اسے ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں اور گلے میں زنجیریں پہنائی گئیں ہیں، جو نیچے پاؤں تک پہنچتی ہیں۔ اس نے سیاہ لمبی دھاریوں والا سفید کرتا پہن رکھا ہے۔ یہ کُرتا جیل کے عام قیدیوں کے لبا س سے مشابہ ہے۔

دراصل ۴۲ سالہ کبال سنگھ کسی جرم کی سزا نہیں کاٹ رہے ہیں، بلکہ انہوں نے یہ بیڑیاں خود اپنی مرضی سے پہنی ہیں۔ وہ پنجاب کے فاضلکہ ضلع کے رکن پورہ گاؤں (جسے کھوئی کھیڑا بھی کہا جاتا ہے) سے تعلق رکھنے والے ایک کسان ہیں۔

یہ ان لاکھوں کسانوں میں شامل ہیں، جو مرکزی حکومت کے تین حالیہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں نافذ کیا گیا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں بل کے طور پر پیش کیا گیا، اور اسی مہینے کی ۲۰ تاریخ کو اسے جلد بازی میں پاس کرکے ایکٹ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

تو خود ہی ہتھکڑی کیوں پہنی ہے؟

’’جب میں نے کسانوں کو اتنے لمبے عرصے سے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے دیکھا، تو میں ان کا درد برداشت نہ کر سکا۔ میرے جسم  سے لپٹی یہ زنجیریں جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ ان کی تکلیفوں کا آئینہ ہیں۔ جو ان کے احساسات ہیں، وہی احساسات میرے بھی ہیں۔‘‘

کبال سنگھ تین غیرمقبول قوانین کو ان زنجیروں کی کڑیوں سے مشابہ قرار دیتے ہیں، ’’جو زنجیریں آپ میرے ارد گرد یکھ رہے ہیں، وہی زنجیریں ہم سب کو جکڑے ہوئے ہیں، آپ کو بس انہیں دیکھنا ہے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’ہم تمام کسانوں کومحسوس ہوتا ہے کہ ہم زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں‘

دہلی اور ہریانہ کے بارڈر سے لگے اور سونی پت ضلع میں واقع سب سے بڑے احتجاجی مقام، سنگھو میں وہ ہم سے بات کر رہے ہیں۔

’’بھگوان ہمیں ان کارپوریٹوں سے بچائے۔ یہ ہمیں بے زمین کسان بنا کر چھوڑیں گے۔ جب ہمارے پاس کھیتی کے لیے زمین موجود ہے، تو ہم مزدور کیوں بننا چاہیں گے؟ ہم بڑے کارپوریٹوں کو اپنی زمین کا کنٹرول کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘  وہ پوچھتے ہیں۔

’’میری زنجیروں پر لگے تالے کی چابی امبانی اور اڈانی کے پاس ہے۔ مودی سرکار کو چاہیے کہ وہ چابی ان سے لے اور اس تالے کو کھول دے۔ میں وزیر اعظم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں کہ وہ براہ کرم ان قوانین کو منسوخ کر دیں۔‘‘

کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

ان نئے قوانین کے نفاذ کی وجہ سے کسان ناراض ہیں۔ وہ اِنہیں اپنی روزی روٹی کے لیے تباہ کن خیال کرتے ہیں، کیونکہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹوں کو اپنا دائرہ اثر بڑھانے کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں اور کاشتکاری پر بھی ان کے اختیارات کی مزید وسعت دیتے ہیں۔ یہ کاشتکاروں کو دی جانے والی، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیاں (اے پی ایم سی)، ریاستی خریداری وغیرہ جیسی سہولیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

کبال سنگھ کہتے ہیں، ’’جب درد کی بات آتی ہے تو پانچ کلو کی اس زنجیر کو دن بھر اٹھائے رکھنے سے میرے ہاتھ پاؤں شل ہو جاتے ہیں۔ لیکن میری جسمانی تکلیف کی وقعت کسانوں کی تکلیف کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

Holding the five-kilo chain throughout the day makes Kabal Singh go numb. But it's nothing compared to the farmers' pain, he says
PHOTO • Amir Malik
Holding the five-kilo chain throughout the day makes Kabal Singh go numb. But it's nothing compared to the farmers' pain, he says
PHOTO • Amir Malik

دن بھر پانچ کلو کی زنجیر اٹھائے رکھنے سے کبال سنگھ کے ہاتھ پاؤں شل ہو جاتے ہیں۔ لیکن، وہ کہتے ہیں ’یہ کسانوں کے درد کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے‘

ہماری پوری بات چیت کے دوران انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اوپر اٹھا رکھا تھا۔ دن کے بیشتر حصے میں ایسا کرنا ضرور تھکا دینے والا اور دباؤ پیدا کرنے والا کام ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں صبح ۵ بجے خود کو زنجیروں سے باندھتا ہوں۔ اور سورج غروب ہونے تک اپنے آپ کو اسی حالت میں رکھتا ہوں۔‘‘

صرف ڈھائی سال قبل تک پانچ ایکڑ اراضی کے مالک رہے یہ کسان کہتے ہے، ’’میں نے یہ زنجیر اپنے گاؤں میں بنوائی ہے۔‘‘ لیکن اب ان کے پاس صرف تین ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ بنیادی طور پر گندم اور کپاس اگاتے ہیں۔ بیٹی کی بیماری اور بوڑھے باپ کے علاج کے لیے انہیں اپنی دو ایکڑ زمین بیچنی پڑی تھی۔

اس زمین کو بیچ کر اس سے حاصل شدہ کئی لاکھ روپے انہوں نے ان دونوں کے علاج پر خرچ کر دیے تھے۔ ’’لیکن میں انہیں نہیں بچا سکا،‘‘ وہ غمگین لہجے میں کہتے ہیں۔ ان کی ۲۰ سالہ بیٹی کی موت یرقان (جونڈس) کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اور ان کے والد بیٹی کے فوراً بعد، ایک طویل بیماری کے بعد چل بسے تھے۔ انہیں نہیں معلوم کہ اب وہ خود اپنی دو گایوں کے دودھ سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بغیر کیسے گزارہ کریں گے۔

’’میری ماں بلبیر کور احتجاج میں شامل ہونے آ رہی تھیں۔ لیکن یہاں پہنچنے کے دوران (بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ٹریکٹر ٹرالی سے سفر کرتے ہوئے) وہ گر گئیں اور ہمیں معلوم ہوا کہ ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے آباء و اجداد کسان تھے۔ ہمارے ساتھ ہو رہی حکومت کی ناانصافی کو میں دیکھ رہا ہوں۔ ہم اسی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بچے اس کا سامنا کریں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی سرحدوں پر موجود فوجی کسانوں کے بچے ہیں۔ ’’جب وہ شہید ہوتے ہیں تو آپ انہیں بجا طور پر ہیرو بناتے ہیں۔ لیکن جب ہم یہاں اپنے حقوق مانگتے ہیں تو ہمیں مجرم بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا کیوں؟‘‘

کبال سنگھ کے لیے اب، ’’ایک بات طے ہے: میں اپنی زنجیر اس وقت تک نہیں کھولوں گا جب تک کہ مودی حکومت زرعی قوانین کو منسوخ نہیں کر دیتی۔‘‘

کور فوٹو: شردھا اگروال

مترجم: شفیق عالم

Amir Malik

Amir Malik is an independent journalist, and a 2022 PARI Fellow.

Other stories by Amir Malik
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam