ کی چیئرپرسن۔ (دائیں) سی ڈی ایس ممبر


’’ہمارے فارمنگ گروپس (کرشی سنگھ) راگی، دھان اور دوسرے غذائی اناج اُگاتے ہیں۔ ہم تھوڑی کساوا سوجی اور اِسپغول بھی اُگاتے ہیں۔ کچھ عورتیں تو الائچی کی بھی فطری پیداوار کرتی ہیں۔ ’’لیکن زیادہ تر، ہم غذائی اناج پیدا کرتے ہیں۔‘‘

’’فصلیں اچھی طرح تیار ہوگئیں۔ چیزیں سب ٹھیک تھیں۔ لیکن دو پریشانیاں تھیں۔ اوّل: جنگلی جانوروں نے ہماری پہلی فصل کا ۵۰ فیصد حصہ برباد کر دیا۔ دوم: بچے ہوئے اناج کے لیے بازار کہاں ہے؟ ہمیں وہاں تک پہنچنے کے لیے جنگلی ہاتھیوں والے ۱۸ کلومیٹر کے راستے سے پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔‘‘

بازار کتنا ضروری ہے؟ ’’یہ بات پوری طرح صاف ہے کہ ہمارا پہلا مقصد اپنے گھر والوں کو کھانا کھلانا ہے۔ اس کے بعد اگر کچھ بچ جاتا ہے، تو ہم اسے لے کر بازار تک جاتے ہیں۔ تاہم، اس سے بھی ہمارا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کو بیچ کر ہم اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتے ہیں۔ لیکن وہاں تک جانے کے لیے کوئی سڑک نہیں ہے۔ کوئی بس یا ٹرین نہیں ہے۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/Solar panels and solidarity/rescaled/1024/05-p1020197_ps_solar_panels_and_solidarity.jpg

ان عورتوں کا پورا اعتماد ہے کہ وہ اپنے بینک کھاتے چلا سکتی ہیں


’’ہمیں یہاں ایک بینک برانچ کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے کچھ ہی کے پاس بینک کھاتے ہیں۔‘‘ کیرلہ کا یہ پہلا گاؤں ہے، جہاں کی صدر نے اپنے نام کا دستخط کرنا حال ہی میں سیکھا ہے۔ لیکن اِن عورتوں کو پورا اعتماد ہے کہ وہ اپنے کھاتے چلا سکتی ہیں۔ یہاں کی سی ڈی ایس جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں اور بچت سے پچاس ہزار کے قریب روپے اکٹھا کیے ہیں، جسے انھوں نے ایک سرکاری بینک میں فکسڈ ڈپوزٹ کے طور پر جمع کرایا ہے۔ ان کے لیے بازار سے جڑی ہوئی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔

ان کے لیا زیادہ اہم کیا ہے: مشترکہ کھیتی (گروپ فارمنگ) یا انفرادی کھیتی؟ دونوں کا اپنا رول ہے، وہ کہتی ہیں۔

’’مشترکہ کھیتی زیادہ اچھی ہے،‘‘ رمانی کہتی ہیں، ان کے آس پاس بیٹھی ہوئی دیگر عورتوں بھی ان کی حمایت میں گردن ہلاتی ہیں۔ ’’مشترکہ کام میں، اگر کوئی ایک پچھڑ جاتا ہے، تو دوسری عورتیں اس کی مدد کریں گی۔‘‘ ’’میں انفرادی کھیتی بھی کرنا چاہتی ہوں،‘‘ ایک دوسری عورت کہتی ہے۔ ’’اس کے اپنے فائدے ہیں۔ اس طریقے سے ہم اپنی فیملی کو بہتر ڈھنگ سے کھانا کھلا سکتے ہیں۔ گروپ کے طور پر، کھیتی کے علاوہ دوسرے اثرات بھی ہیں۔ ممبران ایک دوسرے کے حامی و ناصر بن جاتے ہیں۔ یہ چیز بعد میں خود فیملی میں بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے ہم دونوں ہی کیوں نہ کریں؟‘‘

یورک یونیورسٹی، ٹورنٹو کی پروفیسر اننیا مکھرجی نے ان گروپوں کی فوڈ سیکورٹی سے متعلق جدید طریقِ کار پر لکھا ہے۔ ’’کیرلہ بھر کی تقریباً ڈھائی لاکھ کوڈومباشری عورتیں مشترکہ کھیتی کے لیے ایک ساتھ جمع ہوئیں، جو مشترکہ طور پر کھیت پٹّہ پر لیتی ہیں، اسے جوتتی ہیں، وہاں سے ہونے والی پیداوار سے اپنی غذائی ضروریات پورا کرتی ہیں اور بچے ہوئے اناج کو مقامی بازاروں میں بیچ دیتی ہیں۔ ’’یہ،‘‘ بقول ان کے، ’’زراعت میں عورتوں کی حصہ داری کو بڑھاتا ہے ۔۔۔۔۔ (اور) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عورتوں کا، پروڈیوسرز کے طور پر، غذائی پیداوار، اس کی تقسیم اور استعمال پر کنٹرول ہے۔‘‘

ایڈمالاکوڈی کی عورتیں یہ سبھی کام مشکل ترین حالات میں کرتی ہیں۔

ہم نے ان سے سوال کیا، ’’آپ خود کو پروڈیوسر (پیدا کرنے والی) کے طور پر دیکھنا چاہیں گی، یا مزدوروں کے طور پر؟ یا تنخواہ دار کامگاروں کے طور پر؟‘‘ ان میں سے ہر ایک خود کو ایک پروڈیوسر کے طور پر دیکھنا چاہتی ہیں، اور دیکھتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/Solar panels and solidarity/rescaled/1024/06-p1020196_ps_solar_panels_and_solidarity.jpg

سی ڈی ایس عورتیں کہتی ہیں کہ ایک گروپ کے طور پر کھیتی کے علاوہ دوسرے اثرات بھی ہیں۔ ممبران ایک دوسرے کے لیے حمایت و نصرت کا ذریعہ بن جاتی ہیں


ہم نے رمانی سے ایک اور سوال کیا۔ ’’آپ کہتی ہیں، ان زمینوں کے آدیواسی عوام کے طور پر، جنگلات پر آپ کا قبضہ ہونا چاہیے۔ یہ کہ جس نئی سڑک کو بنانے کا منصوبہ چل رہا ہے، وہ جنگل کو ختم کر دے گا اور موتھاونوں کو برباد۔ ساتھ ہی آپ کی یہ بھی شکایت ہے کہ اپنی پیداوار کو بازار تک لے جانے کے لیے آپ کو مشکل راستوں سے ایک جانب ۱۸ کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس کے لیے آپ چاہتی ہیں ایک سڑک بنے۔ کیا اس میں تضاد نہیں ہے؟‘‘

بالکل نہیں،‘‘ رمانی جواب دیتی ہیں۔ ’’ہم کھلے ہائی وے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم ایسی سڑک چاہتے ہیں، جس پر ’’صرف جیپ‘‘ چلے، جہاں سب کی رسائی نہ ہو۔  جب اس پر جنگلات سے متعلق قانون نافذ ہوگا، تو یہاں کانکنی کرنے والے، ٹِمبر یا عمارتی لکڑی ڈھونڈنے والے یا دوسرے باہری لوگ نہیں آ پائیں گے۔ ہم یہاں سے اجاڑے نہیں جائیں گے۔ لیکن بازار تک ہماری رسائی ہوگی۔‘‘

اب اندھیرا ہونے لگا ہے اور وہ عورتیں جو دوسری، دور افتادہ بستیوں سے ’سوسائٹی کوڈی‘ آئی ہیں، انھیں واپس جانا ہے۔ انھیں کم روشنی میں جنگل کے بیچ سے ہوکر لمبا سفر طے کرنا ہوگا۔

آٹھ آدمیوں کا ہمارا یہ قافلہ ۱۸ کلومیٹر پیدل چل کر تھکا ماندہ یہاں پہنچا۔ حالانکہ ہم اپنے سروں پر کوئی سولر پینل اٹھاکر نہیں لائے تھے۔ ہم یہاں صرف ان انوکھے ’سی ڈی ایس‘ گروپوں سے بات کرنے کے لیے آئے تھے۔ کیرلہ کے وزیر برائے مقامی انتظامیہ، ایم کے منیر نے ریاست کی راجدھائی تھیرووننتھاپورم میں ہمیں بتایا تھا کہ ایڈمالا کوڈی کے گروپس کوڈومباشری کے معیاروں سے بھی زیادہ اسپیشل ہیں۔ تب اس وقت مجھے تھوڑا تعجب ہوا تھا۔ ہونا بھی چاہیے، جب ایک وزیر اپنے علاقے کی کوششوں کے بارے میں تعریف کرنے لگے۔ تاہم، ایڈمالاکوڈی کی عورتوں سے ملنے کے بعد، آپ سوچ سکتے ہیں کہ وزیر موصوف ان کی حصولیابیوں کو سمجھنے لگے تھے۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/Solar panels and solidarity/rescaled/1024/07-p1020211_ps_solar_panels_and_solidarity.jpg

گھومنے والا ہمارا قافلہ کوڈومباشری کی چند عورتوں کے ساتھ، جب وہ لمبے راستے پر نکلنے ہی والی تھیں

اس اسٹوری کا ایک حصہ بی بی سی نیوز (آن لائن) نے انگریزی اور ہندی میں شائع کیا تھا۔ سب سے پہلے اس کا ملیالم ورژن، ہفتہ وار ’ماتھروبھومی‘ میں چھپا تھا۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez