’’[ایک بڑے برانڈ کے ذریعہ بیچے جا رہے] کرتا پر لگے ٹیگ کی اس تصویر کو دیکھیں، جس کا دعویٰ ہے کہ یہ ’ٹوڈا کشیدہ کاری‘ ہے۔ یہ کپڑے پر چھپی ہوئی مہر ہے! اور انھوں نے حقائق کو درست کرنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی ہے، کشیدہ کاری کو ’ پوکھور ‘ کہہ رہے ہیں اور دیگر الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے جو ہماری زبان میں موجود ہیں ہی نہیں،‘‘ واسملّی کے کہتی ہیں۔
ٹوڈا زبان میں، اس برادری کی کشیدہ کاری کو پوہور کہا جاتا ہے۔ ساٹھ سالہ واسملّی، ایک تجربہ کار کشیدہ کار ہیں جو تمل ناڈو کے نیلگری ضلع کے کُنڈاہ تعلق کی کریکامُنڈ بستی میں رہتی ہیں۔ تقریباً ۱۶ کلومیٹر کی دوری پر، اوٹی (اُدھگ منڈلم) شہر میں ٹوڈا کڑھائی کی صنعتوں کی دکان چلانے والی شیلا پاویل کو بھی تب یقین نہیں ہوا، جب انھوں نے ایک دیگر مشہور رٹیلر کے ذریعہ ’ٹوڈا‘ کی ساڑی آن لائن صرف ۲۵۰۰ روپے میں بیچتے ہوئے دیکھا۔ انھوں نے فوراً اسے منگوایا۔ ’’اس کا اشتہار ’تمل ناڈو کی خواتین کی ذریعے ہاتھ کی ماہر کشیدہ کاری سے تیار ٹوڈا کڑھائی والی ساڑی‘ کے طور پر دیا گیا تھا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ وہ اس کی قیمت اتنا کم کیسے کر سکتے ہیں اور یہ کہاں تیار کی گئی ہے۔‘‘
ساڑی کچھ ہی دنوں میں پہنچا دی گئی۔ ’’میں نے دیکھا کہ یہ مشین کی کڑھائی تھی، اور کھلے ہوئے دھاگے کو چھپانے کے لیے پچھلے حصہ کو کپڑے کی ایک پٹّی سے ڈھک دیا گیا تھا،‘‘ شیلا بتاتی ہیں۔ ’’ہاں، کڑھائی کالے اور لال رنگ کی تھی، لیکن یہ واحد یکسانیت تھی۔‘‘
ٹوڈا برادری کی خواتین کے ذریعہ کی جانے والی روایتی کشیدہ کاری کی جیومیٹریکل ڈیزائن میں، مخصوص لال اور کالے (اور کبھی کبھی نیلے) رنگ کے دھاگے کا کام بغیر بلیچ والے سفید سوتی کپڑے پر ہوتا ہے۔ روایتی ٹوڈا پوشاک ایک مخصوص شال، پُٹوکُلی ہے۔ ایک قیمتی لباس کے سبب یہ صرف خاص موقعوں پر پہنا جاتا ہے جیسے کہ مندر میں جاتے وقت، تہواروں پر اور آخر میں کفن کے طور پر۔ ۱۹۴۰ کی دہائی کے آس پاس، ٹوڈا خواتین نے انگریز خریداروں کے ذریعے آرڈر کرنے پر میزپوش، بیگ اور دیگر سامان بنانا شروع کیا۔ اگلی کئی دہائیوں تک، فروخت ان لوگوں تک ہی محدود تھی، جنہوں نے ان اشیاء کی مانگ کی۔ پہلے صرف سوتی دھاگے کا استعمال کیا جاتا تھا، حالانکہ اب زیادہ تر ٹوڈا خواتین اون کے دھاگے کا استعمال کرتی ہیں، کیوں کہ وہ کہتی ہیں کہ یہ کم خرچیلا ہے اور اس سے تیزی سے کام ہوتا ہے۔
’’پھر بھی یہ بہت نازک [کام] ہے اور آنکھوں میں تناؤ پیدا کرتا ہے، اس لیے ایک دن میں صرف تین سے چار گھنٹے ہی کام کیا جا سکتا ہے،‘‘ واسملّی کی بھابھی، ۵۴ سالہ سِمّاونی پی کہتی ہیں۔ کوئی کھینچا ہوا ڈیزائن نہیں ہے، اور کپڑے کے تانے بانے کو کشیدہ کار کے ذریعے گرڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ ٹانکے مضبوطی سے لگائے جاتے ہیں، دیگر میں دھاگوں کی گانٹھ ڈیزائن کے حصہ کے طور پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ ٹوڈا کڑھائی کے پیس میں کوئی اُلٹا حصہ نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ اس کے دونوں طرف بہت صفائی سے کام کیا جاتا ہے – جو کہ کاریگروں کے درمیان بہت فخر کی بات ہے۔
’’چھ میٹر کی ساڑی پر کشیدہ کاری کرنے میں کم از کم چھ ہفتے لگتے ہیں اور یہ کم از کم ۷۰۰۰ روپے میں فروخت ہوگی۔ اصلی پیس کو ۲۵۰۰-۳۰۰۰ روپے میں بیچنا اقتصادی طور پر ممکن نہیں ہے،‘‘ شیلا بتاتی ہیں۔
بڑے برانڈوں کے ذریعے تفصیل نہ صرف گمراہ کن ہوتی ہے، بلکہ یہ خلاف ورزی بھی ہو سکتی ہے۔ ٹوڈا کشیدہ کاری کو ۲۰۱۳ میں جی آئی (جغرافیائی نشان) سرٹیفکیٹ ملا تھا۔ سرکار کے ذریعہ کسی برادری کے روایتی علم یا مخصوص غذائی اشیاء کی پیداوار، پیشوں اور ہنر کے تحفظ کے لیے جی آئی دیا جاتا ہے۔ یہ ایک انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹ کی طرح ہے۔ ٹوڈا کشیدہ کاری کے لیے جی آئی کیٹیگری کا مطلب ہے نیلگری ضلع کے باہر بنائی گئی کوئی بھی چیز خلاف ورزی ہے، جو پیداوار کے ہر اُس طریقے پر بھی لاگو ہوتی ہے جس میں ہاتھ کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ ٹوڈا کشیدہ کاری کے جی آئی کا مالکانہ حق مشترکہ طور پر پومپوہر (تمل ناڈو ہینڈی کرافٹس ڈیولپمنٹ کارپوریشن)، کی اسٹون فاؤنڈیشن (نیلگری میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم) اور ٹوڈا نلواژوو سنگم (کنور واقع کچھ ٹوڈا کاریگروں اور دانت کے غیر ٹوڈا ڈاکٹروں کی ایک تنظیم) کے پاس ہے۔
واسملّی کہتی ہیں کہ جی آئی کے باوجود، ’’نیلگری کے باہر کی بڑی کمپنیاں مشینوں کا استعمال کرکے یا پرنٹ کی شکل میں ہماری کشیدہ کاری کی نقل کر رہی ہیں اور اسے ’ٹوڈا کڑھائی‘ کہہ رہی ہیں۔ وہ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟‘‘
صرف بڑی کمپنیاں ہی نہیں، بلکہ دیگر دستکار بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جے پور کی ایک دستکاری نمائش میں، واسملّی نے ایک دیگر دکان میں اونی شال پر ٹوڈا ڈیزائن دیکھا۔ ’’ایک صارف میرے پاس یہ کہتے ہوئے لڑنے آیا کہ آپ کے سامان اتنے مہنگے کیوں ہیں جب کہ وہ اسی چیز کو آدھی قیمت پر بیچ رہے ہیں؟‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’یہ [دوسری دکان کا آئیٹم] ہاتھ کی کڑھائی نہیں تھی، بلکہ مہربند پیٹرن تھا اور [اس لیے] یہ بہت سستا تھا۔‘‘
اس برادری کے اندر ایک خوف یہ بھی ہے کہ غیر ٹوڈا کڑھائی کا ہنر سیکھ رہے ہیں کیوں کہ ٹوڈا آبادی بہت کم ہے – نیلگری کی متوقع ۱۲۵ ٹوڈا بستیوں کے ۵۳۸ گھروں میں صرف ۲۰۰۲ لوگ (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ خود ان کے اندازوں کے مطابق، ان کی برادری میں تقریباً ۳۰۰ خواتین ہیں جو پوہور کا کام کرتی ہیں۔ حالانکہ، نوجوان خواتین میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے، جس سے اس ہنر کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
کونور تعلق کی ایک ٹوڈا بستی، نیڈی مُنڈ میں ۲۳ سالہ کاریگر این ستیاسِن کی حالت ان کے جیسے دوسرے لوگوں کی حالت کو بتا رہی ہے: ’’کام بہت ہے اور اس میں کافی وقت لگتا ہے۔ [چائے] کے ایک باغ میں مزدور کے طور پر مجھے ایک دن میں ۳۰۰ روپے یا اس سے زیادہ مل سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے میں دن میں دو سے چھ گھنٹے لگاتی ہوں اور مہینہ کے آخر میں مجھے تقریباً ۲۰۰۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘
ستیاسن، شیلا (جو ٹوڈا برادری سے نہیں ہیں) کے ذریعہ چلائی جا رہی ٹوڈا مصنوعات کی دکان، شالوم میں کام کرتی ہیں۔ کچھ ٹوڈا لوگوں نے شالوم کی بھی تنقید کی کہ یہاں غیر ٹوڈا خواتین کو کام پر رکھا جاتا ہے۔ ’’وہ ضمنی کام کرتی ہیں جیسے کہ سلائی، موتیوں اور پھندنے کو جوڑنا، کڑھائی نہیں کرتی ہیں،‘‘ شیلا جواب دیتی ہیں۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ اگر کوئی دوسرا اسے کرے گا، تو ہنر اپنی کچھ قدر کھو دے گا۔ ابھی یہ بیش قیمتی ہے کیوں کہ یہ بہت ہی کم ہے، ایک سال میں اتنے سارے پیس اور ہر ایک پیس انوکھا ہے۔ لیکن اس کام کو پورا کرنا اور اسے جاری رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے۔‘‘
دکان ۲۰۰۵ میں شروع کی گئی تھی۔ اس میں ۲۲۰ ٹوڈا خواتین کشیدہ کاری کا کام کرتی ہیں اور ساڑی، شال، بیگ اور لینن جیسی مصنوعات بناتی ہیں۔ ہر ایک ساڑی جو ۷۰۰۰ روپے میں فروخت ہوتی ہے، اس میں سے تقریباً ۵۰۰۰ روپے کاریگر کو دیے جاتے ہیں، اور بقیہ رقم سامان خریدنے اور مارکیٹنگ میں استعمال کیا جاتا ہے، شیلا بتاتی ہیں۔ اکثر تجربہ کار کاریگر خواتین ہر ماہ اوسطاً ۴۰۰۰ روپے سے ۱۶۰۰۰ روپے کے درمیان کماتی ہیں، جو ان کے کام کی مقدار پر منحصر ہے۔ شالوم نے ۲۰۱۷-۲۰۱۸ میں ۳۵ لاکھ روپے کا کاروبار کیا اور نیلگری میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بازار میں ان مصنوعات کو بڑھانے میں مدد کر رہا ہے۔
لیکن واسملّی اسے نہیں مانتیں اور کہتی ہیں، ’’اگر غیر ٹوڈا اسے کریں گے، تو یہ اپنی قیمت کھو دے گا۔ لیکن دوسری جانب اگر وافر تعداد میں لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ پوری طرح ختم ہو جائے گا۔‘‘
ٹوڈا برادری کی شرحِ خواندگی ۸۴ فیصد ہے، جس کی وجہ سے انھیں اب بینکوں اور دیگر خدمات میں نوکریاں مل رہی ہیں اور انھیں کافی خوشحال سمجھا جانے لگا ہے۔ واسملّی کے پاس بھی سماجیات میں ماسٹرس کی ڈگری ہے، وہ تمل ناڈو آدیواسی فلاح بورڈ کی رکن ہیں، اور ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ ان کی کتاب شائع ہو چکی ہے۔
’’یہ ہم ٹوڈا خواتین کے لیے سر درد ہے! مردوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ کون کڑھائی کر رہا ہے اور کون نقل،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ [ہمارے ہاتھ کی کڑھائی] بیچنا اور کاروبار کرنا ہماری ثقافت کی روایت نہیں ہے، اس لیے مرد اس کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ہم خواتین کے لیے یہ دونوں ہے – ہمیں اپنے ثقافتی حق کی حفاظت کرنی ہے اور ساتھ ہی مالی نقصان بھی نہیں اٹھانا ہے۔‘‘
ٹوڈا کشیدہ کاری کا مسئلہ حل نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان امور پر غور کرنے کے لیے ٹوڈا کاریگروں کے پاس ایک بھی تنظیم نہیں ہے۔ ’’ہم ایک برادری کے طور پر بکھرے ہوئے ہیں،‘‘ واسملّی کہتی ہیں۔ ’’کئی تنظیمیں ہیں، جو بہت سیاسی ہو گئی ہیں۔ میں کئی تنظیموں کی رکن ہوں، لیکن میں بھی اس کے لیے سبھی کو جمع کرنے میں قاصر ہوں۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘
دریں اثنا، بنگلورو میں مقیم وکیل زاہدہ مُلّا، جو انٹیلیکچول پراپرٹی حقوق، پیٹنٹ اور کاپی رائٹ میں ماہر ہیں، اور جنہیں ٹوڈا کشیدہ کاری جی آئی کے لیے کی اسٹون فاؤنڈیشن کے ذریعے بااختیار بنایا گیا تھا، کو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے۔ ’’ٹوڈا کڑھائی میں، ’بنانے کا طریقہ‘ صرف ہاتھ کی کشیدہ کاری سے متعلق ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اگر یہ کڑھائی کسی دوسرے طریقے سے کی جاتی ہے جیسا کہ مشین کے ذریعے، تو اسے ’ٹوڈا کشیدہ کاری‘ کہنا غلط ہے۔ دوسرے الفاظ میں، مشین کی کشیدہ کاری والی مصنوعات کو ’ٹوڈا کشیدہ کاری‘ کی شکل میں بیچنا خلاف ورزی کہلائے گا۔ رجسٹریشن کے عمل میں، کچھ مخصوص ڈیزائنوں کو بھی رجسٹر کیا جاتا ہے۔‘‘
حالانکہ، وہ کہتی ہیں، ’’آپ کو آخری صارفین کے درمیان اسے نافذ کرنا اور بیداری پیدا کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ نقلی فروخت سے متاثر جی آئی ہولڈرس اور حقیقی مینوفیکچررز (جنہیں جی آئی سرٹیفکیٹ میں ’بااختیار استعمال کنندہ‘ کہا جاتا ہے) کو [اس دائرۂ اختیار کے ہائی کورٹ میں] خلاف ورزی کا مقدمہ دائر کرکے قانونی حل تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
مبینہ ٹوڈا کشیدہ کاری کی مارکیٹنگ کرنے والے دو برانڈ، جن کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے، وہ ریلائنس ٹرینڈس کے سیاہی اور Tjori.com ہیں۔ مصنوعات کی وضاحت اور سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے بارے میں بار بار ای میل کرنے کے باوجود Tjori نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اس رپورٹر کے ذریعہ بھیجے گئے ایک ای میل کے جواب میں، customercare@reliancetrends.com نے لکھا: ’’سیاہی ایک ایسا برانڈ ہے جو روایتی ہندوستانی ہنر سے اثر لیتا ہے۔ ہم دستکاروں کے ذریعے بنائی گئی پیداوار نہیں کرتے ہیں۔ سبھی کڑھائی مشین سے کی جاتی ہے۔ کارخانوں میں سبھی کڑھائی کمپیوٹر کڑھائی مشینوں پر کی جاتی ہے۔ اثر ٹوڈا شال سے لیا گیا ہے۔‘‘
لیکن واسملّی مطمئن نہیں ہیں۔ ’’ہمارے ڈیزائنوں کی نقل کرنا اور ہمارے نام کا استعمال کرنا صحیح نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)