شاہ بائی گھرات ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے کورونا وائرس کا پیچھا کر رہی تھیں، اور آخرکار ایک دن وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئیں۔ منظور شدہ سماجی صحت کارکن یعنی آشا ورکر کے طور پر شاہ بائی، مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں واقع اپنے گاؤں سلطانپور میں گھر گھر جا کر کووڈ۔۱۹ کا ڈیٹا جمع کر رہی تھیں۔ لیکن، مئی کے آخری ہفتہ میں ان کا سب سے بڑا ڈر سچ ثابت ہو گیا، جب وہ کورونا وائرس کی چپیٹ میں آ گئیں۔

شاہ بائی (۳۸) کو وبائی مرض کے دوران اپنی نوکری سے جڑے خطرات کے بارے میں معلوم تھا، لیکن انہیں اس کے برے نتائج کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کا کووڈ ٹیسٹ پازیٹو آنے کے فوراً بعد، ان کی ماں بھی کووڈ سے متاثر ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد، ان کے چار بھتیجے بھی اس کی چپیٹ میں آ گئے۔ اس کی وجہ سے ان کی پوری فیملی مشکلات میں گھر گئی۔

شاہ بائی کو ٹھیک ہونے میں کچھ ہفتے لگ گئے۔ شاہ بائی کہتی ہیں، ’’میرے بھتیجے بھی ٹھیک ہو گئے، لیکن میری ماں کو ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ ’’میری ماں کے علاج میں ڈھائی لاکھ روپے بھی خرچ ہوئے۔ مجھے ہسپتال کا بل بھرنے کے لیے اپنی ڈھائی ایکڑ زمین اور کچھ زیورات بیچنے پڑے۔‘‘

آشا کارکن کے طور پر ان کا کام کبھی آسان نہیں رہا تھا، لیکن وبائی مرض نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ شاہ بائی بتاتی ہیں، ’’مجھے دھمکیوں اور گالیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لوگ شروعات میں وبائی مرض کی علامتوں کو چھپاتے تھے۔ مجھے اپنا کام کرنے کے لیے گاؤں میں بہت سے منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘‘

مہاراشٹر میں ۷۰ ہزار سے زیادہ منظور شدہ آشا کارکن ہیں۔ مارچ ۲۰۲۰ میں وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے بعد سے ہی وہ اس کے خلاف جاری لڑائی کی پہلی صف میں کھڑی رہی ہیں۔ گھر گھر جا کر دورہ کرنے کے علاوہ، وہ گاؤوں میں ٹیکہ لگوانے سے جھجک رہے لوگوں سے بھی نمٹتی ہیں۔

Shahbai Gharat at her sewing machine at home in Sultanpur village. Her work as an ASHA put her family at risk in May
PHOTO • Parth M.N.

شاہ بائی گھرات، سلطانپور گاؤں میں واقع اپنے گھر میں سلائی مشین کے ساتھ۔ آشا ورکر کے طور پر ان کے کام نے مئی مہینہ میں ان کی پوری فیملی کو خطرے میں ڈال دیا تھا

سرکاری طور پر رضاکار کے طور پر درج، آشا کارکن دراصل صحت عامہ سے جڑی کارکن ہیں جو ملک بھر کے گاؤوں میں سرکاری طبی اسکیموں کو زمینی سطح پر نافذ کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ ان کے بنیادی کاموں میں حمل کے دوران خواتین کی مدد کرنا، ہسپتال میں بچے کی ڈیلیوری کو فروغ دینا، بچوں کی ٹیکہ کاری کو یقینی بنانا، خاندانی منصوبہ بندی کو فروغ دینا، ابتدائی علاج فراہم کرنا، اور میڈیکل ریکارڈ رکھنا شامل ہے۔

ان تمام کاموں کے لیے اعزازیہ کے طور پر انہیں ہر مہینے تقریباً ۳۳۰۰ روپے دیے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی مرکز اور ریاست کی مختلف ہیلتھ اسکیموں کے تحت انسینٹو دیے جاتے ہیں۔ انسینٹو کے طور پر شاہ بائی کو ایک مہینہ میں ۳۰۰ سے ۳۵۰ روپے تک مل جاتے ہیں۔ لیکن، کڑی محنت اور کئی گھنٹوں کے کام کے باوجود، آشا کارکنوں کو وبائی مرض کے دوران بہت کم مدد ملی تھی۔ شاہ بائی کہتی ہیں، ’’اس مشکل وقت میں مدد کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے، ہمیں وقت پر اعزازیہ بھی نہیں ملتا ہے۔ آخری بار ہمیں اپریل میں تنخواہ دی گئی تھی۔‘‘

انہیں اپنی حفاظت کے لیے صرف ایک ماسک دیا جاتا ہے، جو کہ کافی نہیں ہے۔ شاہ بائی کہتی ہیں، مارچ ۲۰۲۰ کے بعد سے انہیں صرف ۲۲ ڈسپوزیبل ماسک اور پانچ این۔۹۵ ماسک ملے ہیں۔ ’’کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے کام میں شامل جوکھم کے بدلے ہمیں جو دیا جاتا ہے وہ کافی ہے؟‘‘

یہ ایک ایسا سوال ہے جو تقریباً ہر آشا ورکر پوچھتی ہیں۔

اپنی فیملی کو کووڈ۔۱۹ سے بچانے کے لیے شوبھا گنگے کئی مہینوں تک باتھ روم کی بجائے اپنے گھر کے بیت الخلاء میں غسل کرتی رہیں۔ سلطانپور سے دو کلومیٹر دور، بیڈ ضلع کے ہی چوسلا گاؤں کی ۳۳ سالہ آشا کارکن شوبھا کہتی ہیں، ’’میری بیٹی آٹھ سال کی ہے۔ کئی مہینوں تک ایسا چلا کہ جب وہ روتی تھی، تو میں اسے گلے نہیں لگا پاتی تھی۔ وہ میرے بغل میں سونا چاہتی تھی، لیکن میں اسے اس کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔‘‘

Shobha Ganage expects more than just words from the government
PHOTO • Parth M.N.

شوبھا گنگے امید کرتی ہیں کہ سرکار صرف بولنے کی جگہ کچھ کرکے دکھائے گی

جون کے وسط میں، مہاراشٹر میں آشا ورکر یونین غیر معینہ ہڑتال پر چلی گئی تھی، جو ایک ہفتہ تک چلی۔ ریاستی حکومت نے ان کے مطالبہ کو مان لیا اور یہ طے کیا گیا کہ ان کا اعزازیہ ۱۵۰۰ روپے مہینہ کے حساب سے بڑھا دیا جائے گا، جس میں سے ۱۰۰۰ روپے ان کی تنخواہ کا حصہ ہوگا اور بقیہ ۵۰۰ روپے کووڈ بھتّہ کے طور پر دیے جائیں گے

شوبھا کا ماننا ہے کہ ان کی قربانی کی اندیکھی کی گئی ہے۔ ’’وزیر اعلیٰ ہماری تعریف تو کرتے ہیں، لیکن ہماری مدد نہیں کرتے۔‘‘ جولائی کی شروعات میں، وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے آشا کارکنوں کی تعریف کی تھی اور انہیں ’فائٹر اور ہیرو‘ کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یا جب بھی کووڈ کی تیسری لہر آتی ہے، اس سے نمٹنے میں آشا ورکر اپنا اہم رول نبھائیں گی۔ لیکن، شوبھا امید کرتی ہیں کہ سرکار صرف بولنے کی جگہ کچھ کرکے دکھائے گی، ’’ان کی تعریفیں ہمیں اپنا گھر چلانے میں مدد نہیں کریں گی۔‘‘

شاہ بائی اور شوبھا کے لیے، یہ کام کرنے کی سب سے اہم وجہ مالی استحکام رہا ہے، لیکن اس کے وجہیں الگ الگ ہیں۔

مراٹھا برادری سے تعلق رکھنے والی شاہ بائی سنگل ہیں اور اپنی ماں، دو بھائیوں، اور ان کی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’۱۳ سال پہلے میرا طلاق ہو گیا تھا۔ ایسے معاملے میں کسی گاؤں میں قبول کیا جانا آسان نہیں ہوتا ہے۔ لوگ باتیں بناتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنی فیملی کو بہت پریشان کیا ہے۔‘‘ شاہ بائی اپنا وقار بچائے رکھنے کے لیے معاشی آزادی چاہتی ہیں۔

اب وہ فیملی کے باقی لوگوں کے کووڈ میں مبتلا ہونے کے لیے خود کو قصوروار مانتی ہیں۔ شاہ بائی کہتی ہیں، ’’میں خود کو معاف نہیں کر سکتی۔ میں سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتی ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہوگا۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ مجھے قصوروار ٹھہرائیں۔‘‘ ساتھ ہی، گاؤں میں اپنے کام کے سبب انہیں بھدی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر مردوں سے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میں کسی سے بات کرتی ہوں، تو وہ اس کا کوئی الگ مطلب نکالنے لگتے ہیں۔ لوگوں سے بات کرنا میرا کام ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘

Temporary workers hired at government hospitals during the pandemic became unemployed overnight when their contracts ended
PHOTO • Couretsy: Lahu Kharge
Temporary workers hired at government hospitals during the pandemic became unemployed overnight when their contracts ended
PHOTO • Couretsy: Lahu Kharge
Temporary workers hired at government hospitals during the pandemic became unemployed overnight when their contracts ended
PHOTO • Couretsy: Lahu Kharge

وبائی مرض کے دوران سرکاری اسپتالوں میں کام پر رکھے گئے عارضی ملازمین راتوں رات بے روزگار ہو گئے، جب ان کا کانٹریکٹ ختم ہو گیا

شوبھا کہتی ہیں کہ کام کے دوران مردوں کی فقرہ بازی کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ انہیں ان کی جگہ کیسے دکھانی ہے۔‘‘ شوبھا کی پریشانیاں الگ ہیں، اور ان کی آمدنی سے ان کی فیملی کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ دلت برادری سے تعلق رکھنے والی شوبھا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس کھیت نہیں ہے۔ میرے شوہر ایک زرعی مزدور ہیں اور ایک دن میں وہ ۳۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ ہفتہ میں انہیں ۳ سے ۴ دن کام مل جاتا تھا، لیکن کووڈ آنے کے بعد سے کام ملنا کافی کم ہو گیا ہے۔‘‘

کووڈ وبائی مرض پھیلنے کے ایک مہینہ بعد، شوبھا کی فیملی اناج اور دالوں کو گھر لیتی آئی تھی جو سڑنے والے تھے۔ شوبھا نے بتایا، ’’یہ اناج اور دالیں اسکول کے بچوں کے لیے [مڈ ڈے میل کے لیے] تھیں، لیکن اسکول بند ہو گیا تھا، اس لیے زیادہ وقت گزر جانے کی وجہ سے سارے اناج اور دالیں خراب ہو گئیں۔‘‘ انہوں نے آگے بتایا کہ گاؤں کے پرائمری اسکول کے ٹیچروں نے سوچا کہ اناج اور دالیں خراب نہ ہوں، اس لیے انہیں کسی ضرورت مند کو دے دیتے ہیں۔ یہی سوچ کر انہوں نے انہیں ضرورت مندوں میں بانٹ دیا۔ ’’ہم نے بھی اسے اپنے لیے پکایا اور میری بیٹی نے بھی کھایا۔‘‘

شاہ بائی اور شوبھا، دونوں جانتی ہیں کہ کسی آشا ورکر کا کچھ زبانوں میں مطلب ’آشا‘ یعنی امید ہوتا ہے۔ لیکن انہیں مالی حالت میں کسی قسم کی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔

آشا کارکن لمبے عرصے سے بہتر اعزازیہ کے ساتھ ساتھ، مستقل ملازم بنائے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جون کے وسط میں، مہاراشٹر میں آشا ورکر یونین غیر معینہ ہڑتال پر چلی گئی تھی، جو ایک ہفتہ تک چلی۔ ریاستی حکومت نے ان کا مطالبہ مان لیا اور یہ طے کیا گیا کہ یکم جولائی سے ان کا اعزازیہ ۱۵۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے بڑھا دیا جائے گا، جس میں سے ۱۰۰۰ روپے ان کی تنخواہ کا حصہ ہوگا اور بقیہ ۵۰۰ روپے کووڈ بھتّہ کے طور پر دیے جائیں گے۔ مہاراشٹر کے وزیر صحت، راجیش ٹوپے نے ہر آشا ورکر کو ایک اسمارٹ فون دینے کا اعلان کیا، تاکہ تیار کی جانے والی رپورٹ آن لائن درج کی جا سکیں۔

سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو) کی ریاستی سکریٹری شُبھا شمیم کہتی ہیں، حکومت کے ذریعے کی گئی یقین دہانی کو ابھی تک پورا نہیں کیا گیا ہے۔ ’’آشا ورکر کو جو فائدہ ملنا چاہیے تھا وہ کب ملے گا، اس کے بارے میں بھی کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ مئی کے مہینہ سے ہی ریاست میں اعزازیہ کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے۔ ساتھ ہی، پچھلے سال جس کووڈ بھتّے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ بھی ابھی تک نہیں دیا گیا ہے۔

From the left: Lahu Kharge, Prashant Sadare and Ankita Patil (on the left in the photo) with another nurse
PHOTO • Parth M.N.
From the left: Lahu Kharge, Prashant Sadare and Ankita Patil (on the left in the photo) with another nurse
PHOTO • Courtesy: Prashant Sadare
From the left: Lahu Kharge, Prashant Sadare and Ankita Patil (on the left in the photo) with another nurse
PHOTO • Parth M.N.

بائیں اور درمیان میں: لہو کھڑگے اور پرشانت سدارے۔ دائیں: انکتا پاٹل (بائیں جانب) بیڈ میں ہوئے آشا کارکنوں کے احتجاجی مظاہرے میں شامل ہونے سے پہلے ایک رفیق کار کے ساتھ

ریاست میں جب آشا کارکن ہڑتال پر تھیں، تب ٹھیکہ پر کام کر رہے تقریباً ۲۵۰ طبی ملازمین نے بیڈ ضلع میں، روزگار کو مستقل کرنے اور تنخواہ بڑھانے کے مطالبہ کو لے کر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

یہ ایسے ملازمین تھے جنہیں کووڈ وبائی مرض کے دوران مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ٹھیکہ (کانٹریکٹ) پر رکھا گیا تھا۔ انہیں عارضی طور پر سرکاری اسپتالوں میں، بنیادی طور پر نرسنگ اسٹاف اور وارڈ اسسٹنٹ کے طور پر رکھا گیا تھا۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں جو اپنا کانٹریکٹ ختم ہونے کے بعد یا مریضوں کی تعداد کم ہونے کے بعد بے روزگار ہو گئے۔ ۲۹ سالہ پرشانت سدارے کہتے ہیں، ’’یہ پالیسی ’یوز اینڈ تھرو‘ (یعنی، استعمال کرو اور پھینک دو) سے قطعی الگ نہیں ہے۔ انہوں نے بیڈ شہر سے ۳۰ کلومیٹر دور، وڈوَنی تعلقہ میں بنائے گئے کووڈ کیئر سنٹر میں وارڈ اسسٹنٹ کے طور پر کام کیا تھا۔ پرشانت نے بتایا، ’’مجھے اس سال مئی میں کام پر رکھا گیا تھا اور دو مہینے بعد کام چھوڑنے کے لیے بول دیا گیا۔‘‘

پرشانت کے والدین زرعی مزدور ہیں اور انہیں اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ جب انہیں کام پر رکھا گیا، تب انہیں ایک دن کے ۴۰۰ روپے ملتے تھے۔ اس سے انہیں ایک امید ملی تھی کہ وہ اپنے والدین کو تھوڑا آرام دے پائیں گے۔ پرشانت بتاتے ہیں، ’’جب اسپتال میں پانی بھر گیا تھا، تب بھی میں نے وہ سب کچھ کیا جو مجھ سے کرنے کے لیے کہا گیا تھا؛ میں نے اپنی جان تک جوکھم میں ڈالی۔ کووڈ وارڈ کی صفائی سے لے کر کووڈ کے مریضوں کو کھانا کھلانا، میں نے سب کچھ کیا۔ کیا ہمیں ذہنی تناؤ نہیں ہوتا؟ کیا اس کے بارے میں کوئی سوچتا ہے؟‘‘ پرشانت اب ایک پرائیویٹ اسکول میں پارٹ ٹائم ٹیچر کے طور پر کام کرتے ہیں اور ہر مہینے ۵ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

وَڈوَنی کے اسی کووڈ سنٹر (جہاں پرشانت نے کام کیا تھا) کے وارڈ اسسٹنٹ، ۲۴ سالہ لہو کھڑگے نے ایک اشتہار دیکھ کر اس کام کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔ منتخب ہونے کے لیے امیدواروں کا ۱۰ویں کلاس پاس ہونا ضروری تھا۔ لہو کا جب انتخاب ہوا، تو انہوں نے پگمی ایجنٹ کی اپنی پرانی نوکری چھوڑ دی۔ پگمی ایجنٹ کے طور پر انہیں کسی مقامی بینک کے لیے لوگوں سے چھوٹی رقم جمع کرانی ہوتی تھی۔ کھڑگے بتاتے ہیں، ’’ہمیں تین مہینے کے کانٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے۔ جیسے ہی کانٹریکٹ ختم ہوتا ہے، اس کے ایک دن کے بعد ہی اسے رنیو کر دیا جاتا ہے۔‘‘ کھڑگے ابھی بھی وہاں نوکری کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہمارے لیبر قوانین کے مطابق اگر کوئی آدمی ایک سال تک لگاتار کسی کانٹریکٹ کے تحت کام کرتا ہے، تو اسے مستقل ملازم بنانا لازمی ہے۔ اسی لیے یہ کانٹریکٹ، ہر کچھ مہینوں پر ایک دن کا وقفہ رکھنے کے بعد رنیو کیے جاتے ہیں۔‘‘

Left: Contractual health workers in Beed waiting to speak to the ministers on June 18. Right: The police charging with lathis
PHOTO • Couretsy: Lahu Kharge
Left: Contractual health workers in Beed waiting to speak to the ministers on June 18. Right: The police charging with lathis
PHOTO • Couretsy: Lahu Kharge

بائیں: بیڈ میں کانٹریکٹ پر رکھے گئے طبی کارکن، ۱۸ جون کو ہوئے مظاہرے کے دن وزیروں سے بات کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دائیں: پولیس لاٹھی چارج کر رہی ہے

بیڈ ضلع میں احتجاجی مظاہرہ کر رہے کانٹریکچوئل طبی ملازمین نے تقرری کی غیر حساس پالیسی کا ایشو اٹھایا اور نوکریوں کو مستقل کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہیں امید تھی کہ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار، وزیر انصاف دھننجے مُنڈے، اور وزیر صحت راجیش ٹوپے ان کی باتوں پر غور کریں گے۔ یہ سارے وزیر ۱۸ جون کو کووڈ۔۱۹ کی تجزیاتی میٹنگ کے لیے ضلع کے دورے پر تھے۔

انکتا پاٹل (۲۹) بتاتی ہیں، ’’لیکن، انہوں نے ہمیں نظر انداز کر دیا۔‘‘ انکتا بھی احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں میں شامل تھیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ہمیں ان کا پانچ منٹ کا وقت چاہیے تھا۔ ہم نے اپنی مانگوں کو ایک کاغذ پر لکھا تھا۔ جب ہمیں ان مانگوں کو کلکٹر کے آفس میں پیش کرنے کے لیے کہا گیا، تو وہاں کے ایک ملازم نے ہم سے وہ کاغذ چھین لیا اور لے کر چلا گیا۔‘‘ انکتا آگے بتاتی ہیں، ’’وزیروں میں سے ایک نے کہا کہ آپ یہاں سے چلے جائیے، باقی وزیروں نے تو ہماری طرف دیکھا تک نہیں۔‘‘

وزیروں کے برے برتاؤ سے ناراض ہو کر، کچھ مظاہرین نے ان کی گاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی۔ حالانکہ، پولیس نے مجمع کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کر دیا۔ انکتا پوچھتی ہیں، ’’کیا طبی ملازمین کے ساتھ سلوک کرنے کا یہی طریہ ہے؟ ہم نے اپنی زندگی کے کئی مہینے، ایک دن کی چھٹی لیے بغیر ہی کووڈ کے مریضوں کی دیکھ بھال میں لگا دیے۔ خود کو اور اپنی فیملی کو خطرے میں ڈالا، اور وزیروں کے پاس ہم سے بات کرنے کے لیے پانچ منٹ بھی نہیں ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ عزت سے پیش آئیں۔‘‘

انکتا، وَڈوَنی کے کووڈ سنٹر میں نرس کے طور پر کام کر رہی ہیں، جس کے لیے انہیں ۲۰ ہزار روپے ملتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس آج کام ہے، لیکن میں کل بے روزگار ہو سکتی ہوں۔ پہلے سے ہی کافی ذہنی پریشانی اور جذباتی تناؤ بنا ہوا ہے۔ ہمیں نوکری کے بارے میں بے فکری چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ [کووڈ کی] دوسری لہر کا اثر کم ہونے کے بعد کیسے ہمارے دوستوں کو کام سے ہٹا دیا گیا۔ یہ سب ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

المیہ یہ ہے کہ کانٹریکٹ پر کام کرنے والے طبی ملازمین کو پھر سے یہ کام تبھی مل سکے گا، جب کووڈ کی تیسری لہر آ جائے۔ حالانکہ، کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا۔

یہ اسٹوری اس سیریز کا ایک حصہ ہے جسے پولٹزر سنٹر کا تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez