۴۵ سالہ اپّا صاحب کوتھُلے اپنے دو بیلوں کو بیچنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ۲۸ سالہ کلیم قریشی بیلوں کو خریدنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھی ایسا نہیں کر سکتے۔

کوتھُلے ایک مہینہ سے متعدد بازاروں کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ وہ اپنے گاؤں، دیو گاؤں کے آس پاس لگنے والے سبھی ہفتہ وار بازاروں میں جا چکے ہیں، جو کہ مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ خطہ میں اورنگ آباد شہر سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ آج وہ ادول پہنچے ہیں، جہاں گاؤں والے ہر منگل کو بازار میں جمع ہوتے ہیں۔ ’’میرے بیٹے کی شادی ہونے والی ہے، جس کے لیے مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، ان کی پیشانی پر ایک سفید رومال بندھا ہوا ہے۔ ’’کوئی بھی بیلوں کی اس جوڑی کے لیے ۱۰ ہزار روپے سے زیادہ نہیں دینا چاہتا۔ مجھے اس کے کم از کم ۱۵ ہزار روپے ملنے چاہئیں۔‘‘

دریں اثنا، کلیم قریشی اورنگ آباد کے سِلّکھنا علاقہ میں اپنی بیف کی دکان پر بیکار بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سوچ رہے ہیں کہ اپنے کم ہوتے کاروبار کو کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے۔ ’’میں روزانہ ۲۰ ہزار روپے کا کاروبار کیا کرتا تھا (ماہانہ آمدنی ۷۰ سے ۸۰ ہزار روپے کے بیچ تھی)،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’گزشتہ دو برسوں میں یہ گھٹ کر ایک چوتھائی رہ گئی ہے۔‘‘


Appasaheb Kothule at the cattle market, Cows being transported in a small truck

بیلوں کو متعدد بازاروں میں لے جانے پر میں نے چند ہزار روپے خرچ کیے ہیں، دیو گاؤں کے اپّا صاحب کوتھُلے بتاتے ہیں؛ دیگر کسان بھی اتنے پیسے خرچ کر رہے ہیں جسے وہ برداشت نہیں کر سکتے


ریاست کے اندر بیف پر پابندی لگے دو سال ہو چکے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دیویندر فڑنویس ۲۰۱۴ میں جس وقت مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بنے، اس سے پہلے ہی کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی پچھلی حکومت میں زرعی بحران گہرا چکا تھا۔ بڑھتی ہوئی لاگت، فصلوں کی کم زیادہ ہوتی قیمتیں، پانی کی بدانتظامی اور دیگر عناصر نے بڑے پیمانے پر پریشانی کھڑی کر دی تھی، جس کی وجہ سے ریاست میں ہزاروں کسانوں نے خودکشی کر لی۔ گئو کشی پر تو پابندی تھی ہی، فڑنویس نے مارچ ۲۰۱۵ میں بیلوں اور بھینسوں پر پابندی لگا کر اس بحران کو مزید گہرا کر دیا۔

گائے اور بھینس دیہی اقتصادیات کا محور ہیں، ان پر پابندی لگانے سے مویشیوں پر منحصر تجارت پر سیدھا اثر ہوا۔ اس نے وہ کسان بھی متاثر ہوئے، جو دہائیوں سے جانوروں کو بیمہ کے طور پر استعمال کرتے تھے، وہ مویشی اس لیے پالتے تھے تاکہ شادی بیاہ، دواؤں، یا پھر آئندہ فصل لگانے کے موسم میں جب بھی اچانک پیسوں کی ضرورت پڑے، وہ انھیں بیچ کر پیسے حاصل کر لیں گے۔

کوتھُلے، جن کے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے جس پر وہ کپاس اور گیہوں کی کھیتی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ پابندی کی وجہ سے ان کا مالی حساب کتاب گڑبڑا گیا ہے۔ ’’یہ دونوں بیل ابھی صرف چار سال کے ہوئے ہیں،‘‘ اپنے بندھے ہوئے مویشیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں۔ ’’چند سال پہلے تک کوئی بھی کسان انھیں بڑی آسانی سے ۲۵ ہزار روپے میں خرید لیتا۔ بیلوں کو کھیتوں پر تب تک استعمال کیا جاسکتا ہے، جب تک وہ ۱۰ سال کے نہ ہو جائیں۔‘‘



ویڈیو دیکھیں : مراٹھواڑہ میں کسان خریداروں کی مایوس کن تلاش کے بارے میں بتا رہے ہیں


لیکن اب کسان مویشی کو خریدنے سے کترا رہے ہیں، یہ جان کر کہ بعد میں ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل ہوگا، حالانکہ مویشیوں کی قیمت کافی کم ہو چکی ہے۔ ’’اپنے گھر سے متعدد بازاروں تک بیلوں کو لے جانے میں میں نے چند ہزار روپے خرچ کیے ہیں،‘‘ کوتھُلے بتاتے ہیں۔ ’’ادول ۴ کلومیٹر دور ہے، اس لیے آج میں اپنے بیلوں کے ساتھ پیدل ہی یہاں تک آ گیا۔ دیگر ہفتہ وار بازار ۲۵ کلومیٹر کے دائرے میں ہیں، اس لیے مجھے ایک بیل گاڑی کرایے پر لینی پڑے گی۔ میں پہلے سے ہی قرض کے بوجھ سے لدا ہوں۔ میں ان بیلوں کو بیچنا چاہتا ہوں۔‘‘

ہم جس وقت بات کر رہے ہیں، کوتھُلے کی آنکھیں شدت سے خریداروں کو تلاش کر رہی ہیں۔ وہ بازار میں صبح ۹ بجے ہی پہنچ گئے تھے، اور اب دن کے ایک بجے ہیں، اور گرمی بھی بہت زیادہ ہے۔ ’’یہاں پہنچنے کے بعد میں نے ابھی تک پانی بھی نہیں پیا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اس خوف سے کہ کوئی صارف چھوٹ نہ جائے میں ان بیلوں کو اکیلے چھوڑ کر پانچ منٹ کے لیے بھی کہیں نہیں جا سکتا۔‘‘

اس بھیڑ بھاڑ والے میدان میں، جہاں کا درجۂ حرارت اس وقت ۴۵ ڈگری سلسیس ہے، ان کے ارد گرد بہت سے کسان مول بھاؤ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ادول سے ۱۵ کلومیٹر دور، واکُلنی کے ۶۵ سالہ جناردن گیتے، اپنے بیلوں کی سینگ کو چمکا رہے ہیں، تاکہ یہ مزید دلکش دکھائی دیں۔ بھنڈاس جادھو، اپنے تیز کرنے والے آلہ کے ساتھ، ہر جانور کے ۲۰۰ روپے لیں گے۔ ’’میں نے انھیں ۶۵ ہزار روپے میں خریدا تھا،‘‘ گیتے بتاتے ہیں۔ ’’اگر ان کے ۴۰ ہزار روپے بھی مل جائیں تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘

کوتھُلے بتاتے ہیں کہ مراٹھواڑہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی پانی کی قلت اور چارے کی قیمت میں اضافہ سے مویشیوں کو پالنا اب زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔ گئو شالہ کی کمی نے اس پریشانی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فڑنویس نے جب بیف پر پابندی لگائی تھی، تو انھوں نے گئوشالہ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا، جہاں کسان اپنے مویشی کو بطور عطیہ دے سکتے ہیں بجائے اس کے کہ انھیں ان جانوروں کی دیکھ بھال کا خرچ برداشت کرنے پر مجبور کیا جائے جو اَب کھیتوں پر کام کرنے کے لائق نہیں رہے۔ لیکن گئو شالے نہیں بنائے جا سکے، جس کی وجہ سے کسانوں پر دوہری مار پڑی ۔ وہ اپنے مویشیوں کو بیچ کر پیسہ نہیں کما سکتے اور کام لائق نہ ہونے کے باوجود انھیں ان جانوروں کو اپنے پاس ہی رکھنا پڑ رہا ہے۔

’’ہم اپنے بوڑھے جانوروں کی دیکھ بھال کیسے کر سکتے ہیں جب ہم اپنے بچوں کی دیکھ بھال ٹھیک ڈھنگ سے نہیں کر پا رہے ہیں؟‘‘ کوتھُلے پوچھتے ہیں۔ ’’ہم ہر ایک جانور کے پانی اور چارہ پر ہر ہرفتہ ایک ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔‘‘

دیہی اقتصادیات سے منسلک بہت سے دیگر افراد کو بھی قانون میں کی گئی اس ترمیم، یعنی بیف پر پابندی سے نقصان پہنچا ہے۔ چمڑے کا کام کرنے والے دلت، ٹرانسپورٹرس، گوشت کے کاروباری، جو لوگ ہڈیوں سے دوائیں بناتے ہیں، ان سبھی پر اس کا بہت برا اثر پڑا ہے۔



ویڈیو دیکھیں : پابندی کے بعد آمدنی کافی کم ہوگئی ہے، قصائی اور لوڈر انیس قریشی، اور اورنگ آباد کے سلّکھنا میں بیف دکان کے مالک کلیم قریشی بتاتے ہیں۔


پابندی سے پہلے مہاراشٹر میں ہر سال تقریباً ۳ لاکھ بیل ذبح کر دیے جاتے تھے۔ اب ذبیحہ خانے بیکار پڑے ہیں اور یہ پوری برادری اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے۔ سلّکھنا، جہاں پر تقریباً ۱۰ ہزار قریشی رہتے ہیں، وہاں پر سب سے برا اثر پڑا ہے۔ قریشی برادری ہی روایتی طور پر قصائی اور مویشی کی تجارت کا کام کرتے آئے ہیں۔ کلیم کو اپنے کچھ اسٹاف کو ہٹانا پڑا۔ ’’مجھے بھی اپنی فیملی کو پالنا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں اور کیا کر سکتا تھا؟‘‘

سلّکھنا میں لوڈر کا کام کرنے والے انیس قریشی کہتے ہیں، ’’میں ایک دن میں کم از کم ۵۰۰ روپے کما لیتا تھا۔ اب مجھے چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔ آمدنی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ کئی بار تو مجھے کام بھی نہیں ملتا۔‘‘

بیف پر پابندی سے پہلے ہی تجارت زرعی بحران کا شکار تھی، گاؤوں کے لوگ کام کی تلاش میں بڑی تعداد میں دوسری جگہوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مقامی سطح پر بیف کھانے والوں کی تعداد میں تیزی سے گراوٹ، کلیم کہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس صرف یہی ایک دکان ہے، جو ان کی فیملی کے پاس ان کے پردادا کے وقت سے ہی ہے۔ ’’ہماری برادری تعلیم یافتہ نہیں ہے (اور آسانی سے دوسرا کام نہیں کر سکتی)،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب ہم بھینس کا گوشت بیچتے ہیں۔ لیکن لوگ اسے اتنا پسند نہیں کرتے اور گوشت کی دیگر پیداواروں سے مقابلہ سخت ہے۔‘‘

قریشی اور دلت سمیت کئی دوسری برادریوں کے لوگ بیف کثرت سے کھاتے ہیں، کیوں کہ یہ پروٹین کا سستا ذریعہ ہے۔ ’’بیف کی جگہ پر مرغ یا بکرے کا گوشت استعمال کرنے کا مطلب ہے تین گنا زیادہ پیسے خرچ کرنا،‘‘ کلیم کہتے ہیں۔


Two cows at Adul cattle market, Gore with his bull he wants to sell at the market

دیان دیو گورے ( دائیں ) اپنے گھر دیگاؤں لوٹنے سے پہلے اپنے سات بیلوں میں سے آخری بیل کو بیچنا چاہتے ہیں


ادول کے بازار میں، گیتے جو اپنے جانور کا سینگ تیز کر رہے تھے، ہنستے ہوئے اپنے گھر جانے والوں میں سے ایک ہیں، جب ایک کسان ان کے جانوروں کو خریدنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ دیان دیو گورے ان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔

گورے اپنے سات بیلوں میں سے آخری بچے بیل کو لے کر ادول تک سات کلومیٹر چل کر آئے ہیں، باقی بیلوں کو انھوں نے سال بھر میں بیچا ہے۔ ان کے ذریعہ لیا گیا ۶ لاکھ روپے کا قرض پانچ سالوں میں کئی گنا بڑھ چکا ہے۔ اپنے آخری بیل کو بیچ کر وہ اگلی فصل لگانے سے پہلے کچھ پیسہ جمع کرنا چاہتے ہیں۔ ’’قدرت ہماری مدد نہیں کرتی۔ حکومت ہماری مدد نہیں کرتی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ امیر تاجر خودکشی نہیں کرتے ہیں۔ میرے جیسے قرض کے بوجھ سے لدے کسان ایسا کرتے ہیں۔ یہ روزانہ کی حالت ہے۔ میں ایک بھی ایسے کسان کو نہیں جانتا جو اپنے بیٹے کو کسان بنانا چاہتا ہو۔‘‘

گورے ۶۰ سال کی عمر میں اپنے مویشی کے ساتھ سخت گرمی میں پیدل ایک بازار سے دوسرے بازار کا چکر کاٹ رہے ہیں، کیوں کہ وہ کسی گاڑی سے سفر کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ’’اگر میں اس بیل کو آج نہیں بیچ پایا، تو جمعرات کو دوسرے بازار جاؤں گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’وہ کتنا دور ہے؟‘‘ میں نے ان سے پوچھا۔ ’’تیس کلومیٹر،‘‘ وہ جواب دیتے ہیں۔


the weekly cattle market at Adul

تصویریں: پارتھا ایم این

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez