صبح کے ۹ بجے ہیں اور شمالی ممبئی کے مضافاتی علاقہ بوری ولی اسٹیشن پہنچنے کی جلدی میں لوگ آپس میں ہی مقابلہ آرائی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ دکانوں کے شٹر اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ تقریباً ۲۴ سال کے لکشمن کٹپّا کے لیے بھی اپنا کام شروع کرنے کا وقت ہو گیا ہے۔
اپنے کندھے پر سوتی کا ایک کالا تھیلا لٹکائے اپنی بیوی ریکھا اور ۱۳ سال کے چھوٹے بھائی ایلپّا کے ساتھ ننگے پیر چلتے ہوئے وہ ایک بند دکان کے سامنے رک جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تھیلے کو کھول لیا ہے اور اندر سے ایک لمبا ہرا گھاگھرا، ایک ہیئر بینڈ، اور پیلے آکسائڈ کے برادے کی ایک ڈبہ، لال کمکم، ایک نقلی موتیوں کی گلے کی مالا، ایک چھوٹا سا آئینہ، ایک چابک، اور پیروں میں باندھنے کے لیے گھونگھرو نکال لیتے ہیں۔
اُس بند دکان کے آگے وہ تماشہ کی تیاری شروع کرتے ہیں۔ لکشمن اپنی پتلون کے اوپر ہی گھاگھرے کو پہن لیتے ہیں اور اپنی ٹی شرٹ اتار دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنی ننگی چھاتی اور چہرے کو ایک پیلے لیپ سے رنگنے لگتے ہیں، اور باری باری سے اپنے زیور پہنتے ہیں۔ ایلپا بھی ساتھ ساتھ یہی کام کر رہا ہے۔ سب سے آخر میں وہ اپنے بڑی گھنٹیوں والی ایک پیٹی اپنی کمر میں باندھتے ہیں اور ایڑیوں میں گھونگھرو بھی پہن لیتے ہیں۔ ریکھا ایک ڈھول سنبھالے ان کے قریب ہی بیٹھی ہیں۔
تماشہ شروع ہو چکا ہے۔ یہ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے سے پہلے کی بات ہے۔
تقریباً ۲۲ سال کی ریکھا، ڈھول کو ڈنڈیوں سے بجا رہی ہیں، اور اس کی دھن پر لکشمن اور ایلپا رقص کرنے لگے ہیں۔ رقص کرنے کے دوران دونوں زمین پر اپنے پنجے پٹخ رہے ہیں اور ان کے پیروں میں بندھے گھنگھرو سے تیز آواز آنے لگتی ہے۔ تبھی لکشمن چابُک نکال کر اسے پھٹکارتے ہیں اور اپنی پیٹھ پر مارنے سے پہلے اسے ہوا میں لہراتے ہیں۔ چابک سے تیز آواز پیدا ہو رہی ہے۔ ان کا بھائی اس کام میں ابھی نیا ہے۔ اس کا چابک بار بار زمین سے ٹکرا جا رہا ہے۔ یہ تیز آواز اسی سے آ رہی ہے۔
وہ تماشہ جاری رکھتے ہیں اور بیچ بیچ میں لوگوں سے پیسے بھی مانگتے جا رہے ہیں۔ ’’ایک روپیہ، دو روپیہ دے دے۔ بھگوان تکلیف سے دور رکھے گا۔‘‘ کچھ لوگ تماشہ دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر رک جاتے ہیں، لیکن ان کے پاس آنے سے جھجک رہے ہیں۔ کچھ لوگ ان پر ایک نظر ڈالے بغیر ہی آگے بڑھ جاتے ہیں، اور کچھ لوگ ان کی طرف سکّے یا نوٹ دور سے ہی پھینک دیتے ہیں۔ آس پاس کے کچھ چھوٹے بچے ان سے ڈر کر بھاگ گئے ہیں۔
لکشمن اور ایلپّا دکانداروں اور سبزی بیچنے والوں سے بھی بھیک مانگتے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں کھانے کے لیے کچھ چیزیں دیتے ہیں۔ ایک دکاندار انہیں چائے کے لیے پوچھتا ہے اور ریکھا نے حامی بھر دی ہے۔ لکشمن کہتے ہیں، ’’لوگ ہمیں کھانے کا سامان دیتے ہیں، لیکن یہ تماشہ ہم بھگوان کے نام پر دکھاتے ہیں، اس لیے ہم کھا نہیں سکتے ہیں۔ ہم گھر لوٹنے کے بعد ہی کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ ان کے گھر پہنچتے پہنچتے شام کے ۵ بج جاتے ہیں۔
لکشمن اور ان کے جیسے کئی دوسرے لوگوں کے ذریعے سڑکوں پر دکھایا جانے والا یہ تماشہ پوت راج ( پوتو راجو بھی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ تماشہ کڑک لکشمی کے نام سے بھی مشہور ہے اور دیوی مریمّا کی پوجا کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اپنی برادری کے دوسرے لوگوں کی طرح لکشمن بھی یہ مانتے ہیں کہ ان کی دیوی کے پاس تکلیفوں کا ازالہ کرنے اور مصیبتوں کو دور بھگانے کی طاقت ہے۔
ان کا آبائی گاؤں کوڈمبل، کرناٹک کے بیدر ضلع کے ہُمناباد بلاک میں پڑتا ہے، اور وہ دھیگو میگو برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو ایک درج فہرست ذات ہے۔ تماشہ میں رقص کرنے کا کام مردوں کا ہے اور عورتیں رقص کے دوران ڈھول بجاتی ہیں یا اپنے ہاتھ میں دیوی کی چھوٹی سی مورتی یا اسٹیل یا ایلومینیم کی کسی تھالی میں دیوی کی ایک تصویر لیے چلتی رہتی ہیں۔ کئی بار دیوی کی مورتی لکڑی کے ایک چھوٹے سے بکس میں یا تختہ کی بنی پیڑھی پر بھی رکھی ہوتی ہے۔
وبائی مرض پھیلنے سے پہلے بھی انہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑتی تھی۔ لکشمن کی ماں ایلمّا نے ہم سے کہا، ’’پہلے میرے اسلاف بیماری کو دور بھگانے اور لوگوں کے جرائم اور گناہوں کو معاف کرانے کے لیے تماشہ کیا کرتے تھے، لیکن آج یہ کام ہمیں اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لیے کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان سے ہماری ملاقات لاک ڈاؤن سے پہلے ہی ہوئی تھی۔ لکشمن نے ہمیں بتایا تھا، ’’میرے دادا جی اور ان کے والد بھی گھوم گھوم کر تماشہ دکھاتے تھے۔ مریمّا کی خواہش ہے کہ ہم یہ رقص کریں، اور ہماری دیکھ بھال کرنا ان کی ہی ذمہ داری ہے۔‘‘
ممبئی کی سڑکوں پر تماشہ دکھانے کا کام انہوں نے اپنے والد کے ساتھ شروع کیا تھا۔ تب وہ صرف چھ سال کے تھے۔ ان کی ماں سر پر ایک پیڑھا رکھ دیتی تھیں، جس پر مریمّا کی مورتی رکھی ہوتی تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا، ’’چابک سے خود کو مارنے کی بات سوچ کر ہی میں بہت ڈر جاتا تھا۔ آواز نکالنے کے لیے میں چابک کو زمین پر ہی پٹکتا تھا۔‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’ہمیں اپنی پیٹھ پر کوئی دوا لگانے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ وہ درد ہم اپنی دیوی کو خوش کرنے کے لیے برداشت کرتے ہیں۔ کئی بار میری پیٹھ میں سوجن ہو جاتی تھی، لیکن مریمّا میں ہمارا گہرا عقیدہ ہے کہ وہی ہماری حفاظت کرتی ہیں۔ بہرحال، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے اندر کا ڈر بھی کم ہونے لگا۔ اب مجھے چابک کی چوٹ سے زیادہ درد نہیں ہوتا۔‘‘
لاک ڈاؤن سے پہلے لکشمن کی فیملی شمالی ممبئی کے باندرہ ٹرمنس کے سامنے کی ایک بستی میں رہتی تھی۔ ایک ہی ذات اور گاؤں سے آئے تقریباً ۵۰ خاندان اُس بستی میں رہتے تھے اور وہ بھی یہی کام کرتے تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں سے اجاڑے جانے کے بعد وہ سبھی خاندان یہاں پچھلے تقریباً ۸ سالوں سے رہ رہے تھے۔
ان کی جھگیاں زیادہ تر ترپال، کپڑے یا پلاسٹک کی چادروں سے بنی ہوتی ہیں، جنہیں بانسوں کے سہارے کھینچ کر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ وبائی مرض کے بعد ان کی زیادہ تر بستیوں کو یا تو اجاڑ دیا گیا یا انہیں ایسے ہی خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ پلاسٹک ہی ان کا بستر بھی تھا، اور سامان کے نام پر کچھ کام چلانے لائق کپڑے اور دو چار برتن ہوتے تھے۔ ایک کونے میں چابک اور ڈھول کو رکھنے کی جگہ تھی۔ لکشمن، ریکھا اور ان کے تین بچے بھی ایسی ہی ایک جھگی میں رہتے تھے۔ بغل کی ایک دوسری جھگی میں ان کے ماں باپ اور چھوٹے بھائی ایلپا اور ہنومنت رہتے تھے۔
دسمبر ۲۰۱۹ میں جب ہم ان سے پہلی بار ملے، تو ریکھا آٹھ مہینے کی حاملہ تھیں اور ننگے پیر انہیں دور تک چلنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ لہٰذا وہ تھوڑے تھوڑے وقفہ پر تھوڑا آرام کرنے کے لیے بیٹھ جاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ایسے تو میں ٹھیک ہوں، لیکن کبھی کبھی مجھے تکان کا احساس ہوتا ہے۔ یہ میرا تیسرا بچہ ہے۔ لیکن مجھے اس کام کی عادت پڑ چکی ہے۔ میں آرام کرنے لگوں گی تو میرے بچے کو کون کھلائے گا؟‘‘
ان کی فیملی کی کوئی مقررہ آمدنی نہیں تھی۔ تہواروں کے وقت، خاص کر جنماشٹمی، گنیش چترتھی، نوراتری، اور دیوالی میں لوگ بھگوان کے نام پر دان (خیرات) کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے – فیملی کسی کسی دن ۱۰۰۰ روپے تک کی بھی کمائی کر لیتی تھی۔ لیکن یہ لاک ڈاؤن سے پہلے کی بات ہے۔ ورنہ عام دنوں میں ان کی کمائی ۱۵۰ روپے سے لے کر ۴۰۰ روپے کے درمیان کچھ بھی ہو سکتی تھی۔
کئی بار لکشمن اور ان کی فیملی دہاڑی مزدور کے طور پر بھی کام کر لیتی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا، ’’جب مُکادم کو کوڑا کچرا صاف کرنے یا بلڈنگ و سڑکیں بنوانے کے لیے مزدوروں کی ضرورت پڑتی، تب ان کو پتہ ہوتا تھا کہ ہمارے جیسے کام کی تلاش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘ ہنومنت نے بتایا، ’’مزدور کے طور پر ہم ۲۰۰ سے ۴۰۰ روپے روزانہ کما لیتے ہیں۔ ہماری کمائی ہمارے کام کے گھنٹوں پر منحصر ہے۔ جب تک دہاڑی پر کام ملتا ہے، ہم وہی کرنا پسند کرتے ہیں، ورنہ تماشہ دکھانے کا کام تو ہے ہی۔‘‘
چونکہ لکشمن کی فیملی کے پاس راشن کارڈ بنانے کی خاطر درخواست دینے کے لیے ضروری کاغذات نہیں ہیں، اس لیے انہیں غلہ پڑوس کی ایک کیرانے کی دکان سے خریدنا پڑتا ہے۔ ان کی بستی میں پانی کی بھی بہت قلت تھی۔ کنبوں کو پینے کے پانی کے لیے ٹرمنس کے نلوں تک جانا پڑتا تھا۔ وہ نل بھی صبح ۵ بجے سے ۹ بجے تک ہی کھلتے تھے۔ وہ اسٹیشن پر بنے بیت الخلاء کا استعمال کرتے تھے، جس کے لیے انہیں ہر بار ایک روپیہ چکانا پڑتا تھا۔ نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے الگ سے پانچ روپے دینے پڑتے تھے۔ رات کے وقت ان کا کام آس پاس کی کھلی جگہوں سے چل جاتا تھا۔
ان کی جھگیوں میں بجلی کی سپلائی نہیں ہے۔ موبائل فون چارج کرنے کے لیے انہیں آس پاس کی دکانوں میں جا کر گزارش کرنی پڑتی ہے۔ دکاندار ان سے ایک فون چارج کرنے کے دس روپے وصول کرتے ہیں۔ ہر سال جنوری کے مہینہ میں باندرہ ٹرمنس کے قریب رہنے والے دھیگو میگو برادری کے زیادہ تر لوگ اپنے گاؤں لوٹ جاتے تھے۔ جن گلیوں میں ان کی جھگیاں ہوتی تھیں، وہ ویران ہو جاتی تھیں۔ وہاں بس دیواروں پر ایک دو کپڑے لٹکے ہوئے نظر آ جاتے تھے۔
لاک ڈاؤن کے دوران، لکشمن کی فیملی اور ان کی بستی کے تمام دوسرے لوگ، کام نہ مل پانے اور معاش کے بحران کی وجہ سے ایک بار پھر اپنے گاؤں لوٹ گئے۔ برادری کے ایک رکن نے مجھے بتایا کہ وہ وہاں بھی کبھی کبھی تماشہ کرتے ہیں، لیکن مشکل سے ۵۰ یا ۱۰۰ روپیہ کما پاتے ہیں، اور لاک ڈاؤن کے دوران انہیں بھوکا بھی سونا پڑا ہے۔ تب سے، باندرہ ٹرمنس کے قریب واقع بستی میں کچھ کنبے اب لوٹ آئے ہیں۔ حالانکہ، لکشمن اور ان کی فیملی ابھی بھی گاؤں میں ہے، اور مارچ کے آخر میں ان کے ممبئی لوٹ کر آنے کی امید ہے۔
لکشمن چاہتے ہیں کہ ان کے بچے گاؤں میں رہ کر پڑھائی کریں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرا بیٹا اگر پڑھ لیتا ہے اور اسکول سے بھاگتا نہیں ہے، تو اس کی زندگی تھوڑی بہتر ہو جائے گی۔‘‘ ان کا اشارہ اپنے چھوٹے بھائی ہنومنت کی طرف ہے، جو اسکول سے بھاگ کر اکثر اپنے گھر آ جاتا تھا۔ برادری کے بہت سے بچوں نے گاؤں کے اسکول کو اس لیے بھی چھوڑ دیا کیوں کہ اس میں صرف ایک ٹیچر ہوتے ہیں اور کلاسز بھی باقاعدگی سے نہیں لگتی ہیں۔ ریکھا کہتی ہیں، ’’میں اپنے بچوں کو گاؤں کے اسکول میں پڑھانا چاہتا ہوں، تاکہ بڑے ہو کر وہ اپنی دکان کھول سکیں یا کال سنٹر میں کام کر سکیں۔ ممبئی میں پولیس والوں کے دباؤ میں ہمیں روزانہ اپنا ٹھکانہ بدلنا پڑتا ہے، ایسے میں یہاں ہم اپنے بچوں کو کہاں پڑھائیں گے۔‘‘
لکمشن اور ریکھا کی بیٹی ریشمہ کی عمر اب پانچ سال ہو گئی ہے، راہل تین سال کا ہے اور ان کا چھوٹا بیٹا، جو جنوری ۲۰۲۰ میں پیدا ہوا تھا، ابھی گود میں ہے۔ بچوں کو ابھی تک کسی اسکول میں داخل نہیں کرایا گیا ہے۔ ریکھا کبھی اسکول نہیں گئیں، اور یہی حال لکشمن کا بھی ہے۔ ان کا چھوٹا بھائی ایلپا بھی فیملی کے ساتھ تماشہ دکھانے کے لیے بیچ بیچ میں آتا رہتا ہے۔ ایلپا کہتا ہے، ’’کیسے، یہ تو میں نہیں جانتا لیکن بڑے ہو کر میں بھی ایک بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘
ان کے گاؤں کوڈمبل میں جب بھی کوئی بچہ رقص کرنا شروع کرتا ہے، تو اس کی فیملی کے لوگ سب سے پہلے دیوی مریمّا کی پوجا کرتے اور ان کا آشیرواد لیتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں ایک میلہ جیسا ماحول بن جاتا ہے، کئی قسم کے رسم و رواج ہوتے ہیں اور ایک بکرے کی بلی (قربانی) دی جاتی ہے۔ لکشمن ہمیں بتاتے ہیں، ’’اور، ہم اپنی دیوی سے کہتے ہیں کہ ہم اپنی روزی روٹی کمانے ممبئی جا رہے ہیں، اور وہ ہماری حفاظت کریں۔ اسی عقیدہ اور یقین کے ساتھ ہم یہاں کام کرنے آتے ہیں۔‘‘
وہ اور ان کی فیملی ابھی بھی گاؤں میں ہے، اور مارچ کے آخر میں ان کے ممبئی لوٹ کر آنے کی امید ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز