’’سات مہینے ہو چکے ہیں، اور ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مجھے کھانے میں پھلوں اور دودھ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اب آپ ہی بتائیے، مجھے وہ سب کیسے مل سکتا ہے؟ اگر انہوں نے مجھے ندی میں جانے کی اجازت دی ہوتی، تو میں بھی کشتی چلاکر اپنا اور اپنے بچوں کے کھانے کا انتظام کر سکتی تھی،‘‘ سشما دیوی (بدلا ہوا نام) کہتی ہیں، جب وہ ہینڈ پمپ پر اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں۔ وہ سات مہینے کی حاملہ اور ایک بیوہ ہیں۔

کشتی چلاتی ہیں؟ ۲۷ سال کی سشما دیوی نشاد برادری سے ہیں۔ اس ذات کے مرد زیادہ تر کشتی چلاتے ہیں۔ ان میں سے ۱۳۵ مدھیہ پردیش کے ستنا ضلع کے مجھگاواں بلاک میں واقع ان کی بستی، کیوٹرا میں رہتے ہیں۔ ان کے ۴۰ سالہ شوہر، وجے کمار (بدلا ہوا نام) بھی ان میں سے ایک تھے، لیکن پانچ مہینے پہلے ایک حادثہ میں ان کی موت ہو گئی۔ ان کی شادی کو سات سال ہو گئے تھے۔ سشما کو خود کبھی کشتی چلانے کی ٹریننگ نہیں دی گئی، لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں، کیوں کہ وجے کے ساتھ وہ کئی بار کشتی کی سواری کر چکی ہیں۔

حالانکہ، لاک ڈاؤن کے دوران منداکنی ندی کے اس حصہ میں، جو چترکوٹ کے اس علاقہ کو مدھیہ پردیش اور اترپردیش کے درمیان تقسیم کرتی ہے، ایک بھی کشتی نہیں چل رہی ہے۔

غروب آفتاب کے ایک گھنٹہ بعد ہمیں کیوٹرا جانے والی سڑک پر پہلی بار کوئی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ سشما اپنے سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ پلاسٹک کی بالٹی میں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے ہینڈ پمپ تک پہنچی ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم ان سے ملتے ہیں۔

نشاد لوگ منداکنی ندی میں کشتی چلاکر معاش حاصل کرتے ہیں۔ چترکوٹ ایک مشہور تیرتھ استھل (مذہبی مقام) ہے، جہاں دیوالی کے موقع پر لاکھوں بھکت (عقیدت مند) آتے ہیں۔ منداکنی ندی کے رام گھاٹ – کیوٹرا سے تقریباً ایک کلومیٹر دور – کی نشاد کشتیاں بھکتوں کو بھرت گھاٹ اور گوینکا گھاٹ جیسے مقدس مقامات تک لے جاتی ہیں۔

سال میں یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب نشاد سب سے زیادہ پیسے کماتے ہیں۔ ایک دن میں ۶۰۰ روپے – جو سال کے باقی دنوں کی یومیہ کمائی سے ۲-۳ گنا زیادہ ہے۔

Sushma Devi with her youngest child at the village hand-pump; she ensures that her saree pallu doesn't slip off her head
PHOTO • Jigyasa Mishra

گاؤں کے ہینڈ پمپ پر سشما دیوی اپنے سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ؛ وہ اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ساڑی کا پلّو ان کے سر سے نہ پھسلے

لیکن اب، لاک ڈاؤن کے سبب کشتی کی سواری بند ہو گئی ہے۔ وجے اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور ان کے بڑے بھائی ونیت کمار (بدلا ہوا نام) – فیملی کے واحد کمانے والے رکن – بھی اپنی کشتی لیکر باہر نہیں جا سکتے۔ (سشما اپنے تین بیٹوں، ساس، اپنے شوہر کے بھائی اور ان کی بیوی کے ساتھ رہتی ہیں)۔

’’میرے صرف بیٹے ہیں۔ ہماری ہمیشہ سے یہی خواہش تھی کہ ایک بیٹی ہو، اس لیے میں اب اس کی امید کر رہی ہوں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے،‘‘ سشما اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے کہتی ہیں۔

وہ گزشتہ ۲-۳ ہفتے سے بیمار محسوس کر رہی ہیں۔ اور ایک کلومیٹر دور، نیا گاؤں میں، ڈاکٹر سے ملنے کے لیے پیدل اور لاک ڈاؤن کے دوران گئی تھیں۔ تبھی انہیں ہیموگلوبن کی سطح کم ہونے کا پتہ چلا تھا – جسے وہ ’’خون کی کمی‘‘ کہتی ہیں۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے- ۴ کے مطابق، مدھیہ پردیش میں ۵۳ فیصد خواتین اینیمک (جسم میں خون کی کمی میں مبتلا) ہیں۔ اور تقریباً ۵۴ فیصد دیہی خواتین – مدھیہ پردیش کی کل خواتین کا ۷۲ فیصد – اینیمک ہیں۔ شہری خواتین کے لیے یہ عدد ۴۹ فیصد ہے۔

’’حمل کے سبب ہیمو گلوبن کم ہو جاتا ہے،‘‘ چترکوٹ کے سرکاری اسپتال کے سینئر گایناکولوجسٹ، ڈاکٹر رما کانت چورسیا کہتے ہیں۔ ’’غیر مناسب کھانا زچہ کی اموات کے اہم اسباب میں سے ایک ہے۔‘‘

سشما کے ڈھائی سال کے بیٹے نے ان کے بائیں ہاتھ کی انگلی زور سے پکڑ رکھی ہے، جب کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بالٹی کو پکڑے ہوئی ہیں۔ تھوڑے تھوڑے وقفہ پر، وہ بالٹی کو زمین پر رکھ کر اپنی ساڑی کے پلّو کو ٹھیک کرتی ہیں تاکہ سر کھلا نہ رہے۔

 Left: Ramghat on the Mandakini river, before the lockdown. Right: Boats await their riders now
PHOTO • Jigyasa Mishra
 Left: Ramghat on the Mandakini river, before the lockdown. Right: Boats await their riders now
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: لاک ڈاؤن سے پہلے، منداکنی ندی کا رام گھاٹ۔ دائیں: کشتیوں کو اب اپنی سواریوں کا انتظار ہے

سشما بتاتی ہیں، ’’میرے شوہر جب سے ہمیں چھوڑ کر گئے ہیں، یہی [ان کے دیور] ہم سبھی سات لوگوں کے لیے واحد کمانے والے رکن ہیں۔ لیکن اب وہ بھی کام نہیں کر سکتے۔ ہم جب دن بھر کشتی چلاتے تھے، تبھی رات میں ہمیں کھانا مل پاتا تھا۔ لاک ڈاؤن سے پہلے، وہ روزانہ ۳۰۰-۴۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ کبھی کبھی تو صرف ۲۰۰ روپے ہی۔ میرے شوہر بھی اتنا ہی کماتے تھے۔ تب، کمانے والے دو رکن تھے۔ آج، کوئی نہیں ہے۔‘‘

کیوٹرا میں تقریباً ۶۰ کنبوں میں سے آدھے کے پاس، سشما کی فیملی کی طرح ہی کوئی راشن کارڈ نہیں ہے۔ ’’کیا دودھ اور کیا پھل!‘‘ وہ مذاقی اڑاتی ہیں۔ ’’یہاں پر جب آپ کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے، تو دن میں دو بار کھانا حاصل کرنا ایک چیلنج ہے۔‘‘ ان کے پاس کیوں نہیں ہے؟ مرد اس کا جواب بہتر ڈھنگ سے دے سکتے ہیں، وہ کہتی ہیں۔

سشما کے دو بڑے لڑکے یہاں سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ایک تیسری کلاس میں اور دوسرا پہلی کلاس میں ہے۔ ’’وہ ابھی گھر پر ہیں۔ وہ کل سے سموسے مانگ رہے ہیں۔ میں نے غصہ میں انہیں ڈانٹا بھی۔ آج، میری پڑوسن نے اپنے بچوں کے لیے کچھ بنایا اور میرے بچوں کو بھی دیا،‘‘ سشما اس بالٹی کو اٹھاتے ہوئے بتاتی ہیں، جسے انہوں نے ہینڈ پمپ سے آدھا ہی بھرا ہے۔ ’’میں اس مدت کے دوران اس سے زیادہ وزن اٹھانے سے بچتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کا گھر پمپ سے ۲۰۰ میٹر دور ہے اور ان دنوں، اکثر، ان کی بھابھی پانی بھر کر لاتی ہیں۔

ہینڈ پمپ کے قریب، کچھ مرد اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھڑے ہیں، جو کہ گاؤں کے مندر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ ان میں سے ایک ۲۷ سالہ چُنّو نشاد بھی ہیں۔ ’’میں کارڈ کے لیے درخواست کرتی رہتی ہوں اور وہ مجھ سے کہتے رہتے ہیں کہ مجھے مجھگاواں [بلاک ہیڈکوارٹر] جانا پڑے گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ کہتے ہیں کہ اسے بنانے کے لیے مجھے ستنا [تقریباً ۸۵ کلومیٹر دور] بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ لیکن تین بار درخواست دینے کے بعد بھی، میں اسے حاصل نہیں کر سکا۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا کہ ایسی صورتحال پیدا ہونے والی ہے، تو اسے حاصل کرنے کے لیے میں کہیں بھی اور ہر جگہ گیا ہوتا۔ کم از کم تب مجھے شہر میں اپنے رشتہ داروں سے قرض نہیں لینا پڑتا۔‘‘

چُنّو اپنی والدہ، بیوی، ایک سال کی بیٹی اور اپنے بھائی کی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ گزشتہ ۱۱ برسوں سے کشتی بانی کر رہے ہیں۔ فیملی بے زمین ہے اور لاک ڈاؤن کے دوران، یہاں کے ۱۳۴ دیگر کشتی بانوں کی طرح ہی، کچھ بھی نہیں کما رہے ہیں۔

Boatman Chunnu Nishad with his daughter in Kewatra; he doesn't have a ration card even after applying for it thrice
PHOTO • Jigyasa Mishra

کیوٹرا میں اپنی بیٹی کے ساتھ کشتی بان چُنّو نشاد؛ تین بار درخواست دینے کے بعد بھی ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے

تین بار درخواست دینے کے بعد بھی راشن کارڈ نہیں بننے سے کافی پریشانی ہو رہی ہے۔ لیکن، چُنّو کہتے ہیں، ’’ہم نے سنا ہے کہ وہ سبھی کارڈ ہولڈرز کو اسے تقسیم کرنے کے بعد جو راشن بچ جائے گا، اسے ہمیں الگ قیمت پر دیں گے۔‘‘ حالانکہ یہاں کے تھوڑے بہت راشن کارڈ ہولڈرز میں سے بھی کچھ کو ان کے حصہ کا کوٹہ نہیں ملا ہے۔

لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع کیے جانے کے بعد، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے کھانا حاصل کرنے کے لیے راشن کارڈ یا کسی دیگر آئی ڈی دستاویز کی لازمیت ختم کر دی تھی۔ مدھیہ پردیش نے ریاستی حکومت کے کوٹہ سے ۳۲ لاکھ لوگوں کو مفت راشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ راشن میں چار کلوگرام گیہوں اور ایک کلو چاول شامل ہیں۔

اس کے بعد، ستنا ضلع نے اپنے باشندوں کو بغیر کسی کاغذی کارروائی کے مفت راشن دینے کا اعلان کیا۔ مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، نگر پالیکا پریشد (چترکوٹ کی میونسپل حد بندی) میں بغیر راشن کارڈ والے ۲۱۶ کنبے ہیں – کل تقریباً ۱۰۹۷ باشندے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تقسیم کاروں نے سشما کی بستی، کیوٹرا کو اس میں شمار نہیں کیا۔

انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی) کے ذریعے ہندوستان کے غذائی تحفظ کے نظام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کیے گئے مطالعہ میں کہا گیا ہے، ’’کووِڈ- ۱۹ تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے: ناکافی اور غیر برابری والا تحفظاتی نظام ہو سکتا ہے کہ ان اقتصادی طور پر کمزور برادریوں کے بہت سے لوگوں کی رسائی غذا اور دیگر خدمت تک نہ ہونے دیں۔‘‘

سشما یاد کرتی ہیں کہ کیسے وہ اپنے شوہر کے ساتھ گھاٹ پر جاتی تھیں۔ ’’وہ خوشی کے دن تھے۔ ہم تقریباً ہر اتوار کو رام گھاٹ جاتے اور وہ مجھے تھوڑی دیر کے لیے کشتی کی سیر کرواتے۔ اس وقت وہ کسی اور گاہک کو کشتی پر نہیں بیٹھنے دیتے تھے،‘‘ وہ فخر سے کہتی ہیں۔ ’’ان کی موت کے بعد میں گھاٹ پر نہیں گئی ہوں۔ مجھے اب وہاں جانا اچھا نہیں لگتا۔ سبھی لوگ بند ہیں۔ کشتیوں کو بھی اپنے ملاحوں کی یاد آ رہی ہوگی،‘‘ وہ لمبی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Jigyasa Mishra

Jigyasa Mishra is an independent journalist based in Chitrakoot, Uttar Pradesh.

Other stories by Jigyasa Mishra
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez