روپی نے پرائیویٹ میٹرنیٹی کلینک میں ڈاکٹر سے خود اعتمادی کے ساتھ کہا کہ اس عورت کو دو بچے ہوں گے، حالانکہ اپنی بات کی تصدیق کے لیے ان کے پاس کوئی الٹرا ساؤنڈ رپورٹ نہیں تھی۔
روپی منّو بیٹے نے تقریباً دو سال پہلے کے واقعہ کو پرلطف انداز میں اور خوشی کے ساتھ یاد کیا۔ وہ اسٹیتھوسکوپ کا استعمال کرکے ڈاکٹر کی نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کان میں وہ لگایا۔‘‘ ڈاکٹر نے کمزور جسم والی حاملہ عورت کے پیٹ کی جانچ کی اور جڑواں بچے سے متعلق روپی کی پیشن گوئی کو خارج کر دیا۔
کلینک کے ڈیلیوری روم میں ایک اسٹول پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے اپنی بات دہرائی، ’’میڈم، دو ہوتا، دو۔‘‘ تقریباً ۷۰ سال کی روپی اور درد زہ سے کراہ رہی عورت، اُس وقت شمال مشرقی مہاراشٹر کے میلگھاٹ جنگل کے کنارے واقع اپنے گاؤں جیتادیہی سے ۲۰ کلومیٹر دور پرتواڑہ قصبہ میں تھی۔
شام تک، ایک لڑکا پیدا ہوا اور کچھ سیکنڈ بعد ہی دوسرے بچے کا سر باہر آیا۔ اس بار لڑکی کی پیدائش ہوئی تھی، یعنی جڑواں بہن۔
روپی زور سے ہنستی ہیں۔ وہ مٹی سے بنے اپنے روایتی گھر کے برآمدے کے ایک کنارے لکڑی کے تخت (چوکی) پر بیٹھی ہیں۔ گھر کے برآمدے کی فرش کو گائے کے گوبر سے لیپا گیا ہے۔ اندر، لکڑی کی چھت والے تین کمرے خالی پڑے ہیں۔ ان کے بیٹے فیملی کے دو ایکڑ کے کھیت پر کام کرنے گئے ہوئے ہیں۔
وہ کورکو زبان میں کوئی گالی دیتی ہیں، جس کا لفظی معنی گدھے کا عضو تناسل ہے – اس کے بعد وہ تھوڑا اور ہنستی ہیں، ان کی پیشانی کی لکیریں مزید گہری ہوتی جاتی ہیں۔ شہری ڈاکٹر کو دی گئی گالی کو یاد کرتے ہوئے وہ پرسکون لہجے میں کہتی ہیں، ’’میں نے اسی یہی گالی دی تھی۔‘‘
ان کا یہ اعتماد چار دہائیوں کے تجربے سے آیا ہے۔ کورکو برادری سے تعلق رکھنے والی روپی، جیتادیہی کی آخری بچیں روایتی دایہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کم از کم ۶۰۰-۵۰۰ بچوں کی ڈیلیوری کروائی ہوگی۔ انہوں نے کبھی گنتی نہیں کی۔ وہ فخریہ انداز میں بتاتی ہیں کہ انہیں جس عورت کی بھی زچگی کی ذمہ داری سونپی گئی، ایک بھی نوزائیدہ بچے کی کبھی موت نہیں ہوئی۔ ’’ سب چوکھا [وہ سب ٹھیک تھے]۔‘‘ دایہ، روایتی طور پر گھروں کے اندر ہی بچوں کی پیدائش کرنے والی خادمہ ہوتی ہے۔ حالانکہ، انہوں نے کوئی جدید تربیت حاصل نہیں کی ہے اور نہ ہی انہیں اس قسم کی مہارت کے لیے کہیں سے کوئی تصدیق نامہ ملا ہوا ہے۔
مہاراشٹر کے ودربھ علاقے میں واقع امراوتی ضلع کے دھارنی اور چکھلدرا بلاک کے گاؤوں میں رہنے والے میلگھاٹ جنگل کے کورکو آدیواسیوں کے لیے، روپی جیسی عورتیں طویل عرصے سے گھر پر بچے کی پیدائش کرواتی رہی ہیں، لیکن ان کی اہمیت صرف وہیں تک محدود نہیں ہے۔ تجربہ کار دایہ کے طور پر وہ زچگی سے قبل نگہداشت کا کام بھی کرتی ہیں، زچگی کو سنبھالتی ہیں، اور ایسے دور افتادہ، جنگلی اور پہاڑی علاقوں میں طبی خدمات پہنچاتی ہیں، جہاں سے طبی مدد کے لیے فوراً اسپتال پہنچنا اکثر ممکن نہیں ہو پاتا ہے۔
روپی بتاتی ہیں کہ میلگھاٹ کے زیادہ تر گاؤوں میں اب بھی ایک یا دو دایہ ہیں، لیکن وہ اب بوڑھی ہو چکی ہیں۔ دایہ کی روایت کو آگے لے جانے کے لیے اگلی نسل سے اب تک کوئی سامنے نہیں آیا ہے۔ جیتا دیہی کی دوسری دایہ کی کئی سال پہلے موت ہو گئی تھی۔ روپی کا ماننا ہے کہ ان کی بیٹی یا بہو نے ان سے دایہ کا ہنر سیکھا ہے، لیکن اُس فیملی سے کسی نے بھی دایہ کا کام نہیں کیا ہے۔
روپی کے خود اپنے سبھی بچے گھر پر پیدا ہوئے تھے، جن کو ڈیلیوری میں ان کی ماں اور ایک دایہ نے مدد کی تھی۔ ان کے چار بیٹے تھے، جن میں سے ایک کی دس سال پہلے بیماری کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔ ان کی دو بیٹیاں بھی ہیں، دونوں شادی شدہ ہیں اور جیتا دیہی میں ہی رہتی ہیں۔ ان کے کئی پوتے پوتیاں بھی ہیں۔ (روپی بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹیوں نے اس کام کو کرنے سےانکار کر دیا ہے۔ حالانکہ، ایک بیٹی نے یہ ہنر تھوڑا بہت سیکھا تھا۔)
وہ آگے کہتی ہیں، ’’میری بہو اتنا ڈر جاتی ہے کہ جس کمرے میں کوئی عورت بچے کو جنم دے رہی ہو، وہاں کھڑی بھی نہیں رہ پاتی۔ وہ نہ تو کچھ دیکھتی ہے اور نہ ہی مجھے ٹانکے کا دھاگہ یا کپڑے پکڑاتی ہے یا کوئی اور مدد کرتی ہے۔ ’’ ایسا کاپنے لگتا [وہ کانپنے لگتی ہے]۔‘‘ وہ خون دیکھ کر سہرنے والی چھوٹی بہو کی نقل کرکے دکھاتی ہیں۔
روپی یاد کرتی ہیں کہ پرانے زمانے میں عورتیں جسم سے متعلق اس قسم کی کارروائیوں سے نہیں ڈرتی تھیں۔ ’’ہمارے پاس بہادر ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ ہر چھوٹی بڑی طبی ضرورت کے لیے، کوئی ڈاکٹر یا نرس موجود نہیں تھی۔‘‘
ان کی ماں اور دادی دونوں دایہ تھیں، اور انہوں نے اپنی دادی کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ ہنر سیکھا۔ روپی کا کہنا ہے کہ جب ان کی ماں بچوں کی ڈیلیوری کروانےکے لیے گھر جاتی تھیں، تو کبھی اپنی ناخواندہ بیٹی کو ساتھ نہیں لے جاتی تھیں۔ ’’ بکی ہے جے دو [تم یہیں رکو]،‘‘ وہ کورکو میں ڈانتی تھیں۔ روپی کو یہ بات یاد ہے۔ ’’لیکن جب میں صرف ۱۲ یا ۱۳ سال کی تھی، تب میری دادی مجھے ساتھ لے جاتی تھیں۔‘‘ اور تقریباً ۱۶ سال کی عمر میں، شادی سے پہلے ہی روپی نے اپنی دادی کی معاون کے طور پر کام شروع کر دیا تھا۔
*****
میلگھاٹ کی گھماؤدار پہاڑیاں اور جنگل، جو حیاتیاتی تنوع کا اہم ذخیرہ ہے، وسیع میلگھاٹ ٹائیگر ریزرو کا گڑھ بھی ہے۔ یہ ریزرو ۱۵۰۰ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ اس خشک، سایہ دار جنگل میں ایسے گاؤں ہیں جو کورکو اور گونڈ آدیواسی برادریوں کا گہوارہ ہیں۔ ان میں سے کئی بستیاں ٹائیگر ریزرو کے اندر، اس کے بفر ژون میں اور کنارے واقع ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگ کسان اور چرواہے ہیں، اور ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ بانس اور جڑی بوٹیوں جیسی جنگلاتی پیداوار ہیں۔
بورتیہ کھیڑا، گھنے جنگلی علاقہ میں ۱۵۰ خاندانوں کا ایک گاؤں ہے، جو چکھلدرا تعلقہ سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور واقع ہے۔ تقریباً ۷۰ سال کی چارکو بابولال کاسڈیکر یہاں کی دایہ ہیں اور ان کے مطابق، ’’جہاں تک مجھے یاد ہے،‘‘ وہ دایہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج بھی میلگھاٹ کے دور دراز کے گاؤوں میں، ہر ۱۰ حاملہ عورتوں میں سے تقریباً پانچ فیملی گھر پر ہی بچے کی ڈیلیوری کروانا چاہتی ہے، جب کہ حالیہ دہائیوں میں طبی سہولیات میں تھوڑی بہتری آئی ہے۔ (۱۶-۲۰۱۵ کا قومی خاندانی صحت سروے، این ایف ایچ ایس۔۴ بتاتا ہے کہ دیہی علاقوں میں ۹۱ فیصد سے زیادہ بچوں کی پیدائش کسی اسپتال یا طبی ادارہ میں ہوئی ہے۔ شاید ان اعداد و شمار میں میلگھاٹ کے دور دراز کے گاؤوں کی سچائی شامل نہیں ہے)۔
اپریل ۲۰۲۱ میں، بورتیہ کھیڑا میں ابتدائی طبی مرکز (پی ایچ سی) کا ایک ذیلی مرکز کھلا۔ جب میں نے وہاں کا دورہ کیا، تو پایا کہ اس ایک منزلہ عمارت میں دو مہینے بعد بھی پانی کی پائپ نہیں پہنچی تھی۔ یہاں ایک معاون نرس دایہ (اے این ایم) کال پر ۲۴ گھنٹے دستیاب رہتی ہیں۔ ویسے تو ان کو پہلی منزل پر بنے رہائشی کمرے میں رہنا تھا، لیکن بورتیہ کھیڑا کی اے این ایم شانتا وہیکے دُروے مقامی باشندہ ہیں، جن کی شادی گاؤں میں ہی ہوئی ہے۔
گاؤں والوں نے مجھے بتایا کہ ذیلی مرکز میں صحت عامہ کے افسر کے طور پر کام کرنے کے لیے ڈاکٹر کا ایک عہدہ موجود ہے، لیکن پائپ سے پانی کی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس عہدہ پر کام کرنے والے شخص کے لیے مشکلیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حال ہی میں گریجویشن مکمل کرنے والے ایک ڈاکٹر، جو تقریباً ۲۰ کلومیٹر دور سیماڈوہ گاؤں کی پی ایچ سی میں زیر تربیت تھے، وہ (پچھلے سال جب میں وہاں گئی تھی تب) جلد ہی یہاں کام شروع کرنے والے تھے۔
حالانکہ، اے این ایم کا کہنا ہے کہ کئی حاملہ عورتیں ذیلی مرکز نہیں جانا چاہتی ہیں۔ ۳۰ سالہ شانتا کہتی ہیں، ’’وہ ڈیلیوری کے دوران دیکھ ریکھ کے لیے اپنی برادری کی عورت پر ہی بھروسہ کرتی ہیں۔‘‘ شانتا نے پاس کے مورشی بلاک کے ذیلی مرکز میں ایک دہائی تک کام کیا اور اس کے بعد انہیں یہاں کام پر لگایا گیا۔
وہ یہاں کی بزرگ دایہ چارکو سے سیماڈوہ کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں ہونے والی زچگی کے لیے آنے کی درخواست کرتی ہیں۔ شانتا کہتی ہیں کہ فیملی کے لوگ دایہ کی صلاح کو مانتے ہیں۔ انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ بورتیہ کھیڑا میں اب کوئی نوجوان دایہ نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا ہے جو چارکو کی مہارت کو آگے بڑھائے۔ گاؤں میں ایک دوسری دایہ نے بڑھاپے کے سبب کام کرنا تقریباً بند کر دیا ہے، اور کچھ سال پہلے یونیسیف کے ساتھ مل کر حکومت کے ذریعے منعقد ایک قلیل مدتی تربیتی کورس میں حصہ بھی نہیں لیا تھا۔
دن بھر چلے اس کورس میں حصہ لینے والی چارکو کہتی ہیں، ’’ہمیں لگتا ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں، لیکن انہوں نے ہمیں کچھ اور اہم چیزیں سکھائیں، جیسے کہ صابن کا استعمال کرنا، ہاتھ کیسے دھونا ہے، اور نئے بلیڈ کا استعمال کرنا کتنا ضروری ہے۔‘‘
جب وہ دردِ زہ کے دوران کسی عورت کے ساتھ ابتدائی طبی مرکز یا کبھی کبھی کسی پرائیویٹ کلینک جاتی ہیں، تو ڈیلیوری نرس (خاتون) کے ذریعے کرائی جاتی ہے۔ چارکو کہتی ہیں کہ عورتیں تب تک مرد ڈاکٹر سے ڈیلیوری نہیں کرائیں گی، جب تک کہ نرس یہ نہ کہہ دے کہ وہ سنبھال نہیں سکتیں۔ پیچیدگی پیدا ہونے پر ہی ڈاکٹر کو بلایا جاتا ہے۔ چارکو کو کوئی اجرت نہیں دی جاتی ہے۔
وہ اب بھی ساتھ کیوں جاتی ہیں؟ ’’ چلو بولا تو جاتی [اگر وہ مجھ سے چلنے کو کہتے ہیں، تو میں جاتی ہوں]۔ اگر میرے وہاں رہنے سے ماں کو سکون ملتا ہے، تو میں کیوں نہ جاؤں؟‘‘
چارکو کہتی ہیں کہ سالوں پہلے انہیں اجرت کے طور پر، ایک پائی میں ناپ کر دو یا تین پائی چاول یا گیہوں دیا جاتا تھا۔ پائی ایک بڑے گلاس جیسا پیتل کا روایتی برتن ہوتا ہے۔ کبھی کبھی چارکو کو اجرت کے ساتھ بونس کے طور پر کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔
گزشتہ دہائیوں میں دایہ کی کمائی میں کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے۔ جون ۲۰۲۱ میں میرے ملنے سے ایک ہفتہ پہلے، چارکو کو ان کی آخری ڈیلیوری کے لیے ۵۰۰ روپے اور چار کلو گیہوں ملے تھے۔ اس بار بچے کی ڈیلیوری بہت جلد ہو گئی تھی۔ دردِ زہ شروع ہوتے ہی بچہ باہر آنے لگا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ڈیلیوری میں زیادہ وقت لگا ہوتا، تو بھی مجھے اتنے ہی روپے ملے ہوتے۔‘‘
تقریباً پانچ سال پہلے چارکو کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ایک ایکڑ زمین جوتتے تھے، جس پر اب ان کی بیٹی اور داماد کھیتی کرتے ہیں۔ چارکو کہتی ہیں کہ ایک دایہ کے طور پر ان کے کام سے کبھی بھی متعینہ آمدنی نہیں ہو سکی۔ حالیہ برسوں میں، کسی مہینے انہوں نے ۴ ہزار کی کمائی کی اور کسی مہینے ایک ہزار کی بھی نہیں۔
یہاں کی عورتوں کا اندازہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں میں بورتیہ کھیڑا میں پیدا ہوئے بچوں میں سے کم از کم آدھے بچوں کی پیدائش کے وقت چارکو موجود تھیں۔ چارکو نے اپنے پوتے پوتیوں اور ایک پڑپوتے کی بھی ڈیلیوری کروائی ہے۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کے ذریعے کروائی گئی ڈیلیوری کے کچھ دنوں بعد، کچھ نوزائیدہ بچوں کی موت بھی ہوئی ہے۔ ’’پیدائش کے دوران نہیں، بلکہ کچھ دنوں بعد۔‘‘ انہیں ان اموات کا سبب نہیں معلوم۔ کسی کو بھی اس کی وجہ نہیں معلوم۔
اب اپنی آنکھوں کی روشنی کم ہونے کے سبب، وہ لوگوں کو لگاتار پی ایچ سی یا ذیلی مرکز جانے کی بات کہتی ہیں۔
*****
روپی، جنہیں اپنی عمر ٹھیک سے یاد نہیں ہے، حال ہی میں ان کے پیروں میں کچھ دقت ہونے لگی ہے۔ ان کے ٹخنوں کے آس پاس سوزش رہتی ہے اور ان کے گھٹنوں میں بہت درد رہتا ہے۔ حالانکہ، وہ شہر کے ڈاکٹر کے پاس تو نہیں گئیں، لیکن ایک مقامی ویدیہ (حکیم) کے ذریعے دیے گئے تیل سے اپنے ٹخنے کی مالش کرتی ہیں۔
ویسے تو وہ اپنے پرانے شناساؤں اور اپنی بیٹیوں سے ملنے کے لیے گاؤں میں گھومتی رہتی ہیں، لیکن زچگی کے لیے کہنے والے زیادہ تر خاندانوں کو وہ منع کر دیتی ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ وہ کتنا کام کر پائیں گی، اور ان کی آنکھیں ٹھیک سے کام کریں گی بھی یا نہیں۔ روپی کہتی ہیں، ’’میں انہیں شہر کے کلینک [پرتواڑہ قصبہ میں واقع] کو کال کرنے کے لیے کہتی ہوں، اور ایمبولینس آنے تک ان کے پاس رہتی ہوں۔ اور کبھی کبھی جب گاڑی فوراً گاؤں لوٹ آنے والی ہوتی ہے، تو میں ان کے ساتھ چلی بھی جاتی ہوں۔‘‘
جن سالوں میں وہ دایہ کے طور پر کام میں کافی مصروف رہتی تھیں، اس وقت لوگ انہیں جیتادیہی میں الگ الگ حالات میں فوراً اور اطمینان کے ساتھ کام کرنے کے لیے جانتے تھے۔ ’’پہلے، جب وہ مجھے بلانے آتے تھے تو میں انہیں سب سے پہلے بتاتی تھی کہ مجھے کیا چاہیے – ایک بلیڈ، دھاگہ [ٹانکے کا دھاگہ]، سوئی وغیرہ۔‘‘ کئی دایہ پیرینیئل ٹیئر (ڈیلیوری کے وقت اندام نہانی کے آس پاس ہونے والے زخم) کو آسانی سے سل دیتی ہیں؛ اس بات کو وہ اس طرح بتاتی ہیں گویا یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
پھر، یہ دیکھتے ہوئے کہ دردِ زہ ابھی شروع ہوا یا پہلے سے ہی شروع ہو چکا تھا، وہ اپنا کام ختم کرتی تھیں اور تیزی سے اُس گھر کی طرف نکل جاتی تھیں جہاں فیملی کے فکرمند ارکان منتظر ہوتے تھے۔
روپی ہمیشہ دعائیہ کلمات کے ساتھ ڈیلیوری شروع کرتی تھیں، پھر زچگی میں عورت کے پھیلاؤ کا معائنہ کرنے سے پہلے اپنے ہاتھ دھوتی تھیں۔
روپی کہتی ہیں، ’’ماں [زچہ کی والدہ] کچھ نہیں کرتی، لیکن وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے، روتی بھی ہے۔ ماں کی فریاد دردِ زہ سے روتی بیٹی کو سنبھال لیتی ہے۔ مائیں پکارتی رہتی تھیں، ’او مائی، جلدی کر دو مائی‘۔ گویا یہ میرے ہاتھ میں ہو!‘‘
کبھی کبھی دردِ زہ گھنٹوں تک کھنچتا تھا، اور روپی کھانا کھانے یا اپنے شوہر یا بیٹے کو کھانا دینے کے لیے، تیزی سے اپنے گھر کی طرف بھاگتی تھیں۔ ’’ڈیلیوری کے ایسے معاملوں میں، مائیں زور زور سے چیختی ہوئی مجھ سے کہتی تھیں کہ جب تک بچہ پیدا نہ ہو جائے، تب تک میں وہاں سے نہ جاؤں۔ لیکن کبھی کبھی اس میں پوری رات یا پورا دن لگ سکتا ہے۔ ایسی حالت میں باقی سبھی لوگ ڈر جاتے ہیں، لیکن میں نہیں ڈرتی۔‘‘
اکثر، وہ حاملہ عورت کے پیٹ کی مالش کرنے کے لیے تھوڑا سا تیل (باورچی خانہ میں موجود کوئی بھی تیل) مانگتی تھیں۔ روپی کا کہنا ہے کہ وہ پیٹ کو چھو کر محسوس کر سکتی ہیں اور اندازہ لگا سکتی ہیں کہ بچہ اُلٹی حالت میں ہے یا درست سمت میں مالش کرکے اس کے سر کو صحیح جانب جھکایا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ ان کے پاس ایسی کئی مثالیں تھیں، جب ڈیلیوری کے دوران پہلے بچے کا پیر باہر آیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی، وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انہیں ان کے دوران بھی کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔
دیگر روایتی سوچ کو بدل پانا مشکل رہا ہے۔ اگر نواں مہینہ پورا ہونے کے بعد بھی دردِ زہ شروع نہیں ہوتا ہے، تو چارکو کہتی ہیں کہ وہ بھوم کال کے ذریعے آشیرواد حاصل کیے ہوئے پانی کی کچھ گھونٹ لینے کی صلاح دیتی ہیں
روپی کہتی ہیں کہ دایہ عام طور پر ڈیلیوری کے بعد زچگی والی جگہ کو بھی صاف کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’پہلے، ہم بچے کو فوراً نہلاتے تھے۔ اب ہم نے ایسا کرنا بند کر دیا ہے۔‘‘ روایت یہ تھی کہ بچے کو نہلایا جائے اور اس کے بعد ہی اسے پہلی بار دودھ پلانے کے لیے ماں کو سونپا جائے۔
چارکو اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’’پہلے، ہم گرم پانی کا استعمال کرتے تھے اور پیدائش کے فوراً بعد بچے کو نہلاتے تھے۔ اور کبھی کبھی بچے کو دو تین دنوں کے بعد ہی ماں کا دودھ پینے دیا جاتا تھا۔‘‘ کچھ خاندانوں نے بچے کو پہلے دن صرف گڑ ملا پانی یا شہد کا پانی پلایا۔
مقامی اے این ایم کی صلاح کے سبب اب نوزائیدہ بچے کو نہلانے کی روایت پر شاید ہی عمل کیا جاتا ہے۔ یہ اثر کیمپین کے ذریعے اسپتالوں میں زچگی کو فروغ دینے والی تحریکوں اور میلگھاٹ میں بچوں کی شرح اموات کے مسئلہ پر ریاست کے ذریعے توجہ کرنے سے بھی دکھائی دے رہا ہے۔ (مختلف مطالعات اور رپورٹوں میں علاقے میں بچوں کی اعلیٰ شرح اموات اور سنگین کم غذائیت کی بات سامنے آئی ہے)۔ بورتیہ کھیڑا کی اے این ایم شانتا کا کہنا ہے کہ اب عام طور پر بچے کی صحت کو پیدائش کے بعد کی رسموں اور دیوتاؤں کو چڑھاوے پر ترجیح دی جا رہی ہے، اور حکومت و یونیسیف کے تربیتی پروگراموں نے گھر میں زچگی کے عمل میں حفاظت کی بہتر سطح کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
چارکو بتاتی ہیں کہ اب جب ماں کے کچھ منٹ آرام کرنے کے بعد بچہ ہلنا شروع کرتا ہے، تو دایہ اسے بتاتی ہے کہ لیٹتے یا بیٹھتے وقت محفوظ طریقے سے بچے کو دودھ کیسے پلایا جاتا ہے۔ اور اب بچے کو آدھے گھنٹے کے اندر ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے۔
دیگر روایتی سوچ کو بدل پانا مشکل رہا ہے۔ اگر نواں مہینہ پورا ہونے کے بعد بھی دردِ زہ شروع نہیں ہوتا ہے، تو چارکو کہتی ہیں کہ وہ بھوم کال کے ذریعے آشیرواد حاصل کیے ہوئے پانی کی کچھ گھونٹ لینے کی صلاح دیتی ہیں۔
روپی کہتی ہیں کہ انہیں یہ پیشن گوئی کرنا پسند ہے کہ حاملہ عورت کو بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر بیٹا پیدا ہونے والا ہوتا ہے تو حاملہ عورت کا پیٹ باہر کی جانب پھیل جاتا ہے۔ ’’مادہ جنین پیٹ کو بغل کی جانب سے پھیلاتا ہے۔‘‘ لیکن وہ اس آسانی پر بھی ہنستی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ اندازہ پر منحصر ہوتا ہے، اور بھگوان نہیں چاہتے کہ انسان پیدائش سے پہلے بچے کی صنف کی جانچ کر سکے۔
بورتیہ کھیڑا میں گاؤں والے بتاتے ہیں کہ روایتی دایہ، صحت عامہ میں معاون کا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ حاملہ خواتین کو ڈیلیوری کے آخری دنوں تک ریاست کے ذریعے مدد (مسلسل جانچ، آئرن فولک ایسڈ اور کیلشیم کی خوراک کی سپلائی سمیت) فراہم کرتی ہیں، زچگی سے متعلق منصوبہ تیار کرتی ہیں، اور وقت پر اسپتال میں داخل کراتی ہیں۔
پرتواڑ شہر کے پرائیویٹ ڈاکٹروں کی پہنچ کے قریب واقع جیتادیہی کے لوگ اس بات سے کم فکرمند ہیں کہ ان کے پاس روپی کے بعد دایہ نہیں ہوگی۔ وہیں، روپی کہتی ہیں کہ ان کے پاس سرکاری اداروں کو بتانے کے لیے کچھ چیزیں ہو سکتی ہیں، جہاں بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’کچھ عورتیں اتنی پتلی ہوتی ہیں، نو مہینے تک روزانہ اُلٹی کرتی ہیں۔ وہ گوشت کھانے سے منع کرتی ہیں، وہ کسی بھی قسم کے کھانے سے منہ پھیر لیتی ہیں۔ حاملہ عورتوں کو سب کچھ کھانا چاہیے۔ کسی چیز کی روک نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کو حاملہ خواتین کو ان چیزوں کی صلاح بھی دینی چاہیے۔‘‘
ان کی برادری میں، کورکو فیملی میں بچے کی پیدائش کے پانچویں دن کے جشن میں دایہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اکثر انہیں اُسی دن اجرت دی جاتی ہے، یہ ایک علامت ہے کہ بچہ اپنے ابتدائی غیر یقینی کے دنوں میں محفوظ نکلا ہے۔ روپی فلسفیانہ انداز میں کہتی ہیں، ’’کچھ حادثات سے مر جاتے ہیں، کچھ بیماری کے سبب، کچھ پیدائش کے وقت مر جاتے ہیں۔ ہر کوئی کسی نہ کسی دن مر جائے گا۔ لیکن بچے کا زندہ رہنا ماں اور بچے کی فتح ہے۔‘‘
روپی کہتی ہیں کہ بچوں کے زندہ رہنے کے لیے انہیں جو شکرانہ حاصل ہوا، وہ ایک دایہ کے طور پر ان کی سب سے بڑی خوشیوں میں سے ایک تھی۔ اور اب جب وہ یہ کام نہیں کر پاتی ہیں، تو اسے سب سے زیادہ یاد کرتی ہیں۔ جب لوگ ان سے مدد مانگنے آتے ہیں، تو ان میں سے زیادہ تر کو وہ منع کر دیتی ہیں۔ وہ ان سے کہتی ہیں، ’’جاؤ بابا، اب میرے سے ہوتا نہیں۔ میں یہ کام اب اور نہیں کر سکتی۔‘‘
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز