پریتی یادو بتاتی ہیں کہ چھوٹی سی گانٹھ اب ’’ہڈی کی طرح‘‘ ہو گئی ہے۔

پچھلے سال، جولائی ۲۰۲۰ میں انہیں پتہ چلا کہ ان کے دائیں سینے میں مٹر کے سائز کی گانٹھ بن گئی ہے، اور تقریباً ایک سال پہلے پٹنہ شہر میں واقع کینسر انسٹی ٹیوٹ کے آنکولوجسٹ (ماہرین سرطان) نے انہیں بائیوپسی کرانے اور سرجری سے گانٹھ کو نکلوانے کا مشورہ دیا تھا۔

یہ بتاتے وقت ان کا لہجہ کافی دھیما ہے۔ حالیہ برسوں میں کینسر کی وجہ سے ان کی فیملی کے کم از کم چارلوگوں کی موت ہو چکی ہے، اور مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ کے آغاز سے پہلے کے کچھ سالوں میں بہار کے سارن ضلع کے سونپور بلاک میں واقع ان کے گاؤں میں کینسر کے اسی طرح کے کئی معاملے سامنے آئے ہیں۔ (ان کی درخواست پر گاؤں کا نام نہیں لکھا گیا ہے اور یہاں پر ان کا اصلی نام بھی استعمال نہیں کیا گیا ہے۔)

سرجری کے ذریعے گانٹھ کو نکلوانے کا فیصلہ اکیلے ۲۴ سالہ پریتی کو ہی نہیں کرنا ہے۔ ان کی فیملی ان کے لیے ایک دولہا ڈھونڈ رہی ہے، جو کہ شاید پڑوسی گاؤں کا رہنے والا ہے اور فوج میں نوکری کرتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں شادی کے بعد بھی سرجری کرا سکتی ہوں، ہے کہ نہیں؟ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر مجھے کوئی بچہ پیدا ہوا تو یہ گانٹھ شاید اپنے آپ ہی ختم ہو جائے۔‘‘

لیکن کیا وہ دولہے کی فیملی کو اس گانٹھ اور ممکنہ سرجری کے بارے میں، اور اپنی فیملی میں کینسر کے متعدد معاملوں کے بارے میں بتائیں گے؟ وہ جواب دیتی ہیں، ’’وہ ہی تو سمجھ نہیں آ رہا۔‘‘ شاید اسی مسئلہ کی وجہ سے ان کی سرجری لٹکی ہوئی ہے۔

Preeti Kumari: it’s been over a year since she discovered the growth in her breast, but she has not returned to the hospital
PHOTO • Kavitha Iyer

پریتی کماری: ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب انہوں نے اپنے سینے میں گانٹھ دیکھی تھی، لیکن وہ اسپتال واپس نہیں گئی ہیں

پریتی نے ۲۰۱۹ میں جیولوجی سے بی ایس سی کی ڈگری مکمل کی تھی۔ ان کے سینے میں جب سے یہ گانٹھ ہوا ہے تب سے ان کی تنہائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ان کے والد کو گردے کا کینسر ہونے کے کچھ مہینوں بعد، نومبر ۲۰۱۶ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ پچھلے سال جنوری میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کی ماں کا بھی انتقال ہو گیا، حالانکہ ۲۰۱۳ سے ہی کئی اسپتالوں کی مخصوص امراض قلب کی اکائیوں میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ دونوں کی عمر تقریباً ۵۰ سال تھی۔ پریتی کہتی ہیں، ’’میں اب بالکل اکیلی رہ گئی ہوں۔ اگر میری ماں زندہ ہوتیں، تو وہ میری پریشانی کو سمجھ پاتیں۔‘‘

ان کی ماں کے انتقال سے کچھ دن پہلے ہی، ان کی فیملی کو نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں پتہ چلا کہ ان کے رشتہ داروں کو ہونے والے کینسر کا تعلق ان کے گھر میں پانی کی کوالٹی سے جڑا ہو سکتا ہے۔ پریتی بتاتی ہیں، ’’وہاں کے ڈاکٹروں نے ممی کے ذہنی تناؤ کے بارے میں پوچھا۔ جب ہم نے انہیں فیملی میں ہونے والی اموات کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے ہم سے کئی سوال پوچھے کہ ہم کون سا پانی پیتے ہیں۔ کچھ سالوں سے، ہمارے ہینڈ پمپ سے نکلنے والا پانی آدھا گھنٹہ کے بعد پیلا ہو جاتا ہے۔‘‘

بہار کا شمار ہندوستان کی ان سات ریاستوں میں ہوتا ہے (دیگر ریاستیں ہیں آسام، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، منی پور، اتر پردیش اور مغربی بنگال) جہاں زمین – محفوظ سطحوں سے زیادہ گہرائی – سے نکلنے والا پانی آرسینک سے بری طرح آلودہ ہے۔ سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ نے (ٹاسک فورس اور ریاستی حکومت کی ایجنسیوں پر مبنی، سال ۲۰۱۰ کی دو رپورٹوں میں) پایا کہ بہار میں، ۱۸ ضلعوں کے ۲۷ بلاک میں – بشمول سارن، جہاں پریتی کا گاؤں ہے – زمین سے نکلنے والے پانی میں آرسینک کی مقدار بہت زیادہ ہے ، فی لیٹر صفر اعشاریہ صفر ۵ ملی گرام سے بھی زیادہ، جب کہ پانی میں ۱۰ مائکرو گرام سے زیادہ آرسینک نہیں ہونا چاہیے۔

*****

پریتی جب صرف ۲ یا ۳ سال کی تھیں، تبھی ان کی بڑی بہن کی موت ہو گئی تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس کے پیٹ میں ہمیشہ بہت زیادہ درد ہوتا تھا۔ پتا جی اسے کئی کلینک لے گئے، لیکن بچا نہیں سکے۔‘‘ تبھی سے ان کی ماں کافی تناؤ میں رہنے لگیں۔

اس کے بعد، ۲۰۰۹ میں ان کے چاچا (والد کے چھوٹے بھائی) اور ۲۰۱۲ میں ان کی چاچی (ان کی بیوی) کا انتقال ہو گیا۔ یہ سارے لوگ اسی بڑے گھر میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ دونوں کو بلڈ کینسر تھا، اور ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ علاج کرانے میں انہوں نے کافی دیر کر دی۔

سال ۲۰۱۳ میں، پریتی کے اسی چچا کے بیٹے کی ۳۶ سال کی عمر میں موت ہو گئی، حالانکہ ویشالی ضلع کے بغل میں واقع حاجی پور شہر میں ان کا علاج چل رہا تھا۔ انہیں بھی بلڈ کینسر تھا۔

ایک طرف جہاں پوری فیملی کئی سالوں سے بیماری اور موت کا سامنا کر رہی تھی، وہیں گھر کی تمام ذمہ داریوں کا بوجھ پریتی کے سر آ گیا۔ ’’میں جب ۱۰ویں کلاس میں تھی، تبھی سے مجھے دیر تک گھر کے سارے کام کرنے پڑتے تھے کیوں کہ پہلے ماں بیمار رہیں اور اس کے بعد پتا جی (والد صاحب) بیمار رہنے لگے۔ ایسا بھی دور گزرا ہے جب ہر سال کسی نہ کسی کی موت ہو جاتی تھی۔ یا کوئی بہت زیادہ بیمار ہو جاتا تھا۔‘‘

Coping with cancer in Bihar's Saran district
PHOTO • Kavitha Iyer

بہار کے سارن ضلع میں کینسر کا سامنا

لیکن کیا وہ دولہے کی فیملی کو اس گانٹھ اور ممکنہ سرجری کے بارے میں، اور اپنی فیملی میں کینسر کے متعدد معاملوں کے بارے میں بتائیں گے؟ وہ جواب دیتی ہیں، ’وہ ہی تو سمجھ نہیں آ رہا۔‘ شاید اسی مسئلہ کی وجہ سے ان کی سرجری لٹکی ہوئی ہے

مشترکہ زمین والی بڑی فیملی کے باورچی خانہ کا سارا کام کرنے کی وجہ سے انہیں پڑھائی کا وقت نہیں مل پاتا تھا۔ ان کے ایک بھائی کی جب شادی ہوئی، تو بھابھی کے آنے سے کھانا پکانے، گھر کی صفائی کرنے اور مریضوں کا خیال رکھنے جیسے کام میں انہیں تھوڑی آسانی ہونے لگی۔ لیکن فیملی کی پریشانی میں اس وقت مزید اضافہ ہو گیا جب ان کے چچیرے بھائی کی بیوی کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا اور وہ مرتے مرتے بچیں۔ اس کے بعد ۲۰۱۹ میں کھیتوں پر کام کرتے وقت پریتی کے ایک بھائی کی آنکھ بری طرح زخمی ہو گئی اور کئی مہینوں تک ان کا مسلسل خیال رکھنا پڑا۔

ماں باپ کی موت کے بعد پریتی مایوسی کا شکار ہونے لگیں۔ ’’مایوسی تھی...بہت ٹینشن تھا تب۔‘‘ وہ ابھی اس غم سے پوری طرح باہر بھی نہیں نکلی تھیں کہ خود ان کے سینے میں گانٹھ ہو گیا۔

گاؤں کے باقی تمام لوگوں کی طرح ہی، پریتی کی فیملی بھی ہینڈپمپ سے نکالے گئے پانی کو چھانے یا ابالے بغیر ہی استعمال کرتی تھی۔ بیس سال پرانا تقریباً ۱۲۰-۱۵۰ فٹ گہرا بورویل ہی ان کے لیے پانی کا واحد ذریعہ ہے، جس سے وہ گھر کے سارے کام کرتے ہیں – جیسے کہ دھونا، نہانا، پینا اور کھانا پکانا۔ پریتی بتاتی ہیں، ’’پتا جی کے انتقال کے بعد، ہم لوگ پینے اور کھانا پکانے کے لیے آر او فلٹر کا پانی استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ زیر زمین پانی میں آرسینک زہر کے موجود ہونے پر متعدد مطالعات کے بعد، ضلع کے لوگ اس آلودگی اور اس کے خطرات سے آگاہ رہنے لگے تھے۔ آر او کی صفائی کے نظام کا اگر پابندی سے رکھ رکھاؤ کیا جائے، تو یہ پینے کے پانی سے آرسینک کو کامیابی سے چھان دیتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ۱۹۵۸ میں ہی یہ بتا دیا تھا کہ طویل عرصے تک آرسینک سے آلودہ پانی پینے سے آرسینک زہر یا آرسینکوسس پھیل سکتا ہے، جس سے جلد، غدود، گردہ یا پھیپھڑے کا کینسر ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، اور جلد سے متعلق کچھ بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں جیسے کہ جلد کا بے رنگ ہو جانا، اور ہتیھیلوں اور تلووں پر سخت دھبے پڑنا۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی کہا تھا کہ ثبوت اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ آلودہ پانی پینے والے کو ذیابیطس، ہائپر ٹینشن اور تولیدی خرابیاں ہو سکتی ہیں۔

پٹنہ میں واقع ایک پرائیویٹ خیراتی ٹرسٹ، مہاویر کینسر سنستھان اور ریسرچ سنٹر نے ۲۰۱۷ سے ۲۰۱۹ کے درمیان، اپنے باہری مریضوں کے محکمہ (او پی ڈی) کا دورہ کرنے والوں میں سے کینسر کے ۲۰۰۰ مریضوں کو بے ترتیبی سے منتخب کرکے ان کے خون کے نمونے جمع کیے، اور پایا کہ کاسینوما مریضوں کے خون میں آرسینک کی سطح بہت زیادہ اونچی ہے۔  گنگا کے میدانی علاقوں میں کینسر کی اقسام اور آبادیات کے ساتھ بلڈ آرسینک کے رشتے کا پتہ چلا ہے۔

اس انسٹی ٹیوٹ کے ایک سائنس داں، ڈاکٹر ارون کمار، جنہوں نے اس ریسرچ پر کئی مقالے مشترکہ طور پر لکھے ہیں، بتاتے ہیں، ’’ہائی بلڈ آرسینک والے کینسر کے زیادہ تر مریضوں کا تعلق [سارن سمیت] ان ضلعوں سے تھا جو گنگا ندی کے قریب ہیں۔ ان کے خون میں آرسینک کا بہت زیادہ جمع ہو جانا کینسر، خاص کر کرسینوما کے ساتھ آرسینک کے رشتہ کو مضبوطی سے ظاہر کرتا ہے۔‘‘

'Even if I leave for a few days, people will know, it’s a small village. If I go away to Patna for surgery, even for a few days, everybody is going to find out'

’اگر میں کچھ دنوں کے لیے بھی چلی جاؤں، تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا، یہ چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اگر میں سرجری کے لیے پٹنہ چلی جاؤں، بھلے ہی کچھ دنوں کے لیے، تب بھی ہر کسی کو اس کا علم ہو جائے گا‘

اس مطالعہ کی جنوری ۲۰۲۱ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ہمارے انسٹی ٹیوٹ نے سال ۲۰۱۹ میں کینسر کے ۱۵۰۰۰ سے زیادہ معاملے درج کیے۔ ایپڈیمیولوجیکل ڈیٹا نے بتایا کہ کینسر کے جتنے معاملے درج ہوئے تھے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ان شہروں یا قصبوں سے تھا جو گنگا ندی کے قریب واقع ہیں۔ کینسر کے سب سے زیادہ معاملے بکسر، بھوجپور، سارن، پٹنہ، ویشالی، سمستی پور، مونگیر، بیگو سرائے اور بھاگل پور ضلعوں سے تھے۔‘‘

پریتی کی فیملی اور سارن ضلع کے اس گاؤں میں ویسے تو کینسر کی وجہ سے مرد اور عورت دونوں کی ہی موت ہوئی ہے، لیکن آنکولوجسٹ کا دورہ کرنے میں عورتوں کو حد سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کینسر کے ساتھ بڑی بدنامی جڑی ہوئی ہے، خاص کر نوجوان لڑکیوں کے لیے۔ جیسا کہ پریتی کے بھائیوں میں سے ایک کا کہنا ہے، ’’گاؤں کے لوگوں کو بات کرنے کی عادت ہے... فیملی کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔‘‘

پریتی مزید کہتی ہیں، ’’اگر میں کچھ دنوں کے لیے بھی چلی جاؤں، تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا، یہ چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اگر میں سرجری کے لیے پٹنہ چلی جاؤں، تب بھی ہر کسی کو اس کا علم ہو جائے گا۔ کاش ہمیں شروع میں ہی معلوم ہو جاتا کہ پانی میں کینسر ہے۔‘‘

وہ پر امید ہیں کہ انہیں ایک پیارا شوہر ضرور ملے گا – اور اس بات کو لیکر وہ پریشان بھی ہیں کہ ان کے سینے کی یہ گانٹھ کہیں ان کی شادی کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال دے۔

*****

’’کیا وہ بچے کو دودھ پلا پائے گی؟‘‘

یہی وہ سوال تھا جو پٹنہ ہاسپیٹل کے وارڈ میں رمونی دیوی یادو کے ذہن میں اُس ۲۰ سالہ عورت کے بارے میں چل رہا تھا، جو اُن سے کچھ آگے کے بیڈ پر موجود تھیں اور جن کی شادی صرف چھ مہینے پہلے ہی ہوئی تھی۔ یہ ۲۰۱۵ کی گرمیوں کی بات ہے۔ ۵۸ سالہ رمونی دیوی پوچھتی ہیں، ’’کم از کم میرے سینے کی سرجری تو لمبی عمر میں ہو رہی ہے۔ میرے چاروں بیٹوں کے بالغ ہونے کے کافی دنوں بعد مجھے سینے کا کینسر ہوا تھا۔ لیکن نوجوان لڑکیوں کا کیا ہوگا؟‘‘

یادو فیملی کے پاس بکسر ضلع کے سمری بلاک کے بڑکا راجپور گاؤں میں، جو کہ پریتی کے گاؤں سے بمشکل ۱۴۰ کلومیٹر دور ہے، تقریباً ۵۰ بیگھہ (تقریباً ۱۷ ایکڑ) زمین ہے اور یہ لوگ مقامی سیاست میں کافی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ چھ سال تک سینے کے کینسر سے کامیابی سے لڑنے کے بعد، رمونی دیوی راجپور کلاں پنچایت (جس کے اندر ان کا گاؤں واقع ہے) کے مکھیا کا الیکشن لڑنے کا من بنا رہی ہیں، بشرطیکہ کووڈ سے ہونے والی تاخیر کے بعد اس سال کے آخر میں یہ انتخاب کرائے جائیں۔

Ramuni Devi Yadav: 'When a mother gets cancer, every single thing [at home] is affected, nor just the mother’s health'
PHOTO • Kavitha Iyer

رمونی دیوی یادو: ’اگر ماں کو کینسر ہو جائے، تو صرف ماں کی صحت پر ہی نہیں، بلکہ [گھر کی] ہر ایک چیز پر اس کا اثر ہوتا ہے‘

رمونی صرف بھوجپوری زبان بولتی ہیں، لیکن ان کے بیٹے اور شوہر اوما شنکر یادو فوراً اس کا ترجمہ کر دیتے ہیں۔ اوما شنکر بتاتے ہیں کہ بڑکا راجپور میں کینسر کے کئی معاملے ہیں۔ سنٹرل گراؤنڈ واٹر بورڈ کی رپورٹ میں جن ۱۸ ضلعوں کے ۵۷ بلاکوں میں زیر زمین پانی میں آرسینک کی اعلیٰ مقدار ہونے کی بات کہی گئی ہے، اس میں بکسر ضلع بھی شامل ہے۔

اپنی زمین کے ارد گرد چہل قدمی کرتے ہوئے، جہاں سے ایک ٹرک کٹہل اور مالدہ آم ابھی ابھی توڑے گئے ہیں، رمونی بتاتی ہیں کہ آخری سرجری ختم ہو جانے اور ریڈئیشن ٹریٹمنٹ شروع ہونے سے پہلے تک ان کی فیملی نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی حالت کتنی سنگین ہے۔

وہ اتر پردیش کے بنارس، جہاں پر ان کے رشتہ دار رہتے ہیں، میں اپنی پہلی سرجری کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’شروع میں ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا ہے اور ہماری بیداری کی کمی کی وجہ سے کافی پریشانیاں پیدا ہو گئی تھیں۔‘‘ گانٹھ کو نکال دیا گیا تھا، لیکن وہ دوبارہ ہو گیا اور مزید بڑھنے لگا، جس کی وجہ سے شدید درد ہوتا تھا۔ وہ اسی سال، ۲۰۱۴ میں دوبارہ بنارس گئے، اسی کلینک میں، جہاں اسی طرح کی سرجری پھر سے کی گئی۔

اوما شنکر بتاتے ہیں، ’’لیکن جب ہم گاؤں میں اپنے مقامی ڈاکٹر کے کلینک میں پٹّی بدلوانے گئے، تو انہوں نے کہا کہ زخم خطرناک لگ رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد یادو فیملی انہیں لیکر دو اور اسپتالوں میں گئی، تب کسی نے انہیں وسط ۲۰۱۵ میں پٹنہ کے مہاویر کینسر سنستھان جانے کا مشورہ دیا۔

رمونی بتاتی ہیں کہ مہینوں تک اسپتالوں کے چکر لگانے اور گاؤں سے باہر کا سفر بار بار کرنے کی وجہ سے فیملی کی معمول کی زندگی پوری طرح متاثر ہو گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر ماں کو کینسر ہو جائے، تو صرف ماں کی صحت پر ہی نہیں بلکہ [گھر کی] ہر ایک چیز پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ اس وقت میری صرف ایک بہو تھی، تین چھوٹے بیٹوں کی شادی بعد میں ہوئی۔‘‘ اور وہ مشکل سے سارا کام کر پاتی تھیں۔

ان کے بیٹوں کو بھی جلد کی بیماریاں ہیں، جس کے لیے وہ ہینڈ پمپ سے نکلنے والے آلودہ پانی کو قصور وار ٹھہراتے ہیں – ان کا ۱۰۰-۱۵۰ فٹ گہرا بورویل ۲۵ سال پرانا ہے۔ جس وقت رمونی کی کیموتھیراپی، سرجری اور ریڈئیشن تھیراپی ہو رہی تھی، اس وقت گھر میں ہمیشہ افرا تفری کا عالم رہتا تھا۔ ایک بیٹا جو بارڈر سیکورٹی فورس میں تعینات ہے، وہ جب گھر لوٹا تو اسے ہمیشہ بکسر آنا جانا پڑتا تھا، دوسرا بیٹا پڑوسی گاؤں میں ٹیچر کی نوکری کرتا ہے جس کی وجہ سے اسے دن میں کئی گھنٹوں تک مصروف رہنا پڑتا تھا، اور اس کے علاوہ کھیتوں کی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک آدمی کی ضرورت تھی۔

رمونی کہتی ہیں، ’’میری آخری سرجری کے بعد، میں نے اس نو شادی شدہ عورت کو اپنے اسپتال کے وارڈ میں دیکھا۔ میں اس کے پاس گئی، اسے اپنا زخم دکھایا اور اس سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اسے بھی سینے کا کینسر تھا، اور مجھے یہ دیکھ کر کافی خوشی ہوئی کہ اس کا شوہر بہت اچھی طرح سے اس کی دیکھ بھال کر رہا تھا، حالانکہ ان کی شادی کو ابھی صرف کچھ مہینے ہی ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے بعد میں ہمیں بتایا کہ وہ اپنے بچے کو ضرور دودھ پلا سکے گی۔ مجھے یہ سن کر بے حد خوشی ملی۔‘‘

Ramuni Devi and Umashankar Yadav at the filtration plant on their farmland; shops selling RO-purified water have also sprung up
PHOTO • Kavitha Iyer

رمونی دیوی اور اوما شنکر یادو اپنے کھیت پر لگے فلٹریشن پلانٹ کے پاس؛ آر او کے پانی کی دکانیں بھی یہاں بڑی تعداد میں کھل گئی ہیں

ان کے بیٹے شیواجی کا کہنا ہے کہ بڑکا راجپور میں زمین سے نکلنے والا پانی بری طرح سے آلودہ ہو چکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہمیں صحت اور پانی کے درمیان کا تعلق اس وقت تک محسوس نہیں ہوا جب خود ہماری ماں بری طرح بیمار نہیں پڑ گئیں۔ لیکن یہاں کے پانی کا عجیب رنگ ہے۔ ۲۰۰۷ کے آس پاس تک سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ پانی کا رنگ پیلا پڑنے لگا ہے۔ اب ہم زمین سے نکالے گئے پانی کا استعمال صرف دھونے اور نہانے میں کرتے ہیں۔‘‘

کھانا پکانے اور پینے کے لیے، وہ فلٹریشن پلانٹ کا پانی استعمال کرتے ہیں جسے چند تنظیموں نے عطیہ کیا ہے۔ اس پانی کو تقریباً ۲۵۰ کنبے استعمال کرتے ہیں، لیکن اسے ستمبر ۲۰۲۰ میں ہی (یادو کی زمین پر) لگایا گیا تھا، جب کہ کئی رپورٹوں سے یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ یہاں کی زمین سے نکلنے والا پانی کم از کم ۱۹۹۹ سے ہی آلودہ ہو چکا ہے۔

فلٹریشن پلانٹ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہا ہے۔ گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں اس کا پانی بہت گرم ہو جاتا ہے۔ شیواجی بتاتے ہیں کہ آس پاس کے گاؤوں میں ایسی بہت سی دکانیں کھل گئی ہیں جو آر او سے صاف کیے ہوئے پانی کا ۲۰ لیٹر کا پلاسٹک کا جار ۲۰-۳۰ روپے میں فروخت کر رہی ہیں، حالانکہ کسی کو بھی یہ نہیں معلوم ہے کہ اس کا پانی واقعی میں آرسینک سے پاک ہے یا نہیں۔

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی اور مشرقی ہندوستان کے آرسینک سے متاثر میدانی علاقے ندی کے ان راستوں سے گھرے ہوئے ہیں، جن کی ابتدا ہمالیہ سے ہوتی ہے۔ گنگا کے میدانی علاقوں میں زہریلے مادے کی ابتدا جغرافیائی اعتبار سے ہوتی ہے – کم گہرے پانی میں آکسی ڈیشن کی وجہ سے آرسینوپائرائٹس جیسی معدنیات سے آرسینک کا اخراج ہوتا ہے۔ مطالعات کے مطابق، کچھ گاؤوں میں آبپاشی کے لیے زیر زمین پانی کو حد سے زیادہ نکالنے کے سبب زمین کے اندر پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان مطالعات میں دیگر اسباب کا بھی ذکر ہے:

جیولوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق رکن، ایس کے آچاریہ اور دیگر افراد نے ۱۹۹۹ میں نیچر میگزین میں شائع ایک مقالہ میں لکھا کہ ’’ہمارا خیال ہے کہ آرسینک کے خارج ہونے کے متوقع طور پر کئی اور ذرائع ہیں، بشمول راج محل بیسن کی گونڈوانا کوئلہ کانیں، جس میں آرسینک کے ۲۰۰ حصے فی ملین (پی پی ایم) شامل ہوتے ہیں؛ دارجیلنگ ہمالیہ سے نکلنے والے سلفائیڈز جن میں صفر اعشاریہ ۸ فیصد آرسینک شامل ہوتا ہے؛ اور گنگا ندی کے آگے کے علاقوں کے دیگر ذرائع شامل ہیں۔‘‘

مطالعات میں کہا گیا ہے کہ کم گہرے اور بہت زیادہ گہرے کنووں میں آرسینک کی آلودگی کم ہوتی ہے – جب کہ آلودگی والے کنویں ۸۰ سے ۲۰۰ فٹ گہرائی کے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کمار بتاتے ہیں کہ یہ ان گاؤوں کے لوگوں کے تجربات پر مبنی ہے جہاں ان کا انسٹی ٹیوٹ وسیع مطالعے کے لیے پانی کے نمونے کی جانچ کرتا رہتا ہے – بارش کے پانی اور کم گہرائی والے کنووں کے پانی میں آرسینک کی آلودگی بہت کم یا بالکل نہیں پائی گئی ہے، جب کہ گرمی کے مہینوں میں بورویل کا پانی کئی گھروں میں بد رنگ ہو جاتا ہے۔

*****

Kiran Devi, who lost her husband in 2016, has hardened and discoloured spots on her palms, a sign of arsenic poisoning. 'I know it’s the water...' she says
PHOTO • Kavitha Iyer
Kiran Devi, who lost her husband in 2016, has hardened and discoloured spots on her palms, a sign of arsenic poisoning. 'I know it’s the water...' she says
PHOTO • Kavitha Iyer

کرن دیوی، جنہوں نے ۲۰۱۶ میں اپنے شوہر کو کھو دیا تھا، کی ہتھیلیوں پر سخت اور بد رنگ دھبے ہیں، جو کہ آرسینک کی زہر آلودگی کی علامت ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے معلوم ہے کہ یہ پانی کی وجہ سے ہو رہا ہے...‘

بڑکا راجپور سے تقریباً چار کلومیٹر شمال میں بکسر ضلع کا تلک رائے کا ہٹّا گاؤں ہے، جہاں ۳۴۰ گھر ہیں، جن میں زیادہ تر بے زمین کنبے رہتے ہیں۔ یہاں، کچھ گھروں کے باہر ہینڈ پمپ کا گندا پانی بہہ رہا ہے۔

سرکردہ محقق، ڈاکٹر کمار بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۱۳-۱۴ میں مہاویر کینسر سنستھان کے ذریعے اس گاؤں میں کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلا کہ زیر زمین پانی میں آرسینک کی مقدار بہت زیادہ ہے، خاص کر تلک رائے کا ہٹّا کے مغربی حصوں میں۔ گاؤں میں آرسینکوسس کی عام علامتیں ’’بڑے پیمانے پر دیکھی گئیں‘‘: ۲۸ فیصد لوگوں کی ہتھیلیوں اور تلووں میں ہائپرکیراٹوسس (زخم) تھا، ۳۱ فیصد لوگوں کی جلد پر دھبے یا میلانوسس تھا، ۵۷ فیصد لوگوں کو لیور (جگر) سے متعلق بیماریاں تھیں، ۸۶ فیصد لوگوں کو گیس کی بیماری تھی، اور ۹ فیصد عورتوں کو حیض میں بے ترتیبی کا مسئلہ درپیش تھا۔

کرن دیوی کے شوہر اس گاؤں میں بچھو کا ڈیرہ کے نام سے مشہور اینٹ اور مٹی سے بنے گھروں کی ایک الگ بستی میں رہتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پیٹ میں کئی مہینوں تک درد رہنے کے بعد ۲۰۱۶ میں ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘ فیملی انہیں سمری اور بکسر شہر کے ڈاکٹروں کے پاس لے گئی تھی، اور انہیں مختلف قسم کی دوائیں دی گئی تھیں۔ ۵۰ سالہ کرن بتاتی ہیں، ’’انہوں نے کہا تھا کہ یہ تپ دق ہے۔ یا جگر کا کینسر۔‘‘ ان کے پاس زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، لیکن ان کے شوہر کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ یومیہ مزدوری کا کام تھا۔

سال ۲۰۱۸ سے ہی کرن دیوی کی ہتھیلیوں پر سخت اور بد رنگ دھبے ہیں، جوکہ آرسینک کی زہر آلودگی کی علامت ہے۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ پانی کی وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن اگر میں خود اپنے پمپ کا استعمال نہیں کر سکتی تو پھر کہاں جاؤں؟‘‘ ان کا ہینڈ پمپ ان کے گھر کے بالکل باہر ہے، ایک چھوٹے سے احاطہ کے اُس پار جہاں ایک بیل اپنا چارہ چبا رہا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ مانسون کے بعد (نومبر سے مئی تک) پانی کی کوالٹی بہت خراب ہو جاتی ہے، جب اس کا ذائقہ پانی کی چائے جیسا ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم کھانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں کسی ڈاکٹر کو دکھانے یا جانچ کرانے کے لیے پٹنہ کا سفر بھلا کیسے کر سکتی ہوں؟‘‘ ان کی ہتیھلیوں میں کافی کھجلی ہوتی ہے، اور جب وہ صابن کو چھوتی ہیں یا جانور کے باڑے سے دن کا گوبر اٹھاتی ہیں، تو اس میں کافی جلن ہوتی ہے۔

رمونی کہتی ہیں، ’’عورت اور پانی کا قریبی رشتہ ہے، کیوں کہ دونوں کو گھروں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اگر پانی خراب ہے، تو یہ فطری بات ہے کہ عورتوں پر اس کا سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔‘‘ اوما شنکر کہتے ہیں کہ کینسر کی بدنامی بہت سے لوگوں، خاص کر عورتوں کو علاج کرانے سے دور رکھتی ہے اور اسی کی وجہ سے کافی دیر ہو جاتی ہے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ رمونی کے سینے کے کینسر کا پتہ چلنے کے فوراً بعد گاؤں کی آنگن واڑی نے پانی کے معیار کو لیکر ایک بیداری مہم چلائی۔ مکھیا منتخب ہونے پر وہ اس قسم کی مزید بیداری مہم چلانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہر کوئی اپنے گھروں کے لیے آر او کا پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ اور ہر عورت آسانی سے اسپتال نہیں جا سکتی۔ ہم اس کا کوئی اور طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔

اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم zahra@ruralindiaonline.org کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی namita@ruralindiaonline.org کو بھیج دیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Iyer

Kavitha Iyer has been a journalist for 20 years. She is the author of ‘Landscapes Of Loss: The Story Of An Indian Drought’ (HarperCollins, 2021).

Other stories by Kavitha Iyer
Illustration : Priyanka Borar

Priyanka Borar is a new media artist experimenting with technology to discover new forms of meaning and expression. She likes to design experiences for learning and play. As much as she enjoys juggling with interactive media she feels at home with the traditional pen and paper.

Other stories by Priyanka Borar
Editor and Series Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez