پورا سوشل میڈیا آکسیجن، ہاسپیٹل بیڈ، اور ضروری دواؤں کی مانگوں والی پوسٹوں، کہانیوں، اور پیغامات سے بھرا ہوا تھا۔ میرا فون بھی لگاتار بج رہا تھا۔ ایک پیغام ملا، ’آکسیجن کی فوراً ضرورت ہے‘۔ اتوار کی صبح تقریباً ۹ بجے ایک قریبی دوست کا فون آیا۔ اس کے دوست کے والد کووڈ۔۱۹ سے بری طرح متاثر تھے اور انہیں کسی بھی اسپتال میں بیڈ نہیں مل رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں کورونا کے یومیہ معاملے بڑھ کر ۳ لاکھ کو پار کرنے لگے تھے۔ میں نے بھی اپنے شناساؤں کو فون کرنے کی کوشش کی، لیکن سب کچھ بیکار ثابت ہو رہا تھا۔ ایسی مشکلوں کے درمیان، میں اس معاملے کے بارے میں بھول گیا۔ کچھ دن بعد میرے دوست نے مجھے فون کرکے بتایا، ’’میرے دوست کے والد... گزر گئے۔‘‘

گزشتہ ۱۷ اپریل کو ان کا آکسیجن لیول ۵۷ فیصد کی جان لیوا سطح تک گر گیا (عام طور پر ۹۲-۹۰ سے نیچے آنے پر ہی اسپتال میں داخل کرانے کی بات کہی جاتی ہے)۔ اگلے کچھ گھنٹوں کے اندر یہ گرکر ۳۱ تک آ گیا اور انہیں بچایا نہیں جا سکا۔ انہوں نے خود اپنی بگڑتی حالت کے بارے میں ٹویٹ کیا تھا۔ ان کا آخری ٹویٹ تھا: ’’میری آکسیجن ۳۱ ہے۔ کیا کوئی میری مدد کرے گا۔؟‘‘

ہر دن پچھلے دن سے کہیں زیادہ ایس او ایس پیغام۔ زیادہ ٹویٹ، زیادہ کال۔ ایک پوسٹ لکھی جاتی ہے: ’’ہاسپیٹل بیڈ کی ضرورت ہے،‘‘ لیکن اگلے دن اپ ڈیٹ ملتا ہے – ’’مریض کی موت ہو گئی ہے۔‘‘

ایک دوست جسے میں کبھی نہیں ملا، کبھی بات نہیں کی یا اسے جانتا نہیں تھا؛ کسی اور ملک کا دوست، جو دوسری زبان بولتا ہے، سانس نہیں لے پاتا، کہیں مر گیا ہے، اور اب کسی انجان چتا میں جل رہا ہے۔

The country is ablaze with a thousand bonfires of human lives. A poem about the pandemic

چتا

میرا دل روتا ہے، پیارے دوست،
موت کی سفید چادر اوڑھے،
لاشوں کے انبار کے درمیان اکیلے ہو،
مجھے معلوم ہے، تم ڈر رہے ہو۔

میرا دل روتا ہے، پیارے دوست
سورج ڈوب رہا ہے،
اور تم پر ایک خونی شام برستی ہے،
مجھے معلوم ہے، تم ڈر رہے ہو۔

ان کے درمیان پڑے ہو جنہیں تم نہیں جانتے،
جنہیں تم نہیں جانتے ان کے ساتھ جل رہے ہو،
آخری سفر بھی تمہارا اجنبیوں کے ساتھ رہا۔
مجھے معلوم ہے، تم ڈر رہے ہو۔

میرا دل روتا ہے، پیارے دوست،
جیسے ایک گھڑی سانس کی خاطر روئے تم،
سفید دیواروں سے گھرے اُس ہال میں،
مجھے معلوم ہے، تم ڈر رہے تھے۔

جب آخری بار، آنسو کی دو بوند
تمہارے چہرے پر ٹپکی؛
آخری اُن لمحات میں،
تم نے دیکھے اپنی ماں کے بے بس آنسو،
مجھے معلوم ہے، تم ڈر رہے تھے۔

سائرن چیخ رہے ہیں،
مائیں رو رہی ہیں،
چتائیں جل رہی ہیں۔

میرا کہنا کیا صحیح ہوگا
’’ڈرو مت!‘‘
کیا صحیح ہوگا میرا کہنا،
’’ڈرو مت!‘‘

میرا دل روتا ہے، پیارے دوست

مترجم: محمد قمر تبریز

Poems and Text : Gokul G.K.

Gokul G.K. is a freelance journalist based in Thiruvananthapuram, Kerala.

Other stories by Gokul G.K.
Painting : Antara Raman

Antara Raman is an illustrator and website designer with an interest in social processes and mythological imagery. A graduate of the Srishti Institute of Art, Design and Technology, Bengaluru, she believes that the world of storytelling and illustration are symbiotic.

Other stories by Antara Raman
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez