گجرات کے جوناگڑھ ضلع کے مالیا تعلقہ میں جسمانی طور سے معذور ایک خاتون کو اپنے آنجہانی والد کی زمین کے مالکانہ حقوق حاصل ہوئے، لیکن ان کے ایک چچا اس زمین کو ہڑپنا چاہتے تھے؛ اسی طرح اقلیتی طبقہ کی ایک خاتون کو اپنے شوہر کی پراپرٹی میں سے ایک حصہ اُس وقت ملا، جب ان کے شوہر نے انھیں گھر چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور کیا، اور اب وہ اپنے دو بچوں کو اسکول بھیج سکتی ہیں جب کہ شوہر فرار ہے؛ ایک تیسری خاتون نے اپنے بدکار شوہر سے طلاق لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا، جس کے بعد انھیں مالی معاوضہ، راج کوٹ میں ایک گھر، اور پولس پروٹیکشن دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

یہ تمام کامیابیاں مالیا کے چند گاؤوں میں اس وقت ملیں، جب جنسی ناانصافی کے خلاف لڑنے والے خواتین کے ایک گروپ نے اپنی طرف سے کوششیں کیں۔ ان عورتوں نے ’نیائے سمیتی‘ نام سے ایک انصاف کمیٹی قائم کی ہے جو گھریلو تشدد اور اسی قسم کے دیگر مسائل کو حل کرنے کے لیے قائم کیے گئے ’مالیا مہیلا منچ‘ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ اس منچ کی تشکیل میں آغا خان رورَل سپورٹ پروگرام‘ کی معاونت بھی شامل حال رہی ہے۔ اس کی شروعات ۲۰۰۶ میں ہوئی اور اب اس کے اندر ۵۶ گاؤوں کی ۱۱۸۶ خواتین پر مشتمل ۷۵ سیلف ہیلپ گروپ کام کر رہے ہیں۔ اس میں شامل متعدد کمیٹیاں، جیسے نیائے سمیتی، سوستھ سمیتی، شکشن سمیتی اور ویوتی سمیتی وغیرہ حکومت کے ساتھ مل کر انصاف، صحت، تعلیم، قانون اور میل ملاپ جیسے امور پر کام کر رہی ہیں۔


01-GS-A league of extraordinary women.jpg

بائیں سے دائیں: حامل بین لاکھا، ہیرا بین پرمار، پربھا بین کھانیا (یہ منچ کی ایک رکن ہیں، لیکن نیائے سمیتی میں شامل نہیں ہیں) اور کانچا بین کھان پارا


نیائے سمیتی میں کل پانچ ممبر ہیں، جن کا تعلق مختلف سماج و ذات پر مبنی برادریوں سے ہے ۔ ہیرابین پرمار، حامل بین لاکھا، گیتا بین نیماوَت، کانچا بین کھان پارا اور جیا بین کھوراسا۔ چالیس سے پچاس سال کی عمر کی یہ سبھی عورتیں تقریباً پانچ برسوں تک سیلف ہیلپ گروپ کا حصہ تھیں، جس کے بعد فیڈریشن نے مجموعی طور پر ان سبھی کا انتخاب کمیٹی ارکان کے طور پر کر لیا۔

اس کمیٹی کی جب تشکیل ہوگئی، تو اس کے ممبران کو ایک سرکاری قانونی مشیر کی طرف سے جوناگڑھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں عدالتی کارروائی کی اطلاع دی گئی۔ یہ سہولت ملنے کے بعد انھوں نے شکایتوں اور مقدمات کو دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ یہ کام ملزم کو قانونی نوٹس بھیج کر کرتی ہیں۔ سمیتی کی دو ارکان، ہیرا بین اور کانچا بین تھوڑا بہت پڑھی لکھی ہیں، اور اسی لیے منچ کے لیٹر ہیڈ پر نوٹس تیار کرنے کی ذمہ داری انھیں دی گئی ہے۔ لمبے عرصے سے اس قسم کے معاملوں کو ہینڈل کرنے کی وجہ سے ان پانچوں کو متعلقہ قوانین کی سمجھ بھی ہو گئی ہے، اور بعض دفعہ ان کی مدد کے لیے وکیل، یعنی مشیر بھی آ جاتے ہیں۔


02-GS-A league of extraordinary women.jpg

یہ کارڈ اور اس قسم کے دیگر شناختی فارم، نیائے سمیتی کے ممبران کو اپنا کام کرنے میں مدد کرتے ہیں


مقدمے کی کارروائی اور فیصلے کا اعلان گاؤں کی ’عدالت‘ میں ہر ماہ کی ۱۴ تاریخ کو ہوتا ہے۔ عدالت کی جگہ انھیں گرام پنچایت نے بھنڈوری گاؤں میں دی ہے۔

’’متاثرہ خاتون پروسیسنگ فیس کے طور پر ۲۵ روپے ادا کرکے اپنا کیس درج کروا سکتی ہے،‘‘ ہیرابین بتاتی ہیں۔ ’’اس کے بعد ہم ملزم کو نوٹس بھیجتے ہیں اور سماعت کے لیے کسی ایک تاریخ کا تعین کرتے ہیں۔ ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں جان سے مارنے کی دھمکی بھی شامل ہے۔ لیکن، جب آپ کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ کے اندر ہمت خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘

کمیٹی دونوں فریق کی بات سنتی ہے اور پھر ایسا فیصلہ سناتی ہے، جو دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ان کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے، بلکہ یہ خواتین سمجھانے بجھانے، ثالثی کا کردار ادا کرنے اور پوری کمیونٹی کے بیچ جاکر اس بحث کو کرانے کا کام کرتی ہیں، بعض دفعہ یہ بحث و مباحثہ دن بھر چلتا ہے یا ایک سے زیادہ دنوں تک جاری رہتا ہے۔

اگر کوئی ملزم ’فیصلہ‘ کو ماننے سے انکار کرتا ہے، جیسا کہ اکثر و بیشتر ہوتا ہے، تو ویسی صورت میں اس کمیٹی کو اپنا فیصلہ منوانے کے لیے پولس کی مدد لینی پڑتی ہے یا پھر کیس کو ڈسٹرکٹ بھیج دیا جاتا ہے۔ معاملہ جب کامیابی کے ساتھ نمٹ جاتا ہے، تو ’کلائنٹ‘ (مؤکل) کو ۵۰۰ روپے بطور پروسیسنگ فیس ادا کرنے پڑتے ہیں۔ مؤکل کو پولس اسٹیشن یا عدالت تک جانے کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے ذریعے ادا کی گئی ۵۰۰ روپے کی رقم سمیتی کے کھاتہ میں چلی جاتی ہے، جس سے آفس کے چھوٹے موٹے کام ہوتے ہیں یا پھر ان شکایت کرنے والی عورتوں کا خرچ برداشت کیا جاتا ہے، جو غریب ہیں اور فیس ادا نہیں کرسکتیں۔

سمیتی کی ایسی بہت سی کہانیاں ہیں، جو اس کی انصاف کی لڑائی کی شاندار داستان کو بیان کرتی ہیں۔ ’’ہمیں ایک ایسا کیس ملا، جس میں ایک شوہر (جو مالدار تھا اور عمارت بنانے کی ٹھیکہ داری کرتا تھا) اپنی بیوی کو دھوکہ دینے لگا تھا،‘‘ حامل بین بتاتی ہیں۔ ’’جب اس کی بیوفائی یا بدکاری کے بارے میں سوال کیا گیا، تو اس نے اپنی بیوی کو اکثر پیٹنا شروع کردیا، اور ایک دن اپنی بیوی اور دو بچوں کو چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ ایک پرانی مؤکل نے اس عورت کو نیائے سمیتی کی مدد لینے کا مشورہ دیا۔ شروع میں وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ ایسا کرنے سے اس کی پٹائی اور ہونے لگی، لیکن کسی طرح ہمت جٹاکر وہ سمیتی کے پاس آ ہی گئی۔

اس کے شوہر کو سمن بھیجا گیا۔ لیکن اس نے آنے سے منع کردیا اور سمیتی کے ممبران کو نشانہ بنانے لگا۔ ’’وہ اپنے غنڈوں کے ساتھ ہمارے دفتر میں آتا اور ہمیں دھمکی دیتا، اور رات میں ہمارے گھروں پر پتھر پھینک کر چلا جاتا تھا۔ شروع میں ہم بھی ڈر گئے، لیکن پولس نے ہماری مدد کی،‘‘ ہیرا بین کہتی ہیں۔

سمیتی کی پرعزم عورتوں نے اس کیس کو لیا اور اسے تین اور سمن بھیجے۔ اس کے باوجود جب وہ آدمی نہیں آیا، تو انھوں نے دوبارہ پولس سے رابطہ کیا اور اس طرح اس آدمی کو عدالتی کارروائی کے لیے حاضر ہونا ہی پڑا۔

سمیتی پہلے سے کوئی نظریہ قائم کرنے سے گریز کرتی ہے۔ دونوں فریق کو ایک دوسرے کے سامنے موجود ہوکر اپنی بات رکھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ سماعت کے بعد، ہر ایک فریق کو الگ الگ مشورہ دیا جاتا ہے، تاکہ وہ اسے تسلیم کریں، خاص کر اپنے بچوں کے لیے۔ مذکورہ ٹھیکہ دار کے کیس میں، تفصیلی بات چیت کے بعد سمیتی نے اسے مشورہ دیا کہ وہ راج کوٹ میں اپنے گھروں میں سے ایک گھر اور ڈھائی لاکھ روپے اپنی بیوی کو دے دے اور اس سے طلاق لے لے۔

لیکن سمیتی کے لیے عام طور پر اپنے حکم کی تعمیل کروانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہیرابین بتاتی ہیں، ’’اسی کیس میں، ہم اس عورت کو لے کر راج کوٹ میں واقع اس کے گھر گئے، وہاں اس کے شوہر نے جو تالا لگایا ہوا تھا، اسے توڑ دیا اور پھر اس کی اطلاع اس تک پہنچوا دی۔ وہ آدمی اُس رات گاؤں پہنچا اور اس نے اپنی بیوی کو بری طرح مارا۔ اس کی بیوی بڑی مشکل سے اپنے دونوں بچوں کو وہاں سے لے کر بھاگی اور مجھے اس کی جانکاری دی۔ میں نے راج کوٹ کے سب انسپکٹر سے مداخلت کرنے کی درخواست کی۔‘‘

اس قسم کے مسائل پر کام کرنا سمیتی کی عورتوں کے لیے بہت چنوتی بھرا کام ہوتا ہے۔ انھیں خود اپنی فیملیز سے ہونے والی مخالفت پر قابو پانا پڑتا ہے۔ اس میں انھیں ان کے وہ سال کام آتے ہیں جو انھوں نے سیلف ہیلپ گروپ کے طور پر کام کرتے ہوئے گزارے، جن میں انھوں نے سرکاری اسکیموں کو گاؤں میں لانے کا کام کیا تھا۔ اس سے انھیں حوصلہ بھی ملا اور لوگ ان پر اعتماد بھی کرنے لگے۔ اس کے بعد کئی برسوں کامیابی کے ساتھ لوگوں کے جھگڑوں کو سلجھانے، ٹوٹے ہوئے گھروں کو جوڑنے یا دیگر مسئلوں کو حل کرنے سے انھیں سماج میں بڑے پیمانے پر معتبریت حاصل ہوئی۔


03-GS-A league of extraordinary women.jpg

ہیرابین پرمار (دائیں) کہتی ہیں: ’کیا یہ خود مختاری کی ایک شکل نہیں ہے، یعنی جو کچھ غلط ہو رہا ہے اس کے خلاف بولنا؟‘


ہیرا بین کا تعلق سماجی طور پر پس ماندہ ذات سے ہے۔ وہ گاؤں کے کنارے رہتی ہیں، لیکن سمیتی میں کام کرنے کی وجہ سے انھیں خود اپنی کمیونٹی اور دوسرے گاؤوں والوں کے درمیان عزت و احترام اور شہرت ملی ہے۔ ’’ہم جس معاملوں کو سلجھاتے ہیں، اس سے تشدد کے شکار دیگر لوگوں کو مورَل سپورٹ ملتا ہے۔ ہماری مؤکل دوسری عورتوں کو حوصلہ بخشتی ہیں اور مردوں کے غلبہ والے سماج میں ظلم و تشدد کے خلاف کھڑا ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔ کیا یہ خود مختاری کی ایک شکل نہیں ہے، جس میں برائی کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے؟‘‘ وہ فخریہ انداز میں کہتی ہیں۔

سمیتی نے اب تک اس قسم کے ۳۲ معاملے حل کیے ہیں۔ کامیابی اتنی شاندار ہے کہ جو کنبے راج کوٹ، اونا، جونا گڑھ اور یہاں تک کہ پُنے چلے گئے، وہ بھی سمیتی سے اپنا رابطہ بنا رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ کورٹ معاون ہے؛ مثال کے طور پر، بقول ہیران بین، ایک کیس کی سماعت کے دوران جج نے اپیل کرنے والی کو ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’آپ اپنا پیسہ یہاں کیوں ضائع کرنا چاہتی ہیں؟ جائیے فیڈریشن (مالیا مہیلا منچ) سے رابطہ کیجے۔‘‘ یہ تبصرہ ان مثالی عورتوں اور ان کی کوششوں کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتا ہے۔

Gurpreet Singh

Gurpreet Singh works at the Aga Khan Rural Support Programme on projects related to sustainable agriculture and conservation of natural resources, in Mangrol town of Junagadh district.

Other stories by Gurpreet Singh
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez