یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔
سنبھالتیں گھر اور اپنی زندگی
وہ صبح کے ساڑھے چار بجے سے جگی ہوئی ہیں۔ اور ایک گھنٹہ بعد، چھتیس گڑھ کے سرگوجا جنگل سے تیندو پتے توڑ رہی ہیں۔ دن کے اِس وقت، ریاست بھر میں ان کے جیسے ہزاروں آدیواسی یہی کام کر رہے ہیں۔ بیڑی بنانے میں استعمال ہونے والے اِن پتّوں کو توڑنے کے لیے، پوری فیملی ایک اکائی کے طور پر کام کرتی ہے۔
دن اگر اچھا رہا، تو ان کی چھ رکنی فیملی ۹۰ روپے تک کما سکتی ہے۔ تیندو کے سیزن کے دو بہترین ہفتوں کے اندر وہ جتنا زیادہ کما لیتے ہیں، اُتنا اگلے تین مہینوں میں نہیں کما پاتے۔ اس لیے جب تک یہ پتّے موجود رہتے ہیں، وہ اِن سے زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چھ ہفتے بعد، انہیں معاش کے لیے ایک نئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ اس علاقے میں رہنے والی تقریباً ہر فیملی اس وقت جنگل میں دکھائی دے رہی ہے۔ تیندو پتّے آدیواسی معیشت کے لیے نہایت اہم ہیں۔
اسی طرح، مہوا کے پھول چُننے کا کام بھی کافی اہم ہے۔ املی جمع کرنا بھی۔ یا چرونجی اور سال۔ ملک کے کچھ حصوں میں آدیواسی فیملی، اپنی آدھی سے زیادہ آمدنی کے لیے بغیر لکڑیوں والی دیگر جنگلاتی پیداوار (این ٹی ایف پی) پر منحصر رہتی ہے۔ لیکن انہیں پیداوار کی قیمت کا معمولی حصہ ہی مل پاتا ہے۔ اکیلے مدھیہ پردیش میں، اس قسم کی پیداوار کی قیمت سالانہ کم از کم ۲ ہزار کروڑ روپے ہے۔
حقیقی اعداد و شمار کا ملنا مشکل ہے، کیوں کہ ریاستی حکومت نے اب جنگلات کی گھیرابندی کر دی ہے۔ لیکن، قومی سطح پر این ٹی ایف پی کی قیمت ۱۵ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔
آدیواسی عورتوں اور ان کی فیملی کو اس میں سے بہت کم ملتا ہے۔ ان کے لیے یہ زندگی کا سہارا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے بھی کافی نہ ہو۔ اصلی کمائی بچولیوں، تاجروں، اور ساہوکاروں وغیرہ کی ہوتی ہے۔ لیکن این ٹی ایف پی کو اکٹھا کرنے، پروسیس کرنے، اور بازار تک پہنچانے کا کام کون کرتا ہے؟ دیہی عورت ہی تو کرتی ہے۔ وہ اس قسم کی جنگلاتی پیداوار کو بڑی مقدار میں جمع کرتی ہے۔ اس میں ادویاتی جڑی بوٹیاں بھی شامل ہیں، جو کہ عالمی سطح پر اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔ ایک طرف جہاں یہ کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہیں دوسری طرف ان عورتوں اور ان کی فیملی کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے وہ نیٹ ورک ذمہ دار ہے، جو ان کی محنت کا بے جا فائدہ اٹھاتا ہے۔
جنگلاتی زمین جتنی کم ہو رہی ہے، ان عورتوں کے لیے کام بھی اتنے ہی مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے چلنے کے راستے اور کام کے گھنٹے لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ آدیواسی برادریوں میں غریبی جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے این ٹی ایف پی پر ان کا انحصار بھی بڑھ رہا ہے۔ اور ان کی ذمہ داریاں بھی۔ اوڈیشہ میں اس قسم کا کام کرنے والی عورتیں ایک دن میں تین سے چار گھنٹے پیدل چلتی ہیں۔ وہ ۱۵ گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک کام میں مصروف رہتی ہیں۔ ملک بھر کی لاکھوں غریب آدیواسی عورتیں، معاش کے لیے جدوجہد کر رہی اپنی فیملی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس عمل میں انہیں جنگل کے محافظوں، تاجروں، پولیس، مخالف انتظامیہ، اور اکثر نامناسب قوانین کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جھاڑو بناتی یہ عورتیں آندھرا پردیش کے وجیا نگرم کی ہیں۔ ریاست کے بہت سے آدیواسی خاندانوں کی آدھی سے زیادہ آمدنی براہِ راست بغیر لکڑی والی جنگلاتی پیداوار کو فروخت کرنے سے ہوتی ہے۔ غیر آدیواسی برادری کے بہت سے غریبوں کو بھی معاش کے لیے این ٹی ایف پی کی ضرورت پڑتی ہے۔
مدھیہ پردیش کے بندیل کھنڈ کی یہ عورت ہر فن مولا ہے۔ وہ صرف برتن بنانے اور ان کی مرمت کا کام ہی نہیں کرتی ہیں۔ یہ تو ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ وہ رسی، ٹوکری اور جھاڑو بھی بناتی ہیں۔ ان کے پاس اشیاء کا ایک حیران کن مجموعہ ہے۔ وہ بھی ایک ایسے علاقہ میں رہتے ہوئے، جہاں جنگل اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ مخصوص قسم کی گیلی مٹی کہاں ملے گی۔ ان کا علم اور کام لاجواب ہے؛ لیکن ان کی فیملی کی حالت قابل رحم ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز