سینتل کماری (عمر ۴۰ سال) مچھلی فروخت کرنے کے لیے روزانہ کم از کم ۱۳۰ کلومیٹر کا سفر کرتی ہیں۔ وہ کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد سے مچھلی بیچنے میں درپیش مسائل کے بارے میں ہمیں بتاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے تناؤ محسوس ہوتا ہے، لیکن میں رکتی نہیں۔ تھوڑی سی کمائی اور اپنی فیملی کے گزارہ کے لیے، مجھے روزانہ لمبی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔ میرے اوپر قرض بڑھتا جا رہا ہے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنی بیٹی کی آن لائن کلاس کے لیے ایک اسمارٹ فون خرید سکوں۔ مجھ پر ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے۔‘‘

سینتل، تمل ناڈو کے مئیلادوتھورائی ضلع کے، ماہی گیروں کے گاؤں وناگیری میں رہتی ہیں۔ یہاں ہر عمر کی تقریباً ۴۰۰ عورتیں مچھلی بیچنے کا کام کرتی ہیں۔ وہ سبھی ۱۱۰۰ فشر ویمن کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں۔ یہاں ہر کوئی اپنے طریقے سے مچھلی بیچتا ہے۔ کچھ عورتیں اپنے سر پر مچھلی کی ٹوکریاں اٹھا کر گاؤں کی گلیوں میں نکل پڑتی ہیں، کچھ آٹو، وین یا بسوں سے آس پاس کے گاؤوں میں جا کر مچھلیاں فروخت کرتی ہیں، اور کچھ عورتیں تو بس سے دوسرے ضلع جا کر وہاں کے بازاروں میں مچھلیاں بیچتی ہیں۔

سینتل کماری کی طرح، زیادہ تر عورتیں اپنی کمائی سے گھر کا خرچ چلاتی ہیں۔ حالانکہ، اس دوران انہیں کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وبائی مرض نے ان تمام عورتوں پر اثر ڈالا ہے۔ فیملی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، انہیں ساہوکاروں اور مائکرو فائننس کمپنیوں سے قرض لینا پڑا اور اس طرح وہ قرض کے بھنور میں پھنس گئیں۔ اس بات کی امید کم ہی ہے کہ وہ اپنا قرض کبھی لوٹا پائیں گی۔ ایک قرض چُکانے کے لیے، انہیں دوسرا قرض لینا پڑتا ہے اور اس طرح انہیں آخر میں سود کے کافی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ مچھلی فروش اموتا (عمر ۴۳ سال) کہتی ہیں، ’’میں وقت پر قرض ادا نہیں کر پا رہی ہوں، جس کی وجہ سے سود کی رقم بڑھتی ہی جا رہی ہے۔‘‘

ریاست کی کسی پالیسی میں کہیں بھی خواتین مچھلی فروشوں کی پونجی سے جڑی یا دیگر مالی ضروریات پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔ دوسری جانب، مردوں کے درمیان بڑھتی بے روزگاری کے سبب، غیر ماہی گیر برادریوں کی خواتین نے بھی مچھلی بیچنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے مچھلیوں اور نقل و حمل کی لاگت بڑھ گئی ہے، اور آمدنی کم ہو گئی ہے۔ پہلے جہاں ان کی پورے دن ۳۰۰-۲۰۰ روپے کی کمائی ہو جاتی تھی، اب گھٹ کر ۱۰۰ روپے ہو گئی ہے اور کبھی کبھی تو ان کی اس سے بھی کم آمدنی ہوتی ہے۔

زندگی مشکل میں ہے، پھر بھی ان کی جدوجہد جاری ہے۔ بندرگاہ پر جانے کے لیے، وہ صبح جلدی اٹھتی ہیں، مچھلیاں خریدتی ہیں، گالیاں سنتی ہیں، پھر بھی جی توڑ محنت کرتی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: وناگیری میں: ’میں مچھلی بیچنے نہیں جا سکی‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Nitya Rao

Nitya Rao is Professor, Gender and Development, University of East Anglia, Norwich, UK. She has worked extensively as a researcher, teacher and advocate in the field of women’s rights, employment and education for over three decades.

Other stories by Nitya Rao
Alessandra Silver

Alessandra Silver is an Italian-born filmmaker based in Auroville, Puducherry, who has received several awards for her film production and photo reportage in Africa.

Other stories by Alessandra Silver
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez