شیلندر بجرے اپنے کھیتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مایوس ہو جاتے ہیں۔ وہ گزشتہ ۱۵ برسوں سے ان کھیتوں پر کام نہیں کر پائے ہیں۔ ’’یہاں پر کچرے کا ڈپو ہونے کی وجہ سے اس کے زہریلے مادّے زیر زمین پانی میں گھل جاتے ہیں۔ بورویل سے نکلنے والا پانی گندا ہے، جسے ہم اپنے کھیتوں میں سینچائی کے لیے استعمال نہیں کر سکتے، کیوں کہ یہ فصل کو تباہ اور مٹی کو برباد کر دے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

بجرے جس ڈمپ سائٹ (کچرے ڈالنے کی جگہ) کا ذکر کر رہے ہیں، وہ ان کے گاؤں اُرولی دیوچی میں ہے، جو پُنے سے تقریباً ۱۷ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ گاؤں کے پاس موجود کچرے کا ڈھیر اتنا اونچا ہے کہ کچھ دوری سے یہ ایک انثر انگیز قدرتی پہاڑی جیسا لگتا ہے۔ لیکن حقیقتاً یہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے، جو گزشتہ ۳۰ برسوں سے دکانوں، اسکولوں اور گھروں کے آس پاس جمع ہو رہا ہے۔

سال ۱۹۸۱ میں، مہاراشٹر حکومت نے پُنے شہر کو اپنا کوڑا کرکٹ پھینکنے کے لیے اُرولی دیوچی میں ۴۳ ایکڑ زمین مختص کیا تھا؛ پھر سال ۲۰۰۳ میں شہر کے مسلسل بڑھتے ہوئے کچرے کو پھینکنے کے لیے پاس کے فرسُنگی گاؤں میں ۱۲۰ ایکڑ زمین دی گئی۔ مارچ ۲۰۱۴ تک پُنے میونسپل کارپوریشن (پی ایم سی) ان دونوں جگہوں پر پُنے کا تقریباً ۱۱۰۰ ٹن کوڑا پھینک چکی ہے۔ اس کے بعد گاؤں والوں کے طویل اور اب تک جاری احتجاج کی وجہ سے اکتوبر ۲۰۱۵ میں کوڑے کی مقدار گھٹا کر ۵۰۰ ٹن کر دی گئی ہے۔

لیکن، کوڑے کی مقدار گھٹا دینے سے ہوا اور پانی کے زہریلے ہونے کا سلسلہ نہیں رکا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں ایڈووکیٹ عاصم سرودے کی مدد سے متاثرہ گاؤں کے لوگوں نے اس کے خلاف نیشنل گرین ٹریبونل کی ویسٹ ژون بنچ میں عرضی دائر کی۔ اس درمیان کچھ ہدایات جاری کی گئی ہیں، جب کہ آخری سماعت کی تاریخ اب ۱۷ اگست طے کی گئی ہے۔

چونکہ کچرے کا کوئی ٹریٹمنٹ نہیں ہوتا، لہٰذا اس سے رِسنے والے مادّے زیر زمین پانی کو آلودہ کر دیتے ہیں، اور وہ پانی کھیت کی سینچائی کے قابل نہیں ہوتا۔ فرسُنگی گرام پنچایت کے ایک رکن، رنجیت راسکر، فضلے سے رِسنے والے مادّوں کے اثرات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرے کھیتوں میں اُگنے والی سبزیوں میں اب سیسہ (لیڈ) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ یہ کافی خطرناک مادّہ ہے، جو صحت پر اثر ڈال سکتا ہے۔‘‘


02-pic-2(Crop)-VL-Raising a Stink.jpg

اُرولی دیوچی کا پہاڑ نما اور صحت کے لیے نقصاندہ کوڑے کا ڈھیر


پارتھا بِسواس، جو پُنے میں مقیم ’انڈین ایکسپریس‘ کے رپورٹر ہیں اور جنھوں نے ماحولیات سے جڑے اس بڑے موضوع پر کافی لکھا ہے، بتاتے ہیں کہ گزشتہ چند برسںوں میں کچھ زمینیں بنجر ہوگئیں۔ پہلے گاؤں میں مکئی کے کھیت ہوا کرتے تھے، لیکن اب ان میں سے زیادہ تر مرکری (پارہ سیماب) اور آلودگی کی زیادہ مقدار کی وجہ سے برباد ہو چکے ہیں۔

عرضی گزاروں کے ذریعہ جولائی ۲۰۱۶ میں این جی ٹی کے سامنے جو ترمیم شدی عرضی داخل کی تھی، اس میں جانچ کے وہ مشاہدات بھی شامل ہیں، جو مہاراشٹر پالوشن کنٹرول بورڈ نے ستمبر ۲۰۰۵ میں کروائے تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سب ریجنل آفیسر، جس نے جانچ کی تھی، اس نے کچرے کی سائنسی پروسیسنگ کی کمی کو محسوس کیا تھا، جس کی وجہ سے کوڑے کا اتنا بڑا ٹیلہ وہاں بن گیا۔ کچرے کے اس ٹیلے سے رِسنے والا گندا پانی کٹراج ساسود روڈ سے ہوکر بہتا ہے اور اس نے کالا اوڈھا اور پھرسیجا اوڈھا نام کے پانی کے دو چشموں کو آلودہ کر دیا ہے، یہ دونوں چشمے منجری گاؤں کے قریب بہنے والی مولا موتھا ندیوں میں جاکر ملتے ہیں۔ افسر نے مشاہدہ کیا کہ زہریلے فضلے چار گرام پنچایتوں: اُرولی دیوچی، فرسنگی، شیلواڈی اور منجری کے باشندوں، جن کی تعداد کل ملا کر تقریباً چار لاکھ ہے، کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔


03-VL-Raising a Stink.jpg

ہانجر بایوٹیک انجینئرس پرائیویٹ لمیٹڈ پلانٹ کی خراب ہو چکی مشین، جسے اُرولی دیوچی میں واقع کچرا ڈپو کے اندر خشک فضلے کو پروسیس کرنے کے لیے لگایا گیا تھا


کچرے سے رِسنے والے مادّہ سے پانی جس طرح آلودہ ہوا، اس نے بجرے جیسے کسانوں کو اس لائق نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے کھیتوں کی سینچائی کے لیے صاف پانی حاصل کر سکیں۔ اب بجرے کے پاس آمدنی کا واحد ذریعہ ان کا چھوٹا سا کنسٹرکشن بزنس ہے۔ بقیہ دوسرے لوگوں کو اپنی آمدنی کا آس پاس کوئی دوسرا ذریعہ ڈھونڈنے پر مجبور ہونا پڑا؛ کچھ نے بڑھئی کا کام شروع کر دیا ہے، تو کسی نے سیکورٹی گارڈ کا۔

’’اگر میں آلودہ پانی کو استعمال کروں، تو یہ مٹی اور فصل کو نقصان پہنچائے گا،‘‘ بجرے کہتے ہیں۔ ’’یہاں تک کہ اب کنویں کا پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے۔ یہ سیاہ اور روغنی ہوگیا ہے۔ اب یہ استعمال کرنے کے لائق نہیں رہا۔ یہاں کے زیادہ تر کسان بارش کے پانی پر منحصر ہیں۔ پی ایم سی (پُنے میونسپل کارپوریشن) صرف پینے کے لیے پانی کے ٹینکر بھیجتی ہے۔‘‘


04-pic-6(Crop)-VL-Raising a Stink.jpg

بغیر ٹریٹمنٹ والے کچرے سے رِسنے والا پانی زمین میں جذب ہو چکا ہے اور اس نے گاؤں کے زیر زمین پانی کو آلودہ کر دیا ہے


اُرولی دیوچی کے نائب سرپنچ، مہندر شیوالا کے پاس آٹھ ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ سبزیاں اور جوار، باجرا اور دیگر اناج اُگاتے ہیں۔ وہ اپنے کنویں کا استعمال کھیتوں کی سینچائی کے لیے کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر پچھتا رہے ہیں کہ ان کی پیداوار کی مقدار کم ہوتی جا رہی ہے۔ ’’دس سال پہلے تک میں ایک سال میں اپنے کھیت پر ۲۰ کوئنٹل گیہوں پیدا کر لیتا تھا، لیکن اب میں سالانہ صرف ۱۰ سے ۱۲ کوئنٹل ہی اُگا پاتا ہوں۔ جو سبزیاں میں اُگاتا ہوں، ان کا معیار بھی کم ہوتا جا رہا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

این جی ٹی کے سامنے دائر کی گئی عرضی میں پی ایم سی کے ذریعے مسلسل کوڑا پھینکنے سے گاؤں والوں کی صحت پر ہونے والے برے نقصانات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اُرولی دیوچی میں، مانسون کی بارش اچھی خبر لے کر نہیں آتی۔ بارش کی وجہ سے یہاں جو تعفن پیدا ہوتا ہے، اس کی بدبو پورے گاؤں میں پھیل جاتی ہے، جس سے بیماریاں تیزی سے پھیلنے لگتی ہیں۔ بجرے ان بے شمار لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہیں سر کا درد مسلسل رہتا ہے۔ ڈینگو کے بھی بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں۔

گاؤں کے لوگ پہلے سے ہی خطرناک زندگی جینے پر مجبور ہیں، اور دوسری طرف ہلیتھ کیئر تک بھی ان کی رسائی نہیں ہے۔ ’’پی ایم سی نے پرائمری ہیلتھ کیئر سنٹر کھولا ہے، جہاں پر دوائیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں،‘‘ بجرے بتاتے ہیں، ’’لیکن ڈاکٹر ہفتہ میں صرف دو دن آتے ہیں۔‘‘ بالا صاحب بھاپکر، جو اُرولی دیوچی میں بڑھئی کے طور پر کام کرتے ہیں، کو سرکاری اسپتالوں کی خستہ حالت پر افسوس ہے۔ ’’میری بیوی کو جب ڈینگو ہوا، تو اس وقت میں  نے ۷۵ ہزار روپے خرچ کیے تھے۔ میں نے اس کو ایک پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرایا تھا۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور سہولیات کی کافی کمی ہے۔ اگر پی ایم سی ہمارے گاؤں میں کچرے لاکر ڈال ہی رہی ہے، تو انھیں کم از کم ہمارے طبی اخراجات کا خیال تو رکھنا ہی چاہیے۔‘‘

خرابیٔ صحت کے علاوہ، کچرے سے زمین بھر جانے سے کئی سماجی مسائل بھی پیدا ہو گئے ہیں، شیوالا کہتے ہیں۔ ’’بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی اس گاؤں میں رہنےو الی فیملیز کے ساتھ نہیں کرنا چاہتے۔ میرے گھر جب مہمان آتے ہیں، تو وہ یہاں کا پانی بھی نہیں پیتے۔‘‘

گاؤں والوں کی طرف سے متعدد شکایتوں اور احتجاج کے باوجود میونسپل کارپوریشن کوئی متبادل ڈمپنگ سائٹ ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہے۔ ’’لیڈرس یہاں آتے ہیں اور جھوٹے وعدے کرکے چلے جاتے ہیں،‘‘ بجرے کہتے ہیں، ’’لیکن یہ ہم لوگ ہیں جو یہاں رہ رہے ہیں اور اس کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اُرولی دیوچی اور فرسنگی چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اب پُنے میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ حالانکہ حیرانی والی بات یہ ہے کہ ان دونوں گاؤں میں زمین کی قیمت کافی بڑھ چکی ہے، کیوں کہ یہاں اب زرعی زمینوں کو غیر زرعی پلاٹ کی شکل میں بیچا جا رہا ہے۔ جو لوگ پُنے شہر میں اپنا گھر نہیں بنا سکتے، وہ اب ان گاؤوں میں زمین خریدنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پُنے سے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کا ریئل اسٹیٹ انھیں اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ ’’اور اسی لیے، زراعت ایک طرح سے ختم ہو چکی ہے،‘‘ بسواس کہتے ہیں۔


05-pic-7-VL-Raising a Stink.jpg

ارولی دیوچی کے بہت سے لوگ اب اپنے کھیتوں پر کام نہیں کرتے، بلکہ کنسٹرکشن سائٹس اور گاؤں کے ارد گرد دوسرے قسم کے کام کرتے ہیں۔


گاؤں کے لوگ اب اس کچرا ڈپو کو پوری طرح سے بند کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ این جی ٹی کا آرڈر اس ڈمپ سائٹ کو بند کروائے گا۔ ’’ہم نے اگست ۲۰۱۴ میں جب پی ایم سی کو ٹرکوں کو اس گاؤں میں گھسنے سے روکا تھا، تو پورے پُنے شہر کو پریشانی ہوئی تھی، کیوں کہ ان کے کچرے ہمارے گاؤں میں داخل نہیں ہو پا رہے تھے،‘‘ شیوالا بتاتے ہیں۔ ’’لیکن ان کی پریشانی تو کچھ دنوں تک ہی رہی۔ اگر کوئی آپ کے گھر آئے اور اپنا کچرا روزانہ پھینک جائے، تو آپ کو کیسا لگے گا؟‘‘

اس مضمون کو مضمون نگار نے اکتوبر۔ نومبر ۲۰۱۵ میں پاری کے ساتھ انٹرنشپ کرتے ہوئے لکھا تھا۔

تصویریں: وجیتا لالوانی

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Vijayta Lalwani

Vijayta Lalwani graduated from the Symbiosis Centre for Media and Communication, Pune, in 2016. She now works as an assistant content producer at Pune 365, a city-based web magazine.

Other stories by Vijayta Lalwani
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez