بانسری کی تان نے سڑک کے کنارے ڈھابے پر بیٹھے کسانوں کے گروپ کا دھیان بھٹکا دیا تھا۔ یہ ۲۲ دسمبر کی ایک سرد صبح تھی اور کسان ناسک شہر سے تقریباً ۶۵ کلومیٹر دور چندواڑ قصبے میں چائے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ پر غنودگی طاری تھی اور کچھ ناشتے میں مِسَل پاو کا لطف اٹھا رہے تھے۔ لیکن کولہاپور ضلع کے جمبھالی گاؤں کے ۷۳ سالہ کسان نارائن گائیکواڈ بانسری بجا رہے تھے۔ وہ اپنے گھر سے ۵۰۰ کلومیٹر دور بھی اپنی صبح کی رسم ادا کرنا نہیں بھولے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’لوگ کہتے ہیں کہ دہلی کا احتجاج صرف پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں تک محدود ہے۔ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے۔‘‘

گائیکواڑ ۲۰۰۰ کسانوں، کھیت مزدوروں اور سماجی کارکنوں کے ایک گروپ کا حصہ تھے جو گاڑیوں کے ایک جتھے (قافلے) کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔ یہ سفر ۲۱ دسمبر کو ناسک سے شروع ہوا تھا۔ لیکن گائیکواڑ کا سفر اس سے ایک دن پہلے شروع ہو گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم سات لوگ ٹیمپو میں سوار ہوئے اور ۲۰ کی رات کو ناسک پہنچے۔ ہمیں وہاں پہنچنے میں تقریباً ۱۳گھنٹے لگے۔ عمر کے ساتھ سڑک کا سفر مشکل تر ہوتا جاتا ہے۔ لیکن میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں بھگت سنگھ کے ہندوستان کے خیال پر یقین رکھتا ہوں۔ کسانوں کے مسائل اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک انقلاب نہیں آ جاتا۔‘‘

لاکھوں کسانوں (جن میں زیادہ تعداد ہریانہ اور پنجاب سے آئے کسانوں کی ہے) نے دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کرنے کے لیے پولیس کے آنسو گیس برداشت کیے ہیں، لاٹھی چارج کا سامنا کیا ہے، سردی اور بارش کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ کسان ان تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جنہیں مرکزی حکومت نے پہلے ۵ جون ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کے طور پر جاری کیا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں بل کے طور پر پیش کیا، اور اسی مہینے کی ۲۰ تاریخ تک جلدبازی میں ایکٹ کے طور پر پاس کر دیا تھا۔

یہ قوانین ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

Left: Narayan Gaikwad came from Kolhapur to join the march. Right: Kalebai More joined the jatha in Umarane
PHOTO • Shraddha Agarwal
Left: Narayan Gaikwad came from Kolhapur to join the march. Right: Kalebai More joined the jatha in Umarane
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: نارائن گائیکواڑ کولہاپور سے مارچ میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے۔ دائیں: کالے بائی مورے اُمرانے میں جتھے میں شامل ہوئیں

آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے زیر اہتمام مہاراشٹر کے ۲۰ اضلاع سے جمع ہوئے کسانوں نے شمالی ہند کے اپنے ہم پیشہ لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ان کے احتجاج میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

۲۱ دسمبر کی دوپہر کو جب آل انڈیا کسان سبھا کے لیڈران ناسک کے گولف کلب گراؤنڈ میں جمع کسانوں سے خطاب کر رہے تھے، تو تقریباً ۵۰ ٹرک، ٹیمپو اور چار پہیہ گاڑیوں کا ایک قافلہ تیار کیا جا رہا تھا۔ فوراً ہی یہ قافلہ ۱۴۰۰ کلومیٹر کے سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔ چندواڑ ان کا پہلا پڑاؤ تھا۔ یہاں انہوں نے ایک سیکنڈری اسکول میں رات گزاری تھی۔ رات کے کھانے میں انہوں نے کھچڑی کھائی تھی، اور خود کو گرم رکھنے کے لیے ایک الاؤ روشن کیا تھا۔ پھر کمبل اوڑھ کر اور سویٹر پہن کر وہ اپنے اپنے بستروں پر سونے چلے گئے تھے۔

اس سفر کے لیے گائیکواڑ چار شالیں لائے تھے۔ صبح ناشتے میں اُپما کھاتے ہوئے انہوں نے مجھے بتایا، ’’ہم جیپ میں سفر کر رہے ہیں اور اس میں ہوا کافی تیز لگتی ہے۔‘‘ ہم چندواڑ سے ۲۰ کلومیٹر دور دیولا تعلقہ کے اُمرانے گاؤں میں تھے، جہاں جتھہ ناشتے کے لیے رکا تھا۔

گائیکواڑ اپنے گاؤں میں تین ایکڑ زمین کے مالک ہیں، جس میں وہ گنے کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کے پاس دو بھینسیں اور تین گائیں بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’زرعی بلوں میں سے ایک اے پی ایم سی [زرعی پیداوار کی مارکیٹ کمیٹیوں] کو بےاثر کرتا ہے، اور حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس میں مزید نجی اداروں کو لائے گی۔ ڈیئری سیکٹر میں کافی پرائیویٹ کھلاڑی موجود ہیں۔ پھر بھی ہمیں شاذ و نادر ہی کوئی منافع ملتا ہے۔ نجی کمپنیاں صرف اپنے منافع میں دلچسپی رکھتی ہیں۔‘‘

جب گائیکواڑ ناشتہ کر رہے تھے تو اسی وقت ۶۵ سالہ زرعی مزدور، کالے بائی مورے، کسی گاڑی میں اپنے لیے ایک سیٹ تلاش کرنے میں سرگرم تھیں۔ وہ اُمرانے میں جتھے میں شامل ہوئی تھیں۔ ’’تمام ٹیمپو بھرے ہوئے ہیں۔ وہ میرے لیے الگ سے گاڑی کا انتظام تو کریں گے نہیں۔ میں واقعی دہلی جانا چاہتی ہوں،‘‘ ان کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔

Top left: Left: The vehicles assembled at Golf Club Ground in Nashik. Top right: Farmers travelled in open-back tempos in the cold weather. Bottom: The group had dinner in Chandvad. They lit bonfires to keep themselves warm at night
PHOTO • Parth M.N.

اوپر بائیں: ناسک کے گولف کلب گراؤنڈ میں جمع گاڑیاں۔ اوپر دائیں: کسانوں نے سرد موسم میں ٹیمپو کے کھلے ٹریلر میں سفر کیا۔ نیچے: گروپ نے چندواڑ میں رات کا کھانا کھایا اور رات میں خود کو گرم رکھنے کے لیے الاؤ جلایا

گلابی رنگ کی ساڑی میں ملبوس، ناسک کے ڈِنڈوری تعلقہ کے شندواڑ گاؤں کی رہنے والی  کالے بائی تیزی سے آگے پیچھے کرتے ہوئے گاڑیوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ سیٹ کے لیے انہوں نے ڈرائیوروں کے ساتھ بحث کی، التجا کی اور یہاں تک کہ ان پر چیخا بھی۔ آخر کار، کسی نے ایک ٹیمپو میں ان کے لیے جگہ بنا دی۔ اب ان کے غصے سے بھرے چہرے پر سکون نظر آ نے لگا تھا۔ انہوں نے اپنی ساڑی درست کی اور اندر چڑھ گئیں۔ جلد ہی ان کے چہرے پر بچوں جیسی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

وہ کہتی ہیں، ’’میں ایک زرعی مزدور ہوں، میں روزانہ ۲۰۰ روپے کما لیتی ہوں۔ میں احتجاج میں حصہ لینے کے عوض اپنی مزدوری کا نقصان کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ روزگار کے لیے دوسرے کسانوں پر انحصار کرنے والی کالے بائی کہتی ہیں کہ جب کسان اپنی فصل سے کمائی نہیں کر پاتے ہیں تو مشکل پیش آجاتی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’جب ان کی آمدنی نہیں ہوتی ہے تو وہ مجھ جیسے مزدوروں کو ملازمت پر نہیں رکھتے ہیں۔ اگر بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے ان کی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے تو اس سے میرا کام بھی متاثر ہو جاتا ہے۔‘‘

کالے بائی کا تعلق کولی مہادیو آدیواسی قبیلے سے ہے۔ شِندواڑ میں وہ محکمہ جنگلات کے تحت آنے والی دو ایکڑ اراضی پر کھیتی کرتی ہیں۔ ان جیسے کسان ناسک کے قبائلی پٹی میں زمین پر اپنے حق کے لیے جہد و جہد کر رہے ہیں، لیکن اس میں انہیں بہت کم کامیابی ملی ہے۔

آل انڈیا کسان سبھا کے صدر اشوک دھاولے، جو جتھے کے ساتھ سفر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ پورے ہندوستان میں جنگلوں میں رہنے والے آدیواسیوں کو بڑی کارپوریشنوں کا برا تجربہ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ تینوں بل مزید کارپوریٹ کاری کی راہ ہموار کرتے ہیں، جس کی آدیواسی مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس جتھے میں ان کی شمولیت بہت زیادہ ہے۔‘‘

The farmers rested near the gurudwara in Kota after a meal
PHOTO • Parth M.N.

کسانوں نے کھانا کھانے کے بعد کوٹہ کے گرودوارہ کے قریب کچھ دیر تک آرام کیا

جتھے نے ۲۲ دسمبر کو ۱۵۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور دُھولے ضلع کے شیر پور قصبے میں قیام کیا تھا۔ یہ جگہ مدھیہ پردیش کی سرحد سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔ بہرحال، دن چڑھنے اور سفر کے آگے بڑھنے کے ساتھ موٹے سویٹر نکلنے لگے تھے۔ جب سردی کی شدت برداشت سے باہر ہوگئی، تو گروپ میں سے کچھ نے گھر لوٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گائیکواڑ کو کمر کی تکلیف تھی۔ انہوں نے مجھے اگلی صبح اطلاع دی، ’’میں دہلی نہیں جا سکا۔‘‘ کچھ دوسرے اس لیے واپس لوٹ آئے کیونکہ وہ دو تین دن سے زیادہ اپنے کام کا نقصان نہیں اٹھا سکتے تھے۔

سفر کے تیسرے دن ۲۳ دسمبر کو تقریباً ۱۰۰۰ لوگوں پر مشتمل یہ جتھہ دہلی کی جانب روانہ ہوا تھا۔

کسانوں کا جتھہ اپنے طویل سفر کے دوران جن شہروں اور قصبوں سے گزرا وہاں اس کا استقبال کیا گیا۔ اگرچہ گاڑیوں کے اس مارچ کو آل انڈیا کسان سبھا کے زیر اہتمام جمع کیا گیا تھا، جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سے وابستہ تنظیم ہے، تاہم دوسری سیاسی جماعتوں بشمول شیوسینا اور کانگریس نے بھی اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ سماجی کارکنوں نے بھی جتھے سے ملاقاتیں کیں۔

مدھیہ پردیش کے بَڑوانی ضلع کے ایک قصبے سیندھوا میں سماجی کارکن میدھا پاٹکر نے کسانوں کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے نعرے لگائے اور تھوڑے فاصلے تک مارچ کی قیادت کی۔

لیکن مدھیہ پردیش میں استقبالیہ معینہ وقت سے زیادہ دیر تک جاری رہا۔ رات ۱۰ بجے تک یہ جتھہ صرف اندور کے مضافات تک پہنچ سکا تھا۔ ابھی یہ راجستھان کے کوٹہ سے تقریباً ۳۲۰ کلومیٹر دور تھا، جہاں اس قافلے کو اس رات پہنچنا تھا۔

اس رات کافی غور و فکر کے بعد گروپ نے راجستھان کی جانب سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جاڑے کی سرد رات میں گاڑیاں چلتی رہیں اور ۲۴ دسمبر کی صبح ۷ بجے کوٹہ پہنچیں۔

لیکن اس دوران ٹیمپو کے کھلے ٹریلر میں بیٹھے کسانوں کو رات بھر یخ بستہ ہواؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ احمد نگر ضلع کے شِنڈوڈی گاؤں سے تعلق رکھنے والی ۵۷ سالہ متھرا برڈے نے کہا کہ وہ کپڑوں کی تین تہوں میں لپٹی ہونے کے باوجود سردی سے برف ہوئی جا رہی تھیں۔ ’’میرے پاس اوڑھنے کے لیے مزید کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے کانوں کو ڈھانپ لیا اور کسی طرح رات گزارنے میں کامیاب ہوئی،‘‘ انہوں نے صبح ایک گرودوارے میں لنگر (کمیونٹی کچن) کھاتے ہوئے کہا۔ شہر کی سکھ برادری نے کسانوں کی میزبانی کی اور انہیں روٹی، چنے کی دال اور کھچڑی پیش کی۔ اس کے بعد مسافروں کے تھکے ہوئے گروپ نے گرودوارے کے قریب سورج کی نرم دھوپ میں آرام کیا۔

Left: Farm leaders walked up to the barricades upon arriving in Shahjahanpur. Right: A policeman quickly takes a photo
PHOTO • Parth M.N.
Left: Farm leaders walked up to the barricades upon arriving in Shahjahanpur. Right: A policeman quickly takes a photo
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: شاہجہاں پور پہنچنے پر کسان لیڈر بیریکیڈ تک جاتے ہوئے۔ دائیں: ایک پولیس والا جلدی سے تصویر کھینچ رہا ہے

گاڑیوں کا قافلہ ۲۴ دسمبر کو ۲۵۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد رات کو جے پور میں رکا۔

آخر کار یہ جتھہ ۲۵ دسمبر کو تقریباً ساڑھے ۱۲ بجے راجستھان اور ہریانہ کی سرحد پر واقع شاہجہاں پور پہنچا۔ جتھے کی آمد سے احتجاجی مقام کے ماحول میں جوش آ گیا تھا۔ جن کسانوں نے مہاراشٹر گروپ کا خیرمقدم کیا وہ  دو ہفتوں سے قومی شاہراہ ۴۸ (این ایچ ۴۸) پر دھرنا دے رہے تھے۔

کسان لیڈر اپنی گاڑیوں سے نیچے اترے اور آخری ایک کلومیٹر پیدل چل کر ہریانہ حکومت کی طرف سے لگائے گئے بیریکیڈوں تک گئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بیریکیڈ کے پیچھے موجود پولیس والوں میں سے کچھ خود کسانوں کے بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک نے اپنا موبائل فون نکالا اور تیزی سے قریب آنے والے کسانوں کی تصویر اتاری اور پھر اسے واپس جیب میں ڈال لیا۔

کسان لیڈروں نے پوری دوپہر احتجاجی مقام پر تقریریں کیں۔ شام کو، جب سردی بڑھ گئی تو این ایچ ۴۸ پر مہاراشٹر کے کسانوں کے ٹھہرنے کے لیے مزید خیمے نصب کر دیے گئے۔ دہلی پہنچنے کے لیے عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی، لیکن ان کی جدوجہد ابھی شروع ہوئی تھی۔

کور فوٹو: شردھا اگروال

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam