بالاجی ہٹگلے ایک دن گنّے کی کٹائی کر رہے تھے۔ اگلے دن ان کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ ان کے ماں باپ افسوس کرتے ہیں کہ کاش انہیں کچھ پتہ ہوتا۔ ان کے والد، بابا صاحب ہٹگلے کہتے ہیں، ’’غیر یقینی کی حالت ہمیں جینے نہیں دے رہی ہے۔‘‘ جولائی کی ایک دوپہر میں جب آسمان میں بادل گھر آئے تھے، تو ان کے ایک کمرے کے اینٹ کے گھر پر منڈلا رہے گہرے سیاہ بادلوں کا سایہ ان کی زندگی میں دبے پاؤں گھُس آئے اندھیرے کو جیسے اور گاڑھا کر رہا تھا، ان کی کانپتی ہوئی آواز جیسے نا امیدی بھری اداسی کو کہانی کی طرح بیان کرتی ہے، ’’کاش! کہیں سے ہمیں صرف یہ بات ہی معلوم ہو جاتی کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔‘‘

بابا صاحب اور ان کی بیوی سنگیتا نے سال ۲۰۲۰ کے نومبر مہینہ میں کسی روز اپنے ۲۲ سالہ بیٹے کو آخری بار دیکھا تھا۔ بالاجی مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے کاڈی وڈ گاؤں واقع اپنے گھر سے کرناٹک کے بیلگاوی ضلع (یا بیلگام) میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے آئے تھے۔

وہ اُن لاکھوں سیزنل مہاجر مزدوروں میں سے ایک تھے جو مراٹھواڑہ سے گنے کی کٹائی کے کام کے لیے سال میں ۶ مہینے کے لیے مغربی مہاراشٹر اور کرناٹک جاتے ہیں۔ ہر سال دیوالی کے ٹھیک بعد نومبر مہینہ میں مزدوروں کا یہ دستہ کام کے سلسلے میں اپنا گاؤں چھوڑ کر جاتا ہے اور مارچ یا اپریل تک واپس لوٹتا ہے۔ لیکن اس سال کی واپسی میں بالاجی اپنے گھر نہیں پہنچے۔

ایسا پہلی بار تھا کہ بالاجی اس کام کے سلسلے میں اپنے گھر سے نکلے تھے جسے ان کے ماں باپ تقریباً دو دہائیوں سے کرتے آ رہے تھے۔ بابا صاحب بتاتے ہیں، ’’میری بیوی اور میں تقریباً ۲۰ سالوں سے مہاجر مزدور کے طور پر گنّے کی کٹائی کا کام کر رہے ہیں۔ ایک سیزن میں ہماری ۶۰ سے ۷۰ ہزار روپے تک کی کمائی ہو جاتی ہے۔ یہی ہماری آمدنی کا واحد ذریعہ ہے۔ عام دنوں میں بھی بیڈ میں دہاڑی مزدوری کا کام ملنا کوئی پکا نہیں ہوتا اور کووڈ وبائی مرض کے بعد اس کا امکان اور بھی کم ہو گیا ہے۔

فیملی کے لیے وبائی مرض کے دوران کھیتوں میں اور تعمیراتی مقاماتپر دہاڑی مزدوری کا کام پانا بے حد مشکل رہا ہے۔ بالا صاحب کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۲۰ میں مارچ سے نومبر تک ہماری نہ کے برابر کمائی ہوئی۔‘‘ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض سے پہلے جب وہ بیڈ ضلع کے وڈونی تعلقہ واقع اپنے گاؤں میں ہوتے تھے، تب ان مہینوں میں بابا صاحب عام طور پر ہفتہ میں ۳-۲ دن کام کرتے تھے اور کام کے بدلے روزانہ انہیں ۳۰۰ روپے ملتے تھے۔

پچھلے سال نومبر میں جب ایک بار پھر سے کام کے لیے مہاجرت کرنے کا وقت آیا تو بابا صاحب اور سنگیتا نے گھر پر ہی رکنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ بابا صاحب کی بوڑھی ہو چکی ماں کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور انہیں ہر وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ بابا صاحب کہتے ہیں، ’’لیکن اپنا پیٹ پالنے کے لیے ہمیں کچھ تو کرنا ہی تھا۔ اس لیے ہماری جگہ ہمارا بیٹا گیا۔‘‘

Babasaheb (left) and Sangita Hattagale are waiting for their son who went missing after he migrated to work on a sugarcane farm in Belagavi
PHOTO • Parth M.N.
Babasaheb (left) and Sangita Hattagale are waiting for their son who went missing after he migrated to work on a sugarcane farm in Belagavi
PHOTO • Parth M.N.

بابا صاحب (بائیں) اور سنگیتا ہٹگلے بے صبری سے اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہے ہیں، جو بیلگاوی میں گنے کے کھیت میں مہاجر مزدور کے طور پر کام کرنے کے لیے جانے کے بعد سے لاپتہ ہے

مارچ ۲۰۲۰ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اچانک لگائے گئے لاک ڈاؤن نے بابا صاحب اور سنگیتا جیسے لاکھوں مہاجر مزدوروں کے معاش کو بحران میں ڈال دیا۔ بہتوں س ان کی روزی چھن گئی اور بہتوں کو دہاڑی مزدوری کا کوئی کام بھی نہیں مل سکا۔ جون کے مہینہ میں لاک ڈاؤن ہٹا لیے جانے کے بعد بھی مہینوں تک آمدنی کے لیے ان کی جدوجہد جاری رہی۔

ہٹگلے فیملی کی مالی حالت اس سے ذرا بھی الگ نہیں تھی۔ سال ۲۰۲۰ میں کام نہ ملنے سے پیدا ہونے والی نا امیدی اور اداسی نے بالاجی کو گنے کی کٹائی کے سیزن میں بیڈ سے مہاجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ تب تک انہوں نے صرف اپنے اور آس پاس کے گاؤوں میں ہی کام کیا تھا۔

بالاجی (نئے شادی شدہ)، اپنی بیوی اور ساس سسر کے ساتھ بیلگاوی کے بساپورہ گاؤں گنّے کی کٹائی کے سلسلے میں گئے تھے، جو کہ ان کے گھر سے تقریباً ۵۵۰ کلومیٹر دور ہے۔ ’’وہ ہمیں ہر روز وہاں سے فون کرتا تھا، اس لیے ہم تھوڑے بے فکر ہو گئے تھے‘‘ – کہتے ہوئے سنگیتا کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔

دسمبر کے مہینہ میں ایک دن شام کو سنگیتا نے جب اپنے بیٹے کو فون کیا، تو فون بیٹے کے سسر نے اٹھایا۔ انہوں نے ان کو بتایا کہ بالاجی کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’لیکن اس کے بعد جب بھی ہم نے فون کیا، اس کا فون بند آ رہا تھا۔‘‘

جب بالاجی کا فون اگلے ۳-۲ دنوں تک سوئچ آف رہا، تو کسی بری خبر کے خدشہ سے بابا صاحب اور سنگیتا کا دل بے چین ہو اٹھا۔ پھر انہوں نے تسلی کے لیے بیلگاوی جا کر یہ پتہ لگانے کا فیصلہ کیا کہ ان کا بیٹا ٹھیک تو ہے۔ لیکن ان کے پاس سفر کے لیے پورے پیسے نہیں تھے۔ وہ مشکل سے فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کر پاتے تھے۔ فیملی میں ان کے علاوہ ۱۵ سال کی بیٹی، الکا اور ایک ۱۳ سال کا بیٹا، تاناجی ہیں۔ فیملی کا تعلق ماتنگ ذات سے ہے، جو مہاراشٹر میں حاشیہ پر پڑی دلت برادری ہے۔

بابا صاحب نے ایک ساہوکار سے ۳۰ ہزار روپے ۳۶ فیصد سود کی مقررہ شرح سے نقد اُدھار لیا۔ انہیں بس ایک بار اپنے بیٹے کو دیکھنا تھا۔

Left: A photo of Balaji Hattagale. He was 22 when he left home in November 2020. Right: Babasaheb and Sangita at home in Kadiwadgaon village
PHOTO • Parth M.N.
Left: A photo of Balaji Hattagale. He was 22 when he left home in November 2020. Right: Babasaheb and Sangita at home in Kadiwadgaon village
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: بالاجی ہٹگلے کی تصویر۔ سال ۲۰۲۰ کے نومبر مہینہ میں جب وہ گھر سے نکلے تب ان کی عمر ۲۲ سال کی تھی۔ دائیں: بابا صاحب اور سنگیتا کاڈی وڈ گاؤں میں واقع اپنے گھر پر

بابا صاحب اور سنگیتا کرایے پر لی گئی ایک گاڑی سے بیلگاوی کے لیے نکلے۔ بابا صاحب بتاتے ہیں، ’’جب ہم وہاں پہنچے، تو اس کے ساس سسر نے ہم سے ٹھیک برتاؤ نہیں کیا۔ جب ہم نے ان سے بالاجی کے بارے میں پوچھا، تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔‘‘ کچھ برا ہونے کے خوف سے تھوڑا بے چین ہو کر انہوں نے مقامی پولیس اسٹیشن میں گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ ابھی بھی معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔‘‘

بابا صاحب کہتے ہیں کہ اگر وہ بالاجی کو وہاں بھیجنے کی بات پر راضی نہ ہوتے، تو ان کا بیٹا ابھی بھی ان کے ساتھ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم کیا کریں؟ ہم مہاجر مزدور ہیں۔ اور لاک ڈاؤن کے بعد آس پاس کے گاؤوں اور قصبوں میں کام ٹھپ پڑ گئے تھے۔ گنّے کی کٹائی کا کام ہی واحد متبادل تھا۔ اگر مجھے آس پاس ہی کام ملنے کا بھروسہ ہوتا، تو میں اسے جانے ہی نہیں دیتا۔‘‘

زرعی بحران کی وجہ سے اور بدتر ہو چکے معاش کی کمی کی حالت اور اب ماحولیاتی تبدیلی نے بیڈ کے لوگوں کو کام کے سلسلے میں مہاجرت کرنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ گنے کے کھیتوں میں کام کے لیے جانے کے علاوہ بہت سے لوگ مہاجرت کرکے ممبئی، پونہ اور اورنگ آباد جیسے شہروں کو جاتے رہتے ہیں اور وہاں مزدور، ڈرائیور، سیکورٹی گارڈ اور گھریلو ملازم کا کام کرتے رہے ہیں۔

پچھلے سال لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کے بعد مزدوروں کا گاؤں لوٹنے کا سفر دو مہینے سے بھی زیادہ سرخیوں میں رہا۔ ہر طرف سے بحران سے گھرے ہونے کے بعد ہزاروں لاکھوں لوگوں کا زندہ بچے رہنے کے لیے اپنی جان ہتیھلی پر لے کر اپنے گھروں کی جانب اتنی بڑی تعداد میں روانگی، آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ بغیر کچھ کھائے، پیاس سے تڑپتے ہوئے، اور بے حد تھکی ہوئی حالت میں مزدوروں نے لمبی دوری لگاتار پیدل چلتے ہوئے طے کی۔ ان میں سے کچھ نے بھوک، تھکان، اور ٹراما کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ دیا۔ حالانکہ، گھر لوٹنے کے ان کے سفر کو بڑے پیمانے پر سرخیوں میں جگہ ملی تھی، لیکن اس بات کی خبر نہ کے برابر تھی کہ جب مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا تب پچھلے ڈیڑھ سالوں میں انہوں نے اس کا سامنا کیسے کیا۔

پچاس سالہ سنجیونی سالوے، پچھلے سال مئی کے آس پاس پونہ سے ۲۵۰ کلومیٹر دور بیڈ ضلع میں واقع اپنے گاؤں، راجوری گھوڈکا اپنی فیملی کے ساتھ واپس لوٹ آئیں۔ سنجیونی بتاتی ہیں، ’’ہم نے کسی طرح ایک مہینہ تو گزارہ کر لیا، لیکن پھر ہمیں لگا کہ سب کچھ تھوڑا بہتر ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لیے ہم نے ایک ٹیمپو کرایے پر لیا اور واپس آ گئے۔‘‘ پونہ میں گھریلو کام کرتے ہوئے وہ ایک مہینہ میں ۵۰۰۰ روپے تک کی کمائی کر لے رہی تھیں۔ ان کے دونوں بیٹے، ۳۰ سالہ اشوک اور ۲۶ سالہ امر، اور ۳۳ سال کی بیٹی بھاگیہ شری شہر میں دہاڑی مزدوری کیا کرتے تھے۔ وہ سنجیونی کے ساتھ واپس آ گئے۔ اس کے بعد سے نیو بدھسٹ کمیونٹی (دلت برادری) سے تعلق رکھنے والی اس فیملی کے لوگ ایک عدد کام پانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

حال ہی میں بھاگیہ شری پونہ واپس آ گئیں، لیکن ان کے بھائیوں نے بیڈ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اشوک کہتے ہیں، ’’ہم واپس شہر نہیں جانا چاہتے۔ بھاگیہ شری کو کسی ضروری کام (اپنے بچوں کی پڑھائی) کی وجہ سے واپس جانا پڑا۔ لیکن اسے مشکل سے ہی کام مل پا رہا ہے۔ اب شہر پہلے جیسے نہیں رہے۔‘‘

Sanjeevani Salve and her son, Ashok (right), returned to Beed from Pune after the lockdown in March 2020
PHOTO • Parth M.N.

سنجیونی سالوے اور ان کے بیٹے اشوک (دائیں) مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے بعد پونہ سے بیڈ واپس آ گئے تھے

پونہ میں لاک ڈاؤن میں پیش آئی مشکلوں کی خوفناک یادوں سے اشوک کا دل دہلا ہوا ہے۔ وہ سوالیہ لہجے میں اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہیں، ’’اگر کووڈ کی تیسری لہر آ گئی اور ہمیں وہی دن پھر دیکھنے پڑے تو؟‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’ہمیں خود ہی ایک دوسرے کا خیال رکھنا پڑا۔ کسی نے یہ جاننا بھی نہیں چاہا کہ ہمارے پاس راشن پانی ہے بھی یا نہیں۔ ہماری جان چلی گئی ہوتی تو بھی کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

گاؤں میں اپنی برادری ہی ہے جس سے اشوک کو تھوڑی تسلی ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہاں لوگ ہیں جن پر میں بھروسہ کر سکتا ہوں۔ اور یہاں کھلی جگہیں ہیں۔ شہر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رہ کر دم گھٹنے لگتا ہے۔‘‘

اشوک اور امر، بیڈ میں بڑھئی کا کام کرتے ہوئے خود کو سیٹل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اشوک بتاتے ہیں، ’’ایسا نہیں ہے کہ ہر روز ہی کام مل جائے، لیکن گاؤں میں خرچ اتنا زیادہ نہیں ہے۔ ہمارا گزارہ ہو جا رہا ہے۔ لیکن اگر کہیں ایمرجنسی کی حالت آ گئی، تب ضرور ہم مصیبت میں ہوں گے۔‘‘

حالیہ مہینوں میں زیادہ تر لوگ شہروں کی طرف لوٹ گئے ہیں، لیکن جو لوگ گاؤں گھر میں ہی بنے رہے انہیں کم کام اور کم آمدنی سے ہی سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم (منریگا) کے تحت جاری کیے جانے والے جاب کارڈوں کی تعداد میں اچانک ہوئے بھاری اضافہ سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ پہلے کے مقابلے اب کہیں زیادہ لوگ کام کی تلاش میں ہیں۔

سال ۲۱-۲۰۲۰ میں مہاراشٹر میں منریگا کے تحت ۸ لاکھ ۵۷ ہزار کنبوں کو جاب کارڈ دیے گئے۔ یہ پچھلے مالی سال میں جاری کیے گئے کارڈوں (۲ لاکھ ۴۹ ہزار) کے مقابلے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔

حالانکہ، اسکیم کے تحت کیے گئے وعدوں کے مطابق سال میں ۱۰۰ دن کا کام بھی لوگوں کو نہیں ملا ہے۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی حالات یہی ہیں۔ مہاراشٹر میں ۲۱-۲۰۲۰ میں جن ۱۸ لاکھ ۸۴ ہزار کنبوں نے منریگا کے تحت کام کے لیے درخواست دی تھی ان میں سے تقریباً ۷ فیصد یعنی ایک لاکھ ۳۶ ہزار لاکھ کنبوں کو ہی پورے ۱۰۰ دن کا کام ملا۔ بیڈ میں بھی کام ملنے کی شرح کم و بیش یہی ہے۔

Sanjeevani at home in Rajuri Ghodka village
PHOTO • Parth M.N.

سنجیونی راجوری، گھوڈکا میں واقع اپنے گھر میں

حالیہ مہینوں میں زیادہ تر لوگ شہروں کی طرف لوٹ گئے ہیں، لیکن جو لوگ گاؤں گھر میں ہی بنے رہے انہیں کم کام اور کم آمدنی سے ہی سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی اسکیم (منریگا) کے تحت جاری کیے جانے والے جاب کارڈوں کی تعداد میں اچانک ہوئے بھاری اضافہ سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ پہلے کے مقابلے اب کہیں زیادہ لوگ کام کی تلاش میں ہیں

زیادہ تر مہاجر مزدور حاشیہ کے طبقے سے آتے ہیں۔ گھر کے آس پاس معاش کے مواقع کی کمی اور شہر میں بے یقینی کی حالت میں پھنس جانے کے خطرے کی وجہ سے وبائی مرض کے دوران ان کے سامنے ادھر کنواں اُدھر کھائی کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ بیڈ تعلقہ کے مہاسکیواڈی گاؤں میں اپنی جھونپڑی کی ٹپکتی ہوئی ٹن کی چھت کے نچیے بیٹھی ہوئی ۴۰ سالہ ارچنا مانڈوے بتاتی ہیں، ’’ہم لاک ڈاؤن لگنے کے ایک مہینہ بعد ہی گھر آ گئے تھے۔‘‘ ان کی فیملی نے رات میں تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر کا سفر کیا۔ انہوں نے آگے کہا، ’’موٹر سائیکل پر ایک ساتھ پانچ لوگوں کا آنا بے حد جوکھم بھرا تھا۔ لیکن ہمارے سامنے کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے بعد ہمارے پاس بالکل بھی پیسے نہیں تھے۔‘‘

ارچنا اور ان کے شوہر، چنتامنی اپنے تین بچوں – اکشے (عمر ۱۸ سال)، وشال (۱۵ سال)، اور مہیش (۱۲ سال) کے ساتھ اورنگ آباد شہر میں رہتے تھے۔ چنتامنی ٹرک چلاتے تھے اور ارچنا کشیدہ کاری کا کام کرتی تھیں۔ دونوں لوگ ایک مہینہ میں کل ملا کر ۱۲ ہزار روپے تک کما لیتے تھے۔ ارچنا کہتی ہیں، ’’ہم اورنگ آباد میں ۵ سال رہے اور اس سے پہلے ۱۰ سال پونہ میں رہے۔ انہوں نے (چنتامنی) ہمیشہ ٹرک چلانے کا ہی کام کیا۔‘‘

مہاسکیواڈی میں چنتامنی کو یہ محسوس ہونے لگا تھا جیسے کہ کہاں آ گئے ہوں۔ ارچنا بتاتی ہیں، ’’انہوں نے پہلے کبھی بھی کھیتوں میں کام نہیں کیا تھا۔ انہوں نے کوشش کی، لیکن اتنا ٹھیک سے نہیں کر پائے۔ میں بھی کھیتی باڑی کے ہی کام کی تلاش میں تھی۔ لیکن کوششوں کے بعد بھی اتنا کام مل نہیں رہا تھا۔‘‘

بغیر کسی روزگار کے، گھر پر رہتے ہوئے کچھ دنوں میں چنتامنی کی بے چینی بڑھ گئی۔ وہ اپنے بچوں کی زندگی اور ان کی پڑھائی کے بارے میں سوچ کر پریشان تھے۔ ارچنا کہتی ہیں، ’’انہیں اپنی زندگی بیکار محسوس ہونے لگی۔ ہماری مالی حالت بدتر ہوتی جا رہی تھی اور وہ اس کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ان کی عزت نفس کمزور پڑنے لگی تھی۔ وہ ڈپریشن میں چلے گئے۔‘‘

پچھلے سال کی ایک شام ارچنا جب گھر لوٹیں، تو انہوں نے اپنے شوہر کو ٹن کی چھت سے پھندے سے لٹکا ہوا پایا۔ اس واقعہ کو ایک سال گزر چکے ہیں، لیکن انہیں روزی روٹی کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہوئے ایک ہفتہ میں میری بمشکل ۸۰۰ روپے کی کمائی ہوتی ہے۔ لیکن میں اورنگ آباد واپس جانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ میں شہر میں اکیلے سب کچھ نہیں سنبھال سکتی۔ جب وہ ساتھ تھے تب کی بات اور ہے۔ گاؤں میں لوگ ہیں جو ضرورت پڑنے پر کام آ سکتے ہیں۔‘‘

ارچنا اور ان کے بچے اپنی جھونپڑی میں نہیں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں جب بھی جھونپڑی کے اندر جاتی ہوں، ہر بار میری آنکھوں کے سامنے ان کا چہرہ گھومنے لگتا ہے۔ میرے دماغ میں وہ منظر بار بار آتا رہتا ہے جو میں نے اس دن گھر لوٹنے پر دیکھا تھا۔‘‘

Archana.Mandwe with her children, (from the left) Akshay, Vishal and Mahesh, in Mhasewadi village
PHOTO • Parth M.N.

مہاسکیواڈی گاؤں میں ارچنا مانڈوے اپنے بچوں (بائیں سے) اکشے، وشال، اور مہیش کے ساتھ

لیکن وہ نئے گھر کے بارے میں ابھی سوچ بھی نہیں سکتیں۔ ان کی فکرمندی کی وجہ یہ بھی ہے کہ مقامی سرکاری اسکول میں پڑھنے والے ان کے بچے آگے کی پڑھائی کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں ان کی فیس کہاں سے بھروں۔‘‘

ارچنا کے بھائی نے تینوں بچوں کی آن لائن پڑھائی کے لیے ایک اسمارٹ فون خریدا۔ بارہویں کلاس کے طالب علم اور آنکھوں میں انجینئر بننے کا خواب سجائے اکشے کہتے ہیں، ’’آن لائن لکچر کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ زیادہ تر وقت ہمارے گاؤں میں فون میں نیٹ ورک ہی نہیں رہتا۔ میں اپنے دوست کے گھر جاتا ہوں اور اس کی کتابوں سے ہی پڑھتا ہوں۔‘‘

جب کہ اکشے اپنے والد کی موت کے بعد ہمت رکھتے ہوئے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں، تاناجی ہٹگلے دھیرے دھیرے بالاجی کی گمشدگی کی افسوناک صورتحال سے باہر نکلنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ وہ زیادہ بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہتے ہیں، ’’مجھے اپنے بھائی کی یاد آتی ہے۔‘‘

بابا صاحب اور سنگیتا، بالاجی کو ڈھونڈنے کے لیے اپنی طرف سے جی جان لگائے ہوئے ہیں، لیکن یہ سب ان کے لیے ذرہ برابر بھی آسان نہیں رہا ہے۔ بابا صاحب کہتے ہیں، ’’ہم نے بیڈ کے ضلع کلکٹر سے ملاقات کی اور ان سے معاملے کا نوٹس لے کر قدم اٹھانے کی گزارش کی۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ ہم بار بار بیلگام (بیلگاوی) جا پائیں۔‘‘

اگر حالات ٹھیک بھی ہوں، تو بھی دلت برادری سے آنے والی کسی غریب فیملی کے لیے پولیس شکایت کا فالو اَپ لیتے رہنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ لیکن وبائی مرض کے دوران بین ریاستی آمد و رفت پر روک، وسائل کی کمی، اور ضرورت کے وقت پیسے نہ ہونے کی وجہ سے یہ کام اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔

بیٹے کی تلاش میں بیلگاوی کے اپنے پہلے سفر کے بعد، بابا صاحب اور سنگیتا ایک اور بار بالاجی کی تلاش میں وہاں گئے۔ اس وقت انہوں نے سفر کے خرچے کو مدنظر رکھ کر اپنی ۱۰ بھیڑیں، کل ۶۰ ہزار روپے میں بیچ دی تھیں۔ بابا صاحب بتاتے ہیں، ’’ہم نے کل ۱۳۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کیا۔‘‘ انہوں نے یہ گاڑی کے اوڈومیٹر سے نوٹ کیا تھا۔ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’اس میں سے کچھ پیسے ابھی بھی بچے ہوئے ہیں، لیکن وہ جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔‘‘

گنے کی کٹائی کا اگلا سیزن نومبر میں شروع ہو جائے گا۔ اور بھلے ہی بابا صاحب کی ماں ابھی بھی بیمار ہیں، وہ اور سنگیتا گنے کی کٹائی کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ بابا صاحب کہتے ہیں، ہمیں فیملی کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، ’’ہمیں اپنے باقی بچوں کا خیال رکھنا ہے۔‘‘

یہ اسٹوری اس سیریز کا ایک حصہ ہے جسے پولٹزر سنٹر کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez