وہ آئے، مارچ نکالا، نعرے لگائے – ملک کی پارلیمنٹ کے ٹھیک سامنے۔ انھوں نے سیاسی قیادت کو مخاطب کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اور اخیر میں، وہ چلے گئے، اپنا سر اونچا اٹھائے ہوئے۔

لیکن یہ آسان نہیں تھا۔ تارا دیوی ۳۰ نومبر کی ٹھنڈی صبح کو جب سوکر اٹھیں، تو ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں۔ ’’میرا جسم کھلے آسمان کے نیچے [رام لیلا میدان میں] زمین پر سونے سے اکڑ گیا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اس سے ایک رات قبل، وارانسی سے یہاں آتے ہوئے تارا دیوی نے ٹرین میں ۱۴ گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا تھا۔ ’’میرے سویٹر پھٹے ہوئے ہیں۔ میرے پاس موٹا کمبل بھی نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ رضاکاروں کے ذریعے صبح ۸ بجے ناشتہ میں دی گئی کھچڑی کھانے کے بعد، وہ رام لیلا میدان کے سب سے مصروف اسٹال تک پہنچتی ہیں – جہاں رضاکار ڈاکٹروں کی ایک ٹیم شکایت لے کر اپنے پاس آنے والے ہر شخص کا علاج کر رہی ہے۔

مرکزی دہلی کے اس میدان میں ٹھہرے ہزاروں کسان، دواؤں کے لیے ڈاکٹروں کے پاس پہنچے۔ ۲۸ نومبر کی رات کو، جب ٹینٹ میں لائٹ نہیں تھی، تو کچھ کسانوں نے میڈیکل اسٹال پر کھڑی دو موٹر سائیکلوں کی ہیڈلائٹ جلاکر چھوڑ دی تھی۔ ’’ان میں سے زیادہ تر نے کھانسی، سردی اور درد کی شکایت کی ہے،‘‘ ڈاکٹر کے کے متل کسانوں کا علاج کرتے اور ان کے اوپر سے اپنی آنکھیں ہٹائے بغیر کہتے ہیں۔ ’’وہ اپنے کھیتوں سے چل کر دہلی کی آلودہ ہوا میں آئے ہیں۔‘‘

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge

رضاکاروں کے ذریعے دیا گیا ناشتہ کھانے کے بعد، تارا دیوی (بائیں) کو رام لیلا میدان میں ڈاکٹروں کے اسٹال پر، ڈاکٹر متل سے مدد لینے آنا پڑا تھا

تارا دیوی کہہ رہی ہیں کہ ان کے ہاتھ پیر میں چوٹ لگی ہے، پیٹ میں درد ہو رہا ہے اور متلی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر متل اپنی دواؤں میں سے ایک پیکٹ نکالتے ہیں اور انھیں پکڑا دیتے ہیں۔ ’’مجھے آج دن بھر فٹ رہتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

اس درمیان، اور بھی کسان رام لیلا میدان میں آتے ہیں، کچھ ڈھول بجا رہے ہیں، گانا گا رہے ہیں اور علاقائی رقص کر رہے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اب ان کی تعداد ۵۰ ہزار ہو چکی ہے، اور ماحول پوری طرح سے گرم ہے۔

آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈی نیشن کمیٹی، جو کہ ۱۵۰-۲۰۰ کسانوں جماعتوں کی ایک تنظیم ہے، نے ملک بھر کے کسانوں کو پارلیمنٹ مارچ کے لیے بلایا ہے، جو ملک کے زرعی بحران پر مرکوز ۲۱ دنوں کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ خصوصی اجلاس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس بحران نے ۱۹۹۵ سے ۲۰۱۵ کے درمیان ہندوستان بھر کے تین لاکھ سے زائد کسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا ہے۔

ہندوستان بھر کے ۱۰۰ سے زیادہ ضلعوں کے کسان مختلف رنگوں میں یہاں موجود ہیں۔ مہاراشٹر کے کسان لال ٹی شرٹ پہنے ہوئے ہیں، اترپردیش کے کسانوں کے پاس پیلے جھنڈے ہیں، مدھیہ پردیش سے آنے والے گروپ نے بیگنی ٹی شرٹ پہن رکھی ہے، جب کہ تمل ناڈو کا رنگ ہرا ہے۔ رام لیلا میدان امیدوں کا قوس قزح بن گیا ہے۔

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge

کسانوں کے قومی کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنا اور قرض معافی ان کے بنیادی مطالبات ہیں، لیکن الگ الگ علاقوں کے کسانوں کی ترجیحات اور مسائل الگ الگ ہیں۔

مغربی مہاراشٹر کے کسانوں کا ایک گروپ بھی آبپاشی کی سہولیات اور پانی کی کمی، اور نامناسب فصل بیمہ اسکیم کی شکایت کر رہا ہے۔ ریاست کے آدیواسی کسان حقوق جنگلات قانون، ۲۰۰۶ کو نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو انھیں طویل عرصے تک کھیت کی زمین پر حق فراہم کرتا ہے۔

پنجاب سے آئے کسانوں کے لیے، دھان اور گیہوں پر کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) ترجیح ہے۔ پٹیالہ شہر کے باہری علاقے میں رہنے والے جلٹار سنگھ کا کہنا ہے کہ کھاد اور حشرہ کش دواؤں کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ ڈیزل کی قیمت بڑھنے سے سرمایہ کاری لاگت بڑھی ہے، لیکن فصل کی قیمت اسی تناسب میں نہیں بڑھے ہیں۔ ’’کیا ۲۰ برسوں میں کسانوں کی زندگی بھی اسی رفتار سے بہتر ہوئی ہے جیسی بقیہ ملک کی؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں، جب منگل کی صبح ۱۰ بجے سبھی کسان رام لیلا میدان سے چار کلومیٹر دور، پارلیمنٹ اسٹریٹ جانے کے لیے دہلی کی سڑکوں پر اتر رہے تھے۔ ’’مودی حکومت نے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پنجاب میں کانگریس بھی اسے نافذ نہیں کر رہی ہے۔‘‘

PHOTO • Shrirang Swarge

احتجاج کرنے والوں کے ذریعے اٹھائے گئے جھنڈے اور بینر اب سڑک کے ایک کنارے کو گھیرنے لگے ہیں، جب کہ کسان بیریکیڈ اور سلامتی دستوں کے بیچ سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ خاتون کسان خودکشی کر چکے اپنے شوہروں کی تصویریں لے کر چل رہی ہیں۔ نعرے لگاتار لگائے جا رہے ہیں۔ مظاہرہ کر رہے یہ کسان دوپہر ۱۲ بجے پارلیمنٹ اسٹریٹ پہنچے، جہاں انھیں مخاطب کرنے کے لیے کسان لیڈروں کا اسٹیج تیار ہے۔

کچھ کسان پتلے ٹاٹ پر بیٹھ جاتے ہیں، اور کچھ بیٹھنے کے لیے زمین پر کاغذ بچھا لیتے ہیں؛ وہ سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک بھرے ہوئے ہیں۔ جو لوگ یہاں صبح میں پہنچے، وہ بھکری اور چٹنی اخباروں میں لپیٹ کر لائے ہیں۔ جو لوگ کئی دن پہلے دہلی آ گئے تھے، وہ ادھر ادھر گھوم کر سڑک پر لگے فوڈ اسٹالوں سے خرید کر کچھ کچھ کھا رہے ہیں۔

تقریر دوپہر کے ساڑھے چار بجے تک جاری رہتی ہے۔ ملک بھر کے کئی معروف کسان لیڈروں نے مجمع سے خطاب کیا۔ دوپہر کے بعد دھیرے دھیرے، اسٹیج کئی اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں سے لگاتار بھرتا چلا گیا۔ خاص طور سے، کانگریس صدر راہل گاندھی، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروِند کجریوال، نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، سماجوادی پارٹی کے شرد یادو اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار۔ ان سبھی نے زرعی بحران کی اندیکھی کرنے کے لیے موجودہ حکومت کی تنقید کی اور کھلے پلیٹ فارم سے کسانوں کی حمایت کی۔

PHOTO • Shrirang Swarge
PHOTO • Shrirang Swarge

پارلیمنٹ اسٹریٹ پر: کسانوں کا ماننا ہے کہ دہلی پہنچنے کے لیے ان کی یہ کوشش پوری طرح سے فائدہ مند رہی۔ بہار کی کوشلیا دیوی مارج کے بعد چاکلیٹ آئس کریم کا مزہ لے رہی ہیں

کچھ کسان غور سے تقریر سن رہے ہیں، تو کچھ اس دوپہری میں تین دنوں کی تکان دور کرنے میں لگے ہیں۔ شام کو، یہ تمام سرگرمیاں سمٹنے لگتی ہیں۔ یہ کسان اپنے اپنے تھیلے یا بیگ اٹھاتے ہیں، اور ملک کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے گھروں کی جانب سفر کرنے کے لیے تیار ہیں۔

’’کام ہو گیا؟ آگے کیا؟‘‘ ریلی میں موجود کچھ صحافی پوچھتے ہیں۔ لیکن کسانوں کا ماننا ہے کہ دہلی پہنچنے کے لیے ان کی یہ کوشش پوری طرح سے فائدہ مند رہی ہے۔ بہار کے نووا گاؤں کی سرپنچ، کوشلیا دیوی، مارچ سے امید کے ساتھ واپس لوٹتی ہیں: ’’سیاسی لیڈروں نے ہماری حمایت کی، صحافیوں نے ہماری ریلی کو کور کیا، اور اتنے سارے کسان جمع ہوئے،‘‘ مارچ کے بعد چاکلیٹ آئس کریم کا مزہ لیتے ہوئے، وہ کہتی ہیں۔ ’’یہ جان کر مطمئن ہوں کہ ہم اکیلے ہی متاثر نہیں ہیں، بلکہ ہزاروں دیگر لوگ بھی ہیں جو آپ کے مسائل شیئر کر رہے ہیں۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez