یہ پینل تصاویر پر مبنی نمائش – ’کام ہی کام، عورتیں گُمنام‘ کا حصہ ہے، جس کے تحت دیہی خواتین کے ذریعے کیے جانے والے مختلف قسم کے کاموں کو دکھایا گیا ہے۔ یہ تمام تصویریں پی سائی ناتھ کے ذریعے سال ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۲ کے درمیان ملک کی ۱۰ ریاستوں کا دورہ کرنے کے دوران کھینچی گئی ہیں۔ یہاں، پاری نے ایک انوکھے انداز سے تصویر پر مبنی اس نمائش کو ڈیجیٹل شکل میں پیش کیا ہے۔ پہلے یہ نمائش کئی سالوں تک ملک کے زیادہ تر حصوں میں طبیعی طور پر لگائی جاتی رہی ہے۔

وہی گھر، وہی کام…

یہ عورت کھانا پکانے کا کام پہلے ہی کر چکی ہے۔ تمل ناڈو میں رہنے والی اس کی فیملی، گزر بسر کے لیے تاڑ سے گڑ بناتی اور بیچتی ہے۔ اس بڑے برتن میں وہ اُسی کو پکا رہی ہے۔ اس کے ذریعے کی گئی تھوڑی سی غلطی بھی، اس فیملی کی اگلے کچھ دنوں کی آمدنی چھین سکتی ہے۔

اس کام کو کرنے میں اسے ابھی تھوڑا وقت لگے گا۔ اتنا ہی وقت کھانا پکانے میں بھی لگا تھا۔ اسے دن بھر کوئی نہ کوئی کام کرتے وقت، کئی گھنٹے دھوئیں میں سانس لیتے ہوئے گزارنے پڑتے ہیں۔ اور ایک عورت کے طور پر اس کے ذمے دن بھر کے جتنے کام ہیں، ان میں یہ سب سے اہم ہے۔ چونکہ یہ کام اس کے اوپر چھوٹی عمر سے ہی تھوپ دیا گیا ہے، اس لیے اس کی طرح ہی لاکھوں لڑکیاں بہت جلد اسکول کی پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: پی سائی ناتھ کہتے ہیں، ’میں نے یہ تصویر اس لیے کھینچی، کیوں کہ اس میں کوئی انسان نہیں ہے؛ اور اگر آپ کو وہاں کسی انسان کے ہونے کا تصور کرنا ہو، تو آپ کے ذہن میں ایک عورت کا ہی عکس بنے گا‘

گھر میں بہت سارے کام ہوتے ہیں۔ آندھرا پردیش کے وجیہ نگرم میں وہ نوجوان عورت (نیچے)، جو اپنے سر پر ٹوکری لے کر جا رہی ہے، اسے گھر جا کر ابھی کھانا پکانا ہے۔ اس نے کھیتوں میں گھنٹوں تک، کھانا پکانے اور دیگر کاموں کے لیے ایندھن اکٹھا کیا ہے۔ اس کی پڑوسن نے کھانا بنانا پہلے ہی شروع کر دیا ہے، حالانکہ وہ ایک کھلی جگہ پر یہ کام کر رہی ہے۔

پڑوسن تھوڑی خوش قسمت ہے۔ کئی عورتیں بغیر کھڑکی والی چھوٹی جگہوں پر کھانا پکاتی ہیں۔ اور کھانا پکاتے وقت چولہے میں جلتے ایندھن سے نکلنے والے دھوئیں کا سامنا کرتی ہیں۔ یہ دھنواں آلودہ کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، جس کا سامنا صنعتی مزدور کرتے ہیں۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

اتر پردیش کے غازی پور میں، یہ عورت (اوپر بائیں) اناج کوٹنے کا کام کر رہی ہے۔ یہ کام جتنا آسان دکھائی دیتا ہے، اس میں اس سے کہیں زیادہ طاقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ کھانے کی تیاری یا خوراک کی ڈبہ بندی سے متعلق متعدد کاموں میں سے ایک ہے، جسے وہ کر رہی ہے۔ کھانا تیار کرنے سے متعلق زیادہ تر کام عورتیں ہی کرتی ہیں۔ اتنے سارے کام اور بچوں کی پرورش کے علاوہ، انہیں مویشیوں کی بھی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔

ان کے دیگر کاموں میں شامل ہے کپڑے دھونا، پسائی کرنا، سبزیاں کاٹنا، برتن صاف کرنا، اور مختلف اوقات میں گھر کے متعدد ارکان کو کھانا کھلانا۔ بیمار رشتہ داروں کی دیکھ بھال ہمیشہ انھیں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان تمام کاموں کو ’خواتین کے کام‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور اس کے بدلے میں انہیں پیسے نہیں ملتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیہی عورتیں، شہری عورتوں سے الگ نہیں ہیں۔ لیکن پانی اور ایندھن کے لیے لمبی دوری طے کرنا اور کھیتوں میں مختلف قسم کے کام، دیہی خواتین کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

جیسا کہ جھارکھنڈ کے پلامو ضلع کی آدیواسی عورت (اوپر کی تصویر میں سب سے دائیں) پکانے کے لیے گیٹھی (یعنی قند) صاف کر رہی ہے۔ خشک سالی کے دنوں میں انہیں حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ اسے جمع کرنے کے لیے اس نے صبح کا زیادہ تر وقت جنگل میں گزارا ہے۔ پانی لانے میں وہ پہلے ہی اپنا کافی وقت صرف کر چکی ہے، لیکن اور پانی لانے کے لیے اسے شاید ایک اور چکّر لگانا پڑے گا۔ ان کاموں کو انجام دیتے وقت راستے میں، اسے اپنے گاؤں کے آس پاس پھیلے بالو ماتھ جنگل میں جنگلی جانوروں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

عورتیں سب سے آخر میں کھاتی ہیں، اور سب سے کم بھی۔ وہ آرام بھی بہت کم کرتی ہیں۔ اس لیے، جسم کی پوری طاقت نچوڑ لینے والے اس روزمرہ کے معمول سے ان کی صحت بگڑ جاتی ہے۔

PHOTO • P. Sainath
PHOTO • P. Sainath

مترجم: محمد قمر تبریز

P. Sainath
psainath@gmail.com

P. Sainath is Founder Editor, People's Archive of Rural India. He has been a rural reporter for decades and is the author of 'Everybody Loves a Good Drought'.

Other stories by P. Sainath
Translator : Mohd. Qamar Tabrez
dr.qamartabrez@gmail.com

Mohd. Qamar Tabrez is the Translations Editor, Hindi/Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist, the author of two books, and was associated with newspapers like ‘Roznama Mera Watan’, ‘Rashtriya Sahara’, ‘Chauthi Duniya’ and ‘Avadhnama’. He has a degree in History from Aligarh Muslim University and a PhD from Jawaharlal Nehru University, Delhi.

Other stories by Mohd. Qamar Tabrez