گایتری کچّرابی کے پیٹ میں ہر مہینے ایک متعینہ وقت پر ناقابل برداشت درد ہونے لگتا ہے۔ لگاتار تین دنوں تک برقرار رہنے والا یہ درد سال بھر پہلے بند ہو چکے ان کے حیض کا واحد اشارہ ہے۔

گایتری (۲۸) کہتی ہیں، ’’اس درد سے میں سمجھ جاتی ہوں کہ میرا حیض شروع ہو چکا ہے، لیکن اس دوران مجھے خون نہیں آتا ہے۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں، ’’شاید تین بچوں کو جنم دینے کی وجہ سے میرے اندر اب اتنا خون نہیں بچا ہے کہ حیض کے دوران وہ بہہ سکے۔‘‘ ایمینوریا یا حیض کی مدت کے دوران خون نہ آنے کے بعد بھی ہر مہینے پیٹ اور پیٹھ میں ہونے والے ناقابل برداشت درد سے گایتری کو کبھی راحت نہیں ملی۔ یہ درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ گایتری کو لگتا ہے گویا وہ لیبر روم (بچوں کی پیدائش والے کمرہ) میں ہوں۔ ’’میرے لیے اٹھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

گایتری دلکش آنکھوں اور بات چیت میں تلخ لہجے والی ایک لمبی اور دبلی عورت ہیں۔ وہ کرناٹک میں ہاویری ضلع کے رانے بینّور تعلقہ کے اسُنڈی گاؤں کی مڈِگرا کیری (دلت برادری سے تعلق رکھنے والے مڈیگا لوگوں کی بستی) میں رہنے والی ایک زرعی مزدور ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فصلوں کی صاف صفائی یا ہاتھوں سے زیرہ پوشی کے کام میں بھی ماہر ہیں۔

تقریباً سال بھر پہلے پیشاب کرنے کے وقت ہونے والے تیز درد کی شکایت کے بعد انہیں اس کے علاج کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ اپنے گاؤں سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور بیاڈگی کے پرائیویٹ کلینک گئیں۔

Gayathri Kachcharabi and her children in their home in the Dalit colony in Asundi village
PHOTO • S. Senthalir

اسُنڈی گاؤں کی دلت بستی کے اپنے گھر میں گایتری کچّرابی اور ان کے بچے

وہ کہتی ہیں، سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا پورا خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ میں وہاں نہیں جاتی ہوں۔ میرے پاس مفت کے علاج کے لیے ضروری کارڈ بھی نہیں ہے۔‘‘ ان کا اشارہ پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کی طرف ہے، جو آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت مرکزی حکومت کی ایک صحت بیمہ اسکیم ہے، اور جو اسپتالوں میں دوسرے اور تیسرے درجے کے علاج کے لیے ہر ایک فیملی کو ۵ لاکھ روپے تک کی میڈیکل سیکورٹی مہیا کراتی ہے۔

پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر نے انہیں خون کے علاوہ پیٹ کی ایک الٹرا ساؤنڈ جانچ کرانے کے لیے کہا۔

ڈاکٹر کو دکھائے سال بھر سے اوپر ہو گئے، لیکن گایتری نے ابھی تک اپنی جانچ نہیں کرائی ہے۔ جانچ میں کم از کم ۲۰۰۰ روپے کا خرچ ہے اور گایتری کے لیے یہ ایک بڑی رقم ہے۔ وہ کہتی ہے، ’’میں جانچ نہیں کروا پائی، اگر میں رپورٹ کے بغیر واپس گئی، تو وہ مجھے ضرور ڈاٹیں گے۔ اس لیے میں نے انہیں دوبارہ نہیں دکھایا۔‘‘

البتہ درد روکنے والی دواؤں کے لیے وہ میڈیکل اسٹور پر ضرور جاتی رہی ہیں۔ ان کی نظر میں یہ سستا اور آسان حل تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ اینتا گلیگے اداوو گوتِلّا [انہوں نے مجھے کون سی گولی دی، یہ میں نہیں جانتی]۔ میں بس اتنا کہتی ہوں کہ میرے پیٹ میں درد ہے، اور یہ بتانے پر دکاندار مجھے دوائیں دے دیتا ہے۔‘‘

تقریباً ۳۸۰۸ کی آبادی کے لحاظ سے اسنڈی میں حکومت کے ذریعے مہیا کرائی گئی طبی سہولیات کافی نہیں ہیں۔ گاؤں میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والا ایک بھی ڈاکٹر ایسا نہیں ہے جس کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری ہو، اور نہ ہی وہاں کوئی پرائیویٹ اسپتال یا نرسنگ ہوم ہی ہے۔

A view of the Madigara keri, colony of the Madiga community, in Asundi.
PHOTO • S. Senthalir
Most of the household chores, like washing clothes, are done in the narrow lanes of this colony because of a lack of space inside the homes here
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: اسنڈی میں مڈیگرا کیری (مڈیگا برادری کی بستی) کا ایک منظر۔ دائیں: کپڑے دھونے جیسے زیادہ تر گھریلو کام بستی کے تنگ راستوں پر کیے جاتے ہیں، کیوں کہ گھر کے اندر جگہ نہیں ہوتی

آس پاس کے علاقے میں عوامی سہولیات والا رانے بینّور کا مدر اینڈ چائلڈ ہاسپیٹل (ایم سی ایچ) بھی گاؤں سے ۱۰ کلومیٹر دور ہے، جہاں دو منظور شدہ عہدوں پر صرف ایک زچگی اور امراض خواتین (او بی جی) کا ماہر ڈاکٹر فائز ہے۔ علاقے میں دوسرے سرکاری اسپتال ہیریکیرور میں ہیں، جو اسنڈی سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ اس اسپتال میں او بی جی کے ماہر ڈاکٹر کا ایک منظور شدہ عہدہ ہے، لیکن وہ سالوں سے خالی ہے۔ صرف ہاویری کے ضلع اسپتال میں ۶ او بی جی ماہرین تعینات ہیں، جو تقریباً ۲۵ کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ لیکن یہاں بھی جنرل میڈیکل آفیسرز کے سبھی ۲۰ عہدے اور نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کے ۶ عہدے خالی ہیں۔

آج تک گایتری کو اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ ان کا حیض اچانک کیوں رک گیا یا ان کے پیٹ میں ہر مہینے یہ تیز درد کیوں اٹھتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے میرا ہی جسم بہت بھاری لگتا ہے۔ میں نہیں جانتی ہوں کہ یہ درد کہیں اس وجہ سے تو نہیں ہوتا کہ میں ایک بار کرسی سے گر گئی تھی یا میری کڈنی میں پتھر ہے؟ یا پھر اس کی وجہ میرے حیض کی دقتیں ہیں؟‘‘

گایتری کی پرورش ہیریکیرور تعلقہ کے چنّا مُلگُنڈ گاؤں میں ہوئی، جہاں پانچویں کلاس کے بعد انہیں اپنی پڑھائی روک دینی پڑی۔ اس کے بعد، انہوں نے ہاتھوں سے زیرہ پوشی کا کام سیکھا، جس سے انہیں ایک مقررہ آمدنی ہونے لگی۔ انہیں ہر چھ مہینے پر کم از کم ۲۰-۱۵ دنوں کا کام ملنے لگا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’زیرہ پوشی کا کام کرنے سے کم از کم ۲۵۰ روپے کی آمدنی ہو جاتی ہے۔‘‘

محض ۱۶ سال کی عمر میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دی گئی گایتری کے لیے زرعی مزدور کے طور پر کام کرنا ہمیشہ مشکل ہی رہا۔ ان کو تب ہی کام مل پاتا تھا، جب پاس کے گاؤوں کی لنگایت جیسی زمیندار برادری کے لوگوں کو مکئی، لہسن اور کپاس کی کھیتی کے لیے مزدوروں کی ضرورت پڑتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمیں ۲۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے دہاڑی ملتی ہے۔‘‘ ہر تین مہینے کے وقفے پر انہیں ۳۰ یا ۳۶ دن کی کھیتی سے متعلق مزدوری مل جاتی ہے۔ ’’اگر کھیت کے مالک ہمیں کام کرنے کے لیے بلاتے ہیں، تو ہمیں کام مل جاتا ہے، ورنہ ہمیں بیکار بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘

Gayathri and a neighbour sitting in her house. The 7.5 x 10 feet windowless home has no space for a toilet. The absence of one has affected her health and brought on excruciating abdominal pain.
PHOTO • S. Senthalir
The passage in front is the only space where Gayathri can wash vessels
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: گایتری اور ان کی ایک پڑوسن ان کے گھر میں بیٹھی ہیں۔ ساڑھے ۷ بائی ۱۰ فٹ کے بغیر کھڑکی والے کمرے میں بیت الخلاء کی جگہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا ہے اور انہیں بار بار پیٹ میں ناقابل برداشت درد اٹھتا ہے۔ دائیں: سامنے کا احاطہ واحد کھلی جگہ ہے، جہاں گایتری اپنے برتن اور کپڑے وغیرہ دھوتی ہیں

ایک زرعی مزدوری اور ہاتھوں سے زیرہ پوشی کی ماہر کے طور پر گایتری ہر مہینے ۲۴۰۰ سے ۳۷۵۰ روپے تک کما لیتی ہیں، جو ان کی دواؤں اور علاج کے خرچ کے حساب سے کافی نہیں ہے۔ گرمی کے دنوں میں کام کی کمی کے سبب ان کی مالی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔

ان کے شوہر بھی ایک زرعی مزدور ہیں، مگر وہ شراب کی لت کا شکار ہیں۔ اس لت کی وجہ سے فیملی کی آمدنی میں ان کی حصہ داری نہ کے برابر ہے۔ وہ اکثر بیمار بھی رہتے ہیں۔ پچھلے سال ٹائیفائڈ اور کمزوری کی وجہ سے وہ چھ مہینے سے بھی زیادہ وقت تک کام پر نہیں گئے۔ سال ۲۰۲۲ کی گرمیوں میں ایک حادثہ کے دوران اُن کا ایک ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے گایتری کو بھی تین مہینے تک گھر پر ہی رہنا پڑا۔ ان کا علاج کرانے میں تقریباً ۲۰ ہزار روپے الگ سے خرچ ہو گئے۔

گایتری کو ایک ساہوکار سے ۱۰ فیصد کی شرح سود پر قرض لینا پڑا۔ سود کی رقم ادا کرنے کے لیے انہوں نے الگ سے اُدھار لیا تھا۔ تین الگ الگ مائکرو فائنانس کمپنیوں کے تقریباً ایک لاکھ روپے کا قرض بھی ان کے اوپر ہے۔ ان قرضہ جات کی وجہ سے انہیں ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔

وہ زور دے کر کہتی ہیں، ’’ کولی ماڈی دراگے جیونا اگولری متے [ہم اکیلے دہاڑی کے بھروسے اپنی زندگی نہیں چلا سکتے ہیں]۔ کسی بھی پریشانی کی حالت میں ہمیں پیسے اُدھار لینے پڑتے ہیں۔ اس کی قسطیں چکانے میں بھی ہم کوئی چوک نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمارے گھر میں پکانے کو اناج نہ ہو، تب بھی ہم ہفتہ واری بازار نہیں جا سکتے ہیں۔ ہمیں ہفتے در ہفتے سنگھ [مائکرو فائنانس کمپنی] کو پیسے چکانے ہی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر پیسے بچ گئے، تب ہم سبزیاں خریدتے ہیں۔‘‘

Gayathri does not know exactly why her periods stopped or why she suffers from recurring abdominal pain.
PHOTO • S. Senthalir
Standing in her kitchen, where the meals she cooks are often short of pulses and vegetables. ‘Only if there is money left [after loan repayments] do we buy vegetables’
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: گایتری کو یہ بھی ٹھیک سے معلوم نہیں ہے کہ ان کا حیض کیوں رک گیا یا ان کے پیٹ میں اٹھنے والے اس تیز درد کی کیا وجہ ہے۔ دائیں: اپنے باورچی خانہ میں کھڑی گایتری، جہاں پکنے والے کھانے میں دال اور سبزی شاید ہی شامل ہوتی ہے۔ ’قرض چکانے کے بعد بھی اگر ہمارے پاس پیسے بچتے ہیں، تبھی ہم سبزیاں خریدتے ہیں‘

گایتری کے کھانے میں دال اور سبزیاں شاید ہی کبھی شامل ہوتی ہیں۔ جب ان کے پاس بالکل بھی پیسے نہیں ہوتے ہیں، تو وہ اپنے پڑوسیوں سے ٹماٹر اور مرچیں اُدھار مانگ کر ان سے کری (شوربہ) بنا لیتی ہیں۔

بنگلورو کے سینٹ جانس میڈیکل کالج کے زچگی اور امراض خواتین کے محکمہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شیبیا سلدانہا کہتی ہیں، ’’یہ وہ کھانا ہے جس سے نہ تو پیٹ بھرتا ہے اور نہ ہی غذائیت ملتی ہے۔ شمالی کرناٹک میں رہنے والی زیادہ تر خواتین زرعی مزدور ایسے ہی ’ناکافی کھانے‘ پر منحصر ہیں۔ وہ ابلے ہوئے چاول اور اس کے ساتھ دال سے بنی ایک دم پتلی ’کری‘ کھاتی ہیں، جس میں پانی اور مرچ پاؤڈر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لمبے عرصے کی کم غذائیت سے لاعلاج خون کی کمی جیسا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کو کمزوری اور تھکان کی شکایت عام ہے۔‘‘ ڈاکٹر سلدانہا، بچوں اور نوعمروں کی صحت کی بہتری کے لیے کام کرنے والی تنظیم، اینفولڈ انڈیا کی شریک کار بانی بھی ہیں۔ وہ ریاست کرناٹک کے خواتین کمیشن کے ذریعے سال ۲۰۱۵ میں زبردستی کی نس بندی کے معاملے کی جانچ کے لیے تشکیل کردہ کمیٹی میں بھی شامل تھیں۔

گایتری بار بار چکر آنے، ہاتھ اور پیروں کے سُنّ پڑنے (بے حسی)، پیٹھ میں درد اور تھکان کی شکایت کرتی ہیں۔ ڈاکٹر سلدانہا کے مطابق، یہ ساری علامتیں سنگین کم غذائیت اور انیمیا کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۰۲۱-۲۰۱۹ ( این ایف ایچ ایس ۔ ۵ ) کے مطابق، گزشتہ چار سالوں میں کرناٹک میں ۱۵ سے ۴۹ سال کی عورتوں میں انیمیا کی شرح ۱۶-۲۰۱۵ کے ۲ء۴۶ فیصد کے مقابلے ۲۰-۲۰۱۹ میں ۳ء۵۰ فیصد پہنچ گئی ہے۔ ہاویری ضلع کی اس عمر کی آدھی سے بھی زیادہ عورتیں انیمیا (خون کی کمی) کی شکار ہیں۔

گایتری کی خراب صحت کا اثر ان کی روز کی دہاڑی پر بھی پڑا ہے۔ وہ لمبی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں ایک دن کام پر جاتی ہوں، تو دوسرے دن نہیں جا پاتی۔‘‘

PHOTO • S. Senthalir

منجولا مہادیوپّا کچّرابی اپنے شوہر اور فیملی کے دیگر ۱۸ لوگوں کے ساتھ، اسی بستی میں دو کمرے والے ایک گھر میں رہتی ہیں۔ وہ اور ان کے شوہر رات میں جس کمرے میں سوتے ہیں، دن میں وہ کمرہ فیملی کے باورچی خانہ کے طور پر کام آتا ہے

منجولا مہادیوپّا کچّرابی (۲۵) بھی درد سے پریشان ہیں۔ یہ درد ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ حیض کی مدت کے دوران ان کے پیٹ میں جان لیوا اینٹھن ہوتی ہے، اس کے بعد پیٹ میں لگاتار بنا رہنے والا درد اور اندام نہانی سے رساؤ کا ایک دردناک دور شروع ہو جاتا ہے۔

منجولا کہتی ہیں، ’’وہ پانچ دن جب میرا حیض جاری رہتا ہے، میرے لیے شدید درد سے بھرے ہوتے ہیں۔‘‘ وہ بھی روزانہ ۲۰۰ روپے کی دہاڑی پر ایک زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ’’پہلے دو تین دن تک تو میں ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں ہو پاتی ہوں۔ میرے پیٹ میں زبردست اینٹھن ہوتی ہے اور میرے لیے ایک قدم چلنا بھی محال ہوتا ہے۔ میں کام پر نہیں جاتی ہوں، میں کھا بھی نہیں پاتی۔ میں بس چپ چاپ پڑی رہتی ہوں۔‘‘

درد کے علاوہ بھی گایتری اور منجولا کی کچھ پریشانیاں ایک ہی جیسی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی پریشانی ہے – محفوظ اور صاف ستھرے بیت الخلاء کی کمی۔

تقریباً ۱۲ سال پہلے، اپنی شادی کے بعد گایتری، اسنڈی کی دلت بستی کے اس ساڑھے ۷ بائی ۱۰ فٹ کے بغیر کھڑکی والے گھر میں آئی تھیں۔ یہ گھر ایک ٹینس کورٹ جتنی زمین کے ایک چوتھائی حصے سے بس تھوڑی سی زیادہ جگہ میں بنا ہوا ہے۔ باورچی خانہ اور غسل خانہ کے لیے اسی جگہ کو دو دیواروں سے تقسیم کر دیا گیا ہے۔ گھر میں بیت الخلاء کے لیے جگہ نہیں ہے۔

منجولا بھی اپنے شوہر اور فیملی کے دیگر ۱۸ ممبران کے ساتھ اسی بستی میں دو کمرے کے ایک گھر میں رہتی ہیں۔ گھر کو مٹی کی دیواروں اور پرانی ساڑیوں کے پردے کی مدد سے چھ حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ اینوکّو اِمبیلری [کسی چیز کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے]۔ جب تہوار کے موقع پر فیملی کے تمام ممبران ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں، تو سب کے بیٹھنے لائق جگہ بھی اس گھر میں نہیں ہے۔‘‘ ایسے دنوں میں گھر کے مردوں کو سونے کے لیے کمیونٹی ہال بھیج دیا جاتا ہے۔

Manjula standing at the entrance of the bathing area that the women of her house also use as a toilet sometimes. Severe stomach cramps during her periods and abdominal pain afterwards have robbed her limbs of strength. Right: Inside the house, Manjula (at the back) and her relatives cook together and watch over the children
PHOTO • S. Senthalir
Inside the house, Manjula (at the back) and her relatives cook together and watch over the children
PHOTO • S. Senthalir

گھر میں غسل کے لیے متعینہ جگہ کے دروازے پر کھڑی منجولا۔ اس جگہ کو کئی بار گھر کی عورتیں بیت الخلاء کے طور پر بھی استعمال کر لیتی ہیں۔ حیض کے دوران پیٹ میں اٹھنے والی تیز اینٹھن اور درد کی وجہ سے منجولا کے جسم کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے۔ دائیں: گھر کا اندرونی حصہ، جہاں منجولا (سب سے پیچھے) گھر کی دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر کھانا بناتی ہیں اور اپنے چھوٹے بچوں پر نظر رکھتی ہیں

گھر کے باہر غسل کے لیے متعینہ جگہ کے دروازے پر پرانی ساڑی کے پردے ڈال دیے گئے ہیں۔ گھر میں اگر زیادہ لوگ موجود نہ ہوں، تو منجولا کے گھر کی سبھی عورتیں پیشاب کرنے کے لیے اسی جگہ کا استعمال کرتی ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہاں سے تیز بدبو آنے لگی ہے۔ جب بستی کی تنگ گلیوں کو پائپ لائن بچھانے کے مقصد سے کھودا گیا، تب یہاں گڑھے میں پانی جمع ہو گیا اور دیواروں پر کائیاں جمنے لگیں۔ حیض کے دنوں میں منجولا یہیں اپنے سینیٹری پیڈ بدلتی ہیں۔ ’’میں دن میں صرف دو بار پیڈ بدلتی ہوں – پہلی بار صبح میں جب مجھے کام پر جانا ہوتا ہے، اور دوسری بار شام کو گھر لوٹنے کے بعد۔‘‘ وہ جن کھیتوں میں کام کرتی ہیں وہاں عورتوں کے استعمال کرنے کے لیے بیت الخلاء کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔

دوسری سبھی اچھوت دلت بستیوں کی طرح، اسنڈی کی مڈیگرا کیری بھی گاؤں کے باہری حصے میں آباد ہے۔ یہاں بنے ۶۷ گھروں میں فی الحال تقریباً ۶۰۰ لوگ رہتے ہیں، اور ان میں آدھے گھر ایسے ہیں جن میں تین سے بھی زیادہ کنبے رہتے ہیں۔

تقریباً ۶۰ سے بھی زیادہ سال پہلے اسنڈی کی مڈیگا برادری کے لیے حکومت کے ذریعے یہ ڈیڑھ ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی۔ گزشتہ برسوں میں یہاں کی آبادی تیزی سے بڑھی ہے، اور نئے گھروں کی مانگ کو لے کر کئی احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ نئی نسلوں کے بڑھتے ہوئے کنبوں کے لیے لوگوں نے دستیاب جگہ کو ہی دیواروں اور پرانی ساڑی کے پردوں سے بانٹ دیا ہے۔

اسی طرح گایتری کا گھر، جو کبھی ساڑھے ۲۲ بائی ۳۰ فٹ کا ایک بڑا کمرہ تھا، وہ اب چھوٹے چھوٹے تین گھروں میں تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ اپنے شوہر، دو بیٹوں اور ساس سسر کے ساتھ ایک گھر میں رہتی ہیں اور ان کے شوہر کی فیملی کے دوسرے رکن بقیہ دو گھروں میں رہتے ہیں۔ گھر کے سامنے سے گزرنے والی ایک پتلی سڑک پر گھر کے وہ سبھی کام کیے جاتے ہیں جن کو کرنے کے لیے گھر کے اندر جگہ کی کمی ہے – مثلاً گھر کے کپڑوں اور برتنوں کی صفائی، اور ۷ سال اور ۱۰ سال کے ان کے دونوں بیٹوں کا نہانا دھونا یہیں ہوتا ہے۔ چونکہ ان کا گھر بہت ہی چھوٹا ہے، اس لیے گایتری نے اپنی ۶ سال کی بیٹی کو چِنّامُلگُنڈ گاؤں میں ان کے نانا نانی کے گھر بھیج دیا ہے۔

Permavva Kachcharabi and her husband (left), Gayathri's mother- and father-in-law, at her house in Asundi's Madigara keri.
PHOTO • S. Senthalir
The colony is growing in population, but the space is not enough for the families living there
PHOTO • S. Senthalir

بائیں: اسنڈی کے مڈیگرا کیری میں واقع گھر میں گایتری کے ساس ساسر – پرمَوّا کچّرابی اور ان کے شوہر (بائیں)۔ دائیں: بستی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، لیکن کنبوں کے رہنے لائق جگہ ابھی بھی اتنی ہی ہے

این ایف ایچ ایس ۲۰-۲۰۱۹ کے اعداد و شمار کے مطابق، کرناٹک میں کُل ۶ء۷۴ فیصد گھر ایسے ہیں جن میں ’بہتر صفائی کی سہولیات‘ دستیاب ہیں۔ لیکن ہاویری ضلع میں ان سہولیات سے لیس گھر صرف ۹ء۶۸ فیصد ہی ہیں۔ این ایف ایچ ایس کے پیمانوں کے مطابق، بہتر صفائی کی سہولیات میں ’’پائپ لائن سیور سسٹم سے جڑا فلش یا پاؤر فلش سسٹم (سیپٹک ٹینک یا گڑھے والا بیت الخلاء)، بہتر اور ہوادار پِٹ ٹوائلٹ، ڈھکن والے پِٹ ٹوائلٹ اور کمپوسٹ ٹوائلٹ‘‘ شامل ہیں۔ اسنڈی کے مڈیگرا کیری میں ان میں سے ایک بھی سہولت موجود نہیں ہے۔ گایتری کہتی ہیں، ’’ ہولداگا ہوگ بیکری [رفع حاجت کے لیے ہمیں کھیتوں میں جانا پڑتا ہے]۔‘‘ شرمیلی آواز میں وہ آگے بتاتی ہیں، ’’زیادہ تر کھیت مالکوں نے اپنے کھیتوں کی گھیرا بندی کر دی ہے اور ہمیں دیکھتے ہی وہ گالیاں دینے لگتے ہیں، اس لیے بستی کے لوگ صبح کی روشنی ہونے سے پہلے ہی رفع حاجت کے لیے چلے جاتے ہیں۔‘‘

گایتری نے اس مسئلہ کے حل کے طور پر پانی پینا کم کر دیا ہے۔ لیکن اب کھیت مالکوں کے ڈر سے جب وہ پیشاب کیے بغیر شام کو گھر لوٹتی ہیں، تب ان کے پیٹ میں ناقابل برداشت درد ہوتا رہتا ہے۔ ’’اس وقت جب میں پیشاب کرنے جاتی ہوں، تو پیشاب آنے میں آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اس وقت میں جس درد سے گزرتی ہوں وہ میں بتا نہیں سکتی۔‘‘

دوسری طرف، منجولا کے پیٹ میں اٹھنے والے شدید درد کی بنیادی وجہ اندام نہانی میں انفیکشن ہے۔ ہر مہینے حیض سے فارغ ہونے کے بعد ان کی اندام نہانی سے رساؤ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ’’یہ رساؤ اگلے حیض تک چلتا رہتا ہے۔ اگلے حیض کے آنے تک میں پیٹ اور پیٹھ کے شدید درد میں مبتلا رہتی ہوں۔ میرے جسم کے تمام اعضاء جیسے بے جان ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعی کسی جہنم سے کم دردناک نہیں  ہے۔‘‘

اب تک منجولا ۵-۴ پرائیویٹ کلینک کے چکر لگا چکی ہیں۔ ان کی سبھی جانچ رپورٹ نارمل ہے۔ ’’مجھ سے کہا گیا ہے کہ بچہ ٹھہرنے تک میں اور کوئی چیک اپ نہ کراؤں۔ اسی لیے، میں اس کے بعد کسی اسپتال میں نہیں گئی۔ میرے تو خون کی جانچ بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘

ڈاکٹر کی رائے سے مطمئن نہیں ہونے کی وجہ سے وہ روایتی جڑی بوٹیوں اور مقامی مندر کے پجاری کے پاس بھی گئیں۔ لیکن ان کا درد اور رساؤ ابھی تک نہیں رکا ہے۔

With no space for a toilet in their homes, or a public toilet in their colony, the women go to the open fields around. Most of them work on farms as daily wage labourers and hand pollinators, but there too sanitation facilities aren't available to them
PHOTO • S. Senthalir
With no space for a toilet in their homes, or a public toilet in their colony, the women go to the open fields around. Most of them work on farms as daily wage labourers and hand pollinators, but there too sanitation facilities aren't available to them
PHOTO • S. Senthalir

اپنے گھروں میں بیت الخلاء نہ ہونے اور دلت بستی میں کسی پبلک ٹوائلٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے عورتیں رفع حاجت کے لیے آس پاس کے کھیتوں میں جانے کو مجبور ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر عورتیں کھیتوں میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں یا ہاتھ سے زیرہ پوشی کا کام کرتی ہیں، لیکن وہاں بھی ان عورتوں کے لیے بیت الخلاء یا صفائی کی سہولیات دستیاب نہیں ہیں

ڈاکٹر سلدانہا کا کہنا ہے کہ کم غذائیت، کیلشیم کی کمی، اور کام کے لمبے گھنٹے کے ساتھ ساتھ صاف پانی اور کھلے میں رفع حاجت کی وجہ سے اندام نہانی سے رساؤ، پیٹھ میں تیز درد اور پیٹ میں شدید اینٹھن، کولہے کی سوزش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

شمالی کرناٹک میں سرگرم تنظیم، کرناٹک جناروگیہ چلووَلی (کے جے ایس) کی کارکن رہی ٹینا زیویئر کہتی ہیں، ’’یہ صرف ہاویری یا دوسری جگہوں کی بات نہیں ہے۔‘‘ کے جے ایس نے علاقے میں ماؤں کی شرح اموات سے متعلق ایک معاملے میں سال ۲۰۱۹ میں کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک عرضی بھی دائر کی تھی۔ ٹینا آگے کہتی ہیں، ’’زیادہ تر متاثرہ عورتیں پرائیویٹ ہیلتھ سیکٹر کے ہاتھوں مالی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔‘‘

کرناٹک کی دیہی طبی سہولیات کے شعبے میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی کے سبب گایتری اور منجولا جیسی عورتوں کو مجبوراً پرائیویٹ ہیلتھ کیئر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ سال ۲۰۱۷ میں قومی دیہی صحت مشن کے تحت کی گئی تولیدی اور صحت اطفال کی ایک پڑتال ، جس کے تحت ملک کے تمام چنندہ اسپتالوں کا سروے کیا گیا تھا، نے کرناٹک میں ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی زبردست قلت کی طرف اشارہ بھی کیا تھا۔

ان بنیادی مسائل سے بے خبر، اور اپنی مشکلوں سے فکرمند گایتری کو امید ہے کہ ایک دن ان کی بیماری کا صحیح پتہ چل جائے گا۔ اپنے ناقابل برداشت درد سے بھرے دنوں کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ فکرمند لہجے میں کہتی ہیں، ’’میرا کیا ہوگا؟ میں نے تو اپنے خون کی جانچ بھی نہیں کرائی ہے۔ اگر میں نے جانچ کرا لی ہوتی، تو شاید مجھے میری بیماری کا پتہ چل گیا ہوتا۔ مجھے کسی بھی طرح پیسے کا انتظام کرنا ہوگا اور اپنا علاج کرانا ہوگا۔ مجھے کم از کم پتہ تو چلنا چاہیے کہ میری صحت کیوں خراب رہتی ہے۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

S. Senthalir

S. Senthalir is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She reports on the intersection of gender, caste and labour. She was a PARI Fellow in 2020

Other stories by S. Senthalir
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez