سری کرشن باجپئی نے جب خون آلودہ اسٹریچر کو دیکھا، تو وہ گھبرا گئے۔ فروری کی ایک نہایت سرد دوپہر میں، اتر پردیش کے سیتاپور ضلع میں واقع اپنے گھر کے باہر آگ سینکتے ہوئے ۷۰ سالہ کسان، سری کشن یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمیں خبردار کیا گیا تھا کہ زچگی آسان نہیں ہوگی۔ گاؤں کی آشا کارکن نے میری بہو کے حمل کو ’انتہائی خطرناک‘ بتایا تھا۔‘‘

اگرچہ یہ ستمبر ۲۰۱۹ کا واقعہ ہے، لیکن سری کرشن کو اس طرح یاد ہے گویا یہ کل کی ہی بات ہو۔ وہ کہتے ہیں، ’’[سیلاب کا] پانی ابھی ابھی نیچے اترا تھا، لیکن اس نے سڑکوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا، جس کی وجہ سے ایمبولینس ہمارے دروازے تک نہیں آ سکی۔‘‘ سری کرشن کا گاؤں، لہرپور بلاک کے ٹانڈہ خورد میں آتا ہے، جو شاردا اور گھگھر ندیوں کے قریب ہے۔ یہاں کے دیہات اکثر سیلاب کی زد میں آتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ہنگامی حالات میں گاڑی کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ٹانڈہ خورد سے سیتا پور ضلع ہسپتال تک کا ۴۲ کلومیٹر کا سفر درد زہ میں مبتلا کسی بھی حاملہ خاتون کے لیے ایک لمبا سفر ہے – اور اگر اس میں سے پہلے پانچ کلومیٹر کا سفر ناہموار اور پھسلن بھری سڑکوں پر دو پہیہ گاڑی سے طے کرنا ہو، تو یہ سفر مزید لمبا ہو جاتا ہے۔ سری کرشن کہتے ہیں، ’’ہمیں ایمبولینس حاصل کرنے کے لیے ایسا ہی کرنا پڑا تھا۔ لیکن جب ہم ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے، تو پیچیدگیاں [پیدا ہونا] شروع ہوگئی تھیں۔‘‘

اپنی بچی کو جنم دینے کے بعد بھی ممتا کا خون بہنا بند نہیں ہوا۔ سری کرشن کا کہنا ہے کہ وہ بہتر کی امید کر رہے تھے۔ ’’یہ غیر متوقع نہیں تھا۔ ہم جانتے تھے کہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر اسے بچا لیں گے۔‘‘

لیکن جب اسے اسٹریچر پر وارڈ میں منتقل کیا جا رہا تھا، تو سری کرشنا اس پر سفید چادر نہیں دیکھ سکے۔ ’’اس پر بہت زیادہ خون لگا ہوا تھا۔ میں نے اپنے پیٹ میں گرہ محسوس کی۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’ڈاکٹروں نے ہمیں خون کا بندوبست کرنے کو کہا۔ ہم نے کافی جلدی خون کا انتظام کر لیا، لیکن جب تک ہم بلڈ بینک سے ہسپتال واپس آتے ممتا کی موت ہو چکی تھی۔‘‘

وہ ۲۵ سال کی تھیں۔

Srikrishna Bajpayee says his daughter-in-law Mamata's pregnancy was marked as 'high-risk', “but we thought the doctors would save her”
PHOTO • Parth M.N.

سری کرشن باجپئی کا کہنا ہے کہ ان کی بہو، ممتا کے حمل کو ’انتہائی خطرناک‘ بتایا گیا تھا، ’لیکن ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر اسے بچا لیں گے‘

موت سے ایک دن قبل طبی جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ ممتا کا وزن ۴۳ کلو تھا۔ کم وزن ہونے کے علاوہ، ان کے اندر پروٹین کی کمی تھی اور ہیموگلوبن کی سطح ۸ گرام/ ڈی ایل تھی، جو خون کی شدید کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے (حاملہ خواتین میں ہیموگلوبن کا ارتکاز 11 گرام/ڈی ایل یا اس سے زیادہ ہونا ضروری ہے)۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۱-۲۰۱۹ ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کے مطابق، خون کی کمی اتر پردیش میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر خواتین اور بچوں میں۔ ریاست میں ۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر کی تمام خواتین میں سے ۵۰ فیصد سے زیادہ خون کی کمی کا شکار ہیں۔

غذائیت کی کمی خون کی کمی کی سب سے عام وجوہات میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں خون کی کمی کے تقریباً نصف معاملوں کی وجہ آئرن کی کمی ہے، لیکن متعدی امراض اور جینیاتی حالات کے علاوہ فولیٹ (وٹامن بی ۹) اور وٹامن بی ۱۲ کی کمی بھی خون کی کمی کے اہم عوامل ہیں۔

این ایف ایچ ایس۔۵ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ یوپی میں صرف ۲۲ اعشاریہ ۳ فیصد ماؤں نے اپنے حمل کے دوران کم از کم ۱۰۰ دنوں تک آئرن اور فولک ایسڈ کے سپلیمنٹس لیے۔ سال ۲۱-۲۰۱۹ کے دوران اس کی قومی شرح تقریباً دوگنی ہے، جو ۴۴ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ وہیں سیتاپور ضلع میں صرف ۱۸ فیصد حاملہ عورتوں نے سپلیمنٹس لیے۔

ماؤں اور بچوں پر خون کی کمی کے بہت ہی دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خون کی کمی دیگر باتوں کے علاوہ قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت کم وزن کا باعث بن سکتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا براہ راست تعلق زچہ کی شرح اموات، اور قبل از پیدائش اموات، یعنی مردہ پیدائش اور شروعاتی نوزائیدہ اموات سے ہے۔

ہندوستان میں سال ۱۹-۲۰۱۷ کے دوران  زچہ کی شرح اموت، یا ایم ایم آر، ۱۰۳ فی ۱۰۰۰۰۰ زندہ پیدائش تھی۔ اسی مدت میں، یوپی میں ایم ایم آر ۱۶۷ رہی۔ سال ۲۰۱۹ میں نامولود بچوں کی شرح اموات ریاست میں ۴۱ فی ۱۰۰۰ زندہ پیدائش تھی، جو کہ ۳۰ کی قومی شرح  سے ۳۶ فیصد زیادہ ہے۔

Srikrishna and his wife, Kanti, keeping warm by the fire. They mostly eat khichdi or dal rice as they have had to cut down on vegetables
PHOTO • Parth M.N.

سری کرشن اور ان کی بیوی کانتی الاو تاپتے ہوئے۔ وہ زیادہ تر کھچڑی یا دال چاول پرگزارہ کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں سبزیوں میں کٹوتی کرنی پڑتی ہے

ممتا کی موت باجپئی خاندان کا واحد سانحہ نہیں تھا۔ ان کی نوزائیدہ بچی بھی ۲۵ دن بعد مر گئی تھی۔ سری کرشن کہتے ہیں، ’’ہم ابھی ایک سانحے سے ابھر بھی نہیں پائے تھے کہ دوسرے حادثہ سے دوچار ہو گئے۔ ہم گہرے صدمے میں تھے۔‘‘

وبائی مرض ابھی چھ ماہ دور تھا جب ممتا اور ان کے بچے کی موت محض چند دنوں کے وقفے سے واقع ہوئی تھی۔ لیکن جب کووڈ۔۱۹ پھیلا، تو ملک بھر میں صحت عامہ کی خدمات متاثر ہوئیں، نتیجتاً ماں کی صحت کے اشاریوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی۔

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (پی ایف آئی) نے ہیلتھ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بتایا کہ اپریل اور جون ۲۰۲۰ کے درمیان سال ۲۰۱۹ کی اسی مدت کے مقابلے حاملہ خواتین کی قبل از پیدائش نگہداشت کے دوروں میں ۲۷ فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ جبکہ قبل از پیدائش نگہداشت کی خدمات میں ۲۲ فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔ پی ایف آئی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ماں کی صحت کی خدمات میں خلل، صحت سے متعلق خدمات حاصل کرنے کے رویے میں کمی اور صحت فراہم کنندگان سے معتدی مرض پھیلنے کے خوف نے حمل سے منسلک خطرات میں اضافہ کیا اور خواتین اور نومولود بچوں کے لیے صحت کے خراب نتائج کا باعث بنے۔‘‘

پپو اور ان کے خاندان نے وبائی امراض کے اثرات کا براہ راست تجربہ کیا۔

جب کووِڈ۔۱۹ کی دوسری لہر اپنے عروج پر تھی، تو ان کی بیوی سریتا دیوی پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اور خون کی کمی کا شکار تھیں۔ جون ۲۰۲۱ کی ایک شام کو انہیں سانس لینے میں دقت محسوس ہوئی، جو ہیموگلوبن کی کم سطح کا اشاریہ تھی۔ وہ گھر پر ہی بیہوش ہو گئیں۔ ۳۲ سالہ پپو کا کہنا ہے، ’’اس وقت گھر پر کوئی نہیں تھا۔ میں کام کی تلاش میں باہر گیا تھا۔ میری ماں بھی باہر تھیں۔‘‘

پپو کی ۷۰ سالہ ماں مالتی کا کہنا ہے کہ سریتا اس صبح بالکل ٹھیک لگ رہی تھیں۔ ’’اس نے دوپہر میں بچوں کے لیے کھچڑی بھی بنائی تھی۔‘‘

Pappu could not get to the hospital in time with Sarita, his pregnant wife, because of the lockdown.
PHOTO • Parth M.N.
His mother Malati and daughter Rani
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: لاک ڈاؤن کی وجہ سے پپو اپنی حاملہ بیوی سریتا کے ساتھ وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ دائیں: ان کی ماں مالتی اور بیٹی رانی

لیکن اس دن شام کو جب پپو گھر واپس آئے، تو ۲۰ سالہ سریتا انہیں پیلی اور کمزور نظر آئیں۔ ’’وہ [آسانی سے] سانس نہیں لے پا رہی تھی۔‘‘ لہٰذا انہوں نے بھدوئی جانے کے لیے فوراً ایک آٹو رکشہ کرایہ پر لیا – وارانسی ضلع کے بڑا گاؤں بلاک میں واقع ان کے گاؤں دَلّی پور سے بھدوئی ۳۵ کلومیٹر دورہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہاں [بڑا گاؤں] کے ہسپتال بھرے ہوئے تھے، اور یہاں کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں کوئی سہولت نہیں ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہمیں کسی پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کرنا چاہیے جہاں ہمارا مناسب علاج ہو سکے۔‘‘

وبائی مرض سے نمٹنے میں ناکام طبی خدمات کے ناکارہ نظام نے عالمی سطح پر ماں کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مارچ ۲۰۲۱ میں دی لینسیٹ میں شائع ہونے والے ۱۷ ممالک کے مطالعات کے ایک بڑے تجزیہ میں زچگی، جنین اور نوزائیدہ بچوں پر وبائی امراض کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے، اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ وبائی مرض ’’ان ماؤں اور بچوں کی اموات کی وجہ بنا ہے جنہیں بچایا جا سکتا تھا۔‘‘ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’کم وسائل کی جگہوں پر ماں اور بچوں کی اموات کو کم کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے جاری سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچنے سے بچنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت تھی۔‘‘

لیکن ریاست نے حاملہ عورتوں کے لیے فوری طور پر کافی کارروائی نہیں کی۔

ان کے ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی آٹو رکشہ میں سریتا کی موت ہوگئی تھی۔ پپو کہتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمیں راستے میں تاخیر ہوتی رہی۔ راستے میں کئی چیک پوائنٹس تھے جنہوں نے ٹریفک کو روک رکھا تھا۔‘‘

جب پپو کو معلوم ہوا کہ سریتا کی موت ہو چکی ہے، تو ان پر پولیس کا خوف بیوی کے کھونے کے غم پر حاوی ہو چکا تھا۔ انہیں ڈر ستانے لگا  کہ اگر پولیس انہیں لاش کے ساتھ سفر کرتے پکڑ لیا تو کیا ہو گا۔ انہوں نے آٹو رکشہ ڈرائیور سے کہا کہ وہ واپس گاؤں کی طرف موڑ لے۔ ’’میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جب ہم راستے میں کسی چیک پوائنٹ سے گزریں تو اس کا جسم سیدھا رہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں روکا نہیں گیا اور کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔‘‘

آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے پپو اور مالتی لاش کو دلی پور کے ایک قریبی گھاٹ پر لے گئے۔ اس کام کے لیے انہیں اپنے رشتہ داروں سے ۲۰۰۰ روپے قرض لینے پڑے۔ موسہر برادری، جو یوپی کے سب سے پس ماندہ درج فہرست ذاتوں میں سے ایک ہے، سے تعلق رکھنے والے پپو کہتے ہیں، ’’میں اینٹ کے بھٹے پر کام کرتا تھا، لیکن [مارچ ۲۰۲۰ میں] لاک ڈاؤن کے بعد یہ بند ہو گیا تھا۔‘‘

Pappu weaves carpets to earn an income now. He stopped working at brick kilns after Sarita's death to stay home and take care of the children
PHOTO • Parth M.N.
Pappu weaves carpets to earn an income now. He stopped working at brick kilns after Sarita's death to stay home and take care of the children
PHOTO • Parth M.N.

روزی کمانے کے لیے پپو اب قالین بُنتے ہیں۔ سریتا کی موت کے بعد گھر پر رہنے اور بچوں کی دیکھ ریکھ کے لیے انہوں نے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنا چھوڑ دیا ہے

لاک ڈاؤن سے پہلے وہ اینٹ بھٹوں پر کام کرتے ہوئے ماہانہ ۶۰۰۰ روپے کماتے تھے۔ ’’اینٹوں کے بھٹے دوبارہ کھل گئے ہیں، لیکن اپنی بیوی کی موت کے بعد میں نے اس قسم کا کام کرنا بند کر دیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں پہلے جتنی دیر باہر گزارتا تھا اب اتنا باہر نہیں رہ سکتا۔ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘

ان کی بیٹیاں جیوتی اور رانی ۳ اور ۲ سال کی ہیں، جو قالین بننے کے دوران اٹک اٹک کر بات کرتے انہیں دیکھ رہی تھیں۔  قالین ان کی آمدنی کا نیا ذریعہ تھا۔ ’’میں نے اسے صرف چند مہینے پہلے شروع کیا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے چلتا ہے۔ یہ کام مجھے بچوں کے ساتھ گھر پر رہنے کا موقع دیتا ہے۔ میری ماں بہت بوڑھی ہیں، وہ خود ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتیں۔ سریتا جب یہاں تھی، اس نے میری ماں کے ساتھ ان بچوں کا بھی خیال رکھا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ جب وہ حاملہ تھی تو ہم اس کی دیکھ بھال کے لیے کیا کر سکتے تھے۔ ہمیں اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔‘‘

وارانسی میں واقع پیپلز ویجیلنس کمیٹی آن ہیومن رائٹس سے وابستہ کارکن، منگلا راج بھر کا کہنا ہے کہ کووڈ۔۱۹ کے پھیلنے کے بعد سے، بڑا گاؤں بلاک میں زچگی سے متعلق نگہداشت کو اور بھی زیادہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بڑا گاؤں میں مقامی برادریوں کے ساتھ کام کرنے والے راج بھر کہتے ہیں، ’’اس بلاک میں بہت سی خواتین خون کی کمی (اینیمیا) کی شکار ہیں۔ انہیں اضافی دیکھ بھال اور آرام کی ضرورت ہے۔ لیکن غربت مردوں کو گھر چھوڑنے اور [دوسری جگہوں] پر کام تلاش کرنے کو مجبور کرتی ہے۔ اس لیے خواتین گھر اور کھیتوں کا کام کر رہی ہیں۔‘‘

حالانکہ خواتین کو اپنے کھانے میں پروٹین، وٹامنز اور آئرن کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن وہ صرف وہی راشن پکا پاتی ہیں جو انہیں عوامی تقسیم کے نظام سے ملتا ہے۔ وہ سبزیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔ راج بھر آگے کہتے ہیں۔ ’’انہیں اعلی درجے کی حفظان صحت تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ان کے سامنے مشکلات کا انبار لگا ہوا ہے۔‘‘

آشا کارکن آرتی دیوی کہتی ہیں کہ سیتا پور کے ٹانڈہ خورد میں کئی خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں اور ان کا وزن کم ہے، جس کی وجہ سے حمل کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’یہاں لوگ صرف دال اور چاول کھاتے ہیں۔ ان میں غذائیت کی کمی ہے۔ سبزیاں [ان کے کھانے سے] تقریباً غائب ہیں۔ کسی کے پاس اتنا پیسہ ہی نہیں ہے۔‘‘

سری کرشن کی ۵۵ سالہ بیوی کانتی کہتی ہیں، کھیتی باڑی سے ہونے والی آمدنی میں کمی آ رہی ہے۔ ’’ہمارے پاس صرف دو ایکڑ زمین ہے، جہاں ہم چاول اور گندم کی کاشت کرتے ہیں۔ ہماری فصلیں اکثر سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔‘‘

Priya with her infant daughter. Her pregnancy was risky too, but she made it through
PHOTO • Parth M.N.

پریا اپنی نوزائیدہ بیٹی کے ساتھ۔ ان کا حمل بھی خطرناک تھا، لیکن وہ اس خطرے سے نکل آئی تھیں

زندگی گزارنے کے لیے کھیتی پر خاندان کے انحصار سے بچنے کے لیے کانتی کے ۳۳ سالہ بیٹے اور ممتا کے شوہر وجے  نے سیتا پور میں ایک ملازمت اختیار کر لی تھی۔ کووڈ۔۱۹ کے پھیلنے کے بعد وہ ملازمت بھی چلی گئی تھی، لیکن ۲۰۲۱ کے آخر میں انہیں واپس مل گئی۔ کانتی کہتی ہیں، ’’اس کی تنخواہ ۵۰۰۰ روپے ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے اس پر ہمارا گزارہ چلتا رہا۔ لیکن ہمیں سبزیوں میں کٹوتی کرنی پڑتی تھی۔ لاک ڈاؤن سے پہلے ہی دال اور چاول کے علاوہ کسی دوسری چیز کا انتظام [خریدنا] مشکل ہو گیا تھا۔ کووڈ کے بعد ہم کوشش بھی نہیں کرتے ہیں۔‘‘

ایک تحقیق کے مطابق سال ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ کے پھیلنے کے فوراً بعد آمدنی میں آئی کمی نے پورے ہندوستان میں ۸۴ فیصد کنبوں کو متاثر کیا تھا۔ نتیجتاً اس نے خوراک اور غذائیت کو بھی متاثرکیا۔

راج بھر اور آرتی دیوی کا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت، زچگی کی ناکافی سہولت، اور آئرن اور فولک ایسڈ کے سپلیمنٹس کا بے قاعدہ استعمال، زیادہ خطرے والے حمل میں کمی لانے کی کوشش کو مشکل بنا دے گا۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں صحت عامہ کی سہولیات تک رسائی مشکل ہے۔

ممتا کی موت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد وجے نے دوسری شادی کر لی۔ ان کی دوسری بیوی پریا ۲۰۲۱ کے اوائل میں حاملہ تھیں۔ وہ بھی خون کی کمی کا شکار تھیں، اور ان کے حمل کو بھی ہائی رسک کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔ جب وہ نومبر ۲۰۲۱ میں بچے کو جنم دینے کے لیے تیار تھیں، تب سیلاب کا پانی ٹانڈہ خورد میں واپس چڑھ آیا تھا۔

ممتا کو اسپتال لے جانے والے دن سے مماثلت سری کرشن کے لیے غیر معمولی تھی۔ لیکن اس بار سیلاب اتنا برا نہیں تھا، اور ایمبولینس ان کے دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اہل خانہ نے پریا کو ۱۵ کلومیٹر دور ایک نجی اسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے وہ اس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ نکل آئیں اور ایک صحت مند لڑکی، سواتیکا کو جنم دیا۔ اس بار قسمت نے ان کا ساتھ دیا۔

پارتھ ایم این، ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کی جانب سے آزاد صحافت کی گرانٹ کے ذریعے صحت عامہ اور شہری آزادی پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن نے اس رپورٹ کے مواد پر کسی ادارتی کنٹرول کا استعمال نہیں کیا ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Shafique Alam
shafique.aalam@gmail.com

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam