مہاراشٹر کے کولہاپور ضلع میں ہاتکنگلے تعلقہ کے کھوچی گاؤں کے کسانوں کے لیے ابھی بہت سال نہیں گزرے ہیں، جب ان کی آپس میں اس بات کو لے کر مقابلہ آرائی ہوا کرتی تھی کہ ایک ایکڑ کھیت میں زیادہ گنّے کون اُگائے گا۔ یہ روایت تقریباً ۶۰ سال پرانی تھی۔ یہ ایک دوستانہ اور صحت مند مقابلہ تھا جس سے کھیتی میں مصروف ہر آدمی مستفید ہوتا تھا۔ کچھ کسان تو فی ایکڑ ۸۰ ہزار سے ایک لاکھ کلو گنّا تک اُگا لیتے تھے۔ یہ عام پیداوار سے ڈیڑھ گنا زیادہ تھا۔
حالانکہ، یہ روایت اگست ۲۰۱۹ میں اچانک تب ختم ہو گئی، جب گاؤں کے کئی علاقے سیلاب کے پانی میں ۱۰ دنوں تک ڈوبے رہے اور گنّے کی کھیتی کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔ دو سال بعد جولائی ۲۰۲۱ میں زبردست بارش اور سیلاب نے پھر سے کھوچی کی گنّا اور سویابین کی فصل کو بھاری نقصان پہنچایا۔
کاشتکار اور کھوچی کی باشندہ گیتا پاٹل (۴۲ سال) کہتی ہیں، ’’اب کسان آپس میں اچھی پیداوار کی شرط نہیں لگاتے، بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ کم از کم ان کا آدھا گنّا برباد ہونے سے بچ جائے۔‘‘ گیتا کو کبھی ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے گنے کی پیداوار بڑھانے کے لیے تمام ضروری تکنیکیں جان لی ہیں۔ لیکن، دو بار کے ان سیلابوں میں ان کے ۸ لاکھ کلو کا گنّا برباد ہو گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’کہیں کچھ ضرور غلط ہوا ہے۔‘‘ لیکن، ان کے ذہن میں اسباب کے طور پر ماحولیاتی تبدیلی کی بات شاید کہیں نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’سال ۲۰۱۹ کے سیلاب کے بعد سے برسات کا رویہ پوری طرح سے بدل گیا ہے۔‘‘ سال ۲۰۱۹ تک ان کا روزمرہ کا معمول پوری طرح سے متعین ہوا کرتا تھا۔ اکتوبر-نومبر میں گنّے کی کٹائی کے بعد وہ سویابین، بھوئی مونگ (مونگ پھلی)، چاول کی الگ الگ قسمیں، ہائبرڈ جوار یا باجرا جیسی فصلیں اگایا کرتی تھیں، تاکہ مٹی کو اس کی غذائیت حاصل ہوتی رہے۔ ان کی زندگی اور کام میں سب کچھ پہلے سے متعینہ اور سوچا سمجھا ہوا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔
’’اس سال ۲۰۲۲ میں مانسون ایک مہینہ کی تاخیر سے آیا۔ لیکن جب برسات شروع ہوئی، تو مہینہ بھر کے اندر سارے کھیت ڈوب گئے۔‘‘ اگست میں زبردست بارش کی وجہ سے قابل کاشت زمین کا ایک بڑا حصہ دو ہفتے تک پانی میں ڈوبا رہا۔ گنّے لگانے والے کسانوں کو اس سے بھاری نقصان ہوا، کیوں کہ حد سے زیادہ پانی نے فصل کو بڑھنے سے روک دیا اور انہیں خراب بھی کر دیا۔ پانی کی سطح کے زیادہ بڑھنے کی صورت میں پنچایت نے لوگوں کو آگاہ کرتے ہوئے ان کو اپنا گھر خالی کر دینے کی وارننگ بھی دی۔
شکر ہے کہ گیتا نے ایک ایکڑ کھیت میں جو دھان لگایا تھا، وہ اس سیلاب میں بچ گیا اور انہیں امید تھی کہ اکتوبر میں اس کی پیداوار اور آمدنی دونوں ٹھیک ٹھاک رہے گی۔ لیکن، اکتوبر میں بے موسم بارش (جسے اس علاقہ کے لوگ ’دھاگ پھوٹی‘ یا بادل کا پھٹنا کہتے ہیں) نے، ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اکیلے کولہاپور ضلع کے ۷۸ گاؤوں کے تقریباً ایک ہزار ہیکٹیئر کھیت کو تباہ و برباد کر دیا۔
’’ہمارا تقریباً آدھا چاول برباد ہو گیا،‘‘ گیتا بتاتی ہیں اور ساتھ ہی یہ جوڑنا بھی نہیں بھولتیں کہ بھاری بارش میں جو تھوڑا بہت گنّا کھڑا بھی رہ گیا ہے، اس سے بہت کم پیداوار ہونے کی امید ہے۔ ان کی مشکلیں یہیں ختم نہیں ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’بطور کاشتکار ہمیں اپنی پیداوار کا ۸۰ فیصد کھیت کے مالک کو دینا پڑتا ہے۔‘‘
گیتا اور ان کی فیملی چار ایکڑ میں گنّے کی کھیتی کرتے ہیں۔ عام دنوں میں، پیداوار کم از کم ۳۲۰ ٹن ہوا کرتی تھی، جنمیں سے وہ اپنے حصے کا صرف ۶۴ ٹن ہی لے سکتے ہیں؛ بقیہ فصل پر کھیت کے مالک کا حق ہوتا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ۶۴ ٹن گنّے کی قیمت ۱۷۹۲۰۰ روپے ہوتی ہے، اور اس کے لیے فیملی کے کم از کم چار ممبران کو ۱۵ مہینے کی کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ کھیت کا مالک جو صرف پیداوار کا خرچ برداشت کرتا ہے، منافع کے طور پر ۷۱۶۸۰۰ روپے کی موٹی کمائی کرتا ہے۔
سال ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۲ کے سیلاب میں جب گنے کی پوری فصل برباد ہو گئی، تو گیتا کی فیملی کو ایک بھی روپے کی آمدنی نہیں ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ گنّا اگانے کے عوض انہیں مزدوری کے پیسے بھی نہیں ملے۔
گنّے پر خرچ کی گئی رقم کے نقصان کے علاوہ انہیں ایک اور بڑا دھکہ تب لگا، جب اگست ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کی وجہ سے ان کا گھر بھی جزوی طور پر ٹوٹ گیا تھا۔ گیتا کے شوہر تاناجی بتاتے ہیں، ’’اس کی مرمت میں ہمیں تقریباً ۲۵ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ جب کہ سرکار سے ہمیں صرف ۶۰۰۰ روپے کا معاوضہ ملا تھا۔‘‘ سیلاب کے بعد تاناجی بھی ہائی بلڈ پریشر کی چپیٹ میں آ گئے۔
سال ۲۰۲۱ میں دوبارہ آئے سیلاب نے ان کے گھر کو پھر سے نقصان پہنچایا اور ان کی پوری فیملی کو آٹھ دن کے لیے دوسرے گاؤں میں پناہ لینا پڑا۔ اس بار فیملی گھر کی مرمت کرانے لائق بھی نہیں رہ گئی تھی۔ گیتا کہتی ہیں، ’’آج بھی آپ اگر دیواروں کو چھوئیں گے، تو سیلن کی وجہ سے وہ بھربھری ملیں گی۔‘‘
سیلاب کی خوفناک یادیں لوگوں کے ذہن میں ابھی بھی تازہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب بھی بارش ہوتی ہے اور پانی چھت سے ٹپکتا ہے، ہر ایک بوند مجھے سیلاب کی تباہی کی یاد دلاتی ہے۔ جب اس سال [۲۰۲۲] اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں موسلا دھار بارش ہوئی تھی، تب میں ایک ہفتہ تک ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔‘‘
گیتا کی فیملی نے ۲۰۲۱ کے سیلاب میں اپنی دو مہسانہ بھینسیں بھی کھو دیں، جن کی قیمت تقریباً ۱۶۰۰۰۰ روپے تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سے ہمیں روزانہ کی اس آمدنی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا جو دودھ بیچنے سے ہمیں ہوا کرتی تھی۔‘‘ اب فیملی میں ایک دوسری بھینس ۸۰ ہزار روپے میں خرید کر لائی گئی ہے۔ بھینس خریدنے کے پیچھے کی وجہوں کو بیان کرتے ہوئے گیتا کہتی ہیں، ’’جب موسلا دھار بارش اور راستے خراب ہونے کے سبب کھیتوں میں آپ کے کرنے لائق کوئی کام نہیں ہوتا، تب لوگوں کو اپنی واحد آمدنی کے لیے مویشیوں کے دودھ پر ہی منحصر رہنا پڑتا ہے۔‘‘ فیملی کے لوگوں کو دو وقت کی روٹی مل سکے، اس مقصد سے وہ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی ہیں، لیکن آس پاس زیادہ کام بھی دستیاب نہیں ہے۔
گیتا اور تاناجی نے سیلف ہیلپ گروپ اور سود پر قرض دینے والے مہاجنوں سمیت مختلف ذرائع سے ۲ لاکھ روپے کا قرض بھی لیا ہوا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے فصلوں کے برباد ہونے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے انہیں اب اس بات کی فکر ہے کہ وقت پر قرض نہیں چکا پائیں گے اور ان پر سود کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔
برسات کے رنگ ڈھنگ، پیداوار کی حفاظت اور آمدنی میں استحکام کے بارے میں غیر یقینی صورتحال نے گیتا کی صحت پر منفی اثر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’جولائی ۲۰۲۱ کے سیلاب کے بعد میں نے محسوس کیا ہے کہ میرے عضلات (پٹھے) کمزور پڑنے لگے ہیں، میرے جوڑوں میں ایک تناؤ رہنے لگا ہے، اور مجھے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے چار مہینے تک اس امید میں ان علامتوں کی اندیکھی کر دی کہ کچھ وقت کے بعد خود ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وہ کہتی ہیں، ’’ایک دن میری پریشانیاں اتنی ناقابل برداشت ہو گئیں کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔‘‘ جانچ کے بعد پتہ چلا کہ گیتا کو ہائپر تھائرائڈزم تھا۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ بہت زیادہ تناؤ اور فکرمندی کی وجہ سے ان کی صحت تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ تقریباً سال بھر سے گیتا کو ۱۵۰۰ روپے ہر مہینے اپنی دواؤں پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا علاج اگلے ۱۵ مہینوں تک مزید جاری رہنے کی امید ہے۔
کولہاپور کے سیلاب متاثرہ چکھلی گاؤں میں تعینات کمیونٹی ہیلتھ کیئر آفیسر، ڈاکٹر مادھوری پنہالکر کہتی ہیں کہ اس علاقے میں سیلاب کے بعد کی پریشانیوں کے بارے میں بات کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے مالی دباؤ اور جذباتی تناؤ کا حل تلاش کرنے میں ان کی ناقابلیت بھی لوگوں کی بات چیت کی ایک بڑی تشویش ہے۔ کرویر تعلقہ کا یہ گاؤں ان چنندہ گاؤوں میں سے ایک ہے جو پانی کی سطح بڑھنے کی صورت میں سب سے پہلے ڈوبتا ہے۔
کیرالہ میں ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کے چار مہینے بعد ریاست کے سیلاب متاثرہ پانچ ضلعوں میں ۳۷۴ کنبوں کے سرپرستوں پر کی گئی تحقیق میں یہ پایا گیا کہ جن لوگوں کو زندگی میں دو سیلابوں کے خوفناک تجربات سے گزرنا پڑا ہے ان کے اندر لاچار ہونے کا جذبہ (پہلے واقع ہو چکے کسی حادثہ کے دوبارہ تجربہ سے پیدا ہوئی منفی حالت کے تئیں ایک مایوس کن ذہنی حالت) ان کے مقابلے زیادہ ہے جنہیں ایک ہی سیلاب کی ہولناکی سے گزرنا پڑا ہے۔
نتیجہ کے طور پر تحقیقی مقالہ میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ’’لگاتار قدرتی آفت کے شکار لوگوں کو منفی نفسیاتی نتائج سے بچاؤ کے لیے ان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
کولہاپور کے گاؤوں میں ہی نہیں، بلکہ دیہی ہندوستان میں رہنے والے ۳ء۸۳ کروڑ (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق) لوگوں کے لیے دماغی صحت سے متعلق خدمات حاصل کر پانا ابھی بھی بہت مشکل کام ہے۔ ڈاکٹر پنہالکر کہتی ہیں، ’’ہمیں دماغی صحت کے مسائل میں مبتلا لوگوں کو علاج کے لیے ضلع اسپتال ریفر کرنا ہوتا ہے، جب کہ ہر کوئی اتنی دور آنے جانے کا خرچ برداشت نہیں کر پاتا ہے۔‘‘
دیہی صحت کی شماریات ۲۱-۲۰۲۰ کے مطابق، فی الحال دیہی ہندوستان میں صرف ۷۶۴ ضلع اسپتال اور ۱۲۲۴ ذیلی ضلع اسپتال ہیں، جہاں ماہر نفسیات اور معالجاتی ماہر نفسیات تعینات ہیں۔ ڈاکٹر پنہالکر کہتی ہیں، ’’ہمیں اگر ذیلی مراکز میں نہیں بھی تو کم از کم ہر ایک ابتدائی طبی مرکز (پرائمری ہیلتھ سینٹر یا پی ایچ سی) پر دماغی صحت سے متعلق خدمات سے جڑے پیشہ وروں کی ضرورت ہے۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے ۲۰۱۷ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں فی ایک لاکھ لوگوں کی آبادی پر ایک سے بھی کم (صفر اعشاریہ صفر سات) ماہر نفسیات ہیں۔
*****
شیوبائی کامبلے (۶۲ سال)، ارجن واڑ میں اپنی مذاقیہ فطرت کی وجہ سے مشہور ہیں۔ شبھانگی کامبلے، جو کولہاپور کے اس گاؤں میں ایک منظوری یافتہ سماجی صحت کارکن (آشا) ہیں، کہتی ہیں، ’’وہ واحد زرعی مزدور ہیں، جی ہست کھیلت کام کرتے (جو ہنستے کھیلتے کام کرتی ہیں)۔‘‘
اس کے باوجود، ۲۰۱۹ کے سیلاب کے تین مہینے کے اندر ہی شیوبائی ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا پائی گئیں۔ ’’گاؤں کا ہر ایک آدمی حیران تھا، کیوں کہ لوگ انہیں ایک ایسی عورت کے طور پر جانتے تھے جو کبھی تناؤ کا شکار نہیں ہو سکتی تھیں،‘‘ شبھانگی کہتی ہیں، جو خود خوش رہنے کے لیے ان کے طریقے آزماتی تھیں۔ اسی وجہ سے وہ ۲۰۲۰ کی شروعات میں کسی وقت شیوبائی کے رابطہ میں آئی تھیں اور بعد کے مہینوں میں دونوں میں گہری دوستی ہو گئی تھی۔
شبھانگی یاد کرتی ہیں، ’’وہ اپنی پریشانیاں آسانی سے شیئر نہیں کرتی تھیں اور ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔‘‘ بہرحال، شیوبائی کی لگاتار خراب ہوتی صحت اور ساتھ میں سر چکرانے اور بخار کے دوروں کے سبب یہ واضح تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ مہینوں کی بات چیت کے بعد آشا کارکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچیں کہ شیوبائی کی حالت کا ذمہ دار بار بار آنے والا سیلاب تھا۔
سال ۲۰۱۹ کے سیلاب نے شیوبائی کے کچے مکان کو تباہ و برباد کر دیا۔ گھر کا ایک چھوٹا حصہ اینٹ اور بقیہ حصہ گنے کے خشک پتوں، جوار کی ڈنٹھلوں اور پوال کا بنا تھا۔ تب ان کے گھر والوں نے اس امید کے ساتھ ٹن کے کمرے بنانے میں ایک لاکھ روپے خرچ کیے کہ نیا گھر دوسرے سیلاب کو جھیل جائے گا۔
حالانکہ، دہاڑی ملنے کے دنوں میں آئی گراوٹ کی وجہ سے فیملی کی آمدنی میں بھی کمی آ گئی ہے، جس نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ دسمبر کے وسط سے اکتوبر ۲۰۲۲ کے آخر تک، کھیتوں کے پانی میں ڈوبنے اور ان تک پہنچنے والے راستوں کے خراب ہونے کی وجہ سے شیوبائی ایک زرعی مزدور کے طور پر کام حاصل نہیں کر سکیں۔ اپنی فصلوں کی بربادی کے بعد کسانوں نے زرعی مزدوروں پر پیسے خرچ کرنے کو غیر ضروری سمجھا۔
وہ کہتی ہیں، ’’آخرکار، عین دیوالی سے پہلے میں نے کھیتوں میں تین دن تک کام کیا، لیکن بارش دوبارہ لوٹ آئی اور میرے سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔‘‘
آمدنی میں استحکام کی کمی کے سبب شیوبائی ٹھیک سے اپنا علاج بھی نہیں کرا پا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’کئی بار پیسوں کی کمی کی وجہ سے میری دوائیں چھوٹ جاتی ہیں۔‘‘
ارجن واڑ کی کمیونٹی ہیلتھ کیئر آفیسر (سی ایچ او)، ڈاکٹر انجلینا بیکر کہتی ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی غیر متعدی (این سی ڈی) بیماروں کے شکار لوگوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق، صرف ۲۰۲۲ میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے ۲۲۵ سے بھی زیادہ معاملے درج کیے گئے ہیں، جب کہ ارجن واڑ کی کل آبادی ۵۶۴۱ (مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق) ہی درج کی گئی ہے۔
’’حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی، لیکن بہت سے لوگ جانچ کرانے آتے ہی نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ لگاتار سیلاب آنے، آمدنی میں گراوٹ اور سوء تغذیہ کے سبب سڑکوں پر این سی ڈی میں تیزی سے اضافہ درج کیا گیا ہے۔ [یہ بھی پڑھیں: کولہاپور میں آشا کارکنوں کی اداس کہانی ]
ڈاکٹر بیکر کہتی ہیں، ’’سیلاب سے متاثرہ گاؤوں کے کئی بزرگوں میں خودکشی کی خواہش میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایسے واقعات بھی تیزی سے بڑھے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ٹھیک سے نیند نہ آنے کے معاملوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
ارجن واڑ کے صحافی اور پی ایچ ڈی کر چکے چیتنیہ کامبلے کے والدین ایک کاشتکار اور زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’کمزور پالیسیوں کی وجہ سے سیلاب کا سب سے زیادہ نقصان کاشتکاروں اور زرعی مزدوروں کو اٹھانا پڑا ہے۔ ایک کاشتکار اپنی پیداوار کا ۸۰-۷۵ فیصد کھیت کے مالک کو دے دیتا ہے، اور جب سیلاب میں فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں، تو معاوضہ کھیت کا مالک لے اڑتا ہے۔‘‘
ارجن واڑ کے تقریباً سبھی کسان اپنی فصل سیلاب کی وجہ سے کھو دیتے ہیں۔ چیتنیہ کہتے ہیں، ’’فصل کے تباہ ہونے کی اداسی تب تک نہیں جاتی ہے، جب تک دوبارہ اچھی فصل نہیں لہلہانے لگتی ہے، لیکن سیلاب نے ہماری فصلوں کو برباد کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ تشویش قرض کی قسطیں ادا نہ کر پانے کی مجبوری میں کئی گنا اور بڑھ جاتی ہے۔‘‘
حکومت مہاراشٹر کے محکمہ زراعت کے مطابق، قدرتی آفات نے جولائی اور اکتوبر ۲۰۲۲ کے درمیان ریاست کے ۶۸ء۲۴ لاکھ ہیکٹیئر قابل کاشت زمین کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ اکیلے اکتوبر مہینہ میں یہ مقدار ۵ء۷ لاکھ ہیکٹیئر کے رقبہ کو چھو رہی تھی اور ریاست کے ۲۲ ضلعوں کی قابل کاشت زمین اس کی چپیٹ میں تھی۔ مہاراشٹر میں ۲۸ اکتوبر ۲۰۲۲ تک ۱۲۸۸ ملی میٹر بارش درج کی جا چکی تھی، جو اوسط بارش کا ۵ء۱۲۰ فیصد ہے۔ جون اور اکتوبر کے مہینے میں بارش کی مقدار ۱۰۶۸ ملی میٹر درج کی گئی تھی۔ [یہ بھی پڑھیں: راحت کی بجائے مصیبت لے کر آئی بارش ]
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) ممبئی کے پروفیسر سبیمل گھوش، جنہوں نے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق رپورٹ کے لیے قائم کردہ بین حکومتی پینل میں بھی اپنا تعاون دیا ہے، کہتے ہیں، ’’ہم ماہرین موسمیات ہمیشہ پیشن گوئیوں کے نظام کو تیار کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں، لیکن ان پیشن گوئیوں کے موافق پالیسیاں بنانے کے معاملے میں ہم پوری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘‘
ہندوستانی محکمہ موسمیات نے صحیح پیشن گوئی کرنے کی سمت میں شاندار پیش رفت کی ہے۔ لیکن ان کے مطابق، ’’مگر کسان اس کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں، کیوں کہ وہ اسے پالیسی سازی میں تبدیل کر پانے کے قابل نہیں ہیں۔ فصلوں کو اس کے بغیر بچا پانا ناممکن ہے۔‘‘
پروفیسر گھوش ایک ایسے ماڈل کے حمایتی ہیں جو کسانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے شراکت داری کے نظام پر چلتا ہو، اور موسم کی غیر یقینیت کو صحیح طریقے سے کنٹرول کرنے کے منصوبہ پر مبنی ہو۔ وہ کہتے ہیں، ’’صرف صحیح صحیح نقشہ (سیلاب کا) تیار کر لینے سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے ملک کے لیے موافقیت سب سے زیادہ ضروری ہے، کیوں کہ ہم موسم کے اثرات کو دیکھ پا رہے ہیں۔ لیکن ہماری آبادی کے زیادہ تر حصے میں خود کو ماحول کے موافق ڈھالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔‘‘ ہمیں اپنی اس صلاحیت کو زیادہ پختہ بنانے کی ضرورت ہے۔‘‘
*****
۴۵ سالہ بھارتی کامبلے کا وزن جب گھٹ کر تقریباً آدھا ہو گیا، تب ان کی توجہ اس طرف گئی اور انہیں اپنے مسئلہ کا احساس ہوا۔ آشا کارکن شبھانگی نے ارجن واڑ کی رہنے والی اس زرعی مزدور کو ڈاکٹر سے ملنے کی صلاح دی۔ مارچ ۲۰۲۰ میں جانچ کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہائپرتھائرائڈزم میں مبتلا ہیں۔
گیتا اور شیوبائی کی طرح بھارتی بھی یہ مانتی ہیں کہ انہوں نے ابتدائی علامتوں کی اندیکھی کی تھی کہ یہ تناؤ انہیں سیلاب کے خوف کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سال ۲۰۱۹ اور ۲۰۲۱ کے سیلاب میں ہم نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ جب میں پاس کے گاؤں میں بنائے گئے سیلاب راحت کیمپ سے واپس لوٹی، تو میرے گھر میں اناج کا ایک دانہ تک نہیں تھا۔ سیلاب ہمارا سب کچھ بہا لے گیا تھا۔‘‘
سال ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب کے بعد انہوں نے سیلف ہیلپ گروپس اور مہاجنوں سے اپنا گھر دوبارہ بنوانے کے لیے ۳ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ دو شفٹ میں کام کرکے وہ وقت پر اپنا قرض چکا دیں گی اور اس طرح سود کے بھاری بوجھ کے نیچے دبنے سے خود کو بچا لیں گی۔ لیکن، شیرول تعلقہ کے گاؤوں میں مارچ-اپریل ۲۰۲۲ میں چلی خطرناک لو (گرم ہوا) نے حالات کو مزید سنگین بنا دیا۔
وہ بتاتی ہیں، ’’خود کو سخت اور گرم دھوپ سے بچانے کے لیے میرے پاس ایک سوتی تولیہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘ وہ بچاؤ بھی صرف نام کا تھا، اور جلد ہی انہیں چکر آنے شروع ہو گئے۔ چونکہ وہ گھر پر بیٹھ کر نہیں رہ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے درد روکنے والی گولیاں لینی شروع کر دیں، تاکہ ان کا کھیتوں میں مزدوری کرنا جاری رہے۔
انہیں امید تھی کہ مانسون آنے کے بعد اچھی فصل ہوگی اور ان کے لیے کاموں کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ ’’لیکن ان تین مہینوں میں (جولائی ۲۰۲۲ سے) مجھے ۳۰ دن کا کام بھی نہیں مل پایا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
بے موسم کی بارش سے فصلوں کی بربادی کے بعد کولہاپور میں سیلاب متاثرہ گاؤوں کے بہت سے کسانوں نے لاگت میں کٹوتی کرنے کے طریقے اپنائے۔ چیتنیہ بتاتے ہیں، ’’لوگوں نے زرعی مزدوروں کو رکھنے کی بجائے گھاس پھوس کو بڑھنے سے روکنے والی دواؤں کا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ زرعی مزدوروں کو اسے کاٹنے کے لیے اوسطاً ۱۵۰۰ روپے چکانے پڑتے ہیں، جب کہ چھڑکنے والی دوا ۵۰۰ روپے سے بھی کم میں آ جاتی ہے۔‘‘
اس کے خطرناک نتائج سامنے آئے ہیں۔ انفرادی سطح پر اس کا مطلب بھارتی جیسے لوگوں کے لیے کام کے مواقع کم ہونا ہے، جنہیں پہلے سے ہی متعدد مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس اضافی ذہنی تشویش نے بھارتی کے ہائپرتھائرائڈزم کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
کھیتوں پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے۔ شیرول کی زرعی افسر سوپنیتا پڈلکر کہتی ہیں کہ ۲۰۲۱ میں تعلقہ کے ۹۴۰۲ ہیکیٹئر (۲۳۲۳۲ ایکڑ) کھیتوں کی مٹی کو نمکین پایا گیا۔ ان کے مطابق، کیمیاوی کھادوں اور حشرہ کش کے بے تحاشہ استعمال، سینچائی کا بے ترتیب نظام اور ایک ہی فصل اگانے کی عادت نے مٹی کی زرخیزی پر برا اثر ڈالا ہے۔
سال ۲۰۱۹ کے سیلاب کے بعد سے ہی کولہاپور کے شیرول اور ہاتکنگلے تعلقہ کے کئی کسانوں نے کیمیاوی کھادوں کا استعمال خطرناک طریقے سے بڑھا دیا ہے۔ ’’تاکہ سیلاب آنے سے پہلے ہی فصل کی کٹائی پوری ہو سکے،‘‘ چیتنیہ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر بیکر کے مطابق، گزشتہ کچھ سالوں میں ارجن واڑ کی مٹی میں آرسینک کی مقدار میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ وہ بھی یہی کہتی ہیں، ’’اس کی بنیادی وجہ کیمیاوی کھادوں اور زہریلے حشرہ کش کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔‘‘
جب مٹی ہی زہریلی ہو جائے، تو اس کے منفی اثرات سے انسان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ ڈاکٹر بیکر بتاتی ہیں، ’’اس زہریلی مٹی کے سبب ہی اکیلے ارجن واڑ میں کینسر کے ۱۷ مریض ہیں، ان میں وہ مریض شامل نہیں ہیں جو آخری مرحلہ کے کینسر میں مبتلا ہیں۔‘‘ ان میں چھاتی کا کینسر، لیوکیمیا، بچہ دانی کا کینسر اور پیٹ کے کینسر کے مریض شامل ہیں۔ ڈاکٹر بیکر مزید کہتی ہیں، ’’لاعلاج بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جب کہ ابتدائی علامتوں کے بعد بھی مقامی لوگ ڈاکٹر سے رابطہ نہیں کرتے ہیں۔‘‘
تقریباً ۴۰ سال کی عمر پار کر چکیں کھوچی کی زرعی مزدور سنیتا پاٹل ۲۰۱۹ سے ہی پٹھوں اور گھٹنوں میں درد، تھکان اور سر میں چکر محسوس کر رہی ہیں۔ ’’میں نہیں جانتی کہ ایسا کن وجوہات سے ہو رہا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ لیکن انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی فکرمندی کا تعلق برسات سے ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بہت تیز بارش ہونے کے بعد مجھے نیند آنے میں پریشانی ہوتی ہے۔‘‘ ایک اور سیلاب کا خدشہ انہیں ہمیشہ خوفزدہ کرکے جگائے رکھتا ہے۔
مہنگے علاج سے ڈر کر سنیتا اور سیلاب سے متاثر کئی دوسری زرعی مزدور عورتیں درد روکنے والی دواؤں کا سہارا لیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ڈاکٹر کے پاس جانے کا خرچ اٹھانا ہمارے لیے ناممکن ہے، اس لیے ہمیں درد روکنے والی دواؤں پر منحصر رہنا پڑتا ہے، جس کی قیمت بہت کم ہوتی ہے۔ تقریباً ۱۰ روپے کے آس پاس۔‘‘
درد روکنے والی گولیاں عارضی طور پر بھلے ہی انہیں راحت دے دیں، لیکن گیتا، شیوبائی، بھارتی، سنیتا اور ان کے جیسی ہزاروں دوسری عورتیں مسلسل بے یقینی کی حالت اور خوف کے سایے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
گیتا کہتی ہیں، ’’ہم ابھی تک سیلاب کے پانی میں نہیں ڈوبے ہیں، لیکن روز بروز سیلاب کے خوف میں ضرور ڈوب رہے ہیں۔‘‘
یہ اسٹوری انٹرنیوز ارتھ جرنلزم نیٹ ورک کے ذریعے امداد یافتہ سیریز کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ فراہم کیا گیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز