شمالی کولکاتا میں کمہاروں اور مورتی سازوں کی تاریخی بستی کمارتُلی کے کرشنا اسٹوڈیو کے تپس پال کہتے ہیں، ’’کورونا کی وجہ سے مجھے اب تک دیوی درگا کی مورتی بنانے کا کوئی آرڈر نہیں ملا ہے۔ لیکن میں نے اپنے طور پر کچھ مورتیاں گڑھ لی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ فروخت ہو جائیں گی۔‘‘ تپس مزید کہتے ہیں، ’’آپ مجھے آٹھ سال سے زیادہ عرصے سے جانتے ہیں، کیا آپ نے جون کے وسط میں میرے اسٹوڈیو کو کبھی اس طرح مورتیوں سے خالی دیکھا ہے؟‘‘

اس وقت تک کمارتلی کی تقریباً ۴۵۰ اسٹوڈیوز (جو مقامی کاریگروں کی انجمن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں) بانس اور بھوسے کے فریموں سے بھر گئے ہوتے۔ ان فریموں کے اوپر مٹی کی پرت چڑھا کر مورتی بنائی جاتی ہے۔ اکتوبر میں درگا پوجا کی تقریبات شروع ہونے سے چند ہفتے قبل مورتیوں کو پینٹ اور زیورات سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ ( دیکھیں کمہار ٹولی کے شب وروز )

مورتی بنانے کی تیاریاں ہر سال مارچ/اپریل سے ہی شروع ہوجاتی تھیں۔ لیکن کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے اس سال کمارتلی میں ان تیاریوں میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ گزشتہ ۲۰ سال سے مورتی سازی کا کام کرنے والے مرتیونجے مترا کہتے ہیں، ’’ہمارے لیے یہ ایک خوفناک سال ہے۔ اپریل کے بعد سے ہمارا نقصان بڑھنا شروع ہو گیا تھا۔ سب سے پہلے بنگالی نئے سال [پوئلا بیساکھ، اس سال ۱۵ اپریل کو تھا] کے دوران اناپورنا جیسی گھریلو دیوی کی مورتیاں فروخت نہیں ہوئیں۔ پوری کالونی میں تقریباً ۱۰۰ مورتیاں گڑھی گئیں تھیں، لیکن ان میں سے صرف ۸ سے ۱۰ ہی فروخت ہو سکیں۔ ہمارا سارا پیسہ ضائع ہو گیا۔ درگا کی مورتی بنانے کا ابھی تک مجھے کوئی آرڈر نہیں ملا ہے۔‘‘

مرتیونجے مترا کی طرح کمار تلی کے دوسرے کمہار بھی ۱۸ویں صدی سے دیوی درگا کی مٹی کی مورتیاں بناتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کولکاتا کے رئیس زمینداروں اور تاجروں نے انہیں اپنے گھروں میں منعقد ہونے والی سالانہ درگا پوجا کی تقریبات کے لیے مورتی بنانے کا کام دینا شروع کیا تھا۔ زیادہ تر کاریگروں کا اصل وطن نادیہ ضلع کا کرشن نگر قصبہ تھا۔ جب کولکاتا میں ان کے ہنر کی مانگ بڑھنے لگی، تو وہ ہجرت کرکے شمالی کولکاتا میں دریائے ہگلی کے کنارے کمارتلی میں آکر آباد ہوگئے۔

۱۸ جون کو جب میں کمہاروں کی اس تاریخی بستی میں پہنچا تھا، تو کولکاتا میونسپل کارپوریشن کا عملہ ۲۰ مئی کو شہر میں داخل ہوئے امفن طوفان کی زد میں آکر گرے ایک درخت کو ہٹا رہا تھا۔ عام طور پر چہل پہل اور بھیڑ بھاڑ والے اس علاقہ میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ زیادہ تر کاریگروں کے اسٹوڈیوز بند پڑے تھے۔ جو کھلے تھے ان میں مورتی سازی کا کام نہیں ہو رہا تھا۔ دیوی دیوتاؤں کی ٹوٹی پھوٹی اور نامکمل مورتیاں سڑکوں پربکھری پڑی تھیں۔ پچھلے سالوں میں کسی بھی جون مہینے میں ایسا نہیں دیکھا گیا تھا۔ مورتیوں کے زیورات کا کاروبار کرنے والی دکانیں کھلی ہوئی تھیں، لیکن وہاں بھی کوئی خریدار نہیں تھا۔

کمارتلی میں جن کاریگروں سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھے بتایا کہ ۲۰۱۹ میں ان کا اجتماعی کاروبار ۴۰ کروڑ روپے کا تھا، جس کا ایک بڑا حصہ دیوی درگا کی مورتیوں کی فروخت سے حاصل ہوا تھا۔ وہ دوسرے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی بناتے ہیں، اور بعض اوقات انہیں فلموں کے لیے مٹی کے مجسمے بنانے کا کام بھی مل جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ مٹی کے برتن بھی بناتے ہیں۔ کووڈ۔۱۹ سے پہلے انہیں امید تھی کہ اس سال فروخت میں اضافہ ہوگا، لیکن اس وبائی مرض نے ہر چیز پر روک لگا دی ہے۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کمارتلی کی سڑکوں پر دیوی درگا اور دیگر دیوی دیوتاؤں کی نامکمل مٹی کی مورتیاں بکھری پڑی ہیں۔ کمہاروں کا کہنا ہے کہ اس سال معمول کے مطابق کاروبار نہیں ہوا

بیڑی کا کش کھینچتے ہوئے مرتیونجے نے مجھے بتایا کہ ان میں سے بہتوں کو اس سال ۲۳ جون کو نکالی گئی جگن ناتھ رتھ یاترا کے دن آرڈر موصول ہونے کی توقع تھی۔ دیوی درگا کی مورتی بنانے کا کام شروع کرنے کے لیے اس دن کو مبارک سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن اب مجھے شک ہے۔ یہاں تک کہ بینک بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارا کاروبار اب منافع بخش نہیں رہا۔ کوئی بھی ہمیں [قلیل مدتی] قرضوں کی پیشکش نہیں کر رہا ہے۔ ہمیں ہر سال تقریباً ۷ لاکھ روپے کے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے، جو آٹھ ماہ [مارچ سے اکتوبر] تک اٹکے رہتے ہیں۔ لہذا، ہمارے پاس کمانے کے لیے تقریباً چار مہینے ہیں اور سال بھر اسی پر گزارہ کرنا ہے۔ اس سال یہ کیسے ممکن ہوگا؟‘‘

کمہاروں کے ذریعہ بنائی جانے والی دیوی درگا کی مورتیاں سائز اور قیمت میں مختلف ہوتی ہیں۔ گھر کے لیے بنی ایک سادہ، ۶ فٹ کی مورتی تقریباً ۳۰ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ شہر کے مختلف محلوں میں اجتماعی پوجا کے لیے پنڈالوں کے ذریعے لمبی اور زیادہ تفصیل سے سجائی ہوئی مورتیاں بنوائی جاتی ہیں۔ یہ اوسطاً ۱۰ فٹ لمبی ہوتی ہیں اور ان کی قیمت ۱ لاکھ سے ۲ لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔

کارتک پال ایک تجربہ کار مورتی ساز ہیں، انہیں رتھ یاترا کے لیے چند آرڈر موصول ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ آرڈر گھر کے اندر ہونے والی پوجا کے لیے ہیں۔ بڑے [پنڈال] والے خاموش بیٹھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آج کے بعد چیزیں بدلیں گی۔ لیکن میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ پچھلے سالوں کی طرح نہیں ہوں گی۔‘‘

ہو سکتا ہے پال صحیح ہوں۔ نیمائی چندر پال کمارتلی میں ہرسال نصب کیے جانے والے ایک بڑے پنڈال کی میزبانی کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سیزن میں کمہاروں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس ۳۰ سے ۴۰ لاکھ روپے کا بجٹ ہوتا تھا۔ اس کی فنڈنگ زیادہ تر کارپوریٹ اسپانسرز کی جانب سے ہوتی تھی۔ ان اسپانسرز میں سے کسی نے بھی اس سال کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ ہم نے ایک کاریگر کو کچھ پیشگی رقم دی تھی، لیکن پھر آرڈر منسوخ کر دیا۔‘‘ پال کی کمیٹی نے اس سال بہت کم بجٹ کے ساتھ درگا پوجا منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے اندیشہ ہے کہ دیگر بڑی بجٹ والی کمیٹیاں بھی ایسا ہی کریں گی۔‘‘

کاریگروں کو آرڈر کی کمی کے علاوہ دیگر مسائل کا بھی سامنا ہے۔ کارتک سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’یومیہ اجرات والے مزدور [جو مورتی سازوں کی مدد کرتے ہیں] کام پر نہیں آ سکتے، کیونکہ ٹرینیں بند ہیں۔ یہ مزدور دور دراز کے اضلاع سے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاک ڈاؤن اور امفن کی وجہ سے خام مال کی قیمتوں میں بھی تقریباً ۳۰ سے ۴۰ فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم اپنے نقصان کی تلافی کیسے کریں گے؟‘‘ ان کے پاس بیٹھے منٹو پال نے کہا کہ وہ شکر گزار ہیں کہ پوجا کمیٹیوں نے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران اور امفن کے بعد کمارتلی کے کاریگروں کو راشن پہنچا کر مدد کی ہے۔

مہین پال کہتے ہیں، ’’دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں پر جو خوبصورت زیورات آپ دیکھتے ہیں وہ نادیہ اور ہگلی اضلاع کے دیہاتوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔ زیوارات بنانے والے کاریگر بھی بے روزگار ہیں۔ تقریباً ۶۰ سے ۷۰ خاندان مورتیوں کے لیے مصنوعی بال تیار کرتے ہیں۔ وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مورتیوں کے لیے چکنی مٹی جنوبی ۲۴ پرگنہ، شمالی ۲۴ پرگنہ اور مالدہ اضلاع سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ مٹی کشتی کے ذریعے لائی جاتی ہے۔ اسے لانے والے مزدورں کے پاس فی الحال آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک مورتی ساز درگا کی مورتی کے لیے بنے بانس اور بھوسے کے فریم پر مٹی کی پرت چڑھا رہا ہے۔ مورتی سازی ایک محنت طلب کام ہے، جس میں مہارت اور وقت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کمارتلی کے کمہاروں نے ۴۰ کروڑ روپے کا کاروبار کیا تھا

PHOTO • Ritayan Mukherjee

مٹی کی تیار مورتیوں کو پلاسٹک سے ڈھک کر اسٹوڈیو میں محفوظ کیا جاتا ہے، تاکہ مانسون کے طویل مہینوں میں ان کی حفاظت کی جا سکے۔ درگا پوجا کی تقریبات شروع ہونے تک ان مورتیوں کو محفوظ رکھنا کمہاروں کے لیے ایک چیلنج ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کمارتلی میں ایک کمہار کے گودام کے باہر نامکمل مورتیوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ مارچ کے آخر میں کووڈ۔ ۱۹ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے ان کاریگروں کی مورتیوں کی مانگ نہیں برابر ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کمارتلی میں منٹو پال کا اسٹوڈیو پلاسٹر آف پیرس سے مجسمہ بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ انہیں فلموں کے سیٹس بنانے کے بھی آرڈر ملتے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران فلم کی شوٹنگ معطل ہونے سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

بہار، چھتیس گڑھ اور جھارکھنڈ کے یومیہ اجرت والے مزدور کمارتلی میں مورتی سازی کے عمل کا اہم جزو ہیں۔ وہ مٹی اور مورتیاں لاتے لے جاتے ہیں، اور وہ سبھی کام انجام دیتے ہیں، جن میں سخت جسمانی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ لاک ڈاؤن کے دوران گھر واپس چلے گئے ہیں۔ کمہار ان کی واپسی کو لے کر پریشان ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

بنگال کے دیہاتوں کے دستکاری کاریگر درگا پوجا کے لیے تیار کردہ اپنی مصنوعات شہر میں بیچنے کے لیے لاتے ہیں۔ اگر مورتیوں کی مانگ کم رہتی ہے یا پوجا کمیٹیاں اپنی تقریبات کو محدود رکھنے کا فیصلہ کرتی ہیں، تو اس سال ان کی کمائی متاثر ہو سکتی ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

عام طور پربھیڑ بھاڑ والی کمارتلی کی گلیاں اس سال ویران پڑی ہیں، نامکمل اور غیرفروخت شدہ مورتیوں کا انبار لگا ہوا ہے، جب کہ اس بزرگ غبارے والے کی طرح چند پھیری والے اب بھی کسی گاہک کی تلاش میں ادھرادھر بھٹک رہے ہیں

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کووڈ-۱۹ کا اثر کمارتلی میں ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ پہلے کسی بھی وقت سڑکوں پر بکھری ہوئی غیر فروخت شدہ مورتیوں اور شکستہ مجسموں کا نظارہ غیر متوقع تھا

PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک فنکار دیوی درگا کا چلچتر اٹھا کر لے جاتے ہوئے۔ چلچتر مورتی کے پیچھے آویزاں کیا جانے والا ایک پینٹ شدہ پس منظر ہوتا ہے۔ اسے سادہ اور لطیف رکھا جاتا ہے تاکہ یہ مورتی کی چمک کو ماند نہ کردے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نئی تھیم پر مبنی پنڈال کے ڈیزائنوں نے چلچتر کی مانگ کو متاثر کیا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کمارتلی کے ایک شروعاتی اسٹوڈیو جی پال اینڈ سنز میں کاروبار کم ہوگیا ہے۔ سنگ مرمر کے بڑے مجسمے، دیوی دیوتاؤں اور اہم شخصیات کی مورتیاں بنانے کے لیے مشہور اس اسٹوڈیو کی تخلیقات ہندوستان کے کئی حصوں میں فروخت کی جاتی تھیں اور دوسرے ممالک کو بھی برآمد کی جاتی تھیں۔ لیکن وبائی امراض کے دوران نقل و حمل کی پابندیوں نے اس کے فروخت کو متاثر کیا ہے

PHOTO • Ritayan Mukherjee

کمارتلی کی تنگ گلیاں، جہاں عام طور پر جون میں جگن ناتھ رتھ یاترا کے دوران چہل پہل رہتی ہے، ویران پڑی ہیں

مترجم: شفیق عالم

Ritayan Mukherjee

Ritayan Mukherjee is a Kolkata-based photographer and a PARI Senior Fellow. He is working on a long-term project that documents the lives of pastoral and nomadic communities in India.

Other stories by Ritayan Mukherjee
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam