یہ پاواگڑا کا حسین منظر والے خوبصورت پوسٹ کارڈ جیسا لمحہ ہے۔ کم از کم ظاہری طور پر تو یہی گمان گزرتا ہے۔ کرناٹک کے تُمکور ضلع کے اس دیہی قصبے میں سڑکوں پر بوگین ویلیا کے جھرمٹ، رنگ برنگے مکان، سجے سجائے مذہبی مقامات اور وہاں سے گونجنے والی موسیقی قریب سے گزرنے والوں کے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ یہ نظارہ خوبصورت ہے، لیکن شاید نہیں۔ کیونکہ ہم یہاں ’شٹ‘ (غلاظت) کی بات کر رہے ہیں۔

اس انگریزی لفظ کو مراعات یافتہ متوسط طبقے کی حسیت کا خیال رکھتے ہوئے اسٹار لگا کر لکھنا پڑتا ہے۔ تاہم رمن جَنَپّا کی ایسی کوئی حسیت نہیں ہے۔ پاواگڑا تعلقہ کے کنّامیڈی گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس صفائی ملازم کا کہنا ہے، ’’میں اپنے ننگے ہاتھوں سے پاخانہ صاف کرتا ہوں۔‘‘ اگر یہ بہت کریہہ نہیں ہے، تو وہ واحد عنصر جو ممکنہ طور پر اس غیرانسانی کام کی سنگینی کو کم کر سکتا ہے وہ بھی معدوم ہے۔ رمن جنپا کو اکتوبر ۲۰۱۷ میں آخری مرتبہ تنخواہ ملی تھی۔

ٹاؤن ہال کی دیواروں پر (جیسا کہ ہونا چاہیے) آرٹ کے نمونے بنے ہوئے ہیں، جو کوڑے کو علیحدہ کرنے کے عمل کو ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک ناگوار اور کریہہ کام کو سرکاری رضا مندی سے چھپانے کی کوشش بھی ہے۔ یہ بات انسانی فضلہ کو ہاتھ سے اٹھانے والے ۲۰ ملازمین کے بیانات سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ سبھی ملازمین مڈیگا برادری سے تعلق رکھنے والے دلت ہیں۔ انہوں نے امبیڈکر بھون میں ایک میٹنگ کے دوران اپنی ناگفتہ بہ حالت کے بارے میں بتایا تھا۔ امبیڈکر بھون، ٹاؤن ہال کی تصاویر سے مزیّن دیواروں سے بمشکل ۱۰ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

رمن جنپا کو ۳۴۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ یہ پیسے ان کی فیملی کے پانچ ممبران (بیوی اور تین اسکول جانے والے بچوں) کے ۳۰ دنوں کے اخراجات کے لیے ناکافی تھے۔ اب پچھلے نو مہینوں سے انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملی ہے۔

کچھ کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں، تو کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں کئی مہینے پہلے کیے گئے وعدہ کے مطابق تنخواہیں بڑھا کر نہیں دی جا رہی ہیں۔

Pavagada's deceptively picturesque landscape
PHOTO • Vishaka George
painting on sanitation
PHOTO • Vishaka George

پاواگڑا قصبے کا حسین اور دلکش منظر صفائی ملازمین سے وابستہ تلخ حقائق کی پردہ پوشی کرتا ہے، جیسا کہ وہاں کی دیواروں پر سوچھ بھارت کی اس نقاشی سے ظاہر ہو رہا ہے

اسی تعلقہ کے کوڈامڈگو گاؤں سے تعلق رکھنے والے نارائنپّا کا کہنا ہے، ’’میں پورے ہفتے سڑکوں پر جھاڑو لگاتا ہوں، پبلک ٹوائلٹ، اسکول کے بیت الخلاء کے ساتھ ساتھ کھلے نالوں تک کی صفائی کرتا ہوں۔ چار ماہ قبل مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کام کے لیے مجھے ہر مہینے ۱۳۴۰۰ روپے کی تنخواہ ملا کرے گی، لیکن ۳۴۰۰ روپے کی جو تنخواہ مجھے پہلے ملتی تھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔‘‘ نارائنپّا کی حالت رمن جنپّا سے قدرے بہتر ہے، کیونکہ نارائنپا کی پنچایت میں صفائی ملازمین کو اب بھی بہت کم تنخواہیں مل رہی ہیں۔

سال ۲۰۱۱ کی سماجی و اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کے مطابق، پورے جنوبی ہندوستان میں ہاتھ سے میلا اٹھانے والے صفائی ملازمین کی سب سے بڑی تعداد کرناٹک میں ہے۔ کرناٹک کے ریاستی کمیشن برائے صفائی کرمچاری کی جانب سے کرائی  گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق اس معاملے میں تُمکور، ریاست کے ۳۰ اضلاع میں سرفہرست ہے۔

ہاتھ سے میلا اٹھانے والوں کے طور پر ملازمت کی ممانعت اور ان کی باز آبادکاری کا ضابطہ،۲۰۱۳ ، اس سلسلے میں بنائے گئے ۱۹۹۳ کے قانون کا قائم مقام ہے۔ ۱۹۹۳ کے قانون میں صرف اس کام کی ممانعت والے پہلو پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ ۲۰۱۳ کے ضابطے میں اس کام کی سرپرستی کرنے والوں پر مقدمہ چلانے اور دو سال تک کی قید کی سزا دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ دیگر اداروں کے علاوہ پنچایتوں، میونسپلٹیوں، پولیس اور حتیٰ کہ قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ویجیلنس کمیٹیوں کی تشکیل کے احکام جاری کرتا ہے۔

رمن جنپّا اور ان کے ساتھی کارکنوں کو انہی لوگوں نے اس غیر قانونی کام پر لگایا جنہیں اس کی پاسداری کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

رَمیّا پبلک پالیسی سنٹر، بنگلورو کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر چیتن سِنگائی کہتے ہیں، ’’پنچایت اور میونسپلٹی کے صفائی کارکنوں میں بھی ایک سماجی درجہ بندی ہے۔ وہ افراد جن کے خاندان میں سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کی روایت رہی ہے یا ایسے افراد جو شراب یا منشیات کے عادی ہیں، ان کی پہچان کی جاتی ہے اور انہیں ہاتھ سے میلا اٹھانے کے کام پر مامور کر دیا جاتا ہے۔ سماجی بہبود کے محکمے، ان سماجی درجہ بندیوں کا فائدہ اٹھانے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔‘‘  سنگائی کرناٹک ریاستی کمیشن برائے صفائی کرمچاری کی ایک تحقیق پر کام کر رہے ہیں، جس کا مقصد ریاست میں ہاتھ سے میلا اٹھانے والوں کی تعداد کی نشاندہی کرنا ہے۔ جب تک اس تحقیق کا نتیجہ سامنے نہیں آجاتا، تب تک ہم پاواگڑا یا پھر تُمکور میں ان کی اصل تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

 manual scavengers At a meeting in Ambedkar Bhavan
PHOTO • Vishaka George
painting on the wall of a man throwing garbage
PHOTO • Vishaka George

امبیڈکر بھون میں منعقد ایک میٹنگ میں، ہاتھ سے میلا اٹھانے والے تقریباً ۲۰ ملازمین نے اپنی ناگفتہ بہ حالت بیان کی۔ ہال کے باہر شہر کی دیواریں ایک مختلف تصویر پیش کر رہی ہیں

ہماری پیہم کوششوں کے باوجود کوڈامڈگو پنچایت آفس نے اس غیر قانونی کام اور تنخواہ کی عدم ادائیگی دونوں پر کوئی جواب نہیں دیا۔ جبکہ کَنّامیڈی پنچایت آفس کا ردعمل جارحانہ، اور معاندانہ تھا۔

میونسپلٹی سطح کے ملازمین کے برعکس پنچایتوں سے جڑے کرمچاریوں کی ملازمت مبینہ طور پر ’مستقل‘ ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ مستقل ملازمین کو ملنے والے فوائد (جیسے پراویڈنٹ فنڈ یا انشورنس) سے محروم ہیں۔

کے بی اوبلیش پوچھتے ہیں، ’’ایسے لوگوں کا بیمہ کون کرے گا جنہیں اکثر زہریلے دھوئیں کی زد میں رہنا پڑتا ہے اور جو لوگ کچھ انتہائی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں؟‘‘ اوبلیش دلت برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’تھامٹے: سینٹر فار رورل ایمپاورمنٹ‘‘ کے بانی ہیں۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ گرام پنچایت سطح کے صفائی کرمچاریوں کا برا حال ہے، تو ذرا میونسپلٹی کے ذریعہ کانٹرکٹ پر رکھے گئے کرمچاریوں کی حالت پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ ان کی حالت زار سے جلد ہی ریاست بھر کے کرمچاریوں کا سامنا ہونے والا ہے۔

کرناٹک میں صفائی کی ملازمتوں کو باقاعدہ بنانے کی کوشش کے طور پر حکومت نے ہر ۷۰۰ لوگوں کے لیے صرف ایک صفائی کرمچاری دینے کا فرمان جاری کیا ہے۔ ملازمتوں کو باقاعدہ کرنے یا مستقل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ کارکنوں کو زیادہ تنخواہ دی جائے۔ چنانچہ انہیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے اور ان کی باز آبادکاری بھی نہیں کی جا رہی ہے۔

اوبلیش کہتے ہیں، ’’اب تک، پاواگڑا میں من مانی [۷۰۰:۱]  تعداد کی وجہ سے تقریباً ۳۰ لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‘‘

sanitation worker cleaning the gutter
PHOTO • Vishaka George
sanitation worker cleaning the gutter
PHOTO • Vishaka George

کرناٹک میں پچھلے ۱۰ سالوں میں مبینہ طور پر ہاتھ سے میلا اٹھانے کا کام کرتے ہوئے ۶۹ افراد کی موت ہو چکی ہے

منی ایک ایسی ہی کارکن ہیں جنہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ ان کے شوہر پوراکرمِک (ٹھیکہ پر کام کرنے والے ملازم) تھے۔ انہیں بھی برطرف کر دیا گیا تھا۔ وہ سوال کرتی ہیں، ’’میں اپنے بچوں کی پرورش کیسے کروں؟ میں اپنے مکان کا کرایہ کیسے ادا کروں؟‘‘

بنگلورو میں ۱۱ جولائی کو بِریہَت بنگلورو مہانگر پالیکے (بی بی ایم پی) نے پَوراکرمکوں کی بقایا اجرتوں کی ادائیگی کے لیے ۲۷ کروڑ روپے جاری کیے۔ یہ رقم ۴۰ سالہ پَوراکرمک سبرامنی ٹی کی موت کے بعد جاری کیے گئے۔ سبرامنی ٹی نے سات ماہ تک کوئی تنخواہ نہ ملنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ بی بی ایم پی کے جوائنٹ کمشنر برائے صحت، سرفراز خان نے مجھے بتایا کہ بنگلورو میں ۱۸۰۰۰ پَوراکرمک ہیں، اور ان سب کی بقایا اجرتوں کی ادائیگی ہو چکی ہیں۔ ’’ہم نے بائیو میٹرک کی تصدیق کے بعد کارکنوں کی تنخواہیں جاری کی ہیں۔‘‘

لیکن اوبلیش کہتے ہیں، ’’بی بی ایم پی کی جانب سے ۲۷ کروڑ جاری کرنے کے بعد بنگلورو کے تقریباً ۵۰ فیصد پَوراکرمکوں کو ہی ان کی طویل عرصے سے زیر التواء تنخواہیں موصول ہوئی ہیں۔‘‘ ان کا اندازہ ہے کہ بنگلورو میں تقریباً ۳۲۰۰۰ پَوراکرمک ہیں، لیکن بائیو میٹرک تصدیق کے عمل کے متعارف کرائے جانے کے بعد ریکارڈ شدہ تعداد میں کمی آئی ہے۔

پاواگڑا قصبے کے ہیلتھ انسپکٹر، ایس شمس الدین، جنہیں میونسپلٹی کارکن رپورٹ کرتے ہیں، نے کہا کہ ’’بجٹ کی کمی‘‘ اور ملازمتوں کو باقاعدہ بنانے کا مسئلہ ان کی تنخواہوں میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسئلہ ایک ماہ کے اندر حل کر لیا جائے گا۔ شمس الدین کی خوش قسمتی یہ ہے کہ  ان پر اس مسئلہ کا اثر نہیں پڑا ہے اور وہ اپنی تنخواہ باقاعدگی سے حاصل کر رہے ہیں۔ اوبلیش کے مطابق شمس الدین کے کسی ہم منصب کو عموماً ۳۰ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے۔

سال ۲۰۱۳ میں جب پاواگڑا کے گندے پانی کی نکاسی (ڈرینج) کے مسئلے کے ایک واضح حل کے طور پر مشینیت (میکانائزیشن) کو متعارف کرایا گیا تھا، تو میونسپل کارکنوں نے پہلے سوچا کہ ان کا ملک اور ان کی حکومت آخرکار انہیں انسان سمجھنے لگی ہے، اور اب وہ بھی بامقصد اور خوشگوار زندگی گزار سکیں گے۔

Sanitation worker have gathered at one place
PHOTO • Vishaka George

کرناٹک میں صفائی کی ملازمتوں کو ’باقاعدہ بنانے‘ کی مہم کا مطلب پاواگڑا میں تقریباً ۳۰ کارکنوں (جن میں سے کچھ کا یہاں ذکر ہوا ہے) کا ملازمت سے ہاتھ دھونا ہے

بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مشینیں کھلے نالوں سے صرف نیم مائع مادہ ہی کھینچ سکتی ہیں۔ جب یہ ایک خاص حد تک مائع نہ ہوں تو کسی شخص کو وہاں جاکر اسے ملانا پڑتا ہے، ساتھ ہی پائپ کے دہانے پر موجود پتھروں اور دیگر بڑی رکاوٹوں کو ہٹانا پڑتا ہے۔ لہذا صفائی کارکن فضلہ متھنے والا بن جاتا ہے، جس کے لغوی معنی جھگڑا کھڑا کرکے لطف لینے والے کے ہیں۔ ظاہر ہے، یہاں زندہ رہنے کے حق کی لڑائی کی بات نہیں ہے۔

گزشتہ ۱۰ سالوں میں کرناٹک میں مبینہ طور پر ہاتھ سے میلا اٹھانے کا کام کرتے ہوئے ۶۹ افراد کی موت ہو چکی ہے۔ اوبلیش کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نے سیپٹک ٹینک کی صفائی میں اپنی جانیں گنوائی ہیں۔

نارائنپّا بتاتے ہیں کہ ٹینکوں میں اترنے سے قبل ’’ہم انڈرویئر کے علاوہ اپنے سارے کپڑے اتار لیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہم ۹۰ ملی لیٹر شراب پیتے ہیں۔ اس سے ہمیں کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘

اگر وہ اسی دن یا اس کے بعد کے چند دنوں میں کچھ کھانا چاہتے ہیں، تو انہیں مزید شراب کی ضرورت پیش آتی ہے۔

رمن جنپّا کہتے ہیں، ’’اس بدبو سے دھیان ہٹانے کے لیے آپ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

۹۰ ملی لیٹر شراب کی قیمت ۵۰ روپے ہے۔ کچھ کرمچاری اپنی قلیل تنخواہ، جو باقاعدہ نہیں ہے، میں سے شراب پر ۲۰۰ روپے سے زیادہ تک خرچ کر دیتے ہیں۔

Sanitation worker in a meeting
PHOTO • Vishaka George
Sanitation worker putting their problems in a meeting
PHOTO • Vishaka George
Sanitation worker in a meeting
PHOTO • Vishaka George

گنگمّا (بائیں) کہتی ہیں، ’لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں یہی کرنا چاہیے۔ یہ ہماری سماجی ذمہ داری ہے۔‘ نارائنپّا (درمیان میں) اور رمن جنپّا (دائیں) بھی اپنی تکلیفیں بیان کر رہے ہیں

فی الحال ان کی بقا کا انحصار رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے قرضوں پر ہے۔ رمن جنپّا کہتے ہیں، ’’آخری حل ساہوکاروں سے قرض لینا ہے۔ بینک ہمیں قرض نہیں دیتے، کیونکہ ہمارے پاس ضمانت کے لیے کوئی زمین نہیں ہے۔‘‘

کیا ان کے لیے معقول آمدنی والی دوسری نوکریاں نہیں ہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے پاواگڑا کی ڈوم متھماری پنچایت کی ایک صفائی کرمچاری گنگمّا کہتی ہیں، ’’لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں یہی کرنا ہے۔ یہی ہماری سماجی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ ہمارے خاندان کے لوگ کئی نسلوں سے یہی کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘

اوبلیش کہتے ہیں، ’’ذات پات کے نظام کا یہی خطرہ ہے۔ اس میں آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ آپ اسی کام کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ آپ نہ تو کچھ بہتر کر سکتے ہیں اور نہ کریں گے۔ یہ حکم بردار لوگ ہیں جو ایک قسم کی غلامی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انہیں تنخواہ نہیں ملتی، لیکن حکام ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ کام کریں گے تو انہیں بہتر اجرت ملے گی۔ یہ ایک چال ہوتی ہے۔‘‘

سال ۱۹۸۹ میں سزائے موت ملنے کے بعد امریکی سیریل کلر رچرڈ رامیریز نے بے فکری سے کہا تھا: ’’کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس کام میں موت فطری ہے۔‘‘ پاواگڑا تعلقہ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں موت کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔ یہ ان کے کام سے جڑی ہوئی ہے، لیکن یہاں سیریل شکار صفائی کرمچاری ہیں۔ ادنیٰ حفاظتی ساز و سامان، بڑا خطرہ، کوئی تعطیل نہیں، تنخواہ نہیں۔ حسین منظر والے پوسٹ کارڈ کے پچھلے حصے میں آپ کا خیر مقدم ہے۔

اس اسٹوری کے لیے جن صفائی ملازمین کا انٹرویو کیا گیا وہ صرف اپنا پہلا نام ظاہر کرنا چاہتے تھے۔

اس اسٹوری کی مصنفہ، اسٹوری کو مکمل کرنے میں فراخدلانہ مدد بہم پہنچانے اور اپنا وقت دینے کے لیے محقق، نوئل بینو کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گی۔

مترجم: شفیق عالم

Vishaka George

Vishaka George is a Bengaluru-based Senior Reporter at the People’s Archive of Rural India and PARI’s Social Media Editor. She is also a member of the PARI Education team which works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Vishaka George
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam