مئی ۲۰۲۱ میں، سانس لینے میں تکلیف کی وجہ سے راجندر پرساد کو اپنی بیوی کو لے کر ایک پرائیویٹ اسپتال کی طرف بھاگنا پڑا، جو اتر پردیش میں واقع اُن کے دور افتادہ گاؤں کے سب سے قریب تھا۔ حالانکہ، ان کی پہلی ترجیح قریب کا ہی ایک اسپتال تھا، لیکن وہ قومی سرحد کے اُس پار، نیپال میں ہے۔

اس غیر معمولی ترجیح کے بارے میں بتاتے ہوئے ۳۷ سالہ راجندر کہتے ہیں، ’’علاج کے لیے سرحد کے اُس پار جانا ہمارے لیے عام بات ہے۔ گاؤں کے بہت سے لوگ گزشتہ کئی سالوں سے یہی کر رہے ہیں۔‘‘ راجندر کے گاؤں، بن کٹی سے نیپال کے اس اسپتال کی دوری محض ۱۵ کلومیٹر ہے۔ یوپی کے سب سے بڑے ضلع، لکھیم پور کھیری (جسے کھیری بھی کہتے ہیں) کا بن کٹی گاؤں نیپال کی سرحد پر واقع ہے۔

سال ۱۹۵۰ میں امن و دوستی کے معاہدہ پر دستخط کے بعد سے ہی ہندوستان اور نیپال کی اپنی سرحد کو کھلا رکھنے کی پالیسی کی وجہ سے، دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے کے خطے میں آزادی سے آتے جاتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے یہاں کاروبار کرنے، جائیداد خریدنے، اور روزگار حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ سرحد کھلی ہونے کی وجہ سے بن کٹی کے لوگوں کو نیپال جا کر سستا اور بہتر علاج حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

لیکن کووڈ۔۱۹ نے اسے مشکل بنا دیا۔

راجندر کی ۳۵ سالہ بیوی، گیتا دیوی کو جب اسپتال میں داخل ہونا تھا، تب ہندوستان میں وبائی مرض کی دوسری لہر اپنے عروج پر تھی۔ لہٰذا وہ سرحد پار واقع اس اسپتال تک نہیں پہنچ سکے کیوں کہ نیپال نے کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہونے کے بعد، ۲۳ مارچ ۲۰۲۰ سے اپنی سرحد کو سیل کر دیا تھا، جو ہندوستان کی پانچ ریاستوں کے ساتھ ۱۸۵۰ کلومیٹر کے دائرے میں پھیلی ہوئی ہے۔

راجندر کی فیملی کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

Rajendra Prasad in his farmland in Bankati, located on the border with Nepal. He wonders if his wife would have lived had the border not been sealed due to Covid-19 and they could have gone to the hospital there
PHOTO • Parth M.N.
Rajendra Prasad in his farmland in Bankati, located on the border with Nepal. He wonders if his wife would have lived had the border not been sealed due to Covid-19 and they could have gone to the hospital there
PHOTO • Parth M.N.

راجندر پرساد، نیپال کی سرحد پر واقع بن کٹی کے اپنے کھیت میں۔ انہیں افسوس ہے کہ اگر کووڈ۔۱۹ کی وجہ سے سرحد سیل نہیں ہوتی اور وہ وہاں کے اسپتال تک پہنچ گئے ہوتے، تو آج اُن کی بیوی زندہ ہوتیں

راجندر آخرکار گیتا کو پلیا شہر لے گئے جو بن کٹی سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور ہے، اور اُن کے بلاک کا ہیڈکوارٹر بھی وہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’سڑک [پالیا تک جانے والی] بہت ہی خراب ہے، اس لیے وہاں جانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ شہر کا سرکاری اسپتال اچھا نہیں ہے، اس لیے ہمیں پرائیویٹ اسپتال جانا پڑا۔ چونکہ بن کٹی کے پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) میں سنگین بیماری کے علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے گیتا کو پلیا لے جانے کے لیے راجندر کو ۲۰۰۰ روپے میں ایک گاڑی کرایے پرلینی پڑی۔

گیتا کے اندر کووڈ کی علامات تھیں – یعنی کھانسی، زکان اور پھر سانس لینے میں تکلیف – لیکن شہر کے اس اسپتال میں جب انہوں نے اپنا ٹیسٹ کرایا تو رپورٹ نگیٹو آئی؛ البتہ جانچ سے پتہ چلا کہ انہیں نمونیا ہے۔ راجندر بتاتے ہیں، ’’اسے سانس لینے میں لگاتار دقت ہو رہی تھی۔ لیکن، اُس وقت پلیا میں آکسیجن کی کمی تھی۔ میں نے اپنی طرف سے کچھ سیلنڈروں کا انتظام کیا، لیکن وہ کافی نہیں تھا۔ اسپتال میں داخل ہونے کے چھ دن بعد اس کی موت ہو گئی۔‘‘

راجندر ایک چھوٹے کسان ہیں اور ان کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زمین ہے، جس کی وجہ سے ان کی آمدنی بہت اچھی نہیں ہے اور ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ سے بھی کم ہے۔ گیتا کے علاج پر انہوں نے تقریباً ۵۰ ہزار روپے خرچ کیے، جس میں اپنی طرف سے خریدے گئے آکسیجن سیلنڈر کی قیمت بھی شامل ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے اُس تاجر سے قرض لیے، جو مجھ سے چاول خریدتے ہیں۔ اپنی فصل سے میں اُن کا قرض لوٹا دوں گا۔ دو بچوں کے والد، راجندر مزید کہتے ہیں، ’’مجھے قرض کا کوئی افسوس نہیں ہے، البتہ اس بات کا ضرور افسوس ہے کہ اسے صحیح علاج نہیں مل سکا۔ اب میں اپنے نو عمر بچوں کی خود ہی پرورش کر رہا ہوں۔‘‘

گیتا کی موت کے ایک سال پورا ہونے میں اب کچھ ہی مہینے رہ گئے ہیں۔ راجندر کو آج بھی اس بات کا افسوس ہے کہ اگر وہ نیپال کے اُس اسپتال تک پہنچ گئے ہوتے، تو شاید یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’سرحد بند ہو جانے کے بعد، کچھ لوگوں نے [موہنا] ندی یا [دودھوا] جنگل سے ہوکر اُس پار جانے کی کوشش ضرور کی تھی۔ لیکن میں کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ اس لیے میں نے نیپال جانے کی بجائے پلیا کے اسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ پتہ نہیں، میرا یہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔‘‘

Jai Bahadur Rana, the pradhan of Bankati, is among the village's many residents who seek treatment at Seti Zonal Hospital in Nepal. "The doctors and facilities at Seti are far better," he says
PHOTO • Parth M.N.

بن کٹی کے پردھان، جے بہادر رانا گاؤں کے اُن لوگوں میں سے ایک ہیں، جو نیپال کے سیتی ژونل اسپتال میں علاج کرانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’سیتی کے ڈاکٹر اور سہولیات کافی بہتر ہیں‘

بن کٹی کے ۲۱۴ گھروں میں رہنے والے تقریباً ہر افراد نے کبھی نہ کبھی نیپال کے دھن گڑھی ضلع میں واقع سیتی ژونل اسپتال میں اپنا علاج ضرور کرایا ہے۔ انہی میں سے ایک، ۴۲ سالہ جے بہادر رانا بھی ہیں، جو بن کٹی کے پردھان ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً ۷-۶ سال پہلے جب انہیں تپ دق (ٹی بی) ہو گیا تھا، تو انہوں نے تقریباً پانچ بار اس اسپتال کا دورہ کیا تھا۔ رانا کہتے ہیں، ’’تقریباً چھ مہینے تک میرا علاج چلا۔ اُس وقت سرحد پر کوئی چیکنگ نہیں ہوتی تھی۔ میں بغیر کسی پریشانی کے اپنا علاج کرا سکتا تھا۔‘‘

رانا اپنے گاؤں کے لوگوں کے سیتی ژونل اسپتال جانے کی کچھ وجہیں بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پلیا جانے والی سڑک دودھوا ریزرو سے ہوکر گزرتی ہے، جو کہ محفوظ راستہ نہیں ہے۔ وہاں کئی جنگلی جانور رہتے ہیں۔ اور اگر ہم پلیا پہنچ بھی گئے تو، متبادل کیا ہیں؟ ہم پرائیویٹ اسپتالوں کی فیس نہیں بھر سکتے۔ کھیری کے سرکاری اسپتال میں کوئی سہولت نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں، سیتی کے ڈاکٹر اور وہاں کی سہولیات کہیں زیادہ بہتر ہیں۔‘‘

وہ نیپال کے اپنے تجربات کو بڑے شوق سے یاد کرتے ہیں۔ ’’یہاں [ہندوستان] کے سرکاری اسپتالوں میں علاج اور بستر مفت ملتے ہیں لیکن ڈاکٹر ہمیشہ ایسی دوائیں لکھتے ہیں، جو آپ کو باہر کے [میڈیکل اسٹور سے] خریدنی پڑتی ہے۔ اس میں کافی پیسہ لگتا ہے۔‘‘ لیکن نیپال میں ایسا نہیں ہے، وہ کہتے ہیں۔ ’’وہاں، وہ باہر سے دوائیں خریدنے کو تبھی کہتے ہیں جب وہ دوائیں اسپتال میں دستیاب نہ ہوں۔ مجھے اپنا علاج کرانے میں کوئی پیسہ نہیں لگا۔ شکر ہے کہ مارچ ۲۰۲۰ کے بعد مجھے ٹی بی نہیں ہوا۔ ورنہ مجھے کھیری یا لکھنؤ میں [تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور] کوئی اسپتال تلاش کرنا پڑتا۔ سرحد اب کھل گئی ہے، لیکن پہلے والی بات نہیں رہی۔‘‘

نیپال نے ستمبر ۲۰۲۱ کے آخری ہفتہ میں ہندوستان سے لوگوں کو بذریعہ ہوائی جہاز سفرکرنے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن اب، روانگی سے ۷۲ گھنٹے قبل حاصل کی گئی کووڈ نگیٹو رپورٹ، اور آن لائن بھرا گیا بین الاقوامی مسافر فارم کی پرنٹ شدہ کاپی جمع کرانا ضروری ہے۔

اس نئے نظام کی وجہ سے بن کٹی کے لوگوں کو اب اپنے ہی ملک کی طبی سہولیات پر منحصر ہونا پڑ رہا ہے۔

Mansarovar outside her house in Kajariya. In January, she walked through the forest with her infant son to reach Geta Eye Hospital across the border. "No hospital in our district is as good as Geta for eye care," she says
PHOTO • Parth M.N.

مانسروور، کجاریا میں اپنے گھر کے باہر کھڑی ہیں۔ جنوری میں، سرحد پار واقع گیٹا آئی ہاسپیٹل پہنچنے کے لیے انہیں اپنے گود کے بچے کے ساتھ جنگل سے ہوکر پیدل جانا پڑا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’آنکھوں کے علاج کے لیے ہمارے ضلع میں گیٹا سے بہتر کوئی بھی اسپتال نہیں ہے‘

رانا کہتے ہیں، ’’اب سرحد پر [گوری پھانٹا میں] بہت سے سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں۔ وہ آپ کے گاؤں کا نام، آپ کا آئی ڈی، جانے کا سبب وغیرہ پوچھتے ہیں۔ حالانکہ وہ اکثر ہمیں روکتے نہیں ہیں، لیکن گارڈ کے سوالات کی وجہ سے گاؤں والوں کو غصہ آ سکتا ہے۔ اسی لیے، اب زیادہ تر لوگ سرحد کے اُس پار تبھی جاتے ہیں جب ان کے لیے وہاں جانا ضروری ہو۔‘‘

سرحد پار جانے کی ایک ناگزیر وجہ نیپال کے کیلالی ضلع میں واقع گیٹا آئی ہاسپیٹل ہے۔

جنوری ۲۰۲۲ کے وسط میں، ۲۳ سالہ مانسروور کو کھیری ضلع میں واقع اپنے گاؤں، کجاریا سے ۲۰ کلومیٹر دور آنکھوں کے اسپتال پہنچنے کے لیے جنگل سے ہوکر پیدل جانا پڑا۔ انہیں اپنے گود کے بچے کو وہاں کے ڈاکٹروں کو دکھانا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہمارے ضلع، یا ریاست میں آنکھوں کے علاج کے لیے گیٹا سے اچھا کوئی اسپتال نہیں ہے۔ اور میں اپنے بچے کے ساتھ کوئی خطرہ نہیں اٹھانا چاہتی۔‘‘

ان کا بیٹا، اپریل ۲۰۲۱ میں پیدا ہوا تھا، اور تبھی سے اس کی آنکھوں میں پریشانی ہے – پانی اور کیچڑ بہت زیادہ نکلتا ہے۔ سرحد پار لے جانے سے پہلے تک یہ پریشانی جاری تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’خوش قسمتی سے، سرحد پر مجھے کسی نے نہیں روکا۔ میرا بیٹا دو ہفتوں میں ہی ٹھیک ہو گیا۔ آنکھوں سے گندگی نکلنا بند ہونے کے بعد میں اسپتال دوبارہ گئی۔ ڈاکٹر نے میرے بیٹے کے سر پر اپنا ایک ہاتھ رکھا اور مجھ سے کہا کہ اب اس کے بارے میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پورے علاج پر صرف ۵۰۰ روپے خرچ ہوئے۔‘‘

کھیری کے سرحدی گاؤوں میں اکثریت تھارو کمیونٹی کی ہے، جو کہ اتر پردیش میں درج فہرست قبیلہ میں شامل ہے۔ وہاں کے لوگوں کے لیے سستا علاج اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ باعزت علاج۔

بن کٹی سے تقریباً سات کلومیٹر دور، کجاریا میں ۲۰ سال کی شملی رانا کو معلوم ہے کہ اسپتال میں بے عزت کیے جانے کے بعد کیسا لگتا ہے۔ پلیا کے ایک اسپتال میں ہونے والے اپنے تجربات کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’آپ بے سہارا ہیں۔ آپ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیوں کہ آپ کی بے عزتی کرنے والا شخص ہی آپ کا علاج کر سکتا ہے۔‘‘

Shimali had no choice but to get their newborn son treated at a private hospital in Kheri's Palia town.
PHOTO • Parth M.N.
Shimali and Ramkumar (right) outside their home in Kajariya. They had no choice but to get their newborn son treated at a private hospital in Kheri's Palia town. "It is not my fault that you are poor," said a doctor there, after the hospital wanted them to pay more
PHOTO • Parth M.N.

کجاریا میں اپنے گھر کے باہر شیمالی اور راج کمار (دائیں)۔ ان کے پاس اپنے نومولود بیٹے کا کھیری کے پلیا شہر کے پرائیویٹ اسپتال میں علاج کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں تھا۔ اسپتال نے جب ان سے مزید پیسے ادا کرنے کا مطالبہ کیا، تو وہاں کے ڈاکٹر نے کہا، ’تم غریب ہو، اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے‘

نومبر ۲۰۲۱ میں پیدا ہونے والے ان کے بیٹے کو پھیپھڑے کی بیماری تھی۔ وہ بتاتی ہیں، ’’وہ [اچھی طرح] سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ مقامی پی ایچ سی نے ہم سے پلیا جانے کو کہا، کیوں کہ انہیں اس کے علاج کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ ہم لوگ ایک پرائیویٹ اسپتال میں گئے، جہاں بھیانک تجربے کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

ان کے شوہر، ۲۰ سالہ رام کمار بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا ٹھیک ہو گیا تھا، لیکن ڈاکٹر اسے چھٹی دینے کو راضی نہیں تھے۔ ’’وہ ہم سے مزید پیسے اینٹھنا چاہتے تھے۔ ہم غریب کسان ہیں اور ہمارے پاس چھوٹی زمین ہے [ایک ایکڑ سے بھی کم]۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے پاس مزید پیسے نہیں ہیں۔ وہاں کے ڈاکٹر نے ہمیں گالی دی اور کہا، ’تم غریب ہو، اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے‘۔ اس سے پہلے، انہوں نے پیشگی رقم ادا نہیں کرنے پر ہماری بے عزتی کی تھی۔‘‘

اس قسم کا برتاؤ عام بات ہے۔ نومبر ۲۰۲۱ میں آکسفیم انڈیا کے ذریعے مریضوں کے حقوق سے متعلق جاری کی گئی سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جواب دینے والے یوپی کے ۴۷۲ لوگوں میں سے ۵۲ اعشاریہ ۴۴ فیصد کو معاشی حالت کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ تقریباً ۱۴ اعشاریہ ۳۴ فیصد کو مذہب کی بنیاد پر اور ۱۸ اعشاریہ ۶۸ فیصد کو ذات کی بنیاد پر بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

شیمالی اور رام کمار کو ایک ہفتہ تک ناخوش گوار تجربے کا سامنا کرنا پڑا، اور چھٹی دینے کی ضد کرنے کے بعد ہی انہیں اس سے چھٹکارہ ملا۔ تب تک، اسپتال کا بل بھرنے کے لیے رام کمار اپنے رشتہ داروں سے ۵۰ ہزار روپے کا قرض لے چکے تھے۔ ’’میرے بیٹے کو جب وہاں سے چھٹی دی جا رہی تھی، تب بھی ڈاکٹر نے یہی کہا کہ ’اگر اسے کچھ ہوتا ہے، تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی‘۔‘‘

جب کہ نیپال میں مانسروور کا تجربہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ گیٹا آئی ہاسپیٹل سے وہ پورے اطمینان اور بھروسے کے ساتھ واپس لوٹیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ڈاکٹر کافی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ کو نیپالی نہیں آتی ہے، تو وہ آپ سے ہندی میں بات کرنے کی کوشش کریں گے، بھلے ہی ان کی ہندی ٹھیک نہ ہو۔ وہ آپ کے تمام سالوں کا جواب دیں گے۔ ہندوستان میں، وہ غریبوں کا علاج حقارت سے کرتے ہیں۔ اس ملک میں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘‘

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ملے ایک آزاد صحافتی گرانٹ کے ذریعے، صحت عامہ اور شہری آزادی کے امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورتاژ کے متن پر اداریہ سے متعلق کوئی کنٹرول نہیں رکھا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez