’سرفنگ‘ لفظ سنتے ہی ذہن میں بالی جزیرہ، گولڈ کوسٹ (آسٹریلیا)، جے بے (جنوبی افریقہ) اور ہوائی جیسے دلکش مقامات کی تصویریں ابھرنے لگتی ہیں۔ میرے ذہن میں صرف سفید مرد و خواتین کی تصویریں ابھرتی ہیں، جو اپنے بورڈ کے سہارے سمندر کے پانی کی لہروں پر قلا بازیاں کر رہے ہیں، بھنور میں داخل ہوکر اپنا راستہ بنا رہے ہیں، اور ان موجوں کو اپنی آغوش میں لے رہے ہیں، انہیں گلے لگا رہے ہیں۔ میں سرفنگ کو ایک کھیل کے طور پر دیکھتا ہوں، جو کہ مغربی ممالک کے باشندوں کی ایک تفریحی سرگرمی ہے۔ اگر کوئی ہندوستانی سرفنگ کرتا ہے، تو سمجھ لیجئے کہ وہ انتہائی امیر شخص ہے اور عیش پرستی کی زندگی گزار رہا ہے۔

مورتی اور سمندر کے ساحل پر ان کا ساتھ دینے والے لڑکوں سے ملئے۔ انہیں دیکھتے ہی سرفنگ سے متعلق آپ کا پورا تصور بدل جائے گا۔ مورتی کوولم کے رہنے والے ہیں، جو کہ چنئی سے ۳۵ کلومیٹر دور ماہی گیروں کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ سمندر سے محبت کرنے والے کسی بھی دوسرے شخص کی طرح، مورتی کے لیے بھی ’زمین‘ کا واحد مطلب ہے ساحل اور ’زندگی‘ کا مطلب ہے سمندر۔ اپنے ساتھیوں – یعنی ’سمندر کی لہروں‘ کے ساتھ کھیلنے کے لیے وہ اکثر اپنے اسکول سے غائب ہو جاتے تھے۔ یہی کرتے ہوئے وہ بڑے ہوئے۔ جلد ہی، اپنے والد اور دادا کی طرح، مورتی بھی سمندری گوہر کی تلاش میں ماہی گیری کرنے لگے۔ لیکن ان کے سمندر میں جانے کا اصلی مقصد یہ نہیں تھا؛ بلکہ سمندر پیشہ سے کہیں زیادہ ان کا ساتھی بن چکا تھا۔

سال ۲۰۰۱ میں، مورتی نے کوولم کے ساحل پر ایک آدمی، یعنی ایک سوامی کو سرفنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے ہمت جُٹا کر کچھ منٹ کے لیے ان کا بورڈ مانگا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’بورڈ پر گزارے ہوئے ان ۲۰ منٹوں نے میری زندگی بدل دی۔‘‘ انہیں اپنی زندگی کا ایک خواب مل گیا تھا، ان کے وجود کی ایک وجہ مل گئی تھی، اور وہ اس احساس کو اب کبھی بھلانے والے نہیں تھے۔ سال ۲۰۰۳ میں مورتی نے گاؤں کے اپنے ایک دوست سے سرفنگ کا ایک چھوٹا بورڈ حاصل کر لیا۔ ان کے اس دوست کو سرفنگ بورڈ کی قیمت کا اندازہ نہیں تھا، حالانکہ وہ موجوں کی سواری کیا کرتا تھا۔ کوولم سرف کی خوبصورتی کا اگر کسی کو اندازہ تھا، تو وہ جرمنی باشندہ توبائس جیسے کچھ غیر ملکی شہری تھے۔ وہ جلد ہی آپس میں دوست بن گئے اور مورتی ان کے رابطہ کار، جو انہیں سمندر کی موجوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کیا کرتے تھے، جیسے کہ ’’آج کی لہریں... دو فٹ... ساحل پر ہوا چل رہی ہے۔‘‘

PHOTO • T. M. Krishna

لیکن، ۲۰۰۸ میں یوتم سے ملاقات کے بعد ساری چیزیں ڈرامائی طور پر بدلنے لگیں۔ انہیں وہ صبح اچھی طرح یاد ہے۔ وہ رات بھر سمندر میں ٹونا مچھلی تلاش کرتے رہے، لیکن صبح سویرے ساحل پر خالی ہاتھ لوٹے۔ اس کے بعد وہ دوڑتے ہوئے اپنے گھر گئے، تھوڑا پژھایاڈو (ابلے ہوئے باسی چاول سے بنا سوپ) کھایا اور ساحل پر واپس آگئے، جہاں ان کی ملاقات یوتم سے ہوئی۔ دونوں کی آپس میں دوستی ہو گئی اور جلد ہی یوتم نے انہیں سات فٹ کا بورڈ تحفہ میں دیا۔ گاؤں کے دوسرے نوجوان لڑکے – وینکٹیش، راہل، شیکھر اور عباس – بھی مورتی کی رہنمائی میں لہروں کی سواری کرنا چاہتے تھے۔

سال ۲۰۱۲ میں، انہیں ارون واسو کا تعاون حاصل ہوا، جو گزشتہ ۲۵ برسوں سے واٹر اسپورٹس میں مصروف تھے۔ اُس سال انہوں نے ’کوویلانگ پوائنٹ سرف اسکول‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ اسکول ابھی تک ملک بھر کے ۱۰۰۰ سے زیادہ لوگوں کو سرفنگ کرنا سکھا چکا ہے۔ آج، خود کوولم گاؤں کے ۱۰ سے ۳۵ سال کی عمر کے ۵۰ سے زیادہ لوگ سرفنگ کرتے ہیں۔

مورتی کے لیے سرفنگ، زندگیوں کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ سرفنگ ٹیم نے شراب نوشی اور نشہ خوری کو کم کیا ہے، ساحل کو صاف کیا ہے اور گلیوں کے ذہنی طور پر بیمار لوگوں کی مدد کی ہے۔ اسکول سے ہونے والی کمائی سے انہوں نے ڈیڑھ لاکھ روپے کسانوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے عطیہ کیا ہے، اس کے علاوہ آنکھوں اور صحت کی جانچ کے کیمپ بھی لگائے ہیں۔

میں نے مورتی سے پوچھا کہ کیا سمندر کے اتنے حصہ میں سرفنگ کرنے سے ماہی گیری پر برا اثر نہیں پڑے گا۔ وہ اس کا جواب نہایت بے تکلف اندازمیں دیتے ہیں: ہاں، ہو سکتا ہے، لیکن ایسا ہونے کی ضرورت ہے۔ ماہی گیری پائیدار نہیں ہے؛ ہم سبھی لوگ چھوٹے ماہی گیر ہیں جو گہرے سمندر میں نہیں جا سکتے، اور اپنی چھوٹی کشتیوں کی وجہ سے ہم لوگ سمندر کے اندر تقریباً ۲۰ کلومیٹر تک ہی جا پاتے ہیں۔

PHOTO • T. M. Krishna

میں نے ان سے کہا کہ میں ان کے اور سرفنگ کے ان کے دوستوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں ان سے کہتا ہوں، ’’آج آپ کا اسکول اور سرف فیسٹیول کافی مقبول ہو چکا ہے۔ پورے ملک اور دنیا بھر سے لوگ یہاں سرفنگ کرنے آتے ہیں...‘‘ اور وہ درمیان میں ہی بول پڑتے ہیں، ’’اسی لیے آپ میرے بارے میں لکھ رہے ہیں!‘‘ ہم ہنسنے لگتے ہیں اور پھر میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہوں: ’’کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کے کام کا کارپوریٹائزیشن ہونے کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح آپ کی کوشش کو دھکا لگے گا۔‘‘

وینکی جواب دیتے ہیں، ’’ہاں، مسائل آ سکتے ہیں۔ ہماری ترقی سے دباؤ پڑ سکتا ہے، لیکن ہم سوچتے ہیں کہ اس سے ساحل کے ارد گرد کاروبار – کیفے، مہمان خانہ، ڈھابے، مچھلی پکڑنے کے لیے کشتی کی سواری – کی راہ ہموار ہوگی۔ یہی مستقبل ہے۔‘‘

مورتی کہتے ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں ہندو، مسلم اور عیسائی ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ہم پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ کیا یوتم اور ارون کو مورتی کے پاس بھگوان نے پہنچایا تھا؟ ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔ لیکن چنوتی یہ ہے: کیا وہ کوولم میں مورتی کو، مورتی میں کوولم کو، ہر ایک لڑکے میں مورتی کے جذبہ کی حفاظت کر پائیں گے؟ میرے اندر کی آواز کہہ رہی ہے کہ وہ ایسا کر پائیں گے۔ کیوں کہ سمندر ان کا ساتھی رہا ہے۔

مزید معلومات کے لیے براہ کرم https://www.facebook.com/ CovelongPoint/info ملاحظہ کریں

اس مضمون کا ایک ورژن ’دی ہندو‘ کی سنڈے میگزین میں شائع ہوا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez