پٹ چتر پینٹنگ کے پہلے مرحلے میں ایک گیت تخلیق کی جاتی ہے، جسے پاتر گان کہا جاتا ہے۔ مامونی چترکار کہتی ہیں، ’’پینٹنگ شروع کرنے سے قبل ہمیں گیت کے بند لکھنے ہوتے ہیں… اس کی لے، پینٹنگ کے عمل کو ایک ڈھانچہ فراہم کرتی ہے۔‘‘ آٹھویں نسل کی یہ فنکار اپنے گھر میں بیٹھی ہیں اور بنگال کے مشرقی کولکاتا میں واقع دلدلی علاقوں کی عکاسی کرتے ہوئے ایک پٹ چتر بنا رہی ہیں۔

اس فن کا نام سنسکرت لفظ ’پٹّ‘ یا کپڑے کے ٹکڑے اور ’چتر‘ یا پینٹنگ سے اخذ کیا گیا ہے۔ جب مامونی دلدلی علاقے کے پیچیدہ ماحولیاتی نظام کو پینٹ کر رہی تھیں تو ساتھ میں پاتر گان بھی گا رہی تھیں۔ یہ گیت پٹ چتر کے ساتھ ہی رہے گا۔ اس گیت کو خود مامونی نے لکھا اور سروں میں باندھا ہے۔ یہ ایک بلاوے سے شروع ہوتا ہے: ’’سنو، سب سنو، غور سے سنو۔‘‘

یہ گیت مشرقی کولکاتا کے دلدلی علاقے کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، جس کی حیثیت یہاں رہائش پذیر ’’بے شمار لوگوں کے لیے زندگی کی شہ رگ‘‘ کی ہے۔ ماہی گیروں، کسانوں اور سرسبز کھیتوں کو پٹ پر پینٹ کیا جاتا ہے۔ یہ پینٹنگ کپڑے کے اوپر کاغذ کے طومار (اسکرول) کو چسپاں کر کے کی جاتی ہے۔ جب کسی پیشکش کے دوران پٹ کی آخری تہ کھولی جاتی ہے، تو پینٹنگ کا وہ حصہ گیت کے بند سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس طرح مامونی کا فن مصوری اور موسیقی کے ذریعے دلدلی علاقے کی کہانی بیان کرتا ہے۔

مغربی میدنی پور کے نیا گاؤں کی رہنے والی مامونی اندازہ لگاتی ہیں کہ پنگلا تعلقہ کے تحت آنے والے ان کے گاؤں میں تقریباً ۴۰۰ فنکار آباد ہیں۔ اس تعلقہ کے کسی دوسرے گاؤں میں پٹ چتر بنانے والے فنکاروں کی اتنی بڑی آبادی نہیں ہے۔ یہ ۳۲ سالہ مصور الگ الگ رنگوں کے پودوں، جنگلی جانوروں اور پھولوں کے خاکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’گاؤں کے تقریباً تمام ۸۵ گھروں کی دیواروں پر جداری نقاشیاں کی گئی ہیں۔ ہمارا پورا گاؤں خوبصورت لگتا ہے۔‘‘

PHOTO • Courtesy: Disappearing Dialogues Collective

مشرقی کولکاتا کے دلدلی علاقے کی تصویر کشی کرنے والا پٹ چتر۔ پٹ چتر کے حصے پاتر گان کے بندوں سے ہم آہنگ ہیں، جسے خود مامونی نے لکھا اور ترتیب دیا ہے

PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar
PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar

مغربی میدنی پور کے نیا گاؤں میں پھولوں، پودوں اور شیروں کی تصویروں سے مزین مکانات کی دیواریں۔ مامونی کہتی ہیں، ’ہمارا پورا گاؤں خوبصورت لگتا ہے‘

یہ گاؤں ریاست میں سیاحت کے مرکز کے طور پر درج ہے۔ یہاں ہندوستان اور بیرون ملک سے سیاح آتے ہیں۔ مامونی کہتی ہیں، ’’ہم ان طلباء کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں جو ہم سے بات کرنے، ہمارا ہنر سیکھنے، اور ہم سے ہماری زندگیوں اور مہارتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم انہیں پاتر گان اور پٹ چتر طرز کی پینٹنگ سکھاتے ہیں اور قدرتی ذرائع سے حاصل رنگوں کو تیار کرنے کے لیے ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں۔‘‘

مامونی کہتی ہیں، ’’پٹ چتر کا فن گُہا چتر ، یا غار کی مصوری کے قدیم فن سے ماخوذ ہے۔‘‘ صدیوں پرانی یہ دستکاری اصل تصویر کشی سے پہلے اور اس کے بعد بھی گھنٹوں محنت کا مطالبہ کرتی ہے۔

مامونی بتاتی ہیں کہ پاتر گان کے نوک پلک درست کرنے کے بعد اصل پینٹنگ کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ’’اپنی روایت کے مطابق میں جو بھی پینٹ استعمال کرتی ہوں اسے قدرتی طور پر حاصل کیا جاتا ہے۔‘‘ کچی ہلدی، جلی ہوئی مٹی اور گیندے کے پھولوں سے رنگ نکالا جاتا ہے۔ ’’میں ایک گہرا سیاہ رنگ حاصل کرنے کے لیے چاول جلاتی ہوں۔ نیلا رنگ نکالنے کے لیے اپراجیتا کے پھولوں کو پیستی ہوں، اور باقی رنگوں کو بھی ایسے ہی بناتی ہوں۔‘‘

رنگوں کے عرق کو ناریل کے خول میں محفوظ کر کے دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔ کشید کے اس عمل میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے، کیونکہ کچھ اجزاء ہر موسم میں دستیاب نہیں ہوتے۔ مامونی کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ عمل تھکا دینے والا ہوتا ہے، لیکن ’’یہ اقدامات اہم ہیں اور انہیں احتیاط سے کرنا پڑتا ہے۔‘‘

رنگوں کو پینٹ کرنے سے پہلے اسے بیل کے پھل سے نکالے گئے قدرتی گوند کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ تازہ پینٹ شدہ طومار کو کپڑے پر چسپاں کرنے سے پہلے خشک کیا جاتا ہے، تاکہ رنگوں کو پائیداری ملے۔ آخر میں پٹ چتر بن کر تیار ہو جاتا ہے۔

PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar
PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar
PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar

بائیں اور درمیان میں: مامونی نامیاتی ذرائع جیسے پھول، کچی ہلدی اور مٹی سے حاصل کردہ رنگوں سے پینٹ کرتی ہیں۔ دائیں: مامونی کے شوہر سمیر چترکار بانس سے بنا ایک آلہ موسیقی دکھا رہے ہیں جو پٹ چتر کی پیش کش میں استعمال ہوتا ہے

اپنے گاؤں کے دیگر لوگوں کی طرح مامونی نے بھی چھوٹی عمر سے ہی پٹ چتر کا فن سیکھنا شروع کر دیا تھا۔ ’’میں سات سال کی عمر سے ہی پینٹنگ کر رہی ہوں اور گیت گا رہی ہوں۔ پٹ چتر میری آبائی روایت کا حصہ ہے اور میں نے اسے اپنی والدہ سورن چترکار سے سیکھا ہے۔‘‘ مامونی کے والد ۵۸ سالہ سمبھو چترکار بھی خاندان کے دوسرے لوگوں، ان کے شوہرسمیر اور ان کی بہن سونالی کی طرح ’پٹوا‘ (پٹ چتر بنانے والے) کا کام کرتے ہیں۔ مامونی کا بیٹا آٹھویں جماعت میں ہے اور بیٹی چھٹی جماعت میں۔ یہ دونوں ان سے یہ فن سیکھ رہے ہیں۔

روایتی طور پرپٹ چتر کو مقامی لوک داستانوں سے مستعار لیا جاتا ہے اور اس میں عام طور پر رامائن اور مہابھارت جیسے رزمیوں کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ پرانے پٹوا بشمول مامونی کے دادا دادی اور ان کے آبا و اجداد گاؤں گاؤں جا کر پٹ چتر میں دکھائی گئی کہانیوں کو پیش کرتے تھے۔ بدلے میں انہیں پیسے یا کھانے کو کچھ مل جاتا تھا۔ انہی پیشکش کے ذریعے ان کی روزی روٹی چلتی تھی۔

مامونی بتاتی ہیں، ’’پٹ چتر بچینے کے لیے نہیں بنائے جاتے تھے۔‘‘ پٹ چتر کبھی بھی صرف مصوری کی ایک طرز نہیں تھا بلکہ کہانی کہنے کا ایک طریقہ تھا، جس میں صوتی اور بصری دونوں ذرائع استعمال کیے جاتے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ مامونی جیسے پٹوا مصوروں نے پٹ چتر طرز کے روایتی اصولوں کو عصری موضوعات کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے نئے موضوعات پر کام کرنا پسند ہے۔ میرا کچھ کام سونامی جیسی قدرتی آفات پر بھی مبنی ہے۔ میں اپنے کام کو ضروری سماجی مسائل کی عکاسی کے لیے بھی استعمال کرتی ہوں، مثلاً، صنفی تشدد اور اسمگلنگ۔‘‘

PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar
PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar

بائیں: مامونی ’ڈس اپیئرنگ ڈائیلاگس کلیکٹو‘ کے ممبروں کے ساتھ بات کر رہی ہیں، جن کے ساتھ مل کر انہوں نے مشرقی کولکاتا کے دلدلی علاقے پر پٹ چتر بنایا تھا۔ دائیں: نمائش میں ٹنگے مختلف قسم کے پٹ چتر

PHOTO • Courtesy: Mamoni Chitrakar

مامونی فروخت میں اضافے کے لیے اپنی تیار کردہ تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں۔ یہاں وہ مشرقی کولکاتا کے دلدلی علاقے کے اپنے پٹ چتر کے ساتھ  نظر آرہی ہیں

ان کی حالیہ پیشکش کووڈ۔۱۹ کے اثرات، اس کی علامات اور اس کے متعلق بیداری پھیلانے پر مبنی ہے۔ کچھ دوسرے فنکاروں کے ساتھ مل کر مامونی نے اس پٹ چتر کو ہسپتالوں، ہاٹوں (ہفتہ واری بازاروں) اور نیا گاؤں کے آس پاس کے دیہاتوں میں پیش کیا ہے۔

نیا گاؤں میں ہر نومبر میں پٹ مایا کا میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ مامونی کہتی ہیں، ’’پینٹنگز خریدنے والے ہندوستان اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں اور ماہرین آرٹ کے لیے یہ میلہ توجہ کا مرکز رہا ہے۔‘‘ نیا گاؤں میں اور اس کے آس پاس فروخت ہونے والی ٹی شرٹس، فرنیچر، برتنوں، ساڑیوں، دیگر کپڑوں اور گھریلو اشیاء پر بھی پٹ چتر کا طرز نظر آتا ہے۔ اس سے اس ہنر کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے، اور فروخت میں بہتری آئی ہے، جو کووڈ۔۱۹ کے وبائی امراض کے دوران متاثر ہوئی تھی۔ مامونی اپنے کام کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں، زیادہ تر فیس بک پر۔ اس سے انہیں پورے سال اپنی چیزیں فروخت کرنے میں مدد ملتی ہے۔

مامونی اپنے فن کے ساتھ اٹلی، بحرین، فرانس اور امریکہ کا دورہ کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم اپنے فن اور گانے کے ذریعے ہی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ انہیں امید ہے کہ یہ ہنر آگے بڑھے گا۔

’ڈس اپیئرنگ ڈائیلاگس کلیکٹو (ڈی ڈی)‘ کمیونٹیز کے اندر اور ان کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ ان کے درمیان کی دوری کم کرنے کے لیے فن اور ثقافت کو ذریعہ بنا کر بات چیت کا آغاز کرتا ہے اور نیا بیانیہ تشکیل دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ موجودہ وراثتی، ثقافتی اور ماحولیاتی قدروں کے فروغ کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ میں تعاون دیا جائے۔

اس مضمون کو ’جول اے بھومیر گولپو کتھا‘ یعنی دلدلی زمین کی کہانیوں سے تریتب دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کو انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس کے ذریعے اس کے آرکائیوز اور میوزیم پروگرام کے تحت اور پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے تعاون سے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس میں  گوئٹے انسٹی ٹیوٹ/میکس مولر بھون، نئی دہلی کا جزوی تعاون بھی شامل ہے ۔

مترجم: شفیق عالم

Nobina Gupta

Nobina Gupta is a visual artist, educator and researcher who deals with the relationships between socio-spatial realities, climate emergencies and behavioural changes. Her focus on creative ecology gave her the impetus to initiate and curate the Disappearing Dialogues Collective.

Other stories by Nobina Gupta
Saptarshi Mitra

Saptarshi Mitra is an Architect and Development Practitioner based in Kolkata working at the intersection of space, culture and society.

Other stories by Saptarshi Mitra
Editor : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is a Research Assistant at the People's Archive of Rural India.

Other stories by Dipanjali Singh
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam