चाण्डालश्च वराहश्च कुक्कुटः श्वा तथैव च ।
रजस्वला च षण्ढश्च नैक्षेरन्नश्नतो द्विजान् ॥

چنڈال، خنزیر، مرغ، کتا، حیض والی عورت اور خواجہ سرا

ان سبھی پر لازم ہے کہ یہ کھانا کھاتے وقت برہمنوں کو نہ دیکھیں

— منو اسمرتی ۲۳۹۔۳

تیسری کلاس میں پڑھنے والے اندر کمار میگھوال کا جرم صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ اس نے سب کی نظریں چرا کر اُس گھڑے پر نظر ڈالی تھی، بلکہ اس سے بھی کہیں بڑا گناہ کیا تھا اس نے۔ اور وہ گناہ یہ تھا کہ وہ اپنی پیاس کو برداشت نہیں کر سکا۔ اس دلت لڑکے نے اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے ٹیچروں کے لیے الگ سے رکھے ایک گھڑے سے پانی پی لیا تھا۔

ظاہر ہے، اس گناہ کی سزا تو ملنی ہی تھی اسے۔ راجستھان کے سُرانا گاؤں کے سرسوتی وِدیا مندر اسکول میں پڑھانے والے، اونچی ذات کے ۴۰ سالہ ٹیچر چھیل سنگھ نے اندر کمار کی بے رحمی سے پٹائی کر دی۔

اس حادثہ کے ۲۵ دن بعد، اور علاج کی خاطر ۷ اسپتالوں کے چکر لگانے کے بعد، ہندوستان کے یومِ آزادی سے ٹھیک ایک دن پہلے، جالور ضلع سے تعلق رکھنے والے اس ننھے سے بچے کی احمد آباد شہر میں موت ہو گئی۔

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں انگریزی میں یہ نظم سنیں

مٹکے میں قید کیڑا

کسی گم گشتہ زمانے میں
کسی اسکول کے آنگن میں
پانی کی صراحیاں تھیں
دیوتا نما استاد تھا
تین لبریز مشکیزے تھے –
ایک پہ برہمن کا تصرف، ایک پہ راجا کا اجارہ
اور ایک پائی کے عوض دلتوں کا گزارہ

ایک بار کسی نایابستان میں
وقت کے دونوں پہر،
مشکیزے نے بچے کو سبق سکھایا –
’’پیاس ایک جرم ہے۔
استاد ایک برہمن ہے،
زندگی ایک زخم ہے،
اور بچے، تم
مٹکے میں قید ایک کیڑا۔‘‘

اس مٹکے کا نام کچھ عجیب تھا: سناتنی دیش
’’تمہاری جلد ہی تمہارا گناہ ہے،
اور بچے، تمہاری نسل ہی برباد ہے۔‘‘
سبق کے باوجود بچے نے اپنی کاغذی زبان پر
جو کہ ریت کے ٹیلہ سے بھی خشک تر تھی
پانی کی دو بوند کی مہرون لے لی

حیف!
پیاس کی شدت ناقابل برداشت تھی
کیا کتابوں کا سبق یہی نہ تھا: ’’امداد، محبت و اشتراق؟‘‘
مٹکے میں رکھے ٹھنڈے پانی کی طرف
اس کے پرجوش ہاتھ بڑھے
استاد ایک دیوتا تھا
اور وہ، صرف ۹ سال کا ایک بچہ

ایک مُکّا اور ایک لات مار کر
اور ایک سٹیک لگائی چھڑی کی مار سے
بچے کو معذور کرکے
اس کے غصے کو قابو کر لیا گیا
اور دیوتا، جیسے کسی مزاحیہ مخمس پہ ہنسنے لگا

بائیں آنکھ پہ زخموں کے داغ
دائیں پہ پیپ اور جراثیم
ہونٹوں کی لالی سیاہ ہوئی
اور اس پر استاد کی لذت برہنہ آشکار ہوئی
اس کی پیاس منزہ، اس کی ذات شفاف
لیکن اس کا دل تھا ایک گہرا کنواں
جہاں رقص کرتا تھا سایہ موت کا

لمبی آہ اور سوالیہ نشان نے
اور نفرت کی بڑھتی ہوئی دیوار نے
پیاس کو نام دے کر
غضب کو بے قابو کر دیا
تختہ سیاہ اس قدر روئی جیسے قبرستان سے آئی ہو کوئی صدا

کسی گم گشتہ زمانے میں
اسکول میں اک لاش ملی
جی جناب! جی جناب! تین بوندیں پوری
پہلی مندر کے لیے
دوسری تاج کے نام
اور آخری بوند چلو بھر پانی میں ڈوبے ہوئے دلتوں کے نام

مترجم: برہان قریشی

Poem and Text : Joshua Bodhinetra
bodhinetra@gmail.com

Joshua Bodhinetra has an MPhil in Comparative Literature from Jadavpur University, Kolkata. He is a translator for PARI, and a poet, art-writer, art-critic and social activist.

Other stories by Joshua Bodhinetra
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a poet and a translator who works across Gujarati and English. She also writes and translates for PARI.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Burhan Qureshi

Burhan Qureshi is a writer, researcher, social scientist and translator based in Kashmir.

Other stories by Burhan Qureshi