ایک ایسا شخص جو دو بار نقل مکانی کے کرب سے گزر چکا ہو، عام حالت میں ایک اور نقل مکانی کے امکان کے بارے میں سوچ کر ہی کانپ اٹھے گا۔ لیکن اگر آپ اتر پردیش کے سون بھدر ضلع کے چلیکا داد گاؤں کے باشندے ہیں تو آپ اس احساس سے محروم رہیں گے۔ چلیکا داد میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھے ۶۲ سالہ رامشوبھاگ شکلا کہتے ہیں، ’’ہم سانس میں کوئلے کے ذرات لیتے ہیں، ہوا نہیں۔‘‘ کوئلے کی کان سے ہٹائی گئی مٹی اور چٹانوں کا ڈھیر (جو قابل قبول اونچائی سے زیادہ اونچا تھا) توجہ کا سب پہلا مرکز تھا۔

ماحولیات اور جنگلات کی وزارت نے اس بات کو لازمی قرار دیا ہے کہ کانکنی کے مقام اور گاؤں کے درمیان۵۰۰ میٹر کا فاصلہ ہو۔ ناردرن کول فیلڈز لمیٹڈ (این سی ایل) نے چلیکا داد گاؤں کے تناظر میں اس کا بات کا خیال رکھا ہے۔ تاہم یہاں کے باشندے اس فاصلے کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ کوئلے کے ڈمپروں کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی نازک سڑک چلیکا داد کے شمال میں ۵۰ میٹر سے بھی کم دوری پر بنائی گئی ہے۔ کوئلے کو سنبھالنے والا پلانٹ مشرق میں گاؤں کے آخری سرے پر واقع ہے اور کوئلے کو جمع کرنے والا گودام گاؤں کے مغرب میں۔ اس کے علاوہ، ریلوے کا ایک تنگ انڈر پاس (ریلوے لائن کے نیچے سے ہو کر گزرنے والا راستہ)، جس کے اوپر سے کوئلہ بردار ٹرینیں گزرتی ہیں، گاؤں تک رسائی کا واحد راستہ ہے۔ کوئلے کی کان سے ہٹائی گئی مٹی اور چٹانوں کا ڈھیر گاؤں میں داخل ہونے والے کسی بھی شخص کو سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ شام ۷ بجے کی مدھم روشنی میں اسے دیکھ کر ہم پر کسی پہاڑی سلسلہ کا گمان گزرا تھا۔

شکلا نے مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا،  ’’ایک لحاظ سے ہماری مثال بالکل منفرد ہے۔‘‘

ڈھلائی والی سڑک پر کوئلہ بردار ڈمپر جوش و خروش اور باقاعدگی سے چلتے ہیں۔ شکلا نے مزید بتایا، ’’وہ سرکاری تعطیلات اور اتوار کو بھی چھٹی نہیں لیتے۔ ہمیں دن میں دو بار دھماکے کا شور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کوئلہ ڈھونے والے ڈمپروں کا مسلسل ٹریفک کوئلے کی ناقابل برداشت آلودگی پھیلاتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں باز آبادکاری کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

چلیکا داد گاؤں میں تقریباً ۸۰۰ کنبے آباد ہیں۔ یہ کنبے سنگرولی خطے میں ترقیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے دو بار بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ خطہ مدھیہ پردیش کے سنگرولی ضلع اور اترپردیش کے سون بھدر ضلع میں پھیلا ہوا ہے۔

رامشوبھاگ شکلا کو ریہند ڈیم کی وجہ سے آٹھ سال کی عمر میں پہلی بار ۱۹۶۰ میں رینوکٹ سے نقل مکانی کرکے شکتی نگر گاؤں میں آباد ہونا پڑا تھا۔ ۱۹۷۵ میں جب نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) نے اپنا شکتی نگر کا پاور پلانٹ نصب کیا، تو اس نے انہیں شکتی نگر سے نقل مکانی کرکے ۱۹۷۷ میں چلیکا داد میں دوبارہ آباد ہونے کے لیے مجبور کیا تھا۔

شکلا نے بتایا، ’’جب ہم پہلی بار یہاں آئے تھے تو یہ پہاڑی علاقہ جنگلات سے گھرا ہوا تھا۔ خوش طبع ماحول، تازہ ہوا اور پرفضا فطرت نے ہماری صبحوں کو خوشگوار بنا دیا تھا۔‘‘ تقریباً چار سال بعد، این سی ایل نے مقامی لوگوں کے احتجاج کے درمیان کھڑیا کی کانکنی کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ آخر کار یہ احتجاج حکومتی منصوبوں کے سامنے دم توڑ گیا۔

شکلا نے مزید بتایا، ’’شروع میں سب ٹھیک تھا۔ گزشتہ ۱۰ برسوں میں آلودگی میں کافی اضافہ ہوا ہے، لیکن پچھلے چار برس ناقابل برداشت رہے ہیں۔ اب ہمارے سامنے کوئلہ ہی کوئلہ ہے۔‘‘ آلودگی کی سطح کیا ہے؟ اس پر ہمارے شکوک و شہبات (اگر کوئی تھے) کو ختم کرتے ہوئے انہوں نے فوری طور پر جواب دیا، ’’ایک آئینہ کھلی جگہ پر رکھ کر ۲۰ منٹ بعد اس میں آپ اپنا چہرہ نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس پر اتنی زیادہ دھول جم جاتی ہے۔‘‘

PHOTO • Srijan Lokhit Samiti

یہاں ماحولیات کی تباہی کے سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ہوا اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ شکلا نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’’میرے چار سالہ پوتے کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کینسر، سانس سے متعلق بیماریاں، دماغی بیماریاں، تپ دق، پھیپھڑوں کے انفیکشن اور جلد کے امراض میں اضافہ ہوا ہے۔ حال ہی میں ایک تین سالہ بچے میں ذیابیطس کی تشخیص ہوئی ہے۔‘‘

کوئلے کا اونچا ڈھیر گاؤں کی طرف سر اٹھائے کھڑا ہے، جسے دیکھ کر گاؤں والوں کو مانسون سے ڈر لگتا ہے۔ شکلا کے پڑوسی، ۴۷ سالہ رام پرتاپ مشرا نے لوگوں کے مزاج میں آئی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا، ’’موسلا دھار بارش کوئلے کا فضلہ بہا کر اپنے ساتھ لے آتی ہے۔ آلودہ پانی گاؤں میں بہتا ہے، جس سے پانی کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم نے شاذ و نادر ہی گاؤں والوں کے درمیان کوئی جھگڑا دیکھا ہے، لیکن پچھلے تین  چار برسوں سے لوگوں کے مزاج میں چڑچڑاپن آ گیا ہے، بعض اوقات چھوٹی چھوٹی باتیں سنگین جھگڑے کا باعث بن جاتی ہیں۔‘‘

چلیکا داد کی تقریباً ۳۰ فیصد آبادی کی روزی روٹی کا انحصار دودھ کی مصنوعات پر ہے۔ بدقسمتی سے ماحولیاتی آلودگی نے انسانوں اور جانوروں کو برابر کر دیا ہے۔ انسانوں کی طرح گائے اور بھینسیں بھی اس کی زد میں ہیں۔ تقریباً نصف صدی سے اس کاروبار سے وابستہ ۶۱ سالہ پنّا لال نے کہا، ’’جانوروں میں قبل از وقت پیدائش اور اسقاط حمل کے واقعات بڑھ گئے ہیں، جس سے ان کی افزائش کا قدرتی عرصہ تکمیل درہم برہم ہوگیا ہے۔‘‘ ان سے دودھ کی مصنوعات کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی ہے۔

سنگرولی میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کے نتیجے میں کسانوں نے اپنی زمینیں حکومت کو سونپ دی ہیں، جس سے زرعی سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں۔ نتیجتاً مویشیوں کے چارے بھی نایاب ہو گئے ہیں۔ پنا لال نے مزید کہا، ’’پہلے ہم مویشیوں کے چارے قریبی کھیتوں سے بغیر کسی قیمت کے وافر مقدار میں حاصل کر لیتے تھے۔ اب ہمیں ان کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔‘‘ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے دودھ کی مصنوعات پر انحصار کرنے والے مقامی افراد اب آمدنی کے دوسرے ذرائع کے بارے میں سوچنے لگے ہیں۔ انہوں نے آگے بتایا، ’’جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے یہاں ۳۵ گائیں اور ۱۲ بھینسیں تھیں۔ اب میرے پاس صرف ایک گائے اور ایک بھینس ہے۔ مالی نقصانات ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔‘‘

مزید برآں، چلیکا داد جیسے غیرمحفوظ علاقے میں حفظان صحت کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں ہے۔ مشرا کا کہنا تھا، ’’اس طرح کی بیماری کے خطرے والے علاقے میں صحت کی سہولیات زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئیں۔ لیکن افسوس، یہاں اس کا وجود صفر ہے۔ ہمیں کسی بھی قسم کے علاج کے لیے ادھر ادھر بھاگنا پڑتا ہے۔‘‘

سنگرولی خطے میں تھرمل پاور پلانٹس اور کان کے ذخائر کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ نتیجتاً، خطے میں نقل مکانی کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جن لوگوں نے ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ کے لیے اپنی زمینیں کھوئیں، انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انہیں اپنی روایتی روزی روٹی سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ چونکہ یہ ایک پاور ہب ہے، اس لیے کسی کو بھی یہ بدگمانی ہو سکتی ہے کہ سنگرولی ایک خوشحال علاقہ ہے۔ لیکن، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ خطہ غریب ہے اور یہاں بے گھر ہونے والوں کی باز آبادکاری ناقص ہے۔ یہاں صحت، تعلیم، صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ سنگرولی پر گرین پیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا عنوان ہے، ’سنگرولی: دی کول کرس‘ (یعنی، سنگرولی: کوئلے کا عذاب)۔

بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کے ایک رکن گریش دویدی نے کہا، ’’سنگرولی علاقے کے ۵۰ کلومیٹر کے فضائی علاقے میں، ۲۰۰۰۰ میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بھی ان منصوبوں کی اہمیت کو کم نہیں کر سکتا۔ تاہم، اس میں کوئی شک نہیں کہ باز آبادکاری بہتر ہو سکتی تھی۔‘‘

خطے کی کمپنیوں نے پروجیکٹ سے متاثرہونے والے چند کنبوں کو ملازمتیں فراہم کی ہیں۔ لیکن شکلا کا خیال ہے کہ گاؤں کے زیادہ تر نوجوان ٹھیکیداروں کے لیے بندھوا مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شکلا کے بیٹے بھی کوئلے کی کان سے مٹی اور چٹان ہٹانے کا کام کرتے ہیں۔ سنگرولی کے ایک بہت ہی قابل احترام کارکن، اودھیش کمار نے کہا، ’’یہ سب عارضی ملازمتیں ہیں۔ وہ کسی بھی وقت بے روزگار ہو سکتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Srijan Lokhit Samiti

سنگرولی خطے کو ہندوستان کے توانائی کے دارالحکومت کے طور پر مشتہر کیا جاتا ہے، جو شہروں کو روشن کرتا ہے اور صنعتوں کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ اس تناظر میں، تضاد حیران کن ہے۔ چلیکا داد نے ہمیں ۸ بجے شام کو آدھی رات کا تاثر دیا۔ ہم نوٹ پیڈ پر لکھتے وقت موبائل فون کی روشنی کا استعمال کر رہے تھے۔ تاہم اس اندھیرے نے شکلا کی بیوی کو ہمیں تازگی بخش چائے اور ناشتہ پیش کرنے سے باز نہیں رکھا۔ ان کے کام کرنے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ چلیکا داد کے معمول میں شامل ہے۔ جب شکلا سے پوچھا گیا کہ انہیں روزانہ کتنی بجلی ملتی ہے، تو انہوں نے کہا، ’’آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں۔ اور سالوں سے ایسا ہی ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۱ میں سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ نے سون بھدر سے پانی، مٹی، اناج اور مچھلی کے نمونے اور وہاں رہنے والے لوگوں کے خون، بالوں اور ناخن کے نمونے اکٹھے کرکے ایک مطالعہ کیا تھا۔ اس مطالعہ میں یہ نتجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ضلع کے ماحول میں پارے کی سطح خطرناک حد تک اونچی ہے۔

لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ شکلا کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’انتظامیہ کو کچھ کرنا چاہیے۔ کم از کم میرے پوتے کی نسل تو سکون سے رہے۔‘‘

تاہم سون بھدر کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ ابھے کمار پانڈے اپنی ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کرتے نظر آئے۔ ’’ہم کیا کر سکتے ہیں؟ یہ مقامی لوگوں اور کمپنی کے درمیان کا معاملہ ہے۔‘‘

کمار نے کہا، ’’اس خطے میں سارے معاملےبڑے بڑے لوگوں کے ذریعہ طے کیے جاتے ہیں۔ مانا کہ کمپنیوں نے ماحولیات کو تباہ کر دیا ہے، لیکن حکومت انہیں ایسا کرنے کا حق دیتی ہے۔‘‘

اس علاقے سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ چھوٹے لال کھروار نے کہا کہ انہوں نے ’’کبھی گاؤں کا دورہ نہیں کیا‘‘ لیکن اگر مقامی لوگ انہیں ذاتی طور پر اپنی مشکلات سے آگاہ کریں تو وہ ’’اس معاملے کو دیکھیں گے۔‘‘

مشرا نے کہا، ’’سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں، لیکن کسی نے کسی قسم کا تعاون نہیں کیا۔ تمام امیر صنعت کار ان بڑے بجٹ کے منصوبوں کے مالک ہیں۔ لیکن پیسہ ہمارے دریاؤں، جھیلوں، جنگلات کو واپس نہیں لا سکتا، جنہیں انہوں نے ختم کر دیا ہے۔‘‘

اب رات کے کھانے کا وقت گزر چکا تھا اور جب ہم نے بات چیت ختم کی تو بجلی آگئی۔ ہم واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے، جب کہ شکلا، پنا لال اور مشرا نے کوئلے کے ابدی سائے میں اپنی زندگی دوبارہ شروع کی۔

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam