شیو پوجن پانڈے کو جب کسی دوسرے ٹیکسی ڈرائیور سے فون پر یہ اطلاع ملی، تو انہوں نے تتکال کوٹہ میں ٹرین کا ٹکٹ بُک کرایا اور اتر پردیش کے مرزاپور اسٹیشن سے انہوں نے ۴ جولائی کو ٹرین پکڑی۔

وہ اگلے دن ممبئی پہنچ گئے۔ لیکن، فوراً وہاں پہنچنے کے باوجود ۶۳ سالہ شیو پوجن پانڈے اپنی ٹیکسی کو فروخت ہونے سے بچا نہیں سکے۔

ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ کے ذریعے اسے نیلام کر دیا گیا تھا۔ یہ ان ۴۲ ٹیکسیوں میں سے ایک تھی، جو شہر کے ایئرپورٹ کے باہر وبائی مرض کے سبب لاک ڈاؤن کے فیصلہ کی وجہ سے بیکار کھڑی تھی۔ اور اس لیے شیو پوجن نے اپنے روزگار کا ذریعہ کھو دیا۔ وہ ۱۹۸۷ سے ٹیکسی چلا رہے تھے اور ۲۰۰۹ میں انہوں نے قرض لیکر اپنی (کالے پیلے رنگ کی) ماروتی اومنی کار خریدی تھی۔

دوپہر کے وقت سہار ایئرپورٹ کے پاس کے فٹ پاتھ پر کھڑے شیو پوجن غصے میں پوچھتے ہیں، ’’یہ سب کرکے انہیں کیا ملا؟ میں نے اپنی پوری زندگی اس کام میں گزار دی اور جو کچھ بھی ہمارے پاس تھوڑا بہت تھا، وہ ہم سے چھین رہے ہیں۔ اس مشکل وقت میں اس سے برا وہ ہمارے ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

حال ہی میں سنجے مالی نے بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کیا۔ ان کی ویگن آر (کول کیب) مارچ ۲۰۲۰ سے ہی شمالی ممبئی کے مرول علاقہ کے انّا واڑی کی ایک پارکنگ میں کھڑی تھی، جو سہار انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے زیادہ دور نہیں ہے۔

۲۹ جون، ۲۰۲۱ کی رات ان کی کار کو پارکنگ کی جگہ سے ہٹا دیا گیا۔ اگلے دن انہیں ان کے ایک دوست نے یہ خبر دی۔ ۴۲ سالہ سنجے کہتے ہیں، ’’مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا؟‘‘

Despite the frantic dash back to Mumbai from UP,  Shivpujan Pandey (left) could not save his cab. Sanjay Mali (right) too faced the same penalty
PHOTO • Vishal Pandey
Despite the frantic dash back to Mumbai from UP,  Shivpujan Pandey (left) could not save his cab. Sanjay Mali (right) too faced the same penalty
PHOTO • Aakanksha

اتر پردیش سے فوراً ممبئی آنے کے باوجود، شیو پوجن پانڈے (بائیں) اپنی ٹیکسی نہیں بچا سکے۔ سنجے مالی (دائیں) نے بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کیا

ان کا اور دیگر ٹیکسی ڈرائیوروں کا اندازہ ہے کہ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے تک، تقریباً ۱۰۰۰ کیب یہاں کھڑی ہوا کرتی تھیں۔ سنجے کہتے ہیں، ’’ہم کام کے وقت اپنی ٹیکسی یہاں سے لے جاتے تھے اور کام ختم ہونے پر دوبارہ اپنی ٹیکسی یہیں کھڑی کر دیتے تھے۔‘‘ وہ کئی سالوں سے اپنی ٹیکسی یہاں کھڑی کر رہے تھے۔ ڈرائیور بتاتے ہیں کہ پارکنگ کے ان مقامات کا انتخاب ان کے یونین کے ذریعے کیا گیا تھا، اس کے لیے ایئرپورٹ اتھارٹی ان سے فیس نہیں لیتی، لیکن ایئرپورٹ سے مسافروں کے ذریعے کی جانے والی ادائیگی میں ۷۰ روپے کی اضافی فیس جوڑ دی جاتی ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ کی شروعات میں سنجے، اتر پردیش کے بھدوہی ضلع میں اورئی تعلقہ کے تحت آنے والے اپنے گاؤں اورنگ آباد، اپنے الیکٹریشین بھائی کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کی تیاری کے لیے گئے تھے۔ جلد ہی لاک ڈاؤن شروع ہو گیا، اور وہ ممبئی لوٹ کر نہیں آ سکے۔

جب کہ ان کی ٹیکسی انّا واڑی کے پارکنگ کے مقام پر کھڑی رہی۔ انہیں لگا کہ ان کی گاڑی وہاں محفوظ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن کا وقت تھا اور میرا دماغ اس وقت دوسرے معاملوں میں پھنسا ہوا تھا۔‘‘

سنجے نے پچھلے سال جنوری میں اپنی ٹیکسی کو گروی رکھ کر، شادی کے لیے ایک لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ لاک ڈاؤن میں گزارہ کے لیے ان کی فیملی بچت کے پیسوں، اپنی چھوٹی سی قابل کاشت زمین پر لگائی گئی دھان اور گیہوں کی فصلوں اور دوسرے چھوٹے موٹے قرضوں پر منحصر تھی۔

سنجے کی بہن کی شادی دسمبر ۲۰۲۰ تک ٹل گئی تھی۔ وہ گاؤں میں ہی رکے رہے اور مارچ ۲۰۲۱ میں ان کے واپس لوٹنے کا منصوبہ ایک بار پھر سے ٹل گیا، کیوں کہ تب تک کورونا کی دوسری لہر شروع ہو چکی تھی۔ اس سال مئی کے آخر میں سنجے اور ان کی فیملی ممبئی واپس آئی۔

وہ ۴ جون کو جب اپنی ٹیکسی لانے انّا واڑی پہنچے، تو انہوں نے دیکھا کہ پارکنگ کا مقام بند تھا۔ سیکورٹی گارڈوں نے ان سے کہا کہ وہ گیٹ کھلوانے کے لیے ایئرپورٹ اتھارٹی سے اجازت لیکر آئیں۔ اگلے دن ۵ جون کو سنجے نے ایئرپورٹ ٹرمنل پر ایک آفس میں ایک خط جمع کیا، جس میں انہوں نے اپنی غیر حاضری کے اسباب کا بیورہ دیا اور اپنی ٹیکسی نکالنے کے لیے اجازت مانگی۔ انہوں نے اس کی فوٹوکاپی بھی تیار نہیں کی تھی، کیوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان سے ان کی ٹیکسی چھین لی جائے گی۔

The Annawadi parking lot, not far from the Sahar international airport. Hundreds of taxis would be parked here when the lockdown began in March 2020
PHOTO • Aakanksha
The Annawadi parking lot, not far from the Sahar international airport. Hundreds of taxis would be parked here when the lockdown began in March 2020
PHOTO • Aakanksha

انّا واڑی کا پارکنگ کا مقام، جو سہار انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے زیادہ دور نہیں ہے، مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کی شروعات ہونے تک سینکڑوں گاڑیاں یہاں کھڑی کی جاتی تھیں

وہ ایئرپورٹ آفس اور پارکنگ کے مقام، دونوں جگہ تین سے چار بار گئے۔ اس کے لیے وہ لوکل ٹرین نہیں پکڑ سکتے تھے (لاک ڈاؤن کے دوران لگی پابندیوں کی وجہ سے) اور انہیں بس سے سفر کرنا پڑا، جو اپنی محدود سہولیات کے ساتھ منزل تک پہنچے میں زیادہ وقت لیتی ہے۔ ہر بار ان سے کچھ وقت بعد دوبارہ آنے کے لیے کہا گیا۔ اور پھر، وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بتائے بغیر ان کی ٹیکسی کو نیلام کر دیا گیا۔

سنجے اور دوسرے ٹیکسی ڈرائیور ۳۰ جون کو اپنی شکایت درج کارنے کے لیے سہار پولیس اسٹیشن گئے۔ سنجے بتاتے ہیں، ’’انہوں نے کہا کہ ایسا قانونی طریقے سے کیا گیا ہے، اور تمہیں نوٹس بھیجے جانے پر اپنی گاڑی کو وہاں سے ہٹا لینا چاہیے تھا۔ لیکن مجھے کبھی کوئی نوٹس نہیں ملا۔ میں نے اپنے پڑوسیوں سے بھی پوچھا۔ اگر میں جانتا، تو کیا میں اپنی ٹیکسی وہاں سے ہٹا نہ لیتا؟‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ اس طرح کا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے کیا ایئرپورٹ اتھارٹی لاک ڈاؤن کے حالات پر غور نہیں کر سکتی تھی؟

سنجے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میرے والد نے اپنی آمدنی سے اس گاڑی کو خریدا تھا۔ انہوں نے سالوں تک ای ایم آئی کی قسط بھری۔‘‘ سنجے پہلے ایک میکینک کا کام کرتے تھے، لیکن اپنے والد کی بڑھتی عمر کو دیکھتے ہوئے وہ ۲۰۱۴ سے گاڑی چلانے لگے۔

جہاں ایک طرف سنجے اور شیو پوجن اپنی گاڑی کو نیلام ہونے سے پہلے دیکھ تک نہیں سکے تھے، دوسری طرف کرشن کانت پانڈے، جنہوں نے اتر پردیش سے فوراً واپس آنے کے لیے ٹرینوں کے شیڈول جاننےمیں شیو پوجن کی مدد کی تھی، نے اپنی آنکھوں سے اپنی ٹیکسی کو نیلام ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہوں نے ۲۰۰۸ میں انڈیگو (کول کیب) گاڑی ۴ لاکھ روپے میں خریدی تھی، اور اس کے لیے وہ ۵۴ مہینوں تک ای ایم آئی چکاتے رہے۔

۵۲ سالہ کرشن کانت ۲۹ جون کی رات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں اس رات وہیں تھا اور میں نے اپنی اور دوسری گاڑیوں کو ایک ایک کرکے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا۔ میں بس وہاں کھڑا ہوکر دیکھتا رہا، میں کچھ کر نہیں سکتا تھا۔‘‘ ہم انّا واڑی کے پارکنگ کے مقام کے باہر کھڑے ہوکر بات کر رہے تھے، جہاں گیٹ پر ایک بہت بڑا بورڈ لگا ہوا تھا: ’یہ زمین انڈین ایئرپورٹ اتھارٹی کے ذریعے ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ کو لیز پر دی گئی ہے۔‘

Krishnakant Pandey could not move out his taxi (which too was later auctioned) because he didn't have money to repair the engine, and had started plying his deceased brother’s dilapidated cab (right)
PHOTO • Aakanksha
Krishnakant Pandey could not move out his taxi (which too was later auctioned) because he didn't have money to repair the engine, and had started plying his deceased brother’s dilapidated cab (right)
PHOTO • Aakanksha

کرشن کانت پانڈے اپنی ٹیکسی کو وہاں سے نکال نہیں سکے (جسے بعد میں نیلام کر دیا گیا)، کیوں کہ ان کے پاس انجن کی مرمت کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور انہوں نے اپنے متوفی بھائی کی پرانی ٹیکسی کو چلانا شروع کر دیا تھا (دائیں)

جب کرشن کانت اپنی گاڑی کے چھن جانے کو لیکر سہار پولیس اسٹیشن شکایت درج کرانے کے لیے پہنچے، تو وہ بتاتے ہیں کہ ان کی بات کسی نے نہیں سنی۔ اتر پردیش اور جونپور ضلع میں واقع اپنے گاؤں لوہ سے مارچ ۲۰۲۱ میں لوٹنے پر، انہیں پارکنگ کے مقام سے اپنی گاڑی نکالنے کے لیے پہلے اس کے انجن کی مرمت کرانے کی ضرورت تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’لگاتار ایک جگہ کھڑے رہنے کی وجہ سے اس کے انجن نے کام کرنا بند کر دیا تھا۔ مجھے اس کی مرمت کے لیے پیسے جمع کرنے تھے۔ اور ادھر ایک سال سے کوئی سواری نہیں ملی تھی۔‘‘

پچھلے سال مارچ سے اکتوبر تک، کرشن کانت ممبئی میں ہی تھے۔ انہوں نے پچھلے سال جولائی-اگست کے مہینے میں کام کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ایئرپورٹ علاقے میں سخت پابندی تھی۔ نومبر میں وہ لوہ چلے گئے اور اس سال مارچ میں ممبئی واپس لوٹے۔ جلد ہی، اگلا لاک ڈاؤن شروع ہو گیا اور وہ کام نہیں کر سکے۔ ان کی گاڑی انّا واڑی پارکنگ پر کھڑی رہی۔

*****

ممبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ لمیٹڈ (ایم آئی اے ایل) کا کہنا ہے کہ نیلامی کو روکنا ناممکن تھا۔ ایم آئی اے ایل کے سی آر (کارپوریٹ رلیشنز) کے نائب صدر ڈاکٹر رندھیر لامبا کہتے ہیں، ’’یہ نیلامی سیکورٹی کے نقطہ نظر سے کی گئی تھی، کیوں کہ ایئرپورٹ کا علاقہ کافی حساس ہے۔ کوئی بھی اپنی ٹیکسی کو ایک سال سے زیادہ وقت تک کے لیے یہاں لاوارث نہیں چھوڑ سکتا ہے۔ آخرکار ایئرپورٹ نے سرکاری زمین کو پٹہ پر لیا ہے، اور اس کی سیکورٹی کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔‘‘

لامبا کہتے ہیں کہ اُن ۲۱۶ ڈرائیوروں کو تین بار نوٹس بھیجا گیا تھا جن کی گاڑیاں لمبے وقت سے پارکنگ کے مقام پر کھڑی تھیں۔ دو نوٹس کو ان کے ذریعے رجسٹرڈ ممبئی کے پتہ پر بھیجا گیا تھا؛ ایک پچھلے سال دسمبر میں اور ایک اس سال فروری میں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے آر ٹی او (ریجنل ٹرانسپورٹ آفس) سے رابطہ کرکے ٹیکسی کے مالکوں کا نام اور ان کا پتہ معلوم کیا۔ اخباروں میں بھی پبلک نوٹس شائع کی گئی تھی۔‘‘

ڈاکٹر لامبا زور دیکر کہتے ہیں کہ آر ٹی او، پولیس، اور ٹیکسی یونین سبھی کو اطلاع دی گئی تھی، ’’ہم نے سبھی لوگوں سے رابطہ کیا اور تمام ہدایات اور طریقہ کار پر عمل کیا۔‘‘

لیکن سنجے کے ذریعے بھیجے گئے خط کا کیا ہوا؟ اس کے جواب میں لامبا کہتے ہیں، ’’ہم نے آخری وقت میں آئے ڈرائیوروں کی مدد کی، اور انہیں ان کی ٹیکسی لوٹا دی۔ شاید یہ ڈرائیور غلط انسان کے پاس پہنچا تھا۔ ہمیں اس کا خط کبھی ملا ہی نہیں۔‘‘

*****

Shivpujan Pandey with his deceased elder son Vishnu
PHOTO • Courtesy: Shivpujan Pandey

شیو پوجن اپنے بڑے بیٹے وشنو کے ساتھ، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں (فائل فوٹو)

زندگی میں سب کچھ دھیرے دھیرے پٹری پر آ رہا تھا۔ اپنے بیٹے وشنو کی نوکری کی مدد سے ہم ۲۰۱۸ میں نالاسوپارہ میں اپنا چھوٹا فلیٹ خرید سکے تھے۔ مجھے اس پر فخر تھا۔ لیکن، میں اپنا بیٹا کھو چکا ہوں اور اب ’ٹیکسی کی نیلامی‘ ہو گئی

مارچ ۲۰۲۰ میں جب لاک ڈاؤن کی شروعات ہوئی، تو شیو پوجن پانڈے کسی طرح اتر پردیش کے سنت روی داس نگر (بھدوہی) ضلع کے اورئی تعلقہ میں بسے اپنے گاؤں بھوانی پور اوپروار پہنچ سکے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی پشپا (خاتون خانہ)، اور ان کا چھوٹا بیٹا وشال تھا۔ ان کے بڑے بیٹے وشنو (۳۲ سالہ) اپنی بیوی اور چار سال کی بیٹی کے ساتھ شمالی ممبئی کے نالاسوپارہ میں اپنے گھر پر رکے ہوئے تھے۔ وہ ایک فارما کمپنی میں کام کرتے تھے، لیکن وبائی مرض کے سبب ان کی نوکری چلی گئی تھی۔

جولائی ۲۰۲۰ کے آخر میں، اچانک کانپنے اور بیہوشی جیسی علامت آنے کے بعد جانچ میں برین ہیمریج کا پتہ چلا۔ شیو پوجن بتاتے ہیں، ’’ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ شاید اسے بہت زیادہ تناؤ تھا۔ میں گاؤں میں تھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہاں کیا چل رہا تھا۔ فون پر ہمیشہ اس کی آواز ٹھیک سنائی دیتی تھی۔ ہم فوراً ممبئی واپس آ گئے۔‘‘ اس کے بعد اسپتال کے ۳-۴ لاکھ روپے کے خرچے کے لیے شیو پوجن نے ایک مقامی مہاجن سے پیسے قرض لیے اور پانچ بیگھہ کی اپنی قابل کاشت زمین میں سے تین بیگھہ زمین کو گروی رکھ دیا۔ پچھلے سال ایک اگست کو وشنو کی موت ہو گئی۔

شیو پوجن کہتے ہیں، ’’وہ ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا کہ آپ واپس گاؤں چلے جائیے اور وہاں جاکر آرام کیجئے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اب سب کچھ سنبھال لے گا۔ میں اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ وشال کی بھی نوکری لگ جائے گی اور پھر میں آرام کر پاؤں گا۔‘‘

۲۵ سالہ وشال کے پاس ایم کام کی ڈگری ہے اور وہ سرکاری نوکری کی تلاش کر رہے ہیں۔ شیو پوجن کہتے ہیں، ’’لیکن اب تو واپس ممبئی آنے کا من نہیں کرتا۔ سب سے زیادہ افسوس اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے ہوئے دیکھنا ہے۔ میری بیوی تو ابھی بھی صدمے میں ہے۔‘‘

آخری رسومات کے لیے فیملی اپنے گاؤں واپس چلی گئی۔ جولائی ۲۰۲۱ میں شیو پوجن دوبارہ ممبئی لوٹ کر آئے، جب کرشن کانت نے انہیں ٹیکسی کی نیلامی کے بارے میں بتایا۔

وہ کہتے ہیں، ’’زندگی میں سب کچھ دھیرے دھیرے پٹری پر آ رہا تھا۔ اپنے بیٹے وشنو کی نوکری کی مدد سے ہم ۲۰۱۸ میں نالا سوپارہ میں اپنا چھوٹا فلیٹ خرید سکے تھے۔ مجھے اس پر فخر تھا۔ لیکن، میں اپنا بیٹا کھو چکا ہوں اور اب ’ٹیکسی کی نیلامی‘ ہو گئی۔‘‘

At the flyover leading to the international airport in Mumbai: 'This action [the auction] was taken from a security point of view as the airport is a sensitive place'
PHOTO • Aakanksha
At the flyover leading to the international airport in Mumbai: 'This action [the auction] was taken from a security point of view as the airport is a sensitive place'
PHOTO • Aakanksha

ممبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈہ کی طرف جانے والے فلائی اوور پر: ’یہ نیلامی سیکورٹی کے نقطہ نظر سے کی گئی تھی، کیوں کہ ہوائی اڈہ ایک حساس علاقہ ہے‘

لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے شیو پوجن ۸ بجے رات سے صبح ۸ بجے تک بین الاقوامی پروازوں سے آنے والے مسافروں کی سواری کے ذریعہ ایک مہینہ میں تقریباً ۱۰ سے ۱۲ ہزار روپے کما لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی پارکنگ کے مقام میں چھوڑ کر ٹرین سے واپس گھر آ جاتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد سے انہوں نے ممبئی میں کام نہیں کیا تھا، اور پچھلے مہینے نیلامی کی خبر سن کر فوراً ممبئی آنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے گاؤں واپس لوٹ گئے ہیں۔

لاک ڈاؤن سے پہلے سنجے مالی تقریباً ۶۰۰ سے ۸۰۰ روپے کما لیتے تھے۔ نیلامی میں اپنی گاڑی کھو دینے کے بعد سے انہوں نے اس سال جولائی کے دوسرے ہفتہ میں ۱۸۰۰ روپے ماہانہ کی شرح سے ایک گاڑی کرایے پر لی ہے۔ انہیں اپنے ذریعے لیے گئے قرض کی فکر ہے، کیوں کہ ایک لاکھ روپے کے قرض میں سے وہ صرف آدھے پیسے ہی واپس ادا کر پائے ہیں؛ اس کے علاوہ بچوں کے اسکول کے اخراجات بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری تمام جمع پونجی اور سارا پیسہ ختم ہو گیا ہے۔ مجھے کام ڈھونڈنا ہی تھا۔‘‘

جب میں شمالی ممبئی کے پوئیسر علاقے کی جھگی کالونی میں ان کے گھر گئی، تو وہ تین دن تک کرایے کی ٹیکسی چلانے کے بعد دوپہر کے تقریباً دو بجے اپنے گھر واپس لوٹے تھے اور صرف ۸۵۰ روپے کی کمائی ان کے ہاتھ میں تھی۔ شام تک وہ واپس کام پر چلے گئے۔

ان کی بیوی سادھنا مالی فکرمند ہوتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’جب سے انہوں نے پھر سے کام کرنا شروع کیا ہے، تب سے میں نے انہیں پرسکون نہیں دیکھا ہے۔ انہیں ذیابیطس کا مسئلہ ہے اور کچھ سال پہلے ان کی ہارٹ سرجری (دل کا آپریشن) ہوئی تھی۔ دواؤں کا پیسہ بچانے کے لیے وہ یا تو دوا نہیں لیتے یا پھر دن میں صرف ایک بار دوا لیتے ہیں۔ اپنی گاڑی کھونے کے تناؤ میں وہ بہت بری حالت میں ہیں۔‘‘

ان کی بیٹی تمنا نویں کلاس اور ان کا بیٹا آکاش چھٹویں کلاس میں ہے۔ گاؤں سے ہی ان کی آن لائن پڑھائی چل رہی ہے۔ لیکن پوئیسر کے جس پرائیویٹ اسکول سے وہ پڑھائی کر رہے ہیں وہ تھوڑی چھوٹ کے ساتھ پچھلے اور اس سال کی فیس مانگ رہے ہیں۔ مالی فیملی صرف تمنا کی پچھلے سال کی فیس ادا کر پائی ہے۔ سنجے بتاتے ہیں، ’’اس سال ہمیں آکاش کا اسکول چھڑوانا پڑا، اور ہم اس کی چھٹویں کلاس کی فیس نہیں بھر سکتے تھے۔ وہ بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ اپنا ایک سال خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ہم بھی ایسا نہیں چاہتے۔‘‘

The Mali family: Sadhana, Tamanna, Sanjay, Akash
PHOTO • Aakanksha

مالی فیملی: سادھنا، تمنا، سنجے، آکاش

مالی فیملی صرف تمنا کی پچھلے سال کی فیس ادا کر پائی ہے۔ سنجے بتاتے ہیں، ’اس سال ہمیں آکاش کا اسکول چھڑوانا پڑا، اور ہم اس کی چھٹویں کلاس کی فیس نہیں بھر سکتے تھے۔ وہ بار بار کہہ رہا ہے کہ وہ اپنا ایک سال خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ہم بھی ایسا نہیں چاہتے‘

کرشن کانت، شمالی ممبئی کے مرول کی جھگی بستی میں رہتے ہیں (ان کی فیملی کے زیادہ تر رکن گاؤں چلے گئے ہیں)۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے کمرے کا ۴۰۰۰ روپے ماہانہ کرایے کا کچھ حصہ ہی دے پا رہے ہیں۔ مئی ۲۰۲۱ میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی (اب اس دنیا میں نہیں ہیں) کی ٹیکسی (کالے پیلے رنگ کی ٹیکسی، جسے کرایے پر دیا جاتا تھا) چلانا شروع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں کوشش کرتا ہوں کہ دن بھر میں ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے کما سکوں۔‘‘

اور انہوں نے طے کیا ہے کہ وہ اپنی ٹیکسی کے نقصان کو بغیر چیلنج کیے جانے نہیں دیں گے۔

ٹیکسی ڈرائیوروں کے یونین، بھارتیہ ٹیکسی چالک سنگھ، نے انہیں ایک وکیل کھوجنے میں مدد کی ہے۔ یونین کے نائب صدر راکیش مشرا کہتے ہیں کہ نیلامی سیکورٹی وجوہات سے کی گئی ہے، لیکن ایسا کرنے کا وقت غلط تھا:

’’ہمیں بھی کچھ مہینے پہلے تک (مارچ ۲۰۲۱ تک) نوٹس کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ ہمارا دفتر بند تھا۔ جب یہ ہمارے علم میں آیا، تو ہم نے (ایئرپورٹ اتھارٹی سے) گاڑیوں کو پارک کرنے کے لیے کسی دوسری جگہ کی مانگ کی۔ لاک ڈاؤن میں، وہ اپنی گاڑی کہاں پارک کرتے؟ ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔ میں نے ڈرائیوروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ نوٹس صرف ان کے ممبئی کے پتہ پر بھیجا گیا تھا۔ یہ ڈرائیوروں کے پاس ان کے گاؤں تک کیسے پہنچتا؟ جو ڈرائیور ممبئی میں تھے انہوں نے پارکنگ کے مقام سے اپنی گاڑی نکال لی۔‘‘

Left: Rakesh Mishra, vice-president, Bhartiya Taxi Chalak Sangh, says they understand that the auction was undertaken for security purposes, but its timing was wrong. Right: The papers and documents  Krishnakant has put together to legally challenge the move: 'I don’t want to keep quiet but I am losing hope'
PHOTO • Aakanksha
Left: Rakesh Mishra, vice-president, Bhartiya Taxi Chalak Sangh, says they understand that the auction was undertaken for security purposes, but its timing was wrong. Right: The papers and documents  Krishnakant has put together to legally challenge the move: 'I don’t want to keep quiet but I am losing hope'
PHOTO • Aakanksha

بائیں: بھارتیہ ٹیکسی چالک سنگھ کے نائب صدر راکیش مشرا کہتے ہیں، ’وہ سمجھتے ہیں کہ سیکورٹی وجوہات سے نیلامی کی کارروائی کی گئی، لیکن ایسا کرنے کا وقت غلط تھا۔‘ دائیں: کرشن کانت نے قانونی چنوتی دینے کے لیے کاغذ اور دستاویز تیار رکھے ہیں: ’میں خاموش نہیں رہنا چاہتا، لیکن میں امید کھو رہا ہوں‘

ایم آئی اے ایل کے ڈاکٹر لامبا کہتے ہیں، ’’اگر انہیں قانونی کارروائی ہی کرنی ہے، تو اس کا انہیں پورا حق ہے۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں کہ جس پارکنگ کے مقام پر نیلامی کی ہوئی گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں وہ ابھی کام نہیں کر رہا ہے۔ ’’اتنی بڑی جگہ کو ٹیکسیوں کی پارکنگ کے لیے ریزرو کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ (کالی۔پیلی) ٹیکسیوں کی مانگ کافی کم ہو گئی ہے۔ مسافر اب اولا اور اوبر کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور ایئرپورٹ کے پاس پارکنگ کی ایک چھوٹی سی جگہ ہے [جو اب بھی آپریشن میں ہے]۔‘‘

کرشن کانت ان تمام ۴۲ ڈرائیوروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی گاڑیوں کی نیلامی کی گئی تھی۔ (سنجے مالی اس میں ان کی مدد کر رہے ہیں)۔ ’’کچھ ابھی بھی اپنے گاؤں میں ہیں اور اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ میں تمام لوگوں کو نہیں جانتا اور انہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ مجھے انہیں یہ سب بتانا پڑے، لیکن اگر میں نہیں بتاؤں گا، تو اور کون بتائے گا؟ کچھ کے پاس واپس ممبئی آنے کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے ایک وکیل کے تیار کیے ہوئے شکایت نامہ پر کچھ ٹیکسی ڈرائیوروں سے دستخط کروائے ہیں۔ ۹ جولائی کی تاریخ والا یہ لیٹر سہار پولیس اسٹیشن میں جمع کیا جا چکا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اب کیا کریں؟ میں پڑھ سکتا ہوں، اس لیے میں نے یہ [قانونی] ذمہ داری لی ہے۔ میں بارہویں کلاس پاس ہوں۔ چلو، اب جاکر میری پڑھائی کسی کام آئی۔‘‘ رات میں کرشن کانت پرانی ٹیکسی چلاتے ہیں۔ ’’میرے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ میں انصاف کے بارے میں نہیں جانتا، لیکن انہوں نے ہمارے پیٹ پر لات ماری ہے۔ یہ صرف میری ٹیکسی نہیں تھی، بلکہ میرا روزگار تھا، جسے انہوں نے مجھ سے چھین لیا۔‘‘

وہ اور دیگر ڈرائیور کچھ راحت ملنے یا کسی طرح کی کارروائی کا اب تک انتظار کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نہیں جانتا کہ اب کیا کروں؟ میں دو مہینے سے ادھر ادھر بھاگ رہا ہوں۔ کیا مجھے یہ کیس چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا کوئی کچھ بھی کرے گا؟ میں خاموش نہیں رہنا چاہتا، لیکن میں امید کھو رہا ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha
aakanksha@ruralindiaonline.org

Aakanksha (she uses only her first name) is a Reporter and Content Editor at the People’s Archive of Rural India.

Other stories by Aakanksha
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez